ملک بھر میں آئینی ترمیم کی گونج ہے, سیاستدان ہوں یا تجزیہ کار آئینی ترمیم کے معاملے پر اظہار خیال کررہے ہیں۔
جیو نیوز کے پروگرام ”آج شاہزیب خانزادہ کے ساتھ“ میں سینئر صحافی و تجزیہ کار مجیب الرحمان شامی نے کہا کہ ن لیگ اور پیپلز پارٹی اتنے عرصہ بعد اچانک اتنی شدت کے ساتھ آئینی عدالت کی تجویز پیش کررہی ہیں اس پر انگلیاں تو اٹھیں گی، اچھی نیت کے باوجود دستور میں یکطرفہ اور من مانی ترمیمات نہیں کی جاسکتی ہیں.
سینئر صحافی و تجزیہ کار عاصمہ شیرازی نے کہا کہ آئینی ترامیم پیش کرنے میں ناکامی ن لیگی حکومت کیلئے بہت بڑی ہزیمت اور شرمندگی ہے۔
سیکرٹری اطلاعات پاکستان پیپلز پارٹی شازیہ مری نے کہا کہ آئینی ترمیم بہت بڑا مرحلہ ہوتا ہے اس پر جتنا ممکن ہو اتفاق رائے پیدا کرنا چاہئے، 1973ء کا آئین اور اٹھارہویں ترمیم کا متفقہ ہونا بہت بڑی کامیابی تھی.
میزبان محمد جنید نے تجزیہ پیش کیا کہ آئینی ترامیم کا معاملہ حکومت کے گلے پڑگیا، مسلم لیگ ن اس پارلیمانی اور سیاسی ناکامی پر شرمندہ ہونے کے ساتھ اب بھی دو تہائی اکثریت کیلئے کوششیں کررہی ہے
سیکرٹری اطلاعات پاکستان پیپلز پارٹی شازیہ مری نے کہا کہ چھبیسویں آئینی ترمیم کسی چیلنج سے کم نہیں ہے اس پر مزید ڈائیلاگ ہونا اچھی بات ہے.
پیپلز پارٹی نے 2006ء میں میثاق جمہوریت میں آئینی عدالت کے قیام کا مطالبہ کیا تھا، میثاق جمہوریت کی 90فیصد شقوں پر عملدرآمد کرچکے ہیں باقی دس فیصد پر عمل کرنا ہے۔
شازیہ مری کا کہنا تھا کہ مولانا فضل الرحمٰن کے ساتھ پیپلز پارٹی کا پرانا ورکنگ ریلیشن شپ رہا ہے، مولانا صاحب سیاسی حقیقت ہیں ان کا احترام کرتے ہیں۔
دوسری جانب رجسٹرار سپریم کورٹ نے مجوزہ آئینی ترمیم کے خلاف درخواست اعتراضات لگا کر واپس کردی,درخواست پر 8 اعتراض عائد کیے گئے ہیں,درخواست پر اعتراض لگایا گیا ہے کہ مجوزہ قانون پارلیمنٹ میں پیش بھی نہیں ہوا، قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ارکان کا حق ہےکہ کسی بل کو منظور کریں، اراکین پارلیمنٹ کو فریق نہیں بنایا جاسکتا، قانون سازی مقننہ کا حق ہے، مقننہ پر قانون سازی نہ کرنے کی پابندی نہیں لگائی جاسکتی۔