اسلام آباد : تیس اگست کو پولیس کے ساتھ جھڑپوں کے ایک ہفتے بعد پاکستان تحریک انصاف(پی ٹی آئی) کے ڈی چوک پر دھرنے میں لوگوں کی تعداد میں ایک بار پھر اضافہ ہونا شروع ہوگیا ہے۔
اتوار کو بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کے ورکرز دھرنے کے مقام پر پہنچے۔
پی ٹی آئی اور عوامی تحریک نے پندرہ اگست کو اپنے دھرنوں کا آغاز کشمیر ہائی وے سے کیا، مگر انیس اگست کو دونوں جماعتیں ریڈ زون میں داخل ہوگئیں۔
انتیس اگست تک جڑواں شہروں کے افراد کی بڑی تعداد پی ٹی آئی کے دھرنے میں شریک تھی، مگر تیس اگست کے بعد جب مظاہرین وزیراعظم ہاﺅس کی جانب بڑھے اور پولیس سے جھڑپوں میں تین افراد ہلاک اور پانچ سو زخمی ہوگئے، مقامی افراد نے پی ٹی آئی کے دھرنے میں آنا ختم کردیا تھا۔
راولپنڈی کے علاقے خیابان سرسید کے رہائشی بلال احمد، جو اتوار کو پی ٹی آئی کے دھرنے میں شریک تھے، نے ڈان کو بتایا کہ وہ پرامن مظاہرے پر یقین رکھتا ہے مگر بدقسمتی سے پی ٹی آئی نے توڑ پھوڑ کا راستہ اختیار کیا۔
ان کا کہنا تھا" دنیا بھر میں لوگ پرامن انداز میں احتجاج کرتے ہیں، وہ انتظامیہ کی اجازت کے بعد احتجاج کرتے ہیں"۔
بلال احمد نے کہا کہ تیس اگست کے سانحے کے بعد اس نے احتجاج میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا" تاہم جب عمران خان نے دھرنے کے شرکاءکو واپس ڈی چوک جانے کی ہدایت کی، تو میں نے دوبارہ اس کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا، کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی قیادت نے سمجھ لیا ہے کہ انہیں پرتشدد احتجاج سے دوری اختیار کرنی چاہئے"۔
نعیم احمد اسلام آباد کے رہائشی اور پی ٹی آئی کے حامی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پی اے ٹی اور تحریک انصاف کے حامیوں میں کافی فرق ہے۔
نعیم احمد کے مطابق"پی اے ٹی کے حامی ہر حکم پر سر جھکالیتے ہیں چاہے ان کی قیادت انہیں جہنم میں ہی کیوں نہ لے جائے، مگر پی ٹی آئی کے حامی تعلیم یافتہ ہیں اور وہ درست و غلط فیصلوں پر اختلاف کرسکتے ہیں"۔
نعیم نے مزید کہا"میں نے پی ٹی آئی توڑ پھوڑ کے لیے جوائن نہیں کی تھی، ہمیں پرامن احتجاج کے ذریعے قوم کو یہ پیغام دینا چاہئے کہ مسلم لیگ ن نے انتخابات میں دھاندلی کی اور اس کی تحقیقات کرانے کے لیے تیار نہیں"۔
اس کا مزید کہنا تھا" ہمیں انتخابی اصلاحات کو یقینی بنانا چاہئے تاکہ قوم اگلے انتخابات میں نواز لیگ کو مسترد کردے"۔
ایک سوال کے جواب میں نعیم احمد نے کہا کہ پی ٹی آئی کے حامیوں کی اکثریت دھرنے میں شریک نہیں جس کی وجہ تیس اگست کا سانحہ ہے۔
اس کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے حامیوں کے لیے بارش زیادہ بڑا مسئلہ نہیں کیونکہ وہ کشمیر ہائی وے پر بارش کے باوجود دھرنے میں شریک ہوئے تھے تاہم وہ لوگ تیس اگست کے بعد نہیں آئے۔
پی ٹی آئی کے دھرنے کے ایک منتظم علی اعوان نے کہا کہ وہ بھی اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے حامیوں کی سیاسی معاملات پر نظریات میں فرق ہے۔
علی اعوان نے کہا" پی ٹی آئی کے بیشتر حامی جو جڑواں شہروں سے آتے ہیں، بارش کے باعث دھرنے میں نہیں آرہے، اب بارشیں رک گئی ہیں تو پارٹی کے حامی پھر دھرنے میں واپس آنے لگے ہیں"۔
مگر انہوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ تیس اگست کے سانحے کے بعد پی ٹی آئی کے حامیوں کی تعداد میں کافی کمی آئی تھی" یہ غیرمعمولی نہیں کہ اس طرح کی خونریزی کے بعد لوگ حادثے کی جگہ پر جانا چھوڑ دیں، اسلام آباد ضلعی عدالت میں ایک دہشتگرد حملے کے بعد وکلاءبھی ایک ماہ تک ضلعی عدالتوں میں جانے سے گریز کرتے رہے تھے"۔
علی اعوان نے کہا" پی ٹی آئی کے اکثر حامی ہوسکتا ہے آنسو گیس، فائرنگ اور پولیس کے لاٹھی چارج سے خوفزدہ ہوگئے ہوں، اس کے ساتھ ڈی چوک سے کیبنیٹ ڈویژن پر دھرنا منتقل کرنے سے پیدل راستہ بھی بڑھ گیا تھا"۔
http://urdu.dawn.com/news/1009304/
اتوار کو بڑی تعداد میں پی ٹی آئی کے ورکرز دھرنے کے مقام پر پہنچے۔
پی ٹی آئی اور عوامی تحریک نے پندرہ اگست کو اپنے دھرنوں کا آغاز کشمیر ہائی وے سے کیا، مگر انیس اگست کو دونوں جماعتیں ریڈ زون میں داخل ہوگئیں۔
انتیس اگست تک جڑواں شہروں کے افراد کی بڑی تعداد پی ٹی آئی کے دھرنے میں شریک تھی، مگر تیس اگست کے بعد جب مظاہرین وزیراعظم ہاﺅس کی جانب بڑھے اور پولیس سے جھڑپوں میں تین افراد ہلاک اور پانچ سو زخمی ہوگئے، مقامی افراد نے پی ٹی آئی کے دھرنے میں آنا ختم کردیا تھا۔
راولپنڈی کے علاقے خیابان سرسید کے رہائشی بلال احمد، جو اتوار کو پی ٹی آئی کے دھرنے میں شریک تھے، نے ڈان کو بتایا کہ وہ پرامن مظاہرے پر یقین رکھتا ہے مگر بدقسمتی سے پی ٹی آئی نے توڑ پھوڑ کا راستہ اختیار کیا۔
ان کا کہنا تھا" دنیا بھر میں لوگ پرامن انداز میں احتجاج کرتے ہیں، وہ انتظامیہ کی اجازت کے بعد احتجاج کرتے ہیں"۔
بلال احمد نے کہا کہ تیس اگست کے سانحے کے بعد اس نے احتجاج میں حصہ نہ لینے کا فیصلہ کیا" تاہم جب عمران خان نے دھرنے کے شرکاءکو واپس ڈی چوک جانے کی ہدایت کی، تو میں نے دوبارہ اس کا حصہ بننے کا فیصلہ کیا، کیونکہ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ پارٹی قیادت نے سمجھ لیا ہے کہ انہیں پرتشدد احتجاج سے دوری اختیار کرنی چاہئے"۔
نعیم احمد اسلام آباد کے رہائشی اور پی ٹی آئی کے حامی ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پی اے ٹی اور تحریک انصاف کے حامیوں میں کافی فرق ہے۔
نعیم احمد کے مطابق"پی اے ٹی کے حامی ہر حکم پر سر جھکالیتے ہیں چاہے ان کی قیادت انہیں جہنم میں ہی کیوں نہ لے جائے، مگر پی ٹی آئی کے حامی تعلیم یافتہ ہیں اور وہ درست و غلط فیصلوں پر اختلاف کرسکتے ہیں"۔
نعیم نے مزید کہا"میں نے پی ٹی آئی توڑ پھوڑ کے لیے جوائن نہیں کی تھی، ہمیں پرامن احتجاج کے ذریعے قوم کو یہ پیغام دینا چاہئے کہ مسلم لیگ ن نے انتخابات میں دھاندلی کی اور اس کی تحقیقات کرانے کے لیے تیار نہیں"۔
اس کا مزید کہنا تھا" ہمیں انتخابی اصلاحات کو یقینی بنانا چاہئے تاکہ قوم اگلے انتخابات میں نواز لیگ کو مسترد کردے"۔
ایک سوال کے جواب میں نعیم احمد نے کہا کہ پی ٹی آئی کے حامیوں کی اکثریت دھرنے میں شریک نہیں جس کی وجہ تیس اگست کا سانحہ ہے۔
اس کا کہنا تھا کہ پی ٹی آئی کے حامیوں کے لیے بارش زیادہ بڑا مسئلہ نہیں کیونکہ وہ کشمیر ہائی وے پر بارش کے باوجود دھرنے میں شریک ہوئے تھے تاہم وہ لوگ تیس اگست کے بعد نہیں آئے۔
پی ٹی آئی کے دھرنے کے ایک منتظم علی اعوان نے کہا کہ وہ بھی اس بات پر یقین رکھتا ہے کہ پی ٹی آئی اور پی اے ٹی کے حامیوں کی سیاسی معاملات پر نظریات میں فرق ہے۔
علی اعوان نے کہا" پی ٹی آئی کے بیشتر حامی جو جڑواں شہروں سے آتے ہیں، بارش کے باعث دھرنے میں نہیں آرہے، اب بارشیں رک گئی ہیں تو پارٹی کے حامی پھر دھرنے میں واپس آنے لگے ہیں"۔
مگر انہوں نے اس بات پر اتفاق کیا کہ تیس اگست کے سانحے کے بعد پی ٹی آئی کے حامیوں کی تعداد میں کافی کمی آئی تھی" یہ غیرمعمولی نہیں کہ اس طرح کی خونریزی کے بعد لوگ حادثے کی جگہ پر جانا چھوڑ دیں، اسلام آباد ضلعی عدالت میں ایک دہشتگرد حملے کے بعد وکلاءبھی ایک ماہ تک ضلعی عدالتوں میں جانے سے گریز کرتے رہے تھے"۔
علی اعوان نے کہا" پی ٹی آئی کے اکثر حامی ہوسکتا ہے آنسو گیس، فائرنگ اور پولیس کے لاٹھی چارج سے خوفزدہ ہوگئے ہوں، اس کے ساتھ ڈی چوک سے کیبنیٹ ڈویژن پر دھرنا منتقل کرنے سے پیدل راستہ بھی بڑھ گیا تھا"۔
http://urdu.dawn.com/news/1009304/