سوشل میڈیا کی خبریں

ویزوں کی لائن میں نہ لگیں، گھروں میں بیٹھ کر ڈالر کمائیں، گاؤں گھروں میں بیٹھ کر وہ کام کریں جو نیویارک، شکاگو، لندن میں ہو رہا ہے، وفاقی وزیر پیٹرولیم مصدق ملک نے نوجوانوں کو مشورہ دیدیا مصدق ملک اس بیان پر سوشل میڈیا صارفین کا شدید ردعمل سامنے آگیا,انٹرنیٹ کی بدترین سروس پر مصدق ملک کو آئینہ دکھا دیا، انکا کہنا تھا کہ پاکستان میں ٹوئٹر بند، سوشل میڈیا پر سنسر شپ، نیٹ سلو، انٹرنیٹ بند تو ڈالر کیسے کمائیں؟ اظہر مشوانی نے تنقید کی ہردوسرے دن بجلی بند، انٹرنیٹ بند، سوشل میڈیا بند، وی پی این بند؟ رانا عمران نے کہا لاہور جیسے شہر میں آپ وٹس ایپ کال نہیں کرسکتے کیونکہ نیٹ اتناسلو چلتا ہے کے بار بار ری کنیکٹ ہوتی رہتی ھےکال, حکومت کی اوقات یہ ھے وہ سیلولر کمپنیوں سےپوچھ بھی نہیں سکتیں کے سروس اتنی خراب کیوں ہے کیونکہ ایسا کرنےپروہ پاکستان میں بزنس بندکرنےکی دھمکی دےدیتی ہیں جیساٹیلی نارنےکیا. سالار سلیم بولےیہ صرف نون لیگ والے کرسکتے مصدق صاحب۔۔۔ایک بےگھر خاتون جاتی امراء بیٹھ کر لندن میں اربوں روپوں کے فلیٹ کی مالک بن گئی۔ عام پاکستانی اتنے صاحب کرامات نہیں۔ ساجد اکرام نے طنزیہ لکھاواٹس ایپ کال ملا لو شہر میں بھی تو بار بار ری کنیکٹ ہو رہی ہوتی ہے,لندن تے شکاگو صدیق جان نے کہا ڈاکٹر صاحب کی اپنی فیملی کس ملک میں ہوتی ہے ؟؟پاکستان میں تو نہیں ہے. زریاب خان نے بھی بھڑاس نکال دی,کہاآپ لوگوں نے اس ملک کے ساتھ جو مذاق کیا ہے اس کے بعد ملک کے نوجوانوں کی امید ختم ہو چکی ہے,ملک کو مریم نواز اور محسن نقوی کے حوالے کر کہ آپ نے کونسے کامیابی کے جھنڈے گاڑ دیے,اب تو سی ایس ایس جیسے امتحانات سے بھی ڈر لگتا ہے,کُھسرے ان سے زیادہ طاقتور ہو چکے ہیں. اخوند شفیق نے لکھاانٹرنیٹ سے جڑی ہر چیز پر پابندیاں لگاتے ہیں، ہر تھوڑے بعد کسی احتجاج، ہڑتال یا محرم الحرام پر انٹرنیٹ اور موبائل سروسز بند کر دی جاتی ہیں, کیا یہ سائبر اکانومی کو ترقی دینے والا ماحول ہے؟
شعیب اختر نے پی ٹی آئی سپورٹس جوائن کرلیا، سوشل میڈیا صارفین کی تنقید وفاقی وزیر عطاء اللہ تارڑ کی خصوصی درخواست پر قومی ہیرو راولپنڈی ایکسپریس شعیب اختر نے پی ٹی وی سپورٹس کو واپس جوائن کر لیا۔شعیب اختر اس موقع پر عطاء تارڑ کیساتھ محوگفتگو نظر آئے اور نہ صرف عطاء تارڑ کی شخصیت کی تعریف کرتے رہے بلکہ وزیراعظم شہبازشریف کی بھی تعریفیں کرتے رہے۔ راولپنڈی ایکسپریس نے کہا مجھے موجودہ حکومت سے بڑی امید ہے۔ شعیب اختر نے عطاء اللہ تارڑ اور وزیراعظم شہباز شریف صاحب کا شکریہ ادا کیا شعیب اختر کا کہنا ہے کہ جو لوگ پی ٹی وی سپورٹس کو دیکھنا چھوڑ گئے اب وہ سب واپس آئیں گے کیونکہ میں واپس آ رہا ہوں پہلے سے زیادہ بہتر کنٹینٹس کیساتھ۔ سوشل میڈیا صارفین نے شعیب اختر کے اس اقدام پر سخت ردعمل دیا اور شعیب اختر کو آڑے ہاتھوں لیتے رہے۔ ارسلان بلوچ نے ردعمل دیا کہ صرف ایک منٹ میں مدتوں سے بنی شہرت،عزت کو اگر گنوانا ہے تو اس شعیب اختر کی مثال آپ سب کے سامنے ہے۔ فیاض شاہ نے سوال کیا کہ آخر ایسی کون سی مجبوری تھی شعیب اختر کی جس کے لیے اُسے اِس حد تک گِرنا پڑا؟؟ راجہ ثاقب نے کہا کہ شعیب اختر کچھ تو خیال کر لیتے بڑے افسوس ہے چوروں کے ساتھ بیٹھ کر چوروں کے گیت گا رہے ہو سب پیسے کے پُجاری ہیں ۔۔۔ ایک منٹ نہیں لگتا کسی کو اپنا ایمان بیچتے ہوئے ابوذرفرقان نے کہا کہ شعیب اختر نے بھی شاہد آفریدی والا راستہ چُن لیا؟؟ انورلودھی نے طنز کیا کہ شعیب اختر آلو کی طرح ہر سبزی کے ساتھ فٹ ہو جاتے ہے.. کبھی عمران خان انکے ہیرو اور کبھی عطا تارڑ انہیں پسند ہیں خالد حسین تاج نے شعیب اختر کا دفاع کرتے ہوئےکہا کہ شعیب اختر پاکستان کی شان ہے پاکستان کی پہچان ہے آج یوتھیوں کی جانب سے قوم کے اس عظیم ہیرو پر بےجا تنقید سمجھ سے باہر ہےقوم کے اس عظیم ہیرو کے لیے ایک جملہ
سوشل میڈیا موجودہ دور میں ابلاغ کا بہت طاقتور، موثر اور بہترین ذریعہ ہے جس کی وجہ سے ساری دنیا سمٹ کر انسان کی ہتھیلی میں آچکی ہے۔ سوشل میڈیا کا استعمال انتہائی احتیاط سے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ کسی شخص کی اگر اس کی پوسٹ کی وجہ سے تعریف ہوتی ہے تو کچھ پوسٹوں پر تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر سینئر رہنما مسلم لیگ ن خواجہ محمد آصف کو بھی ایک پوسٹ کرنے پر ایسے ہی تنقید کا سامنا کرنا پڑ گیا۔ خواجہ محمد آصف نے اپنے ایکس (ٹوئٹر) پیغام میں کسی شخص کے جوتوں کی تصویر شیئر کرتے ہوئے لکھا: اس طرح بیٹھنا بدتہذیبی کے زمرے میں آتا ہے اورمحفل میں اس طرح بیٹھنا بد تمیزی ہے! تمیز کا اصول ہے کے آپ جب بیٹھے ہوں تو آپ کے جوتے کا تلا محفل میں بیٹھے ہوئے لوگوں کو نظرنہیں آنا چاہیے۔ ٹی وی شوزمیں آپ کو یہ منظرکثرت سے نظرآتا ہے۔ میری رائے میں اینکرز کو تمیز کے اس بنیادی پہلو کا ذکر ضرورکرنا چاہیے۔ پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما ڈاکٹر شہباز گل نے ردعمل میں لکھا: ماشاء للہ! سیالکوٹ نے بھی اپنے حصے کی اعلیٰ کھچ پورے ملک کو دی ہے خواجہ کھچ۔ کبھی پکوڑے میں تین گرام تیل اور کبھی جوتے کا تلوا! اسے یہ بھی نہیں پتہ کہ اردو میں تلوا کہتے ہیں اور پنجابی وچ چھتر دا تلا! معروف صحافی صبیح کاظمی نے لکھا: عوام کا حق نہ چوری کریں، فارم 45 کے مطابق نشست واپس کریں، ریحانہ ڈار صاحبہ کو جو قانونی، اخلاقی، شرعی ہر لحاظ سے بدتر عمل ہے، الله کے حقوق کے ساتھ حقوق العباد میں بھی آتا ہے، بیٹھیں یا ٹانگیں اپنی ہوا میں کر کر چلیں، یا الٹے ہوکر چلیں عوام کو کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ اظہر سید نے لکھا: پاکستان کے صحافیوں کو چاہیے کہ پاکستان کے بےہودہ سیاست دانوں کو تہذیب اور اخلاق کا درس بھی دیا کریں کیونکہ اگر آپ ہار چکے ہو اور پھر آپ کا اخلاقی فرض اور بہادری بنتی ہے کہ آپ بھرے مجمعے میں اپنی ہار تسلیم کرو! امجد خان نے لکھا: کسی کی سیٹ پر ڈاکہ ڈال کر اسمبلی میں بیٹھ جانا بھی بدتمیزی کے زمرے میں آتا ہے یا نہیں ؟ زین نامی سوشل میڈیا صارف نے لکھا: خواجہ صاحب جس طرح آپ اقتدار میں آئے وہ بھی بد تمیزی میں آتا ہے بلکہ بد اخلاقی میں آتا ہے، فارم 47 سے بوٹ چمکا کر اقتدار چوری کرنا کسی اچھے کردار والے کے بس کی بات نہیں! تھوڑی سی خود احتسابی بھی کر لیا کریں، کوئی شرم ہوتی ہے، کوئی حیا ہوتی ہے! ایک سوشل میڈیا صارف نے خواجہ آصف کی طرف سے قومی اسمبلی میں رہنما پی ٹی آئی شیریں مزاری کے لیے استعمال کیے گئے الفاظ کی خبر شیئر کرتے ہوئے لکھا: خواجہ آصف جیسے آدمی کی طرف سے لفظ بدتہذیبی کا استعمال ستم ظریفی کی ایک مثال ہے۔ ماہ زلہ خان نامی صارف نے لکھا: اللہ کی شان! قومی اسمبلی میں خواتین کو ٹرک، ٹرالی اور گالیاں بکنے والا، ایک بزرگ خاتون ریحانہ ڈار سے انتخابات میں ہارنے کے باوجود بے شرموں کی طرح فارم 47 والا ایم این اے لوگوں کو اخلاقیات سکھا رہا ہے!
عمران خان کو جیل میں انٹرنیٹ، موبائل یا آئی پیڈ کی سہولت؟ ن لیگ اور پیپلزپارٹی کے حامی اور رہنما شک میں مبتلا ہوگئے ہیں سابق وزیر اعظم عمران خان کو جیل میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی سہولیات میسر ہیں یا نہیں۔لیگی اور پیپلز پارٹی کے رہنما سوالات اٹھانے لگے۔ گزشتہ دنوں عمران خان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیخ مجیب الرحمان اور حمودالرحمان کمیشن سے متعلق ایک ویڈیو شئیر کی جو سوشل میڈیا پر دیکھتے ہی دیکھتے وائرل ہوگئی، اس پر طرح طرح کے تبصرے ہوئے، اس ویڈیو پر حکومت اور انکے حامی سیخ پا نظر آئے اور سوال کیا کہ یہ ویڈیو کیسے اپلوڈ ہوگئی ہے؟ اس ویڈیو میں بتایا گیا کہ تھا کہ مشرقی پاکستان کیسے علیحدہ ہوا، جنرل یحیٰی خان اور انکے حواریوں کا کیا کردار تھا؟ حمودالرحمان کمیشن میں کیا انکشافات ہوئے تھے۔ رہنما پیپلز پارٹی پلوشہ بہرام کہتی ہیں کوئی نا کوئی ایسا ہاتھ تو ہے جو قیدی نمبر 804 کے ساتھ ہے۔ اظہر جاوید نے سوال کیا کہ اڈیالہ جیل میں عمران خان کے پاس آئی پیڈ کی سہولت موجود ہے ؟جس سے وہ بیرون ملک مقیم اپنے تین ساتھیوں سے رابطے میں ہیں ۔اسی کے ذریعے کسی بھی ہنگامی صورت میں ہدایات بھی دی جاتی ہیں اور سوشل میڈیا سائیٹ ایکس پر پوسٹ کرنے کیلئے ہدایات بھی جاتی ہیں انہوں نے مزید کہا کہ یخ مجیب الرحمان اور سقوط ڈھاکہ کے حوالے پوسٹ بھی عمران خان نے ڈکٹیٹ کروائی تھی اور ان کی منظوری کے بعد شائع ہوئی لندن میں مقیم ایک قریبی ساتھی کی دوسروں سے گفتگو کیا جیل حکام اور دیگر ادارے اس کی تصدیق کرسکتے ہیں. شرجیل میمن نے انکشاف کیاشیخ مجیب الرحمان والی ٹویٹ عمران خان کے پرسنل اکائونٹ سے ہوئی، میری اطلاع کے مطابق عمران خان کو اڈیالہ جیل میں ٹویٹر استعمال کرنے کی سہولت ملی ہوئی ہے، اس سے قبل نیوز کانفرنس میں شرجیل میمن نے ایف آئی اے سے بانی پی ٹی آئی عمران خان کا سوشل میڈیا اکاؤنٹ بند کروانے کا مطالبہ کیاتھا۔ شرجیل میمن کا کہنا تھا کہ شیخ مجیب اور سقوطِ ڈھاکا کی ویڈیو بانی پی ٹی آئی نے اداروں کو بلیک میل کرنے کے لیے جاری کی ، بانی پی ٹی آئی کسی سیاست دان یا جنرل کے نہیں، پاکستان کے خلاف ہیں، ایف آئی اے عمران خان کے خلاف ایکشن لے ۔
ملک ریاض کے گھر چھاپوں پر صحافی ثاقب بشیر کا کہنا تھا کہ 190 ملین پاؤنڈ کیس کے ٹرائل سے متعلق گزشتہ دنوں نیب کے اسپیشل پراسیکیوٹر نے اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے کہا تھا جو گواہ رہ گئے کچھ کو ہم واپس لے لیں گے ۔باقی پانچ سات یا آٹھ رہ جائیں گے انہوں نے مزید کہا کہ ٹرائل مکمل ہونے کے قریب ہے عمران خان کو ضمانت نا دیں ایک طرف نیب اسلام آباد ہائیکورٹ کے سامنے 15 دن پہلے کہہ رہی ہے ٹرائل مکمل ہونے کو ہے دوسری طرف القادر ٹرسٹ ریکارڈ کے لئے اب چھاپے مارے جارہے ہیں ۔۔ ثاقب بشیر کا کہنا تھا کہ یہ کوئی اور ریکارڈ ہی حاصل کرنے کی کوشش لگ رہی ہے یا وعدہ معاف گواہ بنانے کے لئے پریشر بڑھانے کی کوشش بھی ہو سکتی ہے اس پر صحافی سہیل رشید نے کہا کہ چھاپے 190 ملین کیس میں نہیں ہیں، اور اس کیس میں تکنیکی طور پر ملک ریاض وعدہ معاف گواہ نہیں بن سکتے اور اگر گواہ بنے تو اس میں پھر ایک نہیں دو سابق وزیراعظم پھنسیں گے۔ انکامزید کہنا تھا کہ مکمل بیان ہو گا کہ کس کے دور میں پیسہ واپس آیا نیز یہ کہ کس کے دور میں باہر گیا، کس لئے گیا دوسری جانب ایک آن لائن چینل سے گفتگو کرتے ہوئے صحافی حبیب اکرم کا کہنا تھا کہ ملک ریاض نے پبلک میں بیان دیدیا ہے اور انکے ٹویٹس ریکارڈ پر ہیں کہ انہیں زبردستی وعدہ معاف گواہ بننے پر مجبور کیا جارہا ہے، اگر ملک ریاض وعدہ معاف گواہ بنتے بھی ہیں تو جو وہ ریکارڈ پر لائے ہیں اسکی وجہ سے انکی گواہی نہیں مانی جائےگی؟
حنا پرویز بٹ کی عمران خان کے انٹرویو دینے والے پر تنقید, براڈ کاسٹر مہدی حسن کا کرارا جواب بانی پی ٹی آئی عمران خان کے زیٹیو کو انٹرویوپر لیگی رہنما حنا پرویز بٹ نے کڑی تنقید کردی, ایکس پر لکھا پیسے لو,انٹرویو دو,حنا پرویز بٹ نے عمران خان کے انٹرویوز کا لنک بھی شیئر کیا. حنا پرویز بٹ کے ٹوئٹ پر عمران خان کا انٹرویو کرنے والے میزبان نے لکھا اور کہا کہ "اس طرح کے الزامات بے بنیاد اور جھوٹے ہیں۔ عمران خان کے ساتھ انٹرویو انتہائی پیشہ ورانہ اور دیانتداری کے ساتھ کیا گیا تھا۔ یہ کہنا کہ مجھے یہ انٹرویو کرنے کے لیے 'ادائیگی' کی گئی تھی نہ صرف غلط ہے بلکہ غیر جانبدار صحافت کی اہمیت کو بھی کمزور کرتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ دیکھ کر افسوس ہوتا ہے کہ ایسے سازشی نظریات منتخب عہدیداروں کے ذریعہ پھیلائے جا رہے ہیں۔ آئیے حقائق اور تعمیری مکالمے پر توجہ دیں بجائے کہ بے بنیاد الزامات کے۔" مہدی حسن نے مزید کہا کہ تصور کریں اتنے جاہل اور سازشی اور منتخب ہونے ۔بلاشبہ، اگر عمران خان کے انٹرویو کے لیے زیٹیو کو پیسے دینے کی بڑی سازش سرگرم ہوتی تو ادائیگی کا لفظ کبھی کسی کے پڑھنے کے لیے نہ لکھا ہوتا۔ شہباز گل نے کہا اس بی بی کو تازہ تازہ تمغہ دیا گیا ہے۔ یہ ویسے سارے ہی نالائق ہیں۔ اس بی بی نام گھر والوں نے شمع رکھا تھا۔ لگتا ہے محترمہ نے شُرلی بننے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ حد ہے نالائقی کا۔ زلفی بخاری نے کہا کہ میں اس پر اپنی ہنسی کنٹرول نہیں کرسکا میڈیا ادارے ’زیٹیو‘ کے لیے صحافی مہدی حسن کی جانب سے عمران خان کے کیے گئے انٹرویو میں بانی پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ پاکستانی حکام نے نفسیاتی حربے استعمال کرتے ہوئے انہیں توڑنے کے لیے قید تنہائی میں رکھا ہوا ہے,عمران خان نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ موجودہ شہباز شریف حکومت میں قانونیت کا فقدان ہے۔ عمران خان نے دعویٰ کیا کہ وہ ایک ایسی قید میں ہیں جسے ’ڈیتھ سیل‘ کہا جاتا ہے- انہوں نےوضاحت کی کہ ’یہ ایک چھوٹی سی الگ تھلگ جگہ ہے جو عام طور پر دہشت گردوں کے لیے مخصوص ہوتی ہے‘۔
گزشتہ دنوں نیب کی ٹیم نے بحریہ ٹاؤن راولپنڈی کے آفس پر چھاپہ مارا، نیب ٹیم نے چھاپہ القادرٹرسٹ یونیورسٹی کا ریکارڈ حاصل کرنے کےلیے مارا۔ نیب ٹیم نے بحریہ ٹاؤن راولپنڈی کے دفتر کے عملے سے پوچھ گچھ کے ساتھ تلاشی بھی لی اور ریکارڈ قبضے میں لیا۔ ملک ریاض کے دفتر پر چھاپہ اس وقت مارا گیا جب ملک ریاض کا ایک پیغام وائرل ہوا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ میں عمران خان کے خلاف وعدہ معاف گواہ نہیں بنوں گا، اسکے لئے آپ کو میری لاش پر سے گزرنا پڑے گا۔ اسکے فوری بعد نیب ٹیم حرکت میں آئی اور بحریہ ٹاؤن راولپنڈی کے دفتر پر چھاپہ ماردیا جبکہ القادر ٹرسٹ کیس میں ملک ریاض کو ملزم قرار نہیں دیا گیا۔ اس پر صحافیوں اور سوشل میڈیا صارفین نے سخت ردعمل دیا اور کہا کہ ملک ریاض کے وعدہ معاف گواہ نہ بننے پر یہ سب کچھ کیا جارہا ہے، اس سے ملک ریاض کو توشاہد فرق نہ پڑے لیکن سرمایہ کاروں پر برا اثر پڑے گا صحافی ثمرعباس نے کہا کہ ایک پرائیویٹ بزنس مین کے دفاتر پر چھاپوں اور توڑ پھوڑ اور حراساں کرنے کے بعد بھی اگر کوئی یہ سنجھتا ہے کہ یہاں کوئی سرمایہ لگائے گا وہ احمقوں کی جنت میں رہتا ہے، نیب کے خلاف بڑے بڑے دعوے کرنے والی ن لیگ کی حکومت میں نیب گردی تیز ہو گئی۔افسوس ہم سیکھتے نہیں۔ ثمرعباس نے مزید کہا کہ ملک ریاض کے طریقہ کاروبار پر ۱۰۰ اختلاف مگر ریاست کا یہ طریق کار بھی کسی طرح بھی جائز قرار نہیں دیا جا سکتا کہ دروازے توڑ کر اندر گھس جائیں اور محض اس لئے ہراساں کریں کہ انہوں نے ایک زیر عتاب سیاستدان کے خلاف کیس میں وعدہ معاف گواہ بننے سے انکار کیا۔۔غلط کو غلط کہنا میری تربیت میں شامل ہے، اور رہی بات بغض سے بھرے کچھ لوگوں کی بکواسیات کی تو میں اسکی پرواہ نہیں کرتا، شکر الحمدللہ اللہ نے بہت دیا ہے اور حلال دیا ہے آج بھی کرائے کے گھر میں رہ رہا ہوں۔۔۔ اکبر کا کہنا تھا کہ چھاپہ اگر آج مارا گیا ہے اور القادر ٹرسٹ کا ریکارڈ آج تک حاصل ہی نہیں کیا گیا تھا تو عمران خان کی گرفتاری اور عدالت میں القادر کیس کس چیز پر چل رہا؟ اندازہ کریں انکی حالت ریکارڈ حاصل کئے بغیر ہی عمران خان کی گرفتاری ڈال دی کیس چلا دیا گواہ پیش کردیے اور ریکارڈ حاصل ہی نہیں کیا اکبر نے مزید کہا کہ عمران خان پر القادر ٹرسٹ کیس پہلے چلا دیا جبکہ آج تک اسکا ریکارڈ ہی حاصل نہیں کیا گیا اس طرح قوم کے لیڈر پر جعلی کیس بنائے جارہے کسی صحافی نے سوال نہیں کیا کہ "ریکارڈ حاصل کرنے کے لئے چھاپہ" آج مار رہے تو کیس کس چیز پر چلا رہے؟ پھر جج بیچارے کیس اڑائنگے تو کہو گے جج باغی ہوگیا شاکر محموداعوان نے کہا کہ ملک ریاض کیجانب سے وعدہ معاف گواہ نان بننے کے بیان کے بعد نیب کا بحریہ ٹاون میں چھاپہ،، نیب ٹیم 9 گھنٹے تک ریکارڈ تلاش کرتی رہی۔۔ فوادچوہدری نے اس پر ردعمل دیا کہ اور ہم چاہتے ہیں کہ غیر ملکی پاکستان میں سرمایہ کاری کریں۔ فلک جاوید نے کہا کہ پاکستان کے سب سے بڑے بزنس ٹائیکون میں سے ایک ملک ریاض کے آفس کا حال روتے سرمایہ کاری کو یہ دیکھ کر جو ہیں وہ بھی بھاگ جائیں گ اطہر کاظمی کا کہنا تھا کہ کیس ضرور چلائیں لیکن جو ملک ریاض صاحب کے کاروبار کے ساتھ ہو رہا ہے کیا حکومت ایسے دنیا بھر سے انویسٹرز کو قائل کریگی؟ آج عدلیہ نے کونسا ایسا خلاف آئین فیصلہ دے دیا ہے کہ وزیراعظم کو کالی بھڑیں نظر آنا شروع ہوگئی ہیں۔ مصطفیٰ نواز کھوکھر نے ردعمل دیا کہ قطعہ نظر اس کے کہ ملک ریاض صاحب سے میرا تعلق ہے، اگر ایک شخص وعدہ معاف گواہ نہیں بننا چاہتا تو کیا دنیا کے سامنے زور زبردستی کرنے سے ، دفتروں میں توڑ پھوڑ کرنے سے بفرض محال اگر وہ وعدہ معاف بن بھی جاتا ہے تو قانون کی نظر میں اُس کی شہادت کی کیا حیثیت رہ جائے گی؟ خدا اِن نیک بختوں کو عقل اور قابل وکیلوں سے نوازے۔ ڈاکٹر شہبازگل نے تبصرہ کیا کہ اب ملک ریاض اور بحریہ ٹاؤن پر خواجہ سرا چھوڑ دئیے گئے۔ ملک ریاض نے خان کے خلاف گواہی نہیں دی تو اب اس پر زمین تنگ کرنے جارہے ہیں۔ ملک ریاض زمین سے اٹھ کر یہاں پہنچا اور اس راستے ہر اب انہوں آپ کے کئی ساتھیوں کو اپنا ملازم رکھے رکھا ہے۔ وہ سب کی قیمت جانتا ہے۔ اس لئے آپ سے نہیں ٹوٹے گا صحافی امیر عباس کا کہنا تھا کہ ملک ریاض نے ٹوئٹ نہ کی ہوتی کہ میری لاش سے گزر کر مجھ سے گواہی لے سکتے ہو تو یہ چھاپے بھی نہ پڑتے۔ جو بھی سہولتکاری کرے وہ تخت پر اور جو انکار کرے وہ تختے پر زبیرعلی خان نے کہا کہ ملک ریاض صحافیوں کو نوازتے نوازتے تھک گئے لیکن ان کی وہ امیج بلڈنگ نہ ہوسکی جو وہ چاہتے تھے ۔۔۔ ایک شخص کے ساتھ کھڑے ہونے پر اب عوام ملک ریاض کی بھی تعریف کرنے پر مجبور ہوگئی اویس اقبال کا کہنا تھا کہ ملک ریاض کا حشر دیکھ کر غیر ملکی سرمایہ کار پاکستان میں سرمایہ کاری مت کریں۔اس ملک میں جنگل کا قانون ہے اور پاکستانی سرمایہ کار بھی اس جنگل سے پیسہ نکال رہے ہیں
سپریم کورٹ آف پاکستان کی جانب سے پی ٹی آئی کے بلے کانشان سے متعلق عدالتی فیصلے پر تنقید برٹش ہائی کمیشن جین میریٹ کو جواب دیدیا ہے۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے حکم پر رجسٹرار سپریم کورٹ نے برٹش ہائی کمیشن جین میریٹ کو عدالتی فیصلے پر تنقید کے جواب میں خط لکھ دیا ہے، خط میں کہا گیا ہے کہ برطانوی ہائی کمشنر نے عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں جمہویت اور کھلے معاشرے کی بات کی۔ خط میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ آف پاکستان نے غلطیوں کا ازالہ کیا ہے،ضرورت اس امر کی ہے برطانیہ بھی غلطیوں کا ازالہ کرے،خط میں 1953 میں ایرانی حکومت کا تختہ الٹنے اور بالفور اعلامیہ کے ذریعے اسرائیلی ریاست کے قیام کا تذکرہ بھی کیا گیا ہے۔ چیف جسٹس کی جانب سے لکھے گئے خط میں برطانوی ہائی کمشنر جین میریٹ کو مخاطب کرتے ہوئے مزید کہا گیا ہے کہ عاصمہ جہانگیر کانفرنس میں آپ کی پرجوش تقریر میں جمہوریت کی اہمیت، انتخابات اور کھلے معاشرے کی اہمیت کو اجاگر کیا گیا، برطانوی حکومت کی طرف سے دکھائی جانے والی دلچسپی خوش آئند ہے۔ خط میں مزید کہا گیا ہے کہ پاکستان میں قومی اور صوبائی اسمبلیوں کی مدت پوری ہونے کے 90 دن کے اندر انتخابات کرانا ضروری تھا،انتخابات اس لئے بر وقت نہیں ہو سکے تھے کیوں کہ صدر اور الیکشن کمیشن متفق نہیں تھے کہ انتخابات کی تاریخ کا اعلان کرنے کا اختیار کس کو ہے، پاکستان میں الیکشن لڑنے کے خواہشمند بہت سے لوگوں کو تاحیات پابندی کا سامنا کرنا پڑتا تھا،کیونکہ سپریم کورٹ کی طرف سے انہیں ایماندار اور قابل اعتماد(صادق و امین) نہیں سمجھا جاتا ہے۔ خط میں کہا گیا قانون میں یہ شرط رکھی گئی ہے کہ اگر کوئی سیاسی جماعت انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرواتی تو وہ انتخابی نشان کے لیے اہل نہیں ہوگی، ایک سیاسی جماعت (پی ٹی آئی) نے انٹرا پارٹی انتخابات نہیں کرائے تھے۔اس فیصلے کے حوالے سے آپ کی تنقیدبلاجواز تھی۔ سپریم کورٹ کی جانب سے لکھے گئے اس خط کے سامنے آنے پر مختلف حلقوں کی طرف سے ردعمل آنا شروع ہوگیا ہے، سابق وفاقی وزیر فواد چوہدری نے اس خط کو نامناسب قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ کس کس کو صفائیاں دی جائیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ تحریک انصاف سے انتخابی نشان واپس لینے کے فیصلے سے پوری دنیا میں پاکستان کے عدالتی نظام کی جگ ہنسائی ہوئی ملٹری کورٹس اور عدت کیس جیسے فیصلے فائز عیسی کی تاریخ میں جگہ کا تعین کر چکے ہیں، جج صاحبان پر دباؤ، سیاسی بنیادوں پر جعلی مقدمات کی بھرمار اور بے گناہ خواتین اور مردوں کو بے گناہ پابند سلاسل رکھنے میں سہولت کاری وہ روایات ہیں جو چیف جسٹس کے دور سے جڑی رہیں گی۔ ایک اور ٹویٹ میں کہا پاکستان میں انتخابی عمل پر صرف برطانیہ کے تحفظات نہیں ہیں چار ماہ کے بعد شہباز شریف کو آج تک یورپی یونین ، امریکہ اور برطانیہ کے کسی ملک کے سربراہ نے فون تو دور مبارکباد کا خط تک نہیں لکھا، مودی وہ واحد لیڈر ہے جس نے شہباز شریف کو ٹویٹر پر مبارک دی، اس سے اندازہ لگا لیں دنیا موجودہ پاکستانی سیٹ اپ کو کتنا جمہوری ۔سمجھتی ہے، پاکستان کے چیف جسٹس کو اس طرح بیرونی سفارت کاروں سے براہ راست خط وکتابت سے پرہیز کرنا چاہئے اس طرح آپ مزید جگ ہنسائی کرا رہے ہیں سینئر قانون دان ابوذر سلمان نیازی اس خط کو مضحکہ خیز قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ لوگ چیف جسٹس کو ان کے فیصلوں سے پرکھیں گے ان کے خطوط سے نہیں، یہ فیصلہ بھی تاریخ میں مولوی تمیز الدین کیس، عاصمہ جیلانی کیس اور ایسے دیگر کیسز کی طرح پیچھا کرے گا۔ عبدالمعیز جعفری نے اس خط کو اوور ری ایکشن قرار دیا۔ سکندر فیاض نے کہا کہ پاکستان میں آئین کے مطابق نوے دن میں الیکشن اس لیے نہیں ہو پائے اور سپریم کورٹ نے تحریک انصاف سے انتخابی نشان چھین لیا کیونکہ 1917 میں برطانیہ نے خط لکھ کر فلسطین میں یہودی ریاست بنانے کی بات کی تھی؟ وسیم ملک نے لکھا، چیف جسٹس پاکستان جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے وزیر خارجہ کا اضافی چارج بھی سنبھال لیا۔ عاصمہ جہانگیرکانفرنس میں برطانوی ہائی کمشنر نے کہا تھا قانونی عمل کو استعمال کر کے سیاسی رہنماؤں کو الیکشن میں حصہ لینے سے روکا گیا، انتخابی نشان لیا گیا، انٹرنیٹ/سوشل میڈیا پر پابندیاں، نتائج آنے میں کافی تاخیر ہوئی، کاؤنٹنگ میں بے ضابطگیاں نظر آئیں۔
کیپٹن صفدر کی چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف منعقد کیے جانے والے اجلاس میں شرکت اور خطاب میں کہا اعلیٰ عدلیہ میں بیٹھے جج صاحبان کو اپنے عقیدے ختم نبوت پر تصدیق کرنا ہوگی۔ پشاور ہائیکورٹ مجھے توہینِ عدالت میں بلائے میں ثابت کروں گا کہ پشاور ہائیکورٹ کا جج شکور قادیانی ہے،جسٹس منیر جیسے قادیانی جج آج بھی عدلیہ میں موجود ہیں۔ فواد چوہدری نے اس پر ردعمل دیا کہ کل راولپنڈی میں ایک مذھبی کانفرنس ہوئی اس میں وزیر اعلیٰ پنجاب کے شوہر سمیت متشدد سوچوں کے ترجمان شریک ہوئے، بدقسمتی سے اس کانفرنس میں جسٹس فائز عیسیٰ کے خلاف مذھبی منافرت پر مبنی تقریریں ہوئیں شام کو شہباز شریف نے جج صاحبان کو کالی بھیڑیں قرار دیا ۔ انہوں نے مزید کہا کہ جج صاحبان کے خلاف اس جنگ میں عوام عدلیہ کے ساتھ کھڑے ہوں، فائز عیسی نے انتخابی نشان سے لے کر ملٹری عدالتوں تک آئین پسند حلقوں کو مایوس کیا ہے لیکن پھر بھی ان پر مذھبی منافرت پر مبنی الزامات انتہائی قابل مذمت ہیں یہ سلسلہ فوراً رکنا چاہئے زبیر علی خان نے کہا وہ لوگ نفرت کے قابل بھی نہیں ہوتے جو اپنے مخالفین کو زیر کرنے کے لیے مذہب کو استعمال کرتے ہیں۔ کیپٹن صفدر اور جسٹس اعجاز افضل کے خاندان کا زمین پر تنازع ہے، جو برسوں سے چلا آرہا ہے کیپٹن صفدر اس تنازع کا بدلہ جسٹس اعجاز افضل پر اتنا بڑا الزام لگا رہے ہیں
نوازشریف بلامقابلہ منتخب ہوکر ن لیگ کے دوبارہ صدر بن گئے ہیں۔انکے مدمقابل کوئی امیدوار نہیں تھا جس کی وجہ سے وہ بلامقابلہ ہی کامیاب ہوکر 6 سال بعد صدر بن گئے۔ الیکشن 2024 سے قبل جب بیرسٹر گوہر علی خان بلامقابلہ چیرمین تحریک انصاف منتخب ہوئے تو چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اعتراض اٹھایا کہ بلامقابلہ الیکشن میں بھی ووٹنگ ہونی چاہیے ۔ انہوں نے سوال کیا کہ بیرسٹر گوہر بلا مقابلہ چئیرمین منتخب ہوگئے؟ سب کے سب بلامقابلہ منتخب ہو گئے؟ چیف جسٹس قاضی فائز عیسی نے پی ٹی آئی وکیل پر طنز کیا کہ سب عہدوں پر بلامقابلہ منتخب ہوگئے؟ سیاست میں تو بڑی لڑائیاں ہوتی ہیں کہ مجھے ٹکٹ چاہئے، اسی کو بنیاد بناکر اور چند تکنیکی وجوہات کو جواز بناکر تحریک انصاف سے بلے کا نشان چھین لیا گیا تھا، سوشل میڈیا صارفین سوال اٹھارہے ہیں کہ تحریک انصاف سے تو بلے کا نشان اس وجہ سے لیا گیا تھا کہ بیرسٹر گوہر اور باقی لوگ کیوں بلامقابلہ صدر بنے، اب کیا قاضی فائز عیسیٰ ن لیگ سے شیر کا نشان واپس لیں گے؟ صحافی محمد عمیر نےسوال کیا کہ بلا مقابلہ صد منتخب ہونے پر کیا جسٹس قاضی فائز عیسی اس انتخاب کو بھی کالعدم قرار دینگے؟ شفقت علی نے سوال اٹھایا کہ ملک میں عام انتخابات سے پہلے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اس بنیاد پر پی ٹی آئی سے بلے کا نشان چھینا تھا کہ یہ بلامقابلہ منتخب ہونا کیا ہوتا ہے؟ کیا جمہوریت میں بلا مقابلہ منتخب ہونے کی کوئی گنجائش ہے؟ خرم مجتبیٰ نے کہا کہ اکبر ایس بابر کو جگاؤ میاں جی بلامقابلہ صدر بن گئے قاضی صاحب کے پاس جائیں اور اُن کو بتائیں بلامقابلہ کیا ھوتا ھے بشارت راجہ کا کہنا تھا کہ نواز شریف مسلم لیگ ن کے بلا مقابلہ صدر منتخب ہوگئے تحریک انصاف کے انٹرا پارٹی انتخابات میں قاضی القضاۃ قاضی فائز عیسیٰ نے 8 لوگوں کے کہنے پر پارٹی نشان چھینا تھا اور سوال اُٹھایا تھا کہ یہ بلامقابلہ کیا ہوتا ہے؟ کیا قاضی القضاۃ اس پر بھی سوال اُٹھائیں گے طارق متین نے سوال کیا کہ کیا خیال ہے نواز شریف کے معاملے میں قاضی فائز عیسی کیا کریں گے؟
نوازشریف نے ماضی کے اپنے سب سے بدترین مخالف مبشرلقمان کو اپنا گواہ بنالیا اور کہا کہ میری حکومت گرانے کی سازش کے گواہ مبشرلقمان ہیں۔ نوازشریف نے دعویٰ کیا کہ میری حکومت بنانے کا پلان لندن میں بنایا گیا اور اسکے گواہ ایک صحافی مبشرلقمان خود ہیں۔ انہوں نے کہا کہ جنرل ظہیر الاسلام، عمران خان، پرویز الٰہی اور طاہر القادری نے میرے خلاف جس ہوٹل میں لندن پلان بنایا اس کا بِل صحافی مبشر لقمان نے ادا کیا تھا یہی مبشرلقمان ماضی میں نوازشریف سے متعلق سخت زبان استعمال کرتے رہے اور سخت زبان کااستعمال کرتے رہے، انہوں نے نوازشریف کو غدار، انڈین ایجنٹ اور پتہ نہیں کن کن القاب سے نوازا مبشرلقمان عمران خان کے انتہائی قریب سمجھے جاتے تھے اور انکے عمران خان سےاختلافات اس وقت شروع ہوئے جب عمران حکومت کے ایک وزیر فوادچوہدری نےا نہیں ایک شادی کی تقریب میں تھپڑ مارا جس پر وہ عمران خان کے پاس شکایت لیکر گئے لیکن عمران خان نظرانداز کرگئے۔ مبشرلقمان ماضی میں نوازشریف سے متعلق کہتے رہے کہ یا اللّه انڈیا کو بھی ایک نواز شریف عطا فرما تا کہ انکا بھی بیڑا غرق ہو مبشرلقمان کا کہنا تھا کہ خان صاحب کو فوج لائی ہے، لیکن نواز شریف تین بار وزیراعظم پبلک سروس کمیشن کا امتحان دے کر بنا صدقے تہاڈی سائنس تے انہوں نے نوازشریف پر طنز کیا کہ *نواز شریف دنیا کا پہلا بدمعاش ہے جو دھمکی بھی پرچی سے پڑھ کر دیتا ہے * صدیق جان نے طنز کیا کہ جن صحافیوں نے نواز شریف کی خاطر اپنی دنیا و آخرت خراب کر لی ،جو ن لیگ کے لیے اس حد تک گر گئے کہ اپنی آنے والی نسلوں کے لیے بھی شرمندگی بن چکے ہیں ،ان سب میں سے کسی کا نام نہیں لیا میاں صاحب نے ، بلکہ مبشر لقمان صاحب کو پاکستان کا سب سے کریڈیبل صحافی قرار دے دیا ہے
آج پاکستان کے تمام بڑے اخبارات میں یوم تکبیر کے حوالے سے سرکاری اشتہارات شائع ہوا جس پر نوازشریف کی تصویر نمایاں تھی، یادرہے کہ نوازشریف کے پاس اس وقت کوئی حکومتی عہدہ نہیں اور وہ محض ایم این اے ہیں۔ ان اشتہارات میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی تصویر غائب تھی جس پر تحریک انصاف اور سوشل میڈیا صارفین نے کڑی تنقید کا نشانہ بنایا تحریک انصاف آفیشل نےا س پر ردعمل دیتے ہوئے کہا کہ ذاتی تشہیر کے لیے عوام کے ٹیکس کے پیسے کو مال مفت سمجھ کر اخبارات پر لٹانا ن لیگ کا پرانا وطیرہ ہے۔ اطلاعا عرض ہے کہ یوں غریب عوام کے خون پسینے کی کمائی اشتہارات پر خرچ کر کہ آپ کوئی نیک نامی نہیں سمیٹ رہے الٹا بددعائیں ہی ملیں گی۔ انہوں نے مزید کہا کہ جہاں تک بات ہے 28 مئی اور "وطن کی رکھوالی " کی تو اسکی حقیقت ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی زبانی قوم بارہا سن چکی ہے۔ آپ 28 مئی والے نہیں سپریم کورٹ پر حملہ کرنے والے ، پانامہ لیکس والے ، ایون فیلڈز والے اور مشکل آنے پر ملک سے پہلی فرصت میں بھاگنے والے ہیں ورک شاہزیب نے سوال اٹھایا کہ ٹیکس دہندگان کا پیسہ ایسی غیر ضروری چیزوں پر کیوں ضائع کیا جا رہا ہے؟پھر ہم ہر سال آئی ایم ایف کے پاس جاتے ہیں۔ شاہد نے لکھا کہ آج 28 مئی کا خاص ترین دن ہےجب ہم ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی وجہ سے ایٹمی قوت بنےجسکا اظہار اخبارات میں کیا گیاچیلنج سب کو یہ ہے کہ اس میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی تصویر تلاش کریں سبحان کا کہنا تھا کہ لوہار کے بیٹوں نے اپنے تصاویر لگا لئیں جیسے ایٹم بم اسکے لوہار باپ نے بنایا تھا بے شرم لوگ لیکن کہا ہے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کی تصویر ایک سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو چھوڑ دیا اگر یہاں بھٹو کی تصویر نہ لگاتے تو بھٹو زندہ ہوجانا تھااس کے نواسے نے حکومت میں نہیں بیٹھنا تھا کیونکہ بھٹو کے ساتھ زیادتی برداشت نہیں کر سکتا ایک اور سوشل میڈیا صارف نے تبصرہ کیا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم کی تصویر ہٹا کے آج اس ٹولے نے ثابت کردیا کہ یہ واقعی, 9مئی والے فسادی ہیں, 9 فروری والے مینڈیٹ چور ہیں فارم 47 والے جعلی حکمران ہیں, اور 28 مئی 1998 کو امریکی صدر بل کلنٹن سے ڈالروں کے عوض ایٹمی دھماکوں سے انکار کرنے والے ہیں, انجینئر نوید کا کہنا تھا کہ 2022 میں جب تحریک انصاف حکومت میں تھی : ”جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نےفیصلے میں کہا کہ سرکاری وسائل پر ذاتی تشہیر کی اجازت نہیں دی جا سکتی، پاکستان کسی کی جاگیر نہیں جہاں عوام حکمرانوں کے سامنے جھک جائیں" کیا عزت مآب قاضی القضاہ کوئی ایکشن لیں گے اس ذاتی تشہیری مہم کے خلاف ؟
اٹھائیس مئی یوم تکبیر پر حکومت کی جانب سے عام تعطیل کے ایمرجنسی اعلان پر سوشل میڈیا صارفین کے تبصرے جاری ہیں، سوشل میڈیا صارفین سوال کرتے نظرآرہے ہیں کہ اچانک 26 سال بعد کیوں چھٹی کا ااعلان کردیا گیا اور وہ بھی اچانک؟ سوشل میڈیا صارفین اسے عمران خان کے سائفر کیس سے جوڑرہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ سائفر کیس آج مکمل ہوجانا تھا اور ہوسکتا تھا کہ مختصر فیصلہ بھی جاری ہوجائے اسلئے اچانک چھٹی کا اعلان کیا گیا تاکہ سماعت روکی جاسکے۔ صبیح کاظمی نے لکھا28 مئی کو اہم کیسز تھے، دھماکے ڈاکٹر عبدالقدیر خان نےکیے جس کا کیا حال کیا گیا تھا، لایئو معافی منگوائ جیسے آج کوشش کررہیں ہیں اور چھٹی چیف جسٹس قاضی فایز دے رہا ہے، یہ ہو کیا رہا ہے؟ ایڈووکیٹ شعیب نے لکھاچھٹی کا اچانک اعلان ہمارے سائفر کیس پر اثر انداز ہونے کی کو شش ہے.28 سال بعد حکومت کو یاد آیا کہ 28 مئی یوم تکبیر کی چھٹی منانی ہے؟ علینہ شگری نے لکھا 28 مئی کو ایٹمی دھماکوں کی اچانک چُھٹی دے کر حکومت نے سائفر کیس اپیل فیصلے کے دھماکے کو بھی رخصت پر بھیج دیا ہے جسکی حتمی سماعت کل ہونا تھی! ایک صارف نے کہا اُدھر دھماکا کیا گیا تھا انڈیا کو جواب دینے کے لئیے۔۔ادھر چھٹی کا دھماکا کیا گیا ہے عمران خان سے بچنے کے لئیے۔۔کیونکہ کل سائفر کا ایٹمی دھماکا ہونے والا تھا منصور علی نے لکھا ہمارے پاس بم ہے,اس بات پر کل چُھٹی ہو گی. نعمت خان نے لکھا ایسے ایٹمی دھماکوں جن سے دفاع کا بجٹ کم ہوا نہ ہی دشمن کا اسٹیٹس تبدیل کرنے رکا، کے دن پر عام تعطیل کرلے قوم کو کام کاج سے اور اس کے بچوں کو علم کے حصول سے چھٹی دی جارہی ہے,ہمیں “ عظیم” قوم بننے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ثاقب بشیر نے لکھا کل کی چھٹی کی کوئی وجہ نہیں ، لیکن کر رہے ہیں مرضی کے مالک ہیں جنگل کے بادشاہ ہیں. عامر سعید عباسی نے لکھا یہ منہ توڑ جواب دینے پر چھٹی 26 سال بعد کیوں ملی؟ مسرت چیمہ نے کہاتقریباً 25 سال بعد اچانک حکومت کو پتہ لگا ہے کہ ایٹمی دھماکے کرنے کی وجہ سے 28 مئی کو چھٹی دینی تھی. پچھلے 25 سال کی جو چھٹیاں ماری گئی ہیں ان کا ازالہ کون کرے گا. کاشف عباسی نے کہا پاکستان میں 26 سال بعد 28 مئی کی چھٹی کی گئی ہے ، اسکی وجہ سب کو پتہ ہے کیونکہ کل سائفر کیس کا آخری دن ہے اور کل فیصلہ بھی آسکتا تھا اور خان کو چھوڑا جا سکتا تھا خان کو جب تک کسی نئے کیس میں سزا نہ ہوجائے یہ لوگ پوری کوشش کرینگے تب تک فیصلہ نہ آئے۔
چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی اور قائم مقام صدر مملکت کی طرف سے الیکشن کمیشن آرڈیننس کی منظوری دے دی گئی ہے جس کے تحت الیکشن ٹربیونل کے قیام سے متعلقہ قانون میں ترمیم کی گئی ہے۔ آرڈیننس کے تحت الیکشن ایکٹ 2023ء میں ترمیم کی گئی ہے جس کے مطابق انتخابات کے حوالے سے عذرداروں سے متعلقہ الیکشن ٹربیونل میں اب حاضر سروس کے ساتھ ساتھ ریٹائر ججز بھی تعینات کیے جا سکیں گے۔ آرڈیننس منظور ہونے کی خبر پر سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر سیاسی وصحافتی حلقوں کی طرف سے شدید ردعمل دیا جا رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے آفیشل ایکس (ٹوئٹر) ہینڈل سے پیغام جاری کیا گیا کہ: اپنے جعلی مینڈیٹ کو قائم رکھنے کے لئے یہ جعلی حکومت اور اس کے ہینڈلرز کتنے آئین اور قانون بدلیں گے؟ پہلے الیکشن کمیشن نے لاہور ہائیکورٹ کے 5 اپریل کو 6 ججز کے دئیے گئے نام دبائے رکھے اور اب حکومت کی طرف سے یہ آرڈیننس جاری کر دیا گیا ہے۔ پورا نظام عوام کا مینڈیٹ چوری کرنے اور عمران خان کو قید رکھنے کے لئے کام کر رہا ہے۔ سینئر کورٹ رپورٹر ثاقب بشیر نے لکھا:8 فروری 2024ء کو انتخابات ہوئے، لاہور ہائیکورٹ نے 5 اپریل کو الیکشن کمیشن کی درخواست پر پنجاب میں الیکشن ٹریبونلز کے لیے 6 ججز کے نام بھیجے اور ایک ماہ 22 دن بعد آج 27 مئی تک بھی الیکشن کمیشن نے ناموں کے نوٹیفکیشن نہیں جاری نہیں کئے اور آج حکومت نے یہ آرڈیننس جاری کر دیا ہے۔ انہوں نے لکھا: اندازہ لگائیں الیکشن کمیشن اور حکومت کا آپس میں ربط جوڑ، پلاننگ، آخر خطرہ کیا تھا کہ لاہور ہائیکورٹ کی طرف سے بھیجے گئے ناموں کو پہلے الیکشن کمیشن نے الیکشن ٹریبونل نہیں لگایا اب ریٹائرڈ ججز لیں گے یہ تو 8 فروری 2024ء کے انتخابات کو مزید متنازع کرے گا! ایک اور پیغام میں سوال اٹھاتے ہوئے لکھا:اندازہ لگائیں حکومت کہاں تک جار ہی ہے، الیکشن کمیشن کہاں تک جا رہا ہے؟ الیکشن بچانے کے لئے! پہلے الیکشن کمیشن نے لاہور ہائیکورٹ کے 5 اپریل کو دئیے 6 ججز کے نام آج 26 مئی تک دبائے رکھے، نوٹیفکیشن نہیں کیا، اب حکومت نے آرڈیننس جاری کر دیا ہے، کیا حکومت اور الیکشن کمیشن اکٹھے چل رہے ہیں ؟ سینئر صحافی اسرار احمد نے طنزاً لکھا: لگتا یہی ہے کہ لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی جانب سے جو نام الیکشن ٹربیونل کے لیے دیے گئے تھے اور ان کو الیکشن کمیشن نوٹیفائی نہیں کر رہا تھا اس کا حل نکالا گیا ہے! ریٹائرڈ ججز کے ساتھ واپڈا سے بھی کسی ریٹائرڈ فرد کے تقرر کی اجازت کا آپشن بھی ہونا چاہیے تھا ! احمد وڑائچ نے لکھا: اس آرڈیننس کا واحد مقصد پنجاب میں مرضی کے الیکشن ٹربیونلز کی تشکیل ہے، الیکشن کمیشن نے لاہور ہائیکورٹ کے دیئے ججز کو تعینات نہیں کیا، باقی ہر صوبے میں ٹربیونل بن چکے ہیں۔ بظاہر اب الیکشن کمیشن پنجاب میں ریٹائرڈ ججز کو ٹربیونل میں لگائے گا، فارم 47 والا معاملہ ختم سمجھیں۔ انہوں نے لکھا: فارم 45 اور 47 کا مکو ٹھپنے کی کوشش، حکومت نے آرڈیننس جاری کر دیا، ریٹائرڈ ججز دھاندلی کیسز کی سماعت کر سکیں گے، نہ فیصلے ہوں گے اور نہ مینڈیٹ واپسی والی بات ہو گی۔ معروف وی لاگر وقار ملک نے لکھا:فارم 47 حکومت نے اپنی چوری بچانے کیلئے فارم 47 جج لگانے کا فیصلہ کرلیا، اب الیکشن کے معاملات بھی فارم 47 جج دیکھیں گے، مطلب پاکستان تحریک انصاف اپنا مینڈیٹ قانونی طور پہ لینا بھول جائے!! تحریک انصاف کے رہنما چودھری فواد حسین نے لکھا:نون لیگ کے منشور میں نیب کو ختم کرنا تھا، پیپلز پارٹی کے رہنما بشمول یوسف رضا گیلانی صاحب نیب قانون کے خلاف دن رات تقریریں کرتے تھے لیکن جوں ہی اقتدار میں آئے تمام تحفظات ہوا ہو گئے اور نیب کا قانون پھر سیاسی مخالفوں کے خلاف پیپلز پارٹی اور نون لیگ کا محبوب ہتھیار بن چکا ہے! عمران افضل راجہ نے لکھا: اپنی بددیانتیوں اور بدکاریوں کو تحفظ دینے کے لیے ہر قانون کو موم کی ناک کی طرح موڑ کر ان میں ترامیم کی جا رہی ہیں! آسان الفاظ میں جو ملزمان ہیں وہی اپنے خلاف ججوں کا تقرر کریں گے ؟؟ کدھر گیا انقلابی منصف اعلیٰ جو اپنی نگرانی میں انصاف کا قتل عام کروا رہا ہے ؟؟ واضح رہے کہ الیکشن کمیشن آرڈیننس کے ذریعے الیکشن ایکٹ 2023ء میں ترمیم کر دی گئی ہے اور نیب آرڈیننس کے تحت زیرحراست ملزم کے ریمانڈ کا دورانیہ 14 دنوں سے بڑھا کر 40 دن کر دیا گیا ہے۔ دوسری طرف نیب افسر کی طرف سے بدنیتی پر مشتمل نیب ریفرنس قائم کرنے پر سزا میں 3 سال کی کمی کر دی گئی ہے۔
سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر معروف یوٹیوبر عادل راجہ کے ایک پیغام نے پھر سے ایک نئی بحث کا آغاز کر دیا ہے۔ عادل راجہ کے ٹوئٹر پیغام پر سینئر صحافی حسن ایوب خان کے ردعمل پر وہ شدید غصہ میں آگئے اور کہا کہ یہ شخص دانستہ جھوٹ پر پھیلاتا ہے جس پر عادل راجہ نے ان پر الزامات لگاتے ہوئے ڈی جی کا ترجمان قرار دے دیا۔ عادل راجہ کے الزامات پر معروف اداکار شفاعت علی بھی اس بحث میں کود پڑے! معروف یوٹیوبر عادل راجہ نے اپنے ایکس (ٹوئٹر) پیغام میں لکھا: جماعت اسلامی کے ڈی چوک میں احتجاجی دھرنے کے دوران جس لیفٹیننٹ (ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی جنرل ندیم انجم کے بیٹے) نے ان کے کارکنوں پر گاڑی چڑھا ئی کیا وہ نشہ میں تھا؟ کیا وہ بھی منشیات کا استعمال کرتا ہے؟ کیا آئی ایس پی آر، آئی ایس آئی اور ہم خود سے ان سوالات کے جواب دے سکتے ہیں؟ عادل راجہ کے پیغام پر ردعمل دیتے ہوئے سینئر صحافی حسن ایوب خان نے لکھا: ایک کروڑ جھوٹے ایک طرف اور چب راجپوت فیملی سے تعلق رکھنے والا عادل راجا ان سب پر اکیلا بھاری ہے۔ اس کو بخوبی علم ہے کہ جنرل ندیم انجم کا بیٹا بلوچستان میں دہشتگردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے لیکن اس کے باوجود یہ شخص دانستہ جھوٹ پھیلا رہا ہے تاکہ عوام کو گمراہ کیا جا سکے! عادل راجہ نے ان کو جواب دیتے ہوئے لکھا:تم ڈی جی کے ترجمان نا بنو، یہ بتاؤ کہ تم بیوی بچہ گھر چھوڑ کر سوزین کیساتھ کون سی جنگ لڑ رہے ہو آجکل؟ حسن ایوب خان نے لکھا: ادھر اُدھر کی چھوڑ عادل راجا! اپنے انڈین مائی باپ کے فرمائشی پروگرام پر جھوٹ بیچنے کی قیمت وصول کرتے ہو اور قوم کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتے ہو۔ ڈی جی آئی ایس آئی کے بیٹے کو تم بلوچستان سے ڈی چوک لائے ہو تو اب بات کو ثابت بھی کرو ۔ عادل راجہ نے جواب میں لکھا: تم وہی ہو نا جس نے عدالت میں درخواست دی تھی کہ میرا باپ پاگل ہو گیا ہے؟ ہمیں عاق کر دیا؟ تمہارے ابو نے جو دوسری شادی کی، وراثت میں اسکا حصہ کھا لیا یہ بول کر؟ ندیم انجم کے چمچے تم یہ بتاؤ کہ ندیم انجم کی مالش کرنے کے صلے میں تمہیں گلبرگ گرین میں پلاٹ مل رہا ہے یا نہیں؟ ادھر اُدھر کی تو تم مار رہے ہو، سوزین کی بات کرو، ندیم انجم ہنی بنی کی اصلیت پوری قوم جانتی ہے اسے چھوڑو۔ یقین نہیں آتا تو اپنی پوسٹ کے نیچے کمنٹس پڑھ لیا کرو! حسن ایوب نے لکھا:تم تو انڈین ایجنٹ ہو اور یہ ہی داغ اپنے منہ پر لیکر اس دنیا سے جاؤگے! تمہیں آج پورا ملک لعنتیں بھیجتا ہے اور انہی لعنتوں کی وجہ سے تمہاری شکل بھی منحوس ہوچکی ہے۔ آج پاکستان کا بچہ بچہ تمہیں بھارتی خفیہ ایجنسی را کا ایجنٹ بول رہا ہے، تمہاری جگہ اگر کوئی غیرت مند ہوتا تو وہ اس ذلت سے تو مر جانا بہتر سمجھتا۔ سوشل میڈیا پر دونوں کی اس بحث کے درمیان معروف اداکار شفاعت علی نے لکھا: جس بندے کو گلبرگ گرین میں پلاٹ کا طعنہ دے رہے ہیں اس کا اپنا گھر بارہ ایکڑ کا ہے، درجنوں بلڈنگ پراجیکٹس کا بانی ہے اور اٹک میں 1600 ایکڑ زمین اس کے علاوہ ہے، کئی پلازوں کا مالک ہے اور صحافت اس کا جنون ہے۔ راجہ جی سے گزارش ہے کہ اپنے خاموش مجاہد سے صمد بانڈ کا نشہ چھڑوائیں! شفاعت علی کے پیغام پر ردعمل میں عادل راجہ نے لکھا:جس جائیداد کا ذکر آپ فرما رہے ہیں، وہ اسی باپ کی ہے جس کو آپ کا یار مرنے کے بعد عدالت میں پاگل قرار دے چکا ہے مگر یہ نہیں بتاتا کہ باپ کی موت بیرون ملک ویاگرا کھانے کی زیادتی سے ہوئی، جہاں وہ گرل فرینڈ کو نئی نویلی دلہن بناکر ہنی مون منانے گیا ہوا تھا۔ انہوں نے لکھا: تب ہی تو آپ کے یار کو شوقین مزاج دیما ویاگرا عرف ندیم انجم اتنا زیادہ پسند ہے کہ اسے اپنا باپ بنا رکھا ہے! آپ کے بھی روحانی باپ آج کل وہی تو نہیں؟ اگر ہاں تو اللہ ہدایت دے آپ لوگوں کو۔۔۔ واضح رہے کہ وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں سیو غزہ کیمپ پر تیزرفتار گاڑی چڑھا دی گئی جس سے 2 کارکن جاں بحق اور متعدد افراد زخمی ہو گئے تھے اور واقعہ کے بعد لاشوں اور زخمیوں کو ہسپتال منتقل کیا گیا تھا۔ ذرائع کا کہنا تھا کہ حادثہ گاڑی کے ٹائروں میں خاردار تاریں پھنسنے کے باعث پیش آیا تھا اور گاڑی کو تھانہ کوہسار منتقل کر دیا گیا تھا۔
مریم نواز اپوزیشن میں آزاد میڈیا کی علمبردار، حکومت میں آکر میڈیا پر ہی وار۔۔صحافیوں اور میڈیا پر پابندیاں۔۔ ہتک عزت کا قانون متعارف کرانیوالی وزیراعلیٰ پنجاب ماضی میں کیا کہتی رہیں؟ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز اقتدار میں آنے سے پہلے میڈیا کے خلاف متنازع قانون سازی پر تحریک انصاف کی حکومت کو تنقیدکا نشانہ بناچکی ہیں۔ مریم نواز نے17 نومبر 2021 کو صحافیوں کی تقریب سے خطاب میں کہا تھا کہ وہ تو میڈیا ریگولیشن پر یقین ہی نہیں رکھتیں۔ ان کا کہنا تھا کہ میڈیا ڈیولپمنٹ اتھارٹی صحافت کو زنجیروں میں جکڑنے کے برابر ہے. مریم نواز کا کہنا تھا کہ جب میڈیا کا گلا گھونٹا جاتا ہے تو پاکستان کا گلا گھونٹا جاتا ہے۔ عمران بھٹی نے اس پر کہا کہ بخشش سے آنے والے اقتدار میں آنے والے عوامی مفاد میں قانون سازی نہیں کرتے،اس نالائق ،نااہل اور ظالم حکومت نے اپنے جرائم کو چھپانےکے لے صحافت کو زنجیرمیں باندھنے کی کوشش کی ہے،،،مریم نواز ماضی کے جھروکوں سے ندیم رضا کا کہنا تھا کہ صحافیوں کے ہاتھ باندھے جانے سے متعلق قانون سازی پر مریم نواز شریف کے جرات مندانہ کلمات کا آج کی قانون سازی سے کیسے موازنہ کیا جائے گا؟ سلمان درانی نے ردعمل دیا کہ مریم نواز کو اسوقت بھی میڈیا کی آزادی سے کوئی لینا دینا نہیں تھا وہ تو بس اپنے چند پٹواری بابوں کی آزادی کی بات کررہی تھیں جن کو انہوں نے آج بھی پروپیگنڈا کیلئے رکھا ہوا ہے۔ قرآۃ العین نے طنز کیا کہ "میں تو میڈیا ریگولیشن میں بالکل یقین نہیں رکھتی"...جب مریم نواز وزیراعلی نہیں تھیں
سیکرٹری اطلاعات پاکستان تحریک انصاف رئوف حسن پر خواجہ سرائوں نے سیکٹر جی سیون میں بلیڈ سے وار کر کے ان کو زخمی کر دیا جس کے بعد انہیں ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے۔ رئوف حسن نجی ٹی وی چینل کے پروگرام میں شرکت کے بعد واپس جا رہے تھے کہ چند خواجہ سرائوں نے انہیں بلیڈ سے زخمی کر دیا اور زدوکوب کرتے رہے، واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج بھی سامنے آگئی ہے۔ سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ایکس (ٹوئٹر) پر سیاسی سماجی و صحافی حلقوں کی طرف سے شدید تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ سینئر صحافی صابر شاکر نے واقعے کی سی سی ٹی وی فوٹیج اپنے ایکس (ٹوئٹر) اکائونٹ سے شیئر کرتے ہوئے لکھا:رؤف حسن پر حملے کی CCTV فوٹیج ، حملہ آور خواجہ سراؤں کے روپ میں باہر کھڑے تھے، ایسا ہی حملہ سمیع ابراہیم پر بھی ہواتھا! سینئر صحافی سلمان درانی نے لکھا: رؤف حسن صاحب پر خواجہ سراؤں نے حملہ کیا؟ رؤف صاحب کاان سے کیا اختلاف ہوسکتا ہے ؟ علی ملک نامی سوشل میڈیا صارف نے رئوف حسن کے زخمی ہونے کے بعد کی ویڈیو شیئر کرتے ہوئے لکھا: رؤف حسن پر حملے کے پیچھے وہی ہے جو اس تمام خرابی کے پیچھے ہے، وہی جو SIFC والا ہے، وہی جو زراعت کا شعبہ بھی ہڑپ کرنا چاہتا ہے، وہی جس نے چادر اور چار دیواری کے تقدس کو پامال کیا، وہی جس نے عمران خان پر قاتلانہ حملے کروائے، وہی جو عدالتوں میں اپنے بندے بھیجتا ہے، وہی جو بغض کا مارا غیرمعیاری انسان ہے، وہی جو اپنے آپ کو عقل کل سمجھتا ہے۔ سلامت رہیں رئوف حسن صاحب! سینئر صحافی محمد عمیر نے لکھا: سمیع ابراہیم کے لئے استعمال کردہ آزمودہ نسخہ(خواجہ سراء) اس بار رئوف حسن پر آزمایا گیا، جیو فینسنگ کی جائے تو ویڈیو بنانے والا شخص پکڑا جاسکتا جو یقینی طور اس حملے کا سرغنہ ہے۔ مہر شرافت علی نے لکھا: جب دلیل سے جواب نہ دے سکو تو حملہ کردو،بڑے ہی کم ظرف مخالفین ہمیں ملے ہ!یں انفارمیشن سیکرٹری پی ٹی آئی رؤف حسن صاحب پر اس ملک کی ہر واردات میں استعمال ہونے والے نامعلوم افراد کا حملہ انتہائی قابل مذمت ہے، اگر کوئی یہ سوچ رہا ہے اس طرح کی گھٹیا حرکتوں سے ہمارا مورال پست ہوگا تو یہ اس کی بھول ہے! تحریک انصاف کے آفیشل اکائونٹ سے بھی رئوف حسن پر حملے کی خبر شیئر کرتے ہوئے لکھا گیا: مرکزی سیکرٹری اطلاعات رؤف حسن پر نجی چینل کے دفتر کے باہر نا معلوم افراد کا حملہ، سب سے بڑی جماعت کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات پر دن دیہاڑے، دارالحکومت میں نامعلوم افراد حملہ کر گئے۔ دارالحکومت میں کسی اور کی زندگی کیا ہی محفوظ ہونی ہیں؟؟ نہایت شرمناک اور قابلِ مذمت! سینئر صحافی عبید بھٹی نے لکھا:کہاوت ہے کہ خواجہ سرائوں کو تنگ نہیں کرنا چاہیے، ان کی بدعا سے بچنا چاہیے، جلدی لگ جاتی ہے لیکن روف حسن صاحب تو خواجہ سرائوں کے خلاف دھڑا دھڑ اور سخت پریس کانفرنسز کر رہے تھے اس لیے خواجہ سرا شدید غصے میں آگئے اور زبان کا جواب ہاتھ اور چاقو سے دیا! پاکستان تحریک انصاف کے سینئر رہنما عثمان ڈار کی والدہ ریحانہ ڈار نے بھی واقعے کی مذمت کرتے ہوئے لکھا: پی ٹی آئی سیکرٹری اطلاعات رئوف حسن پر حملہ شرمناک اور ایک سوچی سمجھی سازش کا شاخسانہ معلوم ہو رہا ہے۔ رئوف حسن کی جارحانہ انداز سے پارٹی کی بھرپور انداز میں ترجمانی بہت سے بزدلوں کو کھٹک رہی تھی۔ انہوں نے لکھا: میں اسلام آباد پولیس سے مطالبہ کرتی ہوں کہ سیف سٹی کیمروں اور سی سی ٹی وی فوٹیج کے سامنے آنے پر حملہ آوروں کو فی الفور گرفتار کر کے عوام کے سامنے لایا جائے۔ میں رئوف حسن بھائی کی جلد صحت یابی کیلئے دعا گو ہوں۔ عائشہ علی بھٹہ نے لکھا: گھروں سے اغوا کیا گیا، سڑکوں پر گھسیٹا گیا، تھانوں میں ذلیل کیا گیا، عدالتوں میں پیشیاں لگوائیں، جیلوں میں قید کیا! اب آخری حربہ یہی ہے کہ قاتلانہ حملوں سے ختم کیا جائے۔ رؤف حسن صاحب پر ہونے والا قاتلانہ حملہ نہایت تشویشناک ہے، اب تو عمر کا بھی لحاظ نہیں کیا جا رہا! سابق وفاقی وزیر چودھری فواد حسین نے لکھا: سیکرٹری اطلاعات پاکستان تحریک انصاف رؤف حسن پر حملہ پاکستان کی سیاسی اقدار پر حملہ ہے، تمام سیاستدانوں کو بلاتفریق جماعت یا سیاسی وابستگی اس حملے کی شدید مذمت کرنا چاہئے! پاکستان تحریک انصاف کے رہنما ڈاکٹر شہباز گل نے لکھا: یہ حال ہو گیا ہے ہماری ایجنسیز کا، ایک بزرگ پر حملہ کروانا بھی ان کے لئے فخر کا باعث ہو گا۔ اس حرکت کے علاوہ آپ سے توقع بھی کیا کی جا سکتی ہے۔ آپ نے رؤف حسن کو آواز اٹھانے، سچ بولنے پر سزا دی ہے، آپ کو شرم آنی چاہیے ایک بزرگ پر حملہ کرواتے ہوئے لیکن حملہ کروانے والوں کو یہ نہیں پتہ کہ زندگی، عزت، ذلت اللہ کے پاس ہے! سینئر صحافی معید پیرزادہ نے اپنے ایکس (ٹوئٹر) پیغام میں امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم اور امریکی وزیر خارجہ ٹونی بلنکن کو ٹیگ کرتے ہوئے لکھا: سیکرٹری اطلاعات تحریک انصاف رئوف حسن پر حملے کی یہ ویڈیو دیکھیں جن کی حال ہی میں سفیر سے ملاقات بھی ہوئی تھی! انہوں نے لکھا: اس حملے کے بارے میں سفارتخانے اور محکمہ خارجہ کی ٹیموں کے پاس مکمل معلومات ہوں گی کہ یہ کس نے کیا؟ اپنے آپ سے پوچھیں: کیا یہ "دہشت کا راج" آپ اور بائیڈن انتظامیہ ان کے ساتھ کھڑی ہو گی؟ آپ کب تک پاکستان کے جرائم پیشہ گروہوں کی حمایت کرتے رہیں گے؟
مطیع اللہ جان نے مسودہ شئیر کرتے ہوئے کہا کہ ہتک عزت متعلق پنجاب حکومت کے نئے مجوزہ قانون میں ٹریبونل کی تمام کاروائی پر فریقین سمیت کوئی شخص بات یا رائے زنی نہیں کر سکے گا اور اِس شق کے سادہ ترجمے کیمطابق تو عدالتی رپورٹر بھی کاروائی کو رپورٹ نہیں کر سکیں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ شق واضح طور پر آئین کی آرٹیکل ۱۹ اور ۱۹-اے کے منافی ہے جس میں آزادیِ صحافت اور آزادئی اظہار رائے پر محض اسلام کی عظمت، قومی سلامتی، دوسر ممالک سے تعلقات اور افواجِ پاکستان سے جڑی تنقید پر بندش ہے اور وہ بھی مناسب قانون سازی کے ذریعے۔ مطیع اللہ جان نے کہا کہ ایک طرف نواز شریف اپنا پرانا اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں تو دوسری طرف انکی دخترِ رائیونڈ آزادئیِ رائے کا گلا گھونٹ رہی ہیں۔ صحافی ثاقب بشیر نے ردعمل دیا کہ حکمران جماعت کو انقلاب ہمشیہ اس اپوزیشن میں یاد آتا ہے تب اپنے بنائے ہوئے قوانین پیکا کو بھی برا بھلا کہتے ہیں اب قانون بنانے سے پہلے اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت تک بھی نہیں کر رہے مہربخاری کا کہنا تھا کہ میڈیا لائبریریوں میں ایسی بے شمار تقاریر موجود ہیں جو اپوزیشن بنچز پر بیٹھنے والوں نے میڈیا کے حق میں کیں، مگر بنچ بدلے تو ارادے بھی 180 ڈگری سے بدل گئے مہر بُخاری کی رپورٹ کے مطابق پنجاب اسمبلی میں سوشل میڈیا اور صحافیوں کو ریگولیٹ کرنے کے لئے لاے گئے بل کے خلاف کالا قانون،کالے کرتوت نامنظور کے نعرے لگاۓ گئے اوراپوزیشن نے بل مسترد کر دیا جبکہ صحافیوں نے احتجاجا” اسمبلی سیشن کا بائیکاٹ کیا صحافیوں نے اس قانون کو صحافیوں کے حقوق پر شب خون قرار دیا جبکہ اسی قسم کا ایک قانون وفاق میں بھی لاۓ جانے کی تیاری کر لی گئی ہی مصطفیٰ نوازکھوکھر نے ردعمل دیا کہ پنجاب میں ہتک عزت کے قانون کے بعد ٹک ٹکرز ، سوشل میڈیا حتی کہ واٹس ایپ میسجز پر بھی لوگوں کے خلاف شکایت اور جرمانہ کیا جا سکے گا۔ صحافی اور یو ٹیوبرز بھی اس کی زَد میں آئیں گے۔ ٹریبیونل کا کنٹرول بھی حکومت کے پاس ہو گا۔ یہ ایک کالا قانون ہے۔ تنقید سے خائف حکومت اب شہریوں اور صحافیوں کو آڑے ہاتھ لے گی۔ مسلم لیگ ن کی تو یہ حالت ہے کہ “ہور کوئی خدمت ساڈے لائق؟” اس پر حسنات ملک نے کہا کہ پنجاب حکومت اس معاملے پر قانون سازی کرنے کی کتنی اہل ہے؟ ایک دن پی ایم ایل این اس ایکٹ پر توبہ کرے گی جیسا کہ انہوں نے پی ٹی آئی حکومت کے دوران پی ای سی اے قانون پر کیا تھا۔ صحافی نصرت جاوید کا کہنا تھا کہ پنجاب اسمبلی میں پیش کیے گئے بل کو پڑھنے کے بعد مجھے ایسا لگ رہا جیسے میں صحافی نہیں رہا، میں نے ساری عمر صحافت کو دی ہے اور میرا تمام تجربہ جو کچھ میں نے سیکھا، اس بل کے مطابق سے غلط ہے۔
فیصل واوڈا کا ایک پرانا کلپ وائرل ہورہا ہے جس میں وہ مصدق ملک سے متعلق انکے سامنے غلط بیانیاں کررہے ہیں اور مصدق ملک انکے جھوٹ بے نقاب کرتے جارہے ہیں۔ یہ کلپ اس وقت کا ہے جب فیصل واوڈا تحریک انصاف کا حصہ تھے اور عمران خان کی حکومت میں وفاقی وزیر آبی وسائل تھے۔ کامران شاہد کے شو میں فیصل واوڈا نے مصدق ملک کے سامنے دعویٰ کیا کہ وہ مشرف دور میں وزیر تھے جس پر مصدق ملک نے کہا کہ میں مشرف دور میں کبھی وزیر رہا ہی نہیں۔ مصدق ملک کو پہلی بار الیکشن 2013 میں نگران حکومت میں وفاقی وزیر پانی وبجلی کے طور پر متعارف کرایا گیا تھا، الیکشن کے بعد جب ن لیگ برسراقتدار آئی تو مصدق ملک مسلم لیگ ن کا حصہ بن گئے تھے اور پھر انکی حکومت میں وزیر رہے۔ فیصل واوڈا نے دوسرا دعویٰ یہ کیا کہ وہ دبئی میں رائل فیملی کے ڈاکٹر رہے ہیں جس پر مصدق ملک نے کہا کہ میں نے تو ڈاکٹری کی ہی نہیں، میں تو پی ایچ ڈی ہوں اور ڈاکٹریٹ کی ڈگری ہے۔مجھے بتائیں کہ میں نے کہاں سے ایم بی بی ایس کی ڈگری لی ہے۔ مصدق ملک نے فیصل واوڈا سے یہ بھی کہا کہ میں کبھی دبئی میں رہا ہی نہیں ہوں۔جھوٹ کے پیر ہوتے ہیں؟ اس پر صحافی اے وحید مراد نے کہا کہ ازخود نوٹس کیس میں اگر فیصل واوڈا یہی کام کر لے تو مزہ دوبالا
ڈاکٹر عفان نے کچھ روز قبل تربوز ایک وی لاگ کیا جس پر سوشل میڈیا صارفین اور تربوز بیچنے والے دکاندار شدید غصے میں ہیں۔ ڈاکٹر عفان نے دعویٰ کیا تھا کہ دکاندار حضرات توبوز کو لال رکھنے اور میٹھا کرنے کیلئے اس میں انجکسشن لگاتے ہیں اور یہ انجکشن ہیضہ ، کینسر اور دیگر بیماریاں پھیلاتا تھا۔ ڈاکٹر عفان نے کہا کہ اگر آپ ٹشو پیپر لین اور اسے کٹے ہوئے تربوز پر پھیریں، اگر ٹشو پیپر لال ہوجائے تو سمجھیں کہ تربوز کو ٹیکہ لگا ہوا ہے۔ ڈاکٹر نےمزید کہا کہ تربوز کھانے سے فوڈ پوائزنگ/ہیضہ اس لئے ہوجاتا ہے کہ تربوز میں انجکشن کے ذریعے سرخ رنگ منتقل کیا جاتا ہے جس کو سفید صاف کپڑے/ٹشو سے صاف کرنے پہ ظاہر ہوتا اگر رنگ لگ جائے تو مت کھائیں اور اگر نہ لگے تو وہ اصل ہے، جس کو بلاجِھجھک کھایا جاسکتا بعد ازاں ڈاکٹر عفان نے یہ بھی کہا کہ میری ویڈیو وائرل ہونے کے بعد تربوز سستے ہوگئے ہیں جس پر سوشل میڈیا صارفین شدید غصے میں آگئے اور یوٹیوب، ٹک ٹاک پر وی لاگز اور ویڈیوز کا سلسلہ شروع ہوگیا اور ڈاکٹر عفان کے دعوے کو جھوٹا ثابت کر تے رہے۔ ان کا کہنا تھا کہ توبوز کو ایک بار ٹیکہ لگ جائے تو اس سے پانی رسنا شروع ہوجاتا ہا ور چند ہی گھنٹوں بعد وہ خراب ہوجاتا ہے اس پر کئی لوگوں نے عملی مظاہرہ بھی کرکے دکھایا۔ ایک کاشتکار نے ڈاکٹر عفان کو کھری کھری سنادیں اور کہا کہ یہ کیسا بے شرم انسان ہے جو دانت نکال کر کہہ رہا ہے کہ میں نے تربوز سستے کروادئیے، اگر کچھ سستا کروانا ہی ہے تو بجلی سستی کرواؤ اور لوگوں کی ضرورت کی چیزیں سستی کراؤ کاشتکار کا مزید کہنا تھا کہ میں کاشتکاری کرتا ہوں یہاں دیہاتوں کے دیہات تربوز اگاتے ہیں میں نے کسی کو تربوز کو ٹیکے لگاتے نہیں دیکھا،تمہاراکیا کام ہے کاشتکاری سے؟ حمزہ وقار نے اس پر کہا کہ ڈاکٹر محمد عفان قیصر کا تربوز میں شوگر سیرپ اور کلر لگانے کا دعویٰ گمراہ کن اور جھوٹا ہے۔ یہ عمل غیر قانونی اور غیر اخلاقی ہے۔ عفان، آپ کے پاس کوئی ثبوت نہیں ہے، کوئی لیب ٹیسٹ رپورٹ نہیں ہے، اور آپ کے دعووں کی حمایت کے لیے کوئی تحقیق نہیں ہے۔ آپ کا مشن صرف آراء اور شہرت حاصل عدنان نے کہا کہ میں تو اس بات سے اتفاق کرتا ہوں کہ تربوز کو انجیکشن نہیں لگائے جاتے کیوں زیادہ تر صحیح پکنے کے بعد قدرتی لال ہوتے ہیں. آپ ایک کھیت میں ہزاروں تربوز کو کیسے انجیکشن لگا سکتے ہیں؟ایک سے یہ سارا گودا لال بھی نہیں ہو سکتا اور یہ کچھ گھنٹوں میں گلنا شروع ہو جائے گا انجیکشن سے تربوز کے اندر سائیڈ والی قدرتی سفید جلد بھی لال ہو جائے گی،دوسری بات یہ کہ دکانوں اور گھروں میں تربوز کچھ دن پڑا رہے تو گلتا بھی نہیں ہے آپ لوگوں کا کیا خیال ہے؟