آیت 229 سورہ بقرہ کا لفظ بہ لفظ تفصیل !!! قرآنِ کریم کی اس آیتِ مقدسہ نے (جس کو ”آیتِ خلع“ کہا جاتا ہے) خلع کے معاملے میں اوّل سے آخر تک میاں بیوی دونوں کو برابر کے شریک قرار دیا ہے، مثلاً: y:…”اِلَّآ اَنْ یَخَافَا“ (اِلَّا یہ کہ میاں بیوی دونوں کو اندیشہ ہو)۔ y:…”اَلَّا یُقِیْمَا“ (کہ وہ دونوں قائم نہیں کرسکیں گے اللہ تعالیٰ کی حدود کو)۔ y:…”فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا“ (پس اگر تم کو اندیشہ ہو کہ وہ دونوں خداوندی حدود کو قائم نہیں کرسکیں گے)۔ y:…”فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا“ (تب ان دونوں پر کوئی گناہ نہیں)۔ y:…”فِیْمَا افْتَدَتْ بِہ“ (اس مال کے لینے اور دینے میں، جس کو دے کر عورت قیدِ نکاح سے آزادی حاصل کرے)۔ فرمائیے! کیا پوری آیت میں ایک لفظ بھی ایسا ہے جس کا مفہوم یہ ہو کہ عورت جب چاہے شوہر کی رضامندی کے بغیر اپنے آپ خلع لے سکتی ہے؟ اس کے لئے شوہر کی رضامندی یا مرضی کی کوئی ضرورت نہیں؟ آیت شریفہ میں اوّل سے آخر تک ”وہ دونوں، وہ دونوں“ کے الفاظ مسلسل استعمال کئے گئے ہیں، جس کا مطلب اناڑی سے اناڑی آدمی بھی یہ سمجھنے پر مجبور ہے کہ: ”خلع ایک ایسا معاملہ ہے جس میں میاں بیوی دونوں برابر کے شریک ہیں، اور ان دونوں کی رضامندی کے بغیر خلع کا تصوّر ہی ناممکن ہے۔“ یاد رہے کہ پوری اُمت کے علماء و فقہاء اور اَئمہ دِین نے آیت شریفہ سے یہی سمجھا ہے کہ خلع کے لئے میاں بیوی دونوں کی رضامندی شرط ہے،