بھارت: اب مریضوں کے علاج میں بھی مذہبی تعصب
https://twitter.com/x/status/1250485071062151169
بھارت میں بڑھتے ہوئے مذہبی تعصب نے اب طبی شعبے کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا ہے، جس کی تازہ مثال گجرات میں احمد آباد کا ایک سرکاری اسپتال ہے جہاں کورونا کے ہندو اور مسلم مریضوں کو الگ الگ وارڈوں میں رکھا جارہا ہے۔
ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی گجرات حکومت نے حالانکہ اس طرح کے کسی واقعے پر لاعلمی کا اظہار کیا ہے تاہم اسپتال کا دعوی ہے کہ اس نے یہ قدم حکومت ہی کی ایما پر اٹھایا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات کے احمد آباد میں اتوار کی شام کو ہی کووڈ۔انیس کے ہندو اور مسلم مریضوں کو الگ الگ آئسولیشن وارڈوں میں منتقل کردیا گیا تھا۔ جب یہ بات عام ہوئی تو خاصا تنازعہ کھڑا ہوگیا اور مختلف سماجی حلقوں نے اس پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے انتہائی غیر معمولی اور افسوس ناک واقعہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آزاد بھارت میں گذشتہ سات دہائیوں کے دوران اس طرح کا مذہبی تعصب کبھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ یہ نہ صرف غیر انسانی بلکہ غیر آئینی بھی ہے۔
بھارت میں بہت سے اسپتالوں کو کورونا وائرس کے مریضوں کے علاج کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔ احمد آباد کا سرکاری سول اسپتال بھی ان میں سے ایک ہے جہاں بارہ سو بستر الاٹ کیے گئے ہیں۔ اس اسپتال میں کووڈ۔انیس کے اب تک 150مریض زیرعلاج ہیں جبکہ 36 دیگر افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ انہیں فی الحال ایک علیحدہ وارڈ میں رکھا گیا ہے۔
ہسپتال کے ذرائع نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ 150میں سے کم از کم 40 مریضوں کا تعلق مسلم فرقے سے ہے۔ انہیں گزشتہ ہفتے اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ ایک مسلمان مریض کے رشتے دار نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا”اتوار کی شام کو اسپتال کے حکام نے انہیں کہا کہ ہندو اورمسلمان مریضوں کو الگ الگ وارڈوں میں رکھا جائے گا۔ اس کے بعد مسلم مریضوں کو فوراً دوسرے وارڈ میں منتقل کردیا گیا۔“
اسپتال کے سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر گن ونت راٹھور کا کہنا ہے کہ یہ قدم ریاستی حکومت کے گائیڈ لائنس کے مطابق اٹھایا گیا ہے، تاہم انہوں نے مزید کچھ کہنے سے انکار کردیا۔ دوسری طرف گجرات کے نائب وزیر اعلی اور وزیر صحت نیتن پٹیل کا کہنا ہے کہ انہیں اس واقعے کے بارے میں قطعی کوئی علم نہیں ہے۔
احمد آباد کے سرکاری سول اسپتال میں کووڈ۔انیس کے ہندو اور مسلم مریضوں کو الگ الگ آئسولیشن وارڈوں میں منتقل کردیا گیا ہے
ذرائع کے مطابق ہسپتال کے حکام نے اتوار کی شام ابتدا میں 28 نام پکارے۔ یہ سب کے سب مسلمان تھے۔ ان سب سے کہا گیا کہ انہیں دوسرے وارڈ میں لے جایا جائے گا۔ ہسپتال کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہیں کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ”ایسا دونوں فرقے کے فائدے کے لیے ہی کیا گیا ہے۔ کیوں کہ دہلی میں تبلیغی جماعت کے مرکزمیں شرکت کی وجہ سے کورونا کے پھیلنے کی خبر سے ہندو مریضوں میں خوف پیدا ہوگیا تھا اور اسی لیے دونو ں فرقوں کے مریضوں کو الگ الگ آئسولیشن وارڈوں میں منتقل کردیا گیا تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہونے پائے۔“
ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ ایک سرکاری اسپتال میں ہندو اور مسلمانوں کو الگ الگ وارڈوں میں رکھنے کا فیصلہ کس کی ہدایت پر کیا گیا، لیکن اس نے ملک میں ایک نیا تنازع ضرور پیدا کردیا ہے اور اس کے ساتھ ہی بھارت میں فرقہ وارانہ تعصب کے حوالے سے ایک نئی بحث بھی چھڑ گئی ہے۔
آئینی امور کے ماہر امل مکھرجی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ”گجرات کے ہسپتال میں جو کچھ ہوا وہ غیرانسانی اور غیر آئینی ہے۔ بھارتی آئین کے دفعات21 تا 25 میں سیکولرزم کے پس منظر کو بیان کیا گیا ہے ۔سیکولرزم کا لفظ بھارت کی آئین کی تمہید میں بھی موجود ہے۔ ذات اور مذہب کی بنیاد پر کسی مریض کی نشاندہی کرنا اور اسے الگ تھلگ کرنا قانوناً جرم ہے۔“
ایک سرکاری ہسپتال میں ملازمت کے بعد سبکدوش ہوچکے ڈاکٹر ستیاکی ہلدھر بھی ڈاکٹر مکھرجی کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں ”مریض کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ پوری دنیا میں ایم بی بی ایس پاس کرنے کے بعد ہر ڈاکٹر کو حلف لینا پڑتا ہے، جس میں ڈاکٹر یہ حلف لیتا ہے کہ وہ نسل، مذہب اور ذات و زبان کی بنیاد پر کسی بھی مریض کے ساتھ تعصب نہیں کرے گا۔ ڈاکٹر کے لیے ہر مریض برابر ہے۔ لیکن گجرات کے واقعے نے طب کی بنیادی اخلاقیات کو چیلنج کردیا ہے۔ یہ افسوس ناک ہے۔“
دہلی کے تبلیغی جماعت مرکز واقعہ کے بعد بھارت میں کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے لیے مسلمانوں کو مورد الزام ٹھرانے کی کوشش کی جارہی ہے
بائیں بازو کی اپوزیشن جماعت سی پی ایم کی مرکزی کمیٹی کے رکن سجان چکرورتی نے ڈی ڈبلیو سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا کہ ”بھارت کی حکمراں جماعت ایک عرصے سے منافرت پھیلانے کی کوشش کررہی ہے۔ اسے آئین کا ذرا بھی پاس و لحاظ نہیں ہے۔ تعصب کی سیاست ہی اس کا ہمیشہ سے مقصد رہا ہے۔“
دوسری طرف حکمراں جماعت بی جے پی کے جنرل سکریٹری سناتن بوس کو اس واقعے میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی ہے۔ انہوں نے کہا”اگر ڈاکٹر وں کو یہ لگا کہ ہندووں اور مسلمانوں کو الگ الگ کرکے علاج کرنے سے مریضوں کو کچھ فائدہ ہوسکتا ہے تو اس میں کیا قباحت ہے۔ حکومت نے یہ فیصلہ ڈاکٹروں کے مشورے پر ہی کیا ہوگا۔“
ڈاکٹروں کا تاہم کہنا ہے کہ کسی ڈاکٹر کے لیے اس طرح کا مشورہ دینا ممکن نہیں ہے۔ بیماری اور علاج کا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ جولوگ اس معاملے میں ڈاکٹروں کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلانے کی کوشش کررہے ہیں وہ یا تو جھوٹ بول رہے ہیں یا حقیقت سے آنکھیں چرانے کی کوشش کررہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گجرات کے ہسپتال میں جو واقعہ پیش آیا ہے اگراس طرح کا رجحان عام ہوگیا تو اس کے انتہائی خطرناک اور دور رس مضمرات ہوں گے اور بھارت میں مذہبی شدت پسندی شدید تر ہوجائے گی۔
Source
https://twitter.com/x/status/1250485071062151169
بھارت میں بڑھتے ہوئے مذہبی تعصب نے اب طبی شعبے کو بھی اپنی گرفت میں لے لیا ہے، جس کی تازہ مثال گجرات میں احمد آباد کا ایک سرکاری اسپتال ہے جہاں کورونا کے ہندو اور مسلم مریضوں کو الگ الگ وارڈوں میں رکھا جارہا ہے۔
ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت والی گجرات حکومت نے حالانکہ اس طرح کے کسی واقعے پر لاعلمی کا اظہار کیا ہے تاہم اسپتال کا دعوی ہے کہ اس نے یہ قدم حکومت ہی کی ایما پر اٹھایا ہے۔
وزیر اعظم نریندر مودی کی آبائی ریاست گجرات کے احمد آباد میں اتوار کی شام کو ہی کووڈ۔انیس کے ہندو اور مسلم مریضوں کو الگ الگ آئسولیشن وارڈوں میں منتقل کردیا گیا تھا۔ جب یہ بات عام ہوئی تو خاصا تنازعہ کھڑا ہوگیا اور مختلف سماجی حلقوں نے اس پر شدید نکتہ چینی کرتے ہوئے اسے انتہائی غیر معمولی اور افسوس ناک واقعہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ آزاد بھارت میں گذشتہ سات دہائیوں کے دوران اس طرح کا مذہبی تعصب کبھی دیکھنے کو نہیں ملا۔ یہ نہ صرف غیر انسانی بلکہ غیر آئینی بھی ہے۔
بھارت میں بہت سے اسپتالوں کو کورونا وائرس کے مریضوں کے علاج کے لیے مخصوص کیا گیا ہے۔ احمد آباد کا سرکاری سول اسپتال بھی ان میں سے ایک ہے جہاں بارہ سو بستر الاٹ کیے گئے ہیں۔ اس اسپتال میں کووڈ۔انیس کے اب تک 150مریض زیرعلاج ہیں جبکہ 36 دیگر افراد میں کورونا وائرس کی تصدیق ہوئی ہے۔ انہیں فی الحال ایک علیحدہ وارڈ میں رکھا گیا ہے۔
ہسپتال کے ذرائع نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے بتایا کہ 150میں سے کم از کم 40 مریضوں کا تعلق مسلم فرقے سے ہے۔ انہیں گزشتہ ہفتے اسپتال میں داخل کیا گیا تھا۔ ایک مسلمان مریض کے رشتے دار نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا”اتوار کی شام کو اسپتال کے حکام نے انہیں کہا کہ ہندو اورمسلمان مریضوں کو الگ الگ وارڈوں میں رکھا جائے گا۔ اس کے بعد مسلم مریضوں کو فوراً دوسرے وارڈ میں منتقل کردیا گیا۔“
اسپتال کے سپرنٹنڈنٹ ڈاکٹر گن ونت راٹھور کا کہنا ہے کہ یہ قدم ریاستی حکومت کے گائیڈ لائنس کے مطابق اٹھایا گیا ہے، تاہم انہوں نے مزید کچھ کہنے سے انکار کردیا۔ دوسری طرف گجرات کے نائب وزیر اعلی اور وزیر صحت نیتن پٹیل کا کہنا ہے کہ انہیں اس واقعے کے بارے میں قطعی کوئی علم نہیں ہے۔
احمد آباد کے سرکاری سول اسپتال میں کووڈ۔انیس کے ہندو اور مسلم مریضوں کو الگ الگ آئسولیشن وارڈوں میں منتقل کردیا گیا ہے
ذرائع کے مطابق ہسپتال کے حکام نے اتوار کی شام ابتدا میں 28 نام پکارے۔ یہ سب کے سب مسلمان تھے۔ ان سب سے کہا گیا کہ انہیں دوسرے وارڈ میں لے جایا جائے گا۔ ہسپتال کے ایک اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہیں کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ”ایسا دونوں فرقے کے فائدے کے لیے ہی کیا گیا ہے۔ کیوں کہ دہلی میں تبلیغی جماعت کے مرکزمیں شرکت کی وجہ سے کورونا کے پھیلنے کی خبر سے ہندو مریضوں میں خوف پیدا ہوگیا تھا اور اسی لیے دونو ں فرقوں کے مریضوں کو الگ الگ آئسولیشن وارڈوں میں منتقل کردیا گیا تاکہ کوئی ناخوشگوار واقعہ رونما نہ ہونے پائے۔“
ابھی تک یہ واضح نہیں ہوسکا ہے کہ ایک سرکاری اسپتال میں ہندو اور مسلمانوں کو الگ الگ وارڈوں میں رکھنے کا فیصلہ کس کی ہدایت پر کیا گیا، لیکن اس نے ملک میں ایک نیا تنازع ضرور پیدا کردیا ہے اور اس کے ساتھ ہی بھارت میں فرقہ وارانہ تعصب کے حوالے سے ایک نئی بحث بھی چھڑ گئی ہے۔
آئینی امور کے ماہر امل مکھرجی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ ”گجرات کے ہسپتال میں جو کچھ ہوا وہ غیرانسانی اور غیر آئینی ہے۔ بھارتی آئین کے دفعات21 تا 25 میں سیکولرزم کے پس منظر کو بیان کیا گیا ہے ۔سیکولرزم کا لفظ بھارت کی آئین کی تمہید میں بھی موجود ہے۔ ذات اور مذہب کی بنیاد پر کسی مریض کی نشاندہی کرنا اور اسے الگ تھلگ کرنا قانوناً جرم ہے۔“
ایک سرکاری ہسپتال میں ملازمت کے بعد سبکدوش ہوچکے ڈاکٹر ستیاکی ہلدھر بھی ڈاکٹر مکھرجی کے موقف کی تائید کرتے ہوئے کہتے ہیں ”مریض کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ پوری دنیا میں ایم بی بی ایس پاس کرنے کے بعد ہر ڈاکٹر کو حلف لینا پڑتا ہے، جس میں ڈاکٹر یہ حلف لیتا ہے کہ وہ نسل، مذہب اور ذات و زبان کی بنیاد پر کسی بھی مریض کے ساتھ تعصب نہیں کرے گا۔ ڈاکٹر کے لیے ہر مریض برابر ہے۔ لیکن گجرات کے واقعے نے طب کی بنیادی اخلاقیات کو چیلنج کردیا ہے۔ یہ افسوس ناک ہے۔“
دہلی کے تبلیغی جماعت مرکز واقعہ کے بعد بھارت میں کورونا وائرس کی وبا پھیلنے کے لیے مسلمانوں کو مورد الزام ٹھرانے کی کوشش کی جارہی ہے
بائیں بازو کی اپوزیشن جماعت سی پی ایم کی مرکزی کمیٹی کے رکن سجان چکرورتی نے ڈی ڈبلیو سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا کہ ”بھارت کی حکمراں جماعت ایک عرصے سے منافرت پھیلانے کی کوشش کررہی ہے۔ اسے آئین کا ذرا بھی پاس و لحاظ نہیں ہے۔ تعصب کی سیاست ہی اس کا ہمیشہ سے مقصد رہا ہے۔“
دوسری طرف حکمراں جماعت بی جے پی کے جنرل سکریٹری سناتن بوس کو اس واقعے میں کوئی خرابی نظر نہیں آتی ہے۔ انہوں نے کہا”اگر ڈاکٹر وں کو یہ لگا کہ ہندووں اور مسلمانوں کو الگ الگ کرکے علاج کرنے سے مریضوں کو کچھ فائدہ ہوسکتا ہے تو اس میں کیا قباحت ہے۔ حکومت نے یہ فیصلہ ڈاکٹروں کے مشورے پر ہی کیا ہوگا۔“
ڈاکٹروں کا تاہم کہنا ہے کہ کسی ڈاکٹر کے لیے اس طرح کا مشورہ دینا ممکن نہیں ہے۔ بیماری اور علاج کا مذہب سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ جولوگ اس معاملے میں ڈاکٹروں کے کندھے پر بندوق رکھ کر چلانے کی کوشش کررہے ہیں وہ یا تو جھوٹ بول رہے ہیں یا حقیقت سے آنکھیں چرانے کی کوشش کررہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گجرات کے ہسپتال میں جو واقعہ پیش آیا ہے اگراس طرح کا رجحان عام ہوگیا تو اس کے انتہائی خطرناک اور دور رس مضمرات ہوں گے اور بھارت میں مذہبی شدت پسندی شدید تر ہوجائے گی۔
Source
Coronavirus (COVID-19): The coronavirus patients and suspected cases at Ahmedabad Civil Hospital, where 1,200 beds have been set aside for COVID-19, have been segregated into wards depending on their faith. While Medical Superintendent Dr Gunvant H Rathod said a ward for Hindu patients and another for Muslim patients had been created as per a state government decision, Deputy Chief Minister and Health Minister Nitin Patel denied any knowledge of it.
Dr Rathod said, “Generally, there are separate wards for male and female patients. But here, we have made separate wards for Hindu and Muslim patients.” On being asked the reason for such a segregation, Dr Rathod said, “It is a decision of the government and you can ask them.”
As per hospitalisation protocol, a suspected COVID-19 case is kept in a separate ward from those confirmed, as long as the test results are pending. As many as 150 of the 186 people admitted in the hospital for coronavirus are positive. According to sources in the hospital, at least 40 of the 150 are Muslims.

Ahmedabad hospital splits COVID wards on faith, says govt decision
As per hospitalisation protocol, a suspected COVID-19 case is kept in a separate ward from those confirmed, as long as the test results are pending.

- Featured Thumbs
- https://i.imgur.com/IVkxwmj.jpg
Last edited by a moderator: