نقشِ فریادی
MPA (400+ posts)

پاکستانی سیاست میں ایک عجیب پہلو یہ ہے کہ ہر بات کو جان بوجھ کر اتنا الجھایا جاتا ہے کہ حقیقت تک رسائی ایک عام انسان کے بس میں نہیں رہتی۔اس کارِ کیر میں میڈیا کا کردار بلاشبہ کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ایسے عنوانات اور موضوعات منتخب کیے جاتے ہیں کہ جو بات کرنا مقصود ہو بحث اسی کے ارد گرد رکھی جاتی ہے۔اور اگر شرکا میں سے کوئی حقیقت کی طرف جانا چاہے تو اینکر فوری مداخلت کرتا اور اسے روک دیتا ہے۔ یہ کام اتنی مہارت سے کیا جاتا ہے کہ بظاہر ایسا محسوس ہاتا ہے جیسے اپنے شکار کی حمایت کی جا رہی ہے جبکہ حقیقت میں اسے بدنام کیا جا رہا ہوتا ہے۔ حامد میر اس کام کا بہت ماہر ہے۔ اسی صورتِ حال کو دیکھتے ہوئے میں نے فیصلہ کیا ہے کہ سیاسی صورتِ حال کا نئے سرے سے تجزیہ کرتے ہوئے یہ طے کیا جائے کہ عوام کو ووٹ کسے اور کیوں دینا چاہیے۔ ممکن ہے کہ اس کوشش سے بہت سے لوگوں کا بھلا ہو جائے۔ احباب سے گزارش ہے کہ سنجیدگی سے تبصرہ کریں اور وہ احباب جو مخالفت کرنا چاہتے ہیں دلیل سے مخالفت کریں اور مجھے قائل کریں۔میں کھلے دل سے ان کا قائل ہونے کے لیے تیار ہوں بشرطیکہ دلائل سنجیدہ اور معقول ہون اور اگر انھیں میری بات معقول لگے تو مہربانی فرما کر وہ بھی قائل ہو جائیں۔
جب ووٹ دینے کا سوال ہے تو سب سے پہلے ہمیں یہ طے کرنا چاہیے کہ ہم ووٹ کیوں دیتے ہیں؟ کیا یہ سرگرمی جو مہذب ملکون میں چار پانچ سال کے بعد اور ہمارے ملک میں بے ترتیبی سے غیر میعین وقفوں کے بعد ہوتی ہے، ایک بے کار اور محض تفریحِ طبع کے لیے برپا کی جانے والی سرگرمی ہے؟ کیا اس کا مقصد صرف یہ ہو تا ہے کہ کاروبار اور ملازمت سے چھٹی ہو اور قیمے والے نان کھا کر دو چار نعرے لگائے جائیں؟ نہین اہسا نہیں، اور اگر ایسا نہیں تو پھر یہ سرگرمی کیوں؟ یہ جمہوریت ہوتی کیا ہے؟ نظام کہتے کسے ہیں؟ حکومت چلتی کیسے ہے؟ اپوزیشن کیا ہوتی ہے اور اس کا کردار کیا ہوتا ہے؟ کرپشن کیا ہوتی ہے اور کیوں اور کیسے ہوتی ہے؟ بنیادی حقوق کیا ہوتے ہیں ؟ بنیادی حقوق کی پاسداری اور حفاظت کس کا کام ہے؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب ہمیں یہ سمجھنے میں مدد دے سکتا ہے کہ ہم ووٹ دینے کا فیصلہ کیسے کریں۔
اس طرح پہلا سوال یہ ہے کہ ہم ووٹ کیوں دیتے ہیں؟
ہر معاشرے کی تشکیل میں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ کو کلیدی حیثیت حاصل ہے۔ بنیادی حقوق کا تعین بنیادی ضروریات سے ہوتا ہے۔اور انسان کی بنیادی ضروریات اپنی اہمیت کے اعتبار سے کچھ یوں ہین
1۔ سانس لینا
2 کھانا
3۔ پانی
4۔ جنسی ضروریات
5۔ پرورش کا ماحول
6 تجہیز و تکفین
7 جسم کی حفاظت
8 روزگار کی حفاظت
9 ذرائع( پیداوار وغیرہ) کی حفاظت
10 اخلاقیات کی حفاظت
11 خاندان کی حفاظت
12 صحت کی حفاظت
13 جائداد کی حفاظت
14 ذاتی تشخص
15 اعتماد
16 عزتِ نفس
یہ فہرست ابھی مکمل نہیں ۔ بنیادی انسانی ضروریات کا ادراک کرنے کے خواہشمند احباب انٹر نیٹ پر تلاش کریں تو بے شمار زرائع مل جائیں گے۔ ان ضروریات کی بنیاد پر بنیادی انسانی حقوق کا تعین ہوتا ہے ان میں سے کچھ حقوق مندرجہ ذیل ہیں
1۔ زندہ رہنے کا حق
2 صحت تعلیم روزگار امن و امان وغیرہ
3 اظہارِ رائے
4 انصاف کی فراہمی
ان کے علاوہ بنیادی حقوق کی ایک طویل فہرست ہے لیکن اپنا نقطہِ نظر واضح کرنے کے لیے فی الحال انہی حقوق کو بطور مثال پیش کیا جائے گا
معاشرہ اس لیے تشکیل پاتا ہے کہ اس میں رہنے والے سب انسانوں کو ان کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لیے بنیادی حقوق دیے جائیں۔اس مقصد کے لیے نظام تشکیل دیا جاتا ہے۔ مثلا بادشاہت، اشتراکیت اور جمہوریت وغیرہ۔ اس وقت دنیا میں سب سے مقبول نظام جمہوریت ہے جس میں لوگ اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں تاکہ وہ نمائندے ان کے حقوق کا تحفظ کر سکیں اور ان کی بنیادی ضروریات کی تکمیل کے لیے انتظامات کریں۔ اس خدمت کے بدلے میں ان نمائندوں کو معاشرے میں ایک معزز مقام دیا جاتا ہے اور وہ عوام کے ٹیکس کے امین ہوتے ہیں۔ ان کا کام یہ ہوتا ہے کہ وہ ایسی قانون سازی کریں جو ایک عام انسان کو اس کے بنیادی حقوق کی فراہمی میں معاون ثابت ہو۔ مثلا امن و امان کی فراہمی ان نمائندون کی ذمہ داری ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے انھیں ایک ادارے کی خدمات حاصل ہیں جو پولیس کہلاتا ہے۔ اب ان نمائندوں کا فرض ہے کہ اس ادارے کو عوام کے لیے استعمال کریں اور ایسی فضا بنائیں کہ عام انسان کو زندگی گزارنے کے لیے سازگار ماحول ملے۔ یا مثلا تعلیم بنیادی حق ہے اور اس کی تکمیل کے انتظامات اور قانون سازی ان نمائندوں کا فرض۔ اب اگر کوئی ادارہ یا کوئی قوت عوام کے ان بنیادی حقوق کو غصب کرنا چاہے تو اس قوت کا راستہ روکنے اور عوام کو اس کے ناجئز قبضے سے بچانا بھی ان نمائندوں کا فرض ہے۔ بادشاہت میں یہ نمائندے نہیں ہوتے بلکہ سب سے طاقتور لوگ ایک گروہ بنا کر دوسروں پر اپنی مرضی مسلط کرتے ہیں۔ جمہوریت اور بادشاہت میں سب سے بڑا فرق اپوزیشن کا ہوتا ہے۔ بادشاہت میں اپوزیشن نہیں ہوتی۔
اب میں اپنے موضوع کی طرف آتا ہوں کہ ہم ووٹ کیوں دیتے ہیں۔ ہم ووٹ اس لیے دیتے ہیں کہ ہمارے منتخب نمائندے ہمارے بنیادی حقوق کا تحفظ کریں اور ہمیاں ایک ایسا معاشرہ دین جہاں ہم سازگار ماحول میں اپنی زندگی گزار سکیں۔ اگر ہمارے نمائندے جو حکومت میں ہیں ایسا نہ کریں تو اپوزیشن کا فرض ہے کہ انھیں راہ راست پر لائے۔ اور اگر ہمارے نمئندے ایسا نہیں کرتے تو ہمارا ووٹ دینا بے کار ہے۔
ان گزارشات کو ذہن میں رکھتے ہوئے سوچیں
1 قیامِ پاکستان سے اب تک کیا کبھی عوام نے یہ سوچ کر ووٹ دفیے کہ یہ نمائندے ہمارے بنیادی حقوق کے محافظ ہیں؟
2۔ قیامِ پاکستان سے اب تک کبھی بھی ان نمائندوں نےسوچا کہ عوام کے بنیادی حقوق کیا ہیں؟
3۔ 1970 سے آج تک جتنے نمائندے منتخب ہوئے ان میں سے کتنے تبدیل ہوئے؟ یعنی کیا یہ وہی نمائندے نہیں ہیں جو ہمیشہ سے تھے سوائے ان کے جو مر گئے؟( نواب زادہ نصراللہ وغیرہ)
4 جب ہم یہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے حالات خراب ہیں تو ہم یہی نہیں کہ رہے ہوتے کہ ان نمائندون نے اپنا فرض ادا نہیں کیا اور یہ نااہل تھے؟
مجھے اپنے ان تمام دوستون سے سخت شکایت ہے جو پہلا مرحلہ طے کیے بغیر دوسرے مرحلے کی بات کرتے ہیں
پہلا مرحلہ یہ ہے کہ کیا ہم نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ ہمارے پرانے نمائندے نااہل تھے؟ کیا ہم ان پرانے نمائندوں کو آئندہ ووٹ نہیہں دیں گے؟
اگر ہم نے یہ طے نہیں کیا اور ہم خود ان نمائندوں میں شامل نہیں ہیں تو ہمیں کوئی حق حاصل نہیں کہ ہم یہ رائے دیں کہ آگے کس کو ووٹ دینا ہے یا کون اچھا ہے۔ اس لیے کہ آپ نے تو پرانی گاڑی چھوڑی ہی نہیں آپ کو کیا غرض کہ آگے کون سی گاڑی کہاں جا رہی ہے؟ پہلے اس پرانی گاڑی سے تو اترو، پھر آگے کی سوچیں گے۔ اس لیے اس پہلے مرحلے میں میں چاہوں گا کہ یہ طے کر لیا جائے کہ پرانے لوگ نااہل تھے یا نہیں اور انھیں دوبارا ووٹ کے لیے قابلِ غور سمجھا جائے یا نہیں۔ آگے کس کو ووٹ دینا ہے یہ بعد میں طے ہو گا۔
Last edited by a moderator: