aazad.mubassir
Minister (2k+ posts)
ہمارے اکثر تعلقات ہمارا انتخاب نہیں ہوتے بلکہ حالات کی پیداوار ہوتے ہیں۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ عالم ارواح میں روحوں کو حق انتخاب دیا جاتا ہے کہ وہ اپنے لیے والدین کا انتخاب کر لیں کیونکہ یہ استدلال سائنسی طور پر غیرمستند اور ناقابل قبول ہے اس لیے ذہم یہی کہیں گے کہ انسان کو اپنے والدین کے انتخاب کا حق بھی حاصل نہیں ہوتا۔ انسان کو اپنے بہن بھائیوں کو بھی خود منتخب نہیں کرنا ہوتا۔ نہ ہی ہم اپنے آبائو اجداد خود چنتے ہیں۔ چچا، تایا، بوا، ماسی، کزن، کزنیں کسی بھی قریبی رشتے کے حوالے سے ہمارا حق انتخاب معدوم ہے۔
حالات خود کار طریقے سے یہ رشتے ہم سے منسلک کر دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ سکول، کالج اور دفتر میں بننے والے ہمارے تعلقات بھی ہمارا حقیقی انتخاب نہیں ہوتے کیونکہ انسان ان جگہوں پر جاتا ہے تو وہاں پر موجود لوگوںکے ساتھ ہی اسے نباہ کرنا پڑتاہے اور پھر اپنی ضرورت کے مطابق ان سب لوگوں سے تعلقات بنانے پڑتے ہیں تاکہ زندگی کے فوری تقاضے اورلازمی ضرورتیں پوری ہوتی رہیں۔ آدمی کے بس میں ان مقامات کے حوالے سے فقط یہ انتخاب ہوتا ہے کہ وہ ان جگہوں پر موجود لوگوں میں سے بہترین کے ساتھ اپنا تعلق استوار کرے۔ انسان کے فقط دو تعلقات اور رشتے ایسے ہوتے ہیں جنھیں منتخب کرنے کا اسے حق حاصل ہوتا ہے۔ اور یہ دو رشتے ہیں جیون ساتھی اور دوست
روایتی معاشروں میں جہاں آج بھی ارینجڈ شادیاں ہوتی ہیں وہاں متعلقہ لوگوں کو جیون ساتھی کے حوالے سے بھی پابندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کے والدین یہ انتخاب کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر شخص کو ایک رشتہ اور بھی اپنی مرضی سے منتخب کرنے کا حق ہوتا ہے اور وہ ہے گرو، مرشد، روحانی رہنما کا،کہ اگر کوئی انسان ضرورت محسوس کرے تو اپنے لیے کسی رہبرکا انتخاب کرلے۔ مندرجہ بالا بحث سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ تعلقات کی تعمیر کے حوالے سے انسانوں کے پاس محدود اختیار ہوتے ہیں یا کم از کم انتخاب کا دائرہ محدود ہوتا ہے، ہمارے زیادہ تر تعلقات ہمیں خاندان سے ورثے میں ملتے ہیں۔ اپنے رشتے دار ہم خود منتخب نہیں کرتے۔
ہم صرف یہ کر سکتے ہیں کہ یہ سیکھنے کی کوشش کریں کہ ان رشتے داروں سے نباہ کیسے کیا جائے۔ تعلقات بنانا بہرحال آسان کام نہیں کیونکہ اس کے لیے ہمیں لوگوں کے مزاج سے ہم آہنگی اختیار کرنا پڑتی ہے۔ اور چونکہ انسانی فطرت کا کمپرومائز کرنے کا مزاج نہیں ہوتا اس لیے یہ ایک مشکل مشق ہے۔ مزاجوں سے ہم آہنگی پیدا نہ کر پانے کی صلاحیت کی وجہ سے انسان فرسٹریشن کا شکار ہو کر انحراف کی راہ اختیار کرتا ہے اور ابنارمل تعلقات تعمیر کرنا شروع کر دیتا ہے۔ جیسا کہ ہم داشتائوں اور ہم جنس پرست مردوں اور عورتوں کے بارے میں اکثر سنتے رہتے ہیں۔ لوگ اکثر اس بات پر حیرت میں ڈوب جاتے ہیں کہ آخر وہ کیا چیز ہے جو تعلقات کی تعمیر کو مشکل بنا دیتی ہے؟ کیوں ایسا ہوتا ہے کہ ایک ہی ماں باپ کے بچے، ایک ہی پیالی اور تھالی میں کھانا کھانے والے سگے بہن بھائی ایک ہی سکول میں تعلیم پانے کے باوجود ساتھ نہیں چل پاتے؟ کیوں ایسا ہوتا ہے کہ بعض اوقات بلکہ اکثر اوقات اولاد اور بچوں کے درمیان نہیں نبھ پاتی اور وہ الگ ہو جاتے ہیں؟
اسی طرح دیگر رشتہ داروں سے تعلقات کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے۔ بہن بھائیوں، ماں باپ اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ تلخ تعلقات کے باوجود یہی لوگ دعوی کرتے ہیں کہ بعض دوستوں کے ساتھ ان کے بہت ہی گہرے اور اچھے تعلقات ہیں۔ کیا یہ امر باعث حیرت نہیں؟ انسانی ذات ایک پیچیدہ چیز ہے۔ ہر بندہ مختلف رویوں کا حامل ہوتا ہے اور ہر شخص ہی زندگی میں آنے والی صورت احوال کے حوالے سے مختلف ردعمل دکھاتا ہے۔ انسانی تعلقات کو سمجھنے کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ انسانی رویوں کی بہتر تفہیم کی کوشش کی جائے۔ (پریم پی بھالا کی کتاب اچھے تعلقات کے رہنما اصول سے ماخوذ)
http://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2017-02-10/17751#.WJ3aAlIpV-E
حالات خود کار طریقے سے یہ رشتے ہم سے منسلک کر دیتے ہیں۔ یہاں تک کہ سکول، کالج اور دفتر میں بننے والے ہمارے تعلقات بھی ہمارا حقیقی انتخاب نہیں ہوتے کیونکہ انسان ان جگہوں پر جاتا ہے تو وہاں پر موجود لوگوںکے ساتھ ہی اسے نباہ کرنا پڑتاہے اور پھر اپنی ضرورت کے مطابق ان سب لوگوں سے تعلقات بنانے پڑتے ہیں تاکہ زندگی کے فوری تقاضے اورلازمی ضرورتیں پوری ہوتی رہیں۔ آدمی کے بس میں ان مقامات کے حوالے سے فقط یہ انتخاب ہوتا ہے کہ وہ ان جگہوں پر موجود لوگوں میں سے بہترین کے ساتھ اپنا تعلق استوار کرے۔ انسان کے فقط دو تعلقات اور رشتے ایسے ہوتے ہیں جنھیں منتخب کرنے کا اسے حق حاصل ہوتا ہے۔ اور یہ دو رشتے ہیں جیون ساتھی اور دوست
روایتی معاشروں میں جہاں آج بھی ارینجڈ شادیاں ہوتی ہیں وہاں متعلقہ لوگوں کو جیون ساتھی کے حوالے سے بھی پابندی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان کے والدین یہ انتخاب کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہر شخص کو ایک رشتہ اور بھی اپنی مرضی سے منتخب کرنے کا حق ہوتا ہے اور وہ ہے گرو، مرشد، روحانی رہنما کا،کہ اگر کوئی انسان ضرورت محسوس کرے تو اپنے لیے کسی رہبرکا انتخاب کرلے۔ مندرجہ بالا بحث سے یہ تو ثابت ہو گیا کہ تعلقات کی تعمیر کے حوالے سے انسانوں کے پاس محدود اختیار ہوتے ہیں یا کم از کم انتخاب کا دائرہ محدود ہوتا ہے، ہمارے زیادہ تر تعلقات ہمیں خاندان سے ورثے میں ملتے ہیں۔ اپنے رشتے دار ہم خود منتخب نہیں کرتے۔
ہم صرف یہ کر سکتے ہیں کہ یہ سیکھنے کی کوشش کریں کہ ان رشتے داروں سے نباہ کیسے کیا جائے۔ تعلقات بنانا بہرحال آسان کام نہیں کیونکہ اس کے لیے ہمیں لوگوں کے مزاج سے ہم آہنگی اختیار کرنا پڑتی ہے۔ اور چونکہ انسانی فطرت کا کمپرومائز کرنے کا مزاج نہیں ہوتا اس لیے یہ ایک مشکل مشق ہے۔ مزاجوں سے ہم آہنگی پیدا نہ کر پانے کی صلاحیت کی وجہ سے انسان فرسٹریشن کا شکار ہو کر انحراف کی راہ اختیار کرتا ہے اور ابنارمل تعلقات تعمیر کرنا شروع کر دیتا ہے۔ جیسا کہ ہم داشتائوں اور ہم جنس پرست مردوں اور عورتوں کے بارے میں اکثر سنتے رہتے ہیں۔ لوگ اکثر اس بات پر حیرت میں ڈوب جاتے ہیں کہ آخر وہ کیا چیز ہے جو تعلقات کی تعمیر کو مشکل بنا دیتی ہے؟ کیوں ایسا ہوتا ہے کہ ایک ہی ماں باپ کے بچے، ایک ہی پیالی اور تھالی میں کھانا کھانے والے سگے بہن بھائی ایک ہی سکول میں تعلیم پانے کے باوجود ساتھ نہیں چل پاتے؟ کیوں ایسا ہوتا ہے کہ بعض اوقات بلکہ اکثر اوقات اولاد اور بچوں کے درمیان نہیں نبھ پاتی اور وہ الگ ہو جاتے ہیں؟
اسی طرح دیگر رشتہ داروں سے تعلقات کی راہ میں حائل رکاوٹوں کو بھی قیاس کیا جا سکتا ہے۔ بہن بھائیوں، ماں باپ اور دیگر رشتہ داروں کے ساتھ تلخ تعلقات کے باوجود یہی لوگ دعوی کرتے ہیں کہ بعض دوستوں کے ساتھ ان کے بہت ہی گہرے اور اچھے تعلقات ہیں۔ کیا یہ امر باعث حیرت نہیں؟ انسانی ذات ایک پیچیدہ چیز ہے۔ ہر بندہ مختلف رویوں کا حامل ہوتا ہے اور ہر شخص ہی زندگی میں آنے والی صورت احوال کے حوالے سے مختلف ردعمل دکھاتا ہے۔ انسانی تعلقات کو سمجھنے کے لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ انسانی رویوں کی بہتر تفہیم کی کوشش کی جائے۔ (پریم پی بھالا کی کتاب اچھے تعلقات کے رہنما اصول سے ماخوذ)

http://dunya.com.pk/index.php/special-feature/2017-02-10/17751#.WJ3aAlIpV-E
Last edited by a moderator: