کہاوت مشہور ہے کہ خدا گنجے کو ناخن نہ دے ..مشرف دور میں ملنے والی آزادی سے،پاکستانی الیکٹرانک میڈیا ایک دم عروج کی بلندیوں کو چھونے لگا تھا ،وکلا تحریک کی چوبیس گھنٹے کوریج اور مشرف حکومت سے عوامی نفرت نے کئی اینکر پرسں اور صحافیوں کو راتوں رات سپر سٹار کا درجہ دے دیا تھا ،لیکن حقیقت یہی تھی کہ یں میں سے اکثر اوسط ذہنی صلاحیتوں کے مالک ایف اے بی اے پاس یا پھر کسی گھیر معروف پرائیویٹ یونیورسٹی کے ڈگری یافتہ تھے .غیر متوقع شہرت نے ان کو اور میڈیا مالکان کو ذہنی بد ہضمی کا شکار کر دیا اور ان میں سے بہت سے خود کو عقل کل اور کنگ میکر سمجھنے کے زعم میں مبتلا ہو گئے .جہاں عالمی میڈیا پر چھوٹے سے چھوٹے مسلے کو ڈسکس ،کرنے کے لیے یونیورسٹی پروفسرز،پی ایچ ڈی ،سابقہ ڈپلومیٹ ،سابقہ جنرل بلاۓ جاتے ہیں وہیں پاکستانی عقل کل صحافی آپ کو فلسطین کے مسائل سے لے کر شاہد آفریدی کی بیٹنگ تک کا تجزیہ کرتا نظر اۓ گا .
سوشل میڈیا کی آمد نے اکثریت کو اکسپوز کرنے میں اہم کردار ادا کیا ،عام آدمی کو علم ہوا کہ کس طرح کسی جماعت کو سپورٹ کرنے کے بدلے کھیل کے کسی بورڈ کا چیئرمین ،کسی یورپی ملک میں سفیر یا پھر کسی سرکاری ادارے کا ایم ڈی بنا جا سکتا ہے ،اوسط درجے کی ذہانت کے کئی صحافی سیاسی جماعتوں کے باقاعدہ ترجمان کا کردار ادا کرتے ہیں ،چینل ملک کے دفاعی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،ماضی میں کچھ چینل غیر ملکی فنڈنگ کی مبہم وضاحتیں کرتے رهے ہیں ،ایک پراپرٹی ٹائکون کو بآسانی گھوسٹ کالم نگار مل جاتے ہیں اور اس کے خلاف خبریں دینے یا عدالتی کاروائیوں کا بلیک آوٹ کیہا جاتا ہے ،کسی صحافی سے کوئی جائز سوال پوچھنے کی صورت میں بھی اکثریت جتھے کی صورت میں الٹا سوال پوچھنے والے پر ہی حملہ آور ہو جاتی ہے .بی بی سی کے ہارڈ ٹاک میں حمید ہارون کے انٹرویو نے ایک بات ضرور ظاہر کر دی ہے
کہ اب بیرونی دنیا میں بھی پاکستانی میڈیا اپنی وقعتکھو چکا ہے ،پاکستانی عوام پہلے ہی اپنی میڈیا پر اعتماد کرنے کی بجاۓ سوشل میڈیا کو ایک بہتر ذریعہ کے طور پر قبول کر چکے ہیں ....2018 کے الیکشنز اور اس کے بعد کا دور سوشل میڈیا کی صحافت کا دور ہو گا جس میں ایک عدد اینڈرائڈ فون رکھنے والا ہر شخص ایک صحافی کا کردار ادا کرے گا اور وہ کسی سیاسی خاندان ،پارٹی کسی پراپرٹی ٹائکون کا کٹھ پتلی ہوگا اور نہ ہی کسی سرکاری عہد ے یا امریکہ میں سفیر بننے کا طلبگار ز
سوشل میڈیا کی آمد نے اکثریت کو اکسپوز کرنے میں اہم کردار ادا کیا ،عام آدمی کو علم ہوا کہ کس طرح کسی جماعت کو سپورٹ کرنے کے بدلے کھیل کے کسی بورڈ کا چیئرمین ،کسی یورپی ملک میں سفیر یا پھر کسی سرکاری ادارے کا ایم ڈی بنا جا سکتا ہے ،اوسط درجے کی ذہانت کے کئی صحافی سیاسی جماعتوں کے باقاعدہ ترجمان کا کردار ادا کرتے ہیں ،چینل ملک کے دفاعی اداروں کے خلاف ہرزہ سرائی کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،ماضی میں کچھ چینل غیر ملکی فنڈنگ کی مبہم وضاحتیں کرتے رهے ہیں ،ایک پراپرٹی ٹائکون کو بآسانی گھوسٹ کالم نگار مل جاتے ہیں اور اس کے خلاف خبریں دینے یا عدالتی کاروائیوں کا بلیک آوٹ کیہا جاتا ہے ،کسی صحافی سے کوئی جائز سوال پوچھنے کی صورت میں بھی اکثریت جتھے کی صورت میں الٹا سوال پوچھنے والے پر ہی حملہ آور ہو جاتی ہے .بی بی سی کے ہارڈ ٹاک میں حمید ہارون کے انٹرویو نے ایک بات ضرور ظاہر کر دی ہے
کہ اب بیرونی دنیا میں بھی پاکستانی میڈیا اپنی وقعتکھو چکا ہے ،پاکستانی عوام پہلے ہی اپنی میڈیا پر اعتماد کرنے کی بجاۓ سوشل میڈیا کو ایک بہتر ذریعہ کے طور پر قبول کر چکے ہیں ....2018 کے الیکشنز اور اس کے بعد کا دور سوشل میڈیا کی صحافت کا دور ہو گا جس میں ایک عدد اینڈرائڈ فون رکھنے والا ہر شخص ایک صحافی کا کردار ادا کرے گا اور وہ کسی سیاسی خاندان ،پارٹی کسی پراپرٹی ٹائکون کا کٹھ پتلی ہوگا اور نہ ہی کسی سرکاری عہد ے یا امریکہ میں سفیر بننے کا طلبگار ز
Last edited by a moderator: