غلط فہمی نمبر1' عالمی ضمیر
سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ بین القوامی دباو آئیگا۔ عالمی دباو بڑا سمجھدار ہے اور اپنے مفاد پر آتا ہے۔ لیکن فرض کریں کے عالمی دباو آجاتا ہے اور امریکہ سمیت سارا یورپ کہتا ہے کہ الیکشن کرواو ورنہ پابندیاں لگ جائیں گی۔ آج جو معیشت کے حالات ہیں وہ تو بدترین پابندیوں میں بھی نہیں تھے تو پھر ان پابندیوں کو کون خاطر میں لائیگا۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ الیکشن ہوگئے تو وعدہ معاف گواہان کی لائن لگ جائیگی اور موجودہ حکومتی قیادت جسکے پاس اصل اقتدار ہے اسے قانون سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ اسلیے اب یہ مسئلہ عالمی دباو کی بجائے اپنی بقاء کا ہے اور اسی لیے اتنا ظلم کیا جارہاہ ہے۔
اخلاقی سبق یہ ملتا ہے کہ دنیا کو ضرور بتائیں کہ پاکستان میں کیا ہورہا ہے تاکہ حجت تمام ہوجائے کیونکہ کل کو پاکستان سے کسی اخلاقی حمایت کی درخواست سے پہلے انکو اپنا کردار نہ بھولے۔ اور جو کرنا ہے وہ پاکستان کے عوام نے خود کرنا ہے۔
غلط فہمی نمبر 2، قانونی جنگ
قانونی جنگ سے یہ مسئلہ حل ہوگا یہ بھی بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ میں ناآمیدی نہیں پھیلا رہا مگر حقیقت یہی ہے کہ قانون اور آئین کو جسطرح ٹکے ٹوکری کیا گیا ہے اسکے بعد یہ تحریک اس سطح سے اوپر جاچکی ہے۔ عمران خان کی مجبوری ہے جیسے سقراط کی مجبوری تھی۔ عمران خان کبھی کسی کونہیں اکسائے گا کیونکہ عمران خان قانونی جنگ پر یقین رکھتا ہے۔ اور عمران خان وہی کررہا ہے جو اسے کرنا چاہیے تاکہ حجت تمام ہوجائے اور جب آئین اور قانون کا احترام ہونا شروع ہوجائے تو اسوقت ایسا نہ ہوکہ لوگ آئین اور قانون کے نام سے ہی واقف نہ ہوں۔
غلط فہمی نمبر 3، فوج سے لڑائی
فوج سے لڑنا کوئی حکمت عملی نہیں ہے اور اس سے نقصان عوام کا ہی ہوگا ہے۔ البتہ جو بھی غیر قانونی طور پر بندے اٹھا رہا ہے اسکے پاس خود قانونی جواز نہیں اور اسی لئے اس کے خلاف ضرور آواز بھی اٹھانی چاہیے اور ہوسکے تو اسی میدان میں لڑنا چاہیے جس میدان میں وہ لڑ رہے ہیں۔ کیونکہ نامعلوم افراد کا مطلب ہی عدالتی نظام کو نہ ماننا ہے تو پھر ان نہ معلوم افراد سے بچنا، خاص کر جان بچانے کے لئے لڑنا ایک قانونی بلکہ اخلاقی فریضہ ہے اور دین کے عین مطابق ہے۔
بلکہ یہ نامعلوم افراد خود دعوت دے رہے ہیں کہ ہمت ہے تو قانون کا سہارا لیے بغیر ہم سے لڑو۔ یقینا انکی بھی لسٹیں موجود ہوں گی اور عین ممکن ہے کہ انکے سیف ہاوسز میں لڑائیاں بھی ہوئی ہوں اور اسی کا نام خانہ جنگی ہے جو مزید بڑھے گی جسکا جن ان نامعلوم افراد نے خود بوتل سے نکالا ہے۔
غلط فہمی نمبر 4' الیکشن نہیں ہوں گے۔
کچھ دن پہلے تک میں یہی سوچتا تھا کہ الیکشن اب نہیں ہوں گے۔ مگر حالیہ معاشی حالات کا بغور جائزہ لینے کے بعد یہ لگ رہا ہے کہ جسطرح تحریک انصاف کے بندے توڑے جارہے ہیں' کہیں نہ کہیں الیکشن کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے 6 بلین ڈالر ملنے کی شنید ہے مگر آئی ایم ایف یہ پیسہ اس وقت تو بلکل بھی نہیں دیگا جب کے سیاسی غیر استحقام ہے۔ اسی لیے آئی ایم ایف کو دکھانے کے لیے الیکشن کروائے جائیگے جس میں تحریک انصاف نہیں ہوگی۔ اللہ کی کرنی کہہ لیں کہ امریکی حکومت کو اپنی پڑی ہوئی ہے کیونکہ دیوالیہ نکلنے والا ہے۔ اسے کہتے ہیں مقافات عمل۔ اسلیے شوباز کو چاہیے کہ امریکیوں کو جاکر بتائے کہ بھیک کیسے مانگی جاتی ہے کیونکہ امریکی حکومت ابھی تک نئے قرضے لینے کا سوچ رہی ہے تاکہ کچھ دن مزید مل جائیں اور نئے ٹیکس لگا کر کم ازکم تنخواہیں تو دی جاسکیں ورنہ گورنمنٹ شٹ ڈاون ہوجائیگا اور کتنا تویل ہوگا کوئی پتا نہیں۔
عوام کو کیا کرنا چاہیے۔
عوام کو اب ایک نیا لائف سٹائل یہ طرز زندگی اپنانا ہوگا۔ کم از کم اپنی معاشی حالت بہتر بنانا ہوگی جو حکومتی پالیسیوں پر منحصر نہ ہو۔ یہ مشکل ہے مگر کیے بغیر چارہ بھی نہیں ہے۔ سب سے پہلے تو شہروں سے نکلیں اور دیہاتوں کا رخ کریں اور اپنا اگائیں اور کھائیں۔ اگر 10 فیصد لوگ بھی دیہاتوں میں چلے جائیں تو شہروں میں بیروزگاری کم ہوجائیگی اور جرائم میں بھی کمی واقع ہوگی۔ یہی 10 فیصد لوگ آنے والے وقت میں بڑے پیمانے پر کاشتکاری کریں گے تو خوراک کی کلت میں بھی کمی آئیگی البتہ ایکسپورٹ کرنا تو بھول جائیں کیونکہ موجودہ حکومت آپ پر ٹیکس ہی اتنے لگادے گی کہ آپ جو کچھ پیدا کریں گے وہ ملک میں ہی بک جائے تو آپ شکر کریں گے۔ اب صرف سونا خریدیں کیونکہ ڈالر بھی غیر مستحکم ہے۔ البتہ سونے پر زکوت ضرور دیں اور وہ سونے کے اندر ہی دیں۔ تعلیم کے لیے سکول چھڑوا کر انٹرنیٹ سے تعلیم دلوائیں جیسے آن لائن کورسز ہیں۔ انٹرنیٹ کمپنیاں اگر چلتی رہیں تو ٹھیک ہے ورنہ سٹارلنک یا پھر سیٹلائیٹ انٹرنیٹ کمپنیاں نظر میں رکھیں۔ کیونکہ انٹرنیٹ سے ہی آپ باخبر رہیں گے اپنے حالات سے اور جب تک یہ اہل عقل کل آپ پر مسلط ہیں تب تک اپکو ایسے ہی زندگی گزانا ہوگی۔ لڑائی کا فائدہ نہیں جب تک کہ ایک واضح پلان نہ ہو کہ لڑائی کے مقاصد کیا ہیں۔ کیونکہ دو سے چار مارچوروں کو آپ سبق سکھا بھی دیں تو حکومت نہیں بدلے گی۔ اسلیے غیر معینہ مدد کے لیے کنارا کشی اختیار کرلیں اور جب تک آپ کے پاس کوئی واضح منصوبہ نہ ہو تب تک لڑائی میں مت کودیں۔ یہ ایک تویل موضع ہے اس پر پھر کبھی بات ہوگی کہ حکم عملی کیا ہونی چاہیے۔
سب سے بڑی غلط فہمی یہ ہے کہ بین القوامی دباو آئیگا۔ عالمی دباو بڑا سمجھدار ہے اور اپنے مفاد پر آتا ہے۔ لیکن فرض کریں کے عالمی دباو آجاتا ہے اور امریکہ سمیت سارا یورپ کہتا ہے کہ الیکشن کرواو ورنہ پابندیاں لگ جائیں گی۔ آج جو معیشت کے حالات ہیں وہ تو بدترین پابندیوں میں بھی نہیں تھے تو پھر ان پابندیوں کو کون خاطر میں لائیگا۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ الیکشن ہوگئے تو وعدہ معاف گواہان کی لائن لگ جائیگی اور موجودہ حکومتی قیادت جسکے پاس اصل اقتدار ہے اسے قانون سے کوئی نہیں بچاسکتا۔ اسلیے اب یہ مسئلہ عالمی دباو کی بجائے اپنی بقاء کا ہے اور اسی لیے اتنا ظلم کیا جارہاہ ہے۔
اخلاقی سبق یہ ملتا ہے کہ دنیا کو ضرور بتائیں کہ پاکستان میں کیا ہورہا ہے تاکہ حجت تمام ہوجائے کیونکہ کل کو پاکستان سے کسی اخلاقی حمایت کی درخواست سے پہلے انکو اپنا کردار نہ بھولے۔ اور جو کرنا ہے وہ پاکستان کے عوام نے خود کرنا ہے۔
غلط فہمی نمبر 2، قانونی جنگ
قانونی جنگ سے یہ مسئلہ حل ہوگا یہ بھی بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ میں ناآمیدی نہیں پھیلا رہا مگر حقیقت یہی ہے کہ قانون اور آئین کو جسطرح ٹکے ٹوکری کیا گیا ہے اسکے بعد یہ تحریک اس سطح سے اوپر جاچکی ہے۔ عمران خان کی مجبوری ہے جیسے سقراط کی مجبوری تھی۔ عمران خان کبھی کسی کونہیں اکسائے گا کیونکہ عمران خان قانونی جنگ پر یقین رکھتا ہے۔ اور عمران خان وہی کررہا ہے جو اسے کرنا چاہیے تاکہ حجت تمام ہوجائے اور جب آئین اور قانون کا احترام ہونا شروع ہوجائے تو اسوقت ایسا نہ ہوکہ لوگ آئین اور قانون کے نام سے ہی واقف نہ ہوں۔
غلط فہمی نمبر 3، فوج سے لڑائی
فوج سے لڑنا کوئی حکمت عملی نہیں ہے اور اس سے نقصان عوام کا ہی ہوگا ہے۔ البتہ جو بھی غیر قانونی طور پر بندے اٹھا رہا ہے اسکے پاس خود قانونی جواز نہیں اور اسی لئے اس کے خلاف ضرور آواز بھی اٹھانی چاہیے اور ہوسکے تو اسی میدان میں لڑنا چاہیے جس میدان میں وہ لڑ رہے ہیں۔ کیونکہ نامعلوم افراد کا مطلب ہی عدالتی نظام کو نہ ماننا ہے تو پھر ان نہ معلوم افراد سے بچنا، خاص کر جان بچانے کے لئے لڑنا ایک قانونی بلکہ اخلاقی فریضہ ہے اور دین کے عین مطابق ہے۔
بلکہ یہ نامعلوم افراد خود دعوت دے رہے ہیں کہ ہمت ہے تو قانون کا سہارا لیے بغیر ہم سے لڑو۔ یقینا انکی بھی لسٹیں موجود ہوں گی اور عین ممکن ہے کہ انکے سیف ہاوسز میں لڑائیاں بھی ہوئی ہوں اور اسی کا نام خانہ جنگی ہے جو مزید بڑھے گی جسکا جن ان نامعلوم افراد نے خود بوتل سے نکالا ہے۔
غلط فہمی نمبر 4' الیکشن نہیں ہوں گے۔
کچھ دن پہلے تک میں یہی سوچتا تھا کہ الیکشن اب نہیں ہوں گے۔ مگر حالیہ معاشی حالات کا بغور جائزہ لینے کے بعد یہ لگ رہا ہے کہ جسطرح تحریک انصاف کے بندے توڑے جارہے ہیں' کہیں نہ کہیں الیکشن کا فیصلہ کرلیا گیا ہے۔ اسکی وجہ یہ ہے کہ آئی ایم ایف سے 6 بلین ڈالر ملنے کی شنید ہے مگر آئی ایم ایف یہ پیسہ اس وقت تو بلکل بھی نہیں دیگا جب کے سیاسی غیر استحقام ہے۔ اسی لیے آئی ایم ایف کو دکھانے کے لیے الیکشن کروائے جائیگے جس میں تحریک انصاف نہیں ہوگی۔ اللہ کی کرنی کہہ لیں کہ امریکی حکومت کو اپنی پڑی ہوئی ہے کیونکہ دیوالیہ نکلنے والا ہے۔ اسے کہتے ہیں مقافات عمل۔ اسلیے شوباز کو چاہیے کہ امریکیوں کو جاکر بتائے کہ بھیک کیسے مانگی جاتی ہے کیونکہ امریکی حکومت ابھی تک نئے قرضے لینے کا سوچ رہی ہے تاکہ کچھ دن مزید مل جائیں اور نئے ٹیکس لگا کر کم ازکم تنخواہیں تو دی جاسکیں ورنہ گورنمنٹ شٹ ڈاون ہوجائیگا اور کتنا تویل ہوگا کوئی پتا نہیں۔
عوام کو کیا کرنا چاہیے۔
عوام کو اب ایک نیا لائف سٹائل یہ طرز زندگی اپنانا ہوگا۔ کم از کم اپنی معاشی حالت بہتر بنانا ہوگی جو حکومتی پالیسیوں پر منحصر نہ ہو۔ یہ مشکل ہے مگر کیے بغیر چارہ بھی نہیں ہے۔ سب سے پہلے تو شہروں سے نکلیں اور دیہاتوں کا رخ کریں اور اپنا اگائیں اور کھائیں۔ اگر 10 فیصد لوگ بھی دیہاتوں میں چلے جائیں تو شہروں میں بیروزگاری کم ہوجائیگی اور جرائم میں بھی کمی واقع ہوگی۔ یہی 10 فیصد لوگ آنے والے وقت میں بڑے پیمانے پر کاشتکاری کریں گے تو خوراک کی کلت میں بھی کمی آئیگی البتہ ایکسپورٹ کرنا تو بھول جائیں کیونکہ موجودہ حکومت آپ پر ٹیکس ہی اتنے لگادے گی کہ آپ جو کچھ پیدا کریں گے وہ ملک میں ہی بک جائے تو آپ شکر کریں گے۔ اب صرف سونا خریدیں کیونکہ ڈالر بھی غیر مستحکم ہے۔ البتہ سونے پر زکوت ضرور دیں اور وہ سونے کے اندر ہی دیں۔ تعلیم کے لیے سکول چھڑوا کر انٹرنیٹ سے تعلیم دلوائیں جیسے آن لائن کورسز ہیں۔ انٹرنیٹ کمپنیاں اگر چلتی رہیں تو ٹھیک ہے ورنہ سٹارلنک یا پھر سیٹلائیٹ انٹرنیٹ کمپنیاں نظر میں رکھیں۔ کیونکہ انٹرنیٹ سے ہی آپ باخبر رہیں گے اپنے حالات سے اور جب تک یہ اہل عقل کل آپ پر مسلط ہیں تب تک اپکو ایسے ہی زندگی گزانا ہوگی۔ لڑائی کا فائدہ نہیں جب تک کہ ایک واضح پلان نہ ہو کہ لڑائی کے مقاصد کیا ہیں۔ کیونکہ دو سے چار مارچوروں کو آپ سبق سکھا بھی دیں تو حکومت نہیں بدلے گی۔ اسلیے غیر معینہ مدد کے لیے کنارا کشی اختیار کرلیں اور جب تک آپ کے پاس کوئی واضح منصوبہ نہ ہو تب تک لڑائی میں مت کودیں۔ یہ ایک تویل موضع ہے اس پر پھر کبھی بات ہوگی کہ حکم عملی کیا ہونی چاہیے۔