imeeru
Politcal Worker (100+ posts)
کسی بھی شہر کی مقبولیت کے پیچھے اس شہر کی ایک اپنی تاریخ، تہذیب و ثقافت یا معیشت اس کی ہوتی ہے، لیکن یہ تمام چیزیں اس شہر میں بسنے والے لوگوں کی خوشحالی اور فلاح و بہبود سے مشروط ہوتی ہیں۔ شہباز شریف صاحب جب لاہور کو پیرس بولتے ہیں تو وہ بھول جاتے ہیں کہ چار سڑکیں اور پل بنا دینے سے کوئی شہر پیرس نہیں بن جاتا۔ حضور پیرس میں لوگ ایسی بدحالی کا شکار نہیں ہیں کہ انھیں دو وقت کی روٹی کے لئے کمر توڑ محنت کرنی پڑتی ہو، وہاں وہ کسمپرسی اور حسرت بھری آنکھیں بھی نظر نہیں آتیں جو مدد اور انصاف کی پکار میں ناامید ہو چکی ہوں۔ پیرس میں مائیں بچوں کو سڑک پر نہیں جنتیں اور نہ ہی اپنے نومولود بچوں کو ساتھ لئے تپتی دھوپ میں سڑکوں پر بھیک مانگتی نظر آتی ہیں۔ پیرس کی پولیس عوام کی محافظ ہے نہ کہ ان کی دشمن اور نہ ہی وہاں آئے دن وی آئی پی پروٹوکول لگا کر شہریوں کی تذلیل کی جاتی ہے۔
لاہور کو جاننے والے جانتے ہیں کہ لاہور تاریخی اور ثقافتی لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے، اور اس وقت سے تہذیبوں کا شہر رہا ہے جب یورپ میں ٹوائلٹ تک بنانے کا رواج نہیں تھا، میری نظر میں صرف اس کی شان بڑھانے کی خاظر پیرس یا کسی اور مثالی شہر سے تشبیہ دینا خود لاہور کی اپنی توہین کے مترادف ہے اور اسے محض ایک غلامانہ ذہنیت کی عکاسی ہی کہا جاسکتا ہے، لیکن آپ نفسیاتی طور پر شہباز شریف جیسے ایک غیر متوازن شخص سے اور توقع کر بھی کیا سکتے ہیں؟ میں یہاں یہ واضح کر دوں کہ کچھ دوست شہباز شریف صاحب کے لئے ایسے الفاظ کو نا مناسب سمجھتے ہیں لیکن میں واقعی یہ سمجھتا ہوں کہ انہیں کسی نفسیاتی ماہر کو دکھایا جانا چاہیے، جو سڑک سے چند رکاوٹیں ہٹاتے ہٹاتے چودہ افراد کو موت کی نیند سلا چکا ہو کم از کم میری نظر میں تو وہ ایک نارمل شخص نہیں ہو سکتا۔ اور صرف ماڈل ٹاؤن ہی نہیں کیا ہم نہیں جانتے کہ سینکڑوں افراد کو جعلی پولیس مقابلوں میں ماورائے عدالت ہلاک کرنے والی پنجاب پولیس کے سرپرست اعلی کون رہے ہیں؟ یہ وہ صاحب ہیں جنہوں نے طاقت کے نشے میں چور اور اپنی انا کا اسیر ہو کر قوم کا اربوں روپیہ ترقیاتی منصوبوں کے نام پر اپنے ذاتی مفادات اور مقبولیت کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اور اگر لاہور کی بات کریں تو ہزاروں پسماندہ علاقوں کا حق مار کر ان کے فنڈز لاہور پر لگائے گئے تاکہ تخت لاہور ہمیشہ ان کی جاگیر میں رہ سکے، اس کے باوجود لاہور کا حال یہ ہے کہ مون سون کی پہلی بارش کے ساتھ یہ شہر پانی میں ڈوب جاتا ہے۔
لاہور اکثر دوسرے شہروں سے تعلق رکھنے والے بھائیوں کو یہاں کے ترقیاتی کاموں کے حوالے سے بھی بہت اچھا لگتا ہے، اور وہ اکثر شہباز شریف صاحب کی کارکردگی کے معترف نظر آتے ہیں، لیکن لاہور کا حال پوچھنا ہے تو کسی لاہوری یا اس سے پیار کرنے والے سے پوچھئے۔ اس کا بیڑا غرق کرنے کے بعد جب کوئی اسے پیرس بولتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی زخم دے کر اس پر نمک چھڑک رہا ہو، اور جب بھی کسی نئ سڑک کی تعمیر کے لیے درختوں کو کاٹا جاتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے کسی نے ان زخموں کو کرید کر پھر سے ہرا کر دیا ہے۔ آخر کیوں؟
اس لئے کہ لاہور کو باغوں کا شہر کہا جاتا تھا جو آج کہیں نظر نہیں آتے۔ کبھی اس کی فصیلوں، دروازوں اور محرابوں کو دور سے دیکھا جا سکتا تھا جو آج سیمنٹ اور کنکریٹ سے بنے بدصورت پلوں اور فلائی اوورز کے پیچھے چھپ چکے ہیں۔ لاہور کے عقب میں جو دریائے راوی بہتا تھا، آج اس میں جگہ جگہ بدبو اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیر لگے ہیں۔ تاریخی عمارتوں کی شکستہ حالی یوں تو پوری قوم کی بے حسی پر ماتم کناں ہے لیکن اکثر لوگوں کو شاید معلوم نہ ہو کہ آج اندرون لاہور کی کئ تاریخی حویلیاں اور مینارے قبضہ گروپ اور تاجر مافیا کے ہاتھوں مسمار ہو چکے ہیں۔ لاہور میں چاروں اطراف لہلہاتے کھیت، جو نہ صرف دل کو ایک موہ لینے والا منظر پیش کرتے تھے بلکہ بارش کے پانی کو زمین میں جذب کر کے زیر زمین پانی کی قدرتی سطح کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے تھے، ان تمام کھیتوں پر آج ہاوسنگ سوسائٹیز تعمیر ہو چکی ہیں اور لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک گر چکی ہے۔ ہوا اور پانی زندگی ہیں جو کہ ٹاؤن پلاننگ کا کلیدی جزو ہیں، لیکن اس تاریخی شہر کی بد قسمتی دیکھئے، آج یہاں پینے کے لئے نہ صاف پانی میسر ہے اور نہ ہی سانس لینے کے لئے تازہ ہوا۔ سموگ کی وجہ ماحولیاتی آلودگی، اوور پاپولیشن اور درختوں کی کٹائی بتائی جاتی ہے جو آج پورے موسم سرما میں ایک آسیب کی طرح لاہور پر چھائی رہتی ہے اور کون جانے کے ہیپاٹائٹس کے بعد اب یہ کون سا نیا عذاب اس شہر میں لے کر آئے گی؟ کہا جاتا ہے کہ رنجیت سنگھ کے بعد شہباز شریف وہ شخص ہیں جنہوں نے لاہور پر سب سے زیادہ حکمرانی کی ہے، تو اس شہر کی تباہیوں کی ذمہ داری بھی تو اسی پر ڈالیں گے جو اس کے ناخدا بنے بیٹھے تھے۔
اگر آپ ثقافت اور ادب کی بات کریں جو ہمیشہ سے لاہور کی ایک پہچان رہی ہے، کسی دور میں فن و ادب کی بیٹھکوں سے لاہور کی ہر شام رنگین ہوا کرتی تھی۔ ہم نے تو خیر فیض احمد فیض، منیر نیازی، امجد اسلام امجد یا اشفاق احمد جیسی شخصیات کو زیادہ تر یوٹیوب پر ہی دیکھا ہے لیکن سنا ہے کہ مال روڈ پر واقع ایک کیفے پاک ٹی ہاؤس جو فنون لطیفہ کا مرکز بنا ہوا تھا، وہاں ان ستاروں کی ایک پوری کہکشاں سجا کرتی تھی۔ آج کہاں ہیں یہ محفلیں اور ایسی شخصیات؟ شکر ہے کہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی وجہ سے اردو ادب کا پھر سے احیا شروع ہو گیا ہے اور واقعی میں بہت اچھا لکھنے والے پڑھنے کو ملتے ہیں، جن سے متاثر ہو کر کبھی کبھار میرے جیسوں کو بھی کچھ شوق چڑھ آتا ہے ورنہ سرکاری سطح پر فن و ادب کو دفن کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ہے۔ لاہور کے تھیٹر کے فنکاروں کی حالت جس قدر بد حالی کو پہنچ چکی تھی اس سے سب واقف ہیں، شکر ہے نجی چینلز کی وجہ سے انہیں بھی کچھ عزت بخشی گئی ہے۔ ویسے اگر ہماری حکومتوں کا علم و ادب سے لگاو کا اندازہ لگانا ہو تو ان کی تعلیمی پالیسی دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے مزید اگر آپ اپنے ارد گرد کی لائبریریاں دیکھ لیں جو اگر کوئی نظر آجائیں تو آپ کے تمام شق و شبہات بھی دور ہو جائیں گے۔
اور آخر میں لاہور کا سب سے بڑا اثاثہ، خود اس میں بسنے والے لوگ ہیں جن کی وجہ سے اسے زندہ دلانے لاہور کہا جاتا ہے، لیکن آج آپ کو ان کے چہروں پر وہ مسکراہٹ نظر آتی ہے اور نہ وہ زندہ دلی، اگر کچھ نظر آتا ہے تو غم و مایوسی کے شکن۔ اگر معاشرے کی اخلاقی حالت کی ابتری پر بات چھیڑ لی تو بات بہت لمبی ہو جائے گی۔ شہباز شریف صاحب کاش آپ کو یہ معلوم ہوتا کہ شہر سڑکوں اور عمارتوں سے نہیں بلکہ لوگوں سے آباد ہوتے ہیں، جن سے کبھی لاہور آباد تھا۔ آپ لاہور کو پیرس تو نہ بنا سکے کاش آپ نے لاہور کو لاہور ہی رہنے دیا ہوتا ۔
تحریر : عامر عبدالحمید
Source: http://www.humsub.com.pk/146337/amir-abdul-hameed/لاہور کو جاننے والے جانتے ہیں کہ لاہور تاریخی اور ثقافتی لحاظ سے اپنی مثال آپ ہے، اور اس وقت سے تہذیبوں کا شہر رہا ہے جب یورپ میں ٹوائلٹ تک بنانے کا رواج نہیں تھا، میری نظر میں صرف اس کی شان بڑھانے کی خاظر پیرس یا کسی اور مثالی شہر سے تشبیہ دینا خود لاہور کی اپنی توہین کے مترادف ہے اور اسے محض ایک غلامانہ ذہنیت کی عکاسی ہی کہا جاسکتا ہے، لیکن آپ نفسیاتی طور پر شہباز شریف جیسے ایک غیر متوازن شخص سے اور توقع کر بھی کیا سکتے ہیں؟ میں یہاں یہ واضح کر دوں کہ کچھ دوست شہباز شریف صاحب کے لئے ایسے الفاظ کو نا مناسب سمجھتے ہیں لیکن میں واقعی یہ سمجھتا ہوں کہ انہیں کسی نفسیاتی ماہر کو دکھایا جانا چاہیے، جو سڑک سے چند رکاوٹیں ہٹاتے ہٹاتے چودہ افراد کو موت کی نیند سلا چکا ہو کم از کم میری نظر میں تو وہ ایک نارمل شخص نہیں ہو سکتا۔ اور صرف ماڈل ٹاؤن ہی نہیں کیا ہم نہیں جانتے کہ سینکڑوں افراد کو جعلی پولیس مقابلوں میں ماورائے عدالت ہلاک کرنے والی پنجاب پولیس کے سرپرست اعلی کون رہے ہیں؟ یہ وہ صاحب ہیں جنہوں نے طاقت کے نشے میں چور اور اپنی انا کا اسیر ہو کر قوم کا اربوں روپیہ ترقیاتی منصوبوں کے نام پر اپنے ذاتی مفادات اور مقبولیت کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اور اگر لاہور کی بات کریں تو ہزاروں پسماندہ علاقوں کا حق مار کر ان کے فنڈز لاہور پر لگائے گئے تاکہ تخت لاہور ہمیشہ ان کی جاگیر میں رہ سکے، اس کے باوجود لاہور کا حال یہ ہے کہ مون سون کی پہلی بارش کے ساتھ یہ شہر پانی میں ڈوب جاتا ہے۔
لاہور اکثر دوسرے شہروں سے تعلق رکھنے والے بھائیوں کو یہاں کے ترقیاتی کاموں کے حوالے سے بھی بہت اچھا لگتا ہے، اور وہ اکثر شہباز شریف صاحب کی کارکردگی کے معترف نظر آتے ہیں، لیکن لاہور کا حال پوچھنا ہے تو کسی لاہوری یا اس سے پیار کرنے والے سے پوچھئے۔ اس کا بیڑا غرق کرنے کے بعد جب کوئی اسے پیرس بولتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے کوئی زخم دے کر اس پر نمک چھڑک رہا ہو، اور جب بھی کسی نئ سڑک کی تعمیر کے لیے درختوں کو کاٹا جاتا ہے تو یوں لگتا ہے جیسے کسی نے ان زخموں کو کرید کر پھر سے ہرا کر دیا ہے۔ آخر کیوں؟
اس لئے کہ لاہور کو باغوں کا شہر کہا جاتا تھا جو آج کہیں نظر نہیں آتے۔ کبھی اس کی فصیلوں، دروازوں اور محرابوں کو دور سے دیکھا جا سکتا تھا جو آج سیمنٹ اور کنکریٹ سے بنے بدصورت پلوں اور فلائی اوورز کے پیچھے چھپ چکے ہیں۔ لاہور کے عقب میں جو دریائے راوی بہتا تھا، آج اس میں جگہ جگہ بدبو اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیر لگے ہیں۔ تاریخی عمارتوں کی شکستہ حالی یوں تو پوری قوم کی بے حسی پر ماتم کناں ہے لیکن اکثر لوگوں کو شاید معلوم نہ ہو کہ آج اندرون لاہور کی کئ تاریخی حویلیاں اور مینارے قبضہ گروپ اور تاجر مافیا کے ہاتھوں مسمار ہو چکے ہیں۔ لاہور میں چاروں اطراف لہلہاتے کھیت، جو نہ صرف دل کو ایک موہ لینے والا منظر پیش کرتے تھے بلکہ بارش کے پانی کو زمین میں جذب کر کے زیر زمین پانی کی قدرتی سطح کو برقرار رکھنے میں اہم کردار ادا کرتے تھے، ان تمام کھیتوں پر آج ہاوسنگ سوسائٹیز تعمیر ہو چکی ہیں اور لاہور میں زیر زمین پانی کی سطح خطرناک حد تک گر چکی ہے۔ ہوا اور پانی زندگی ہیں جو کہ ٹاؤن پلاننگ کا کلیدی جزو ہیں، لیکن اس تاریخی شہر کی بد قسمتی دیکھئے، آج یہاں پینے کے لئے نہ صاف پانی میسر ہے اور نہ ہی سانس لینے کے لئے تازہ ہوا۔ سموگ کی وجہ ماحولیاتی آلودگی، اوور پاپولیشن اور درختوں کی کٹائی بتائی جاتی ہے جو آج پورے موسم سرما میں ایک آسیب کی طرح لاہور پر چھائی رہتی ہے اور کون جانے کے ہیپاٹائٹس کے بعد اب یہ کون سا نیا عذاب اس شہر میں لے کر آئے گی؟ کہا جاتا ہے کہ رنجیت سنگھ کے بعد شہباز شریف وہ شخص ہیں جنہوں نے لاہور پر سب سے زیادہ حکمرانی کی ہے، تو اس شہر کی تباہیوں کی ذمہ داری بھی تو اسی پر ڈالیں گے جو اس کے ناخدا بنے بیٹھے تھے۔
اگر آپ ثقافت اور ادب کی بات کریں جو ہمیشہ سے لاہور کی ایک پہچان رہی ہے، کسی دور میں فن و ادب کی بیٹھکوں سے لاہور کی ہر شام رنگین ہوا کرتی تھی۔ ہم نے تو خیر فیض احمد فیض، منیر نیازی، امجد اسلام امجد یا اشفاق احمد جیسی شخصیات کو زیادہ تر یوٹیوب پر ہی دیکھا ہے لیکن سنا ہے کہ مال روڈ پر واقع ایک کیفے پاک ٹی ہاؤس جو فنون لطیفہ کا مرکز بنا ہوا تھا، وہاں ان ستاروں کی ایک پوری کہکشاں سجا کرتی تھی۔ آج کہاں ہیں یہ محفلیں اور ایسی شخصیات؟ شکر ہے کہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا کی وجہ سے اردو ادب کا پھر سے احیا شروع ہو گیا ہے اور واقعی میں بہت اچھا لکھنے والے پڑھنے کو ملتے ہیں، جن سے متاثر ہو کر کبھی کبھار میرے جیسوں کو بھی کچھ شوق چڑھ آتا ہے ورنہ سرکاری سطح پر فن و ادب کو دفن کرنے میں کوئی کسر اٹھا نہ رکھی ہے۔ لاہور کے تھیٹر کے فنکاروں کی حالت جس قدر بد حالی کو پہنچ چکی تھی اس سے سب واقف ہیں، شکر ہے نجی چینلز کی وجہ سے انہیں بھی کچھ عزت بخشی گئی ہے۔ ویسے اگر ہماری حکومتوں کا علم و ادب سے لگاو کا اندازہ لگانا ہو تو ان کی تعلیمی پالیسی دیکھ کر لگایا جا سکتا ہے مزید اگر آپ اپنے ارد گرد کی لائبریریاں دیکھ لیں جو اگر کوئی نظر آجائیں تو آپ کے تمام شق و شبہات بھی دور ہو جائیں گے۔
اور آخر میں لاہور کا سب سے بڑا اثاثہ، خود اس میں بسنے والے لوگ ہیں جن کی وجہ سے اسے زندہ دلانے لاہور کہا جاتا ہے، لیکن آج آپ کو ان کے چہروں پر وہ مسکراہٹ نظر آتی ہے اور نہ وہ زندہ دلی، اگر کچھ نظر آتا ہے تو غم و مایوسی کے شکن۔ اگر معاشرے کی اخلاقی حالت کی ابتری پر بات چھیڑ لی تو بات بہت لمبی ہو جائے گی۔ شہباز شریف صاحب کاش آپ کو یہ معلوم ہوتا کہ شہر سڑکوں اور عمارتوں سے نہیں بلکہ لوگوں سے آباد ہوتے ہیں، جن سے کبھی لاہور آباد تھا۔ آپ لاہور کو پیرس تو نہ بنا سکے کاش آپ نے لاہور کو لاہور ہی رہنے دیا ہوتا ۔
تحریر : عامر عبدالحمید