پہلے احتساب۔۔۔ پھر انتخاب۔۔۔ آخر کیوں؟

Jugnu786

MPA (400+ posts)
hassan-iqbal-copy1.jpg

جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت ختم کرنے کے قریب ہے۔ ملک اور قوم کے لیے یہ ایک بہت بڑا اعزاز ہے کہ ایک منتخب جمہوری حکومت نے مرکز اور صوبوں میں اپنی مدت نہ صرف پوری کی بلکہ آئندہ الیکشن کے لیے پر عزم ہیں۔ تمام جمہوری نظام، حکومت، عدالتیں اور ملکی ادارے مبارک باد کے مستحق ہیں۔ خاص طور پر عوام جن کے لیے یہ سب کچھ ہو رہا ہے انہیں خاص طور پر مبارک ہو کہ ایک بار پھر انہیں مستقبل قریب میں حق رائے دہی ملے گا اور وہ اپنی پسند کے نمائندے منتخب کر پائیں گے۔ موجودہ عرصہ جمہوریت میں بے حد مشکلات آئیں اور جمہوریت کی گاڑی پٹڑی سے اترتے اترتے بچی اور کئی بار حادثات کا شکار ہوتے ہوتے رہ گئی۔ اگرچہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ سب اچھا ہے لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ یہ بہت اچھا ہے کہ جمہوری حکومت نے پانچ سال مکمل کیے۔ دراصل اگلا الیکشن ہی حکومت اور سیاستدانوں کا امتحان ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے پچھلے پانچ سالوں میں کس طرح عوام کے حقوق کا تحفظ کیا۔ یہ امتحان صرف حکومت کا ہی نہیں بلکہ یہ امتحان اپوزیشن کے لیے بھی ہوتا ہے۔ اس لیے کہ جمہوری نظام میں حکومت اور اپوزیشن دونوں ایک دوسرے سے بڑھ کر کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں اور اپنے اپنے حصے کی ذمہ دارایاں ادا کرنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اگر دونوں نے اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی میں کوئی کوتاہی، پہلو تہی یا سستی کی ہو تو عوام ان کا اپنے ووٹ کے ذریعے محاسبہ کرتے ہیں۔ پاکستان کی تاریخ میں غیر جمہوری قوتوں کی عمل داری کی وجہ سے جمہوریت کی گاڑی بار بار پٹڑی سے اترتی رہی۔ اس کی وجوہات ہمیشہ سیاستدانوں کی بدعنوانی اور غلط انداز حکمرانی ہی بنایا جاتا رہا۔ اس کے بعد احتساب کے نعرے لگائے گئے۔ احتساب کے نام پر دس دس سال غیر جمہوری قوتیں حکمرانی کرتی رہیں لیکن نہ تو احتساب ہوا اور نہ ہی جمہوریت پروان چڑھی بلکہ بدعنوانی بڑھتی ہی بڑھتی گئی۔ ایوب خان کے دور احتساب میں یحییٰ خان کے زمانے میں اور اس کے بعد بھی احتساب کے نام پر بہت سے لوگوں کے خلاف کارروائیاں کی گئیں لیکن من پسند لوگ احتساب سے بچے نکلے۔ جنرل ضیاء کے دور میں بھی یہی ہوا بلکہ اس دور میں تو ان کی اپنی بنائی ہوئی جمہوریت بھی احتساب کے نام پر ان کے عتاب سے محفوظ نہ رہ سکی۔ پرویز مشرف نے احتساب کے نام پر اور اچھی حکمرانی کے نام پر سپریم کورٹ سے تین سال حاصل کیے۔ 9 سال حکومت کرنے کے باوجود نہ احتساب کر سکے اور نہ اچھی حکمرانی دے سکے۔ جاتے جاتے تمام بدعنوان عناصر کو قانونی تحفظ دے گئے۔ کچھ لوگ جو ان مذکورہ ادوار سے متاثر ہیں آج بھی اپنا نقطہ نظر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ پہلے احتساب ہو پھر اس کے بعد انتخابات کروائے جائیں۔ شاید وہ یہی چاہتے ہیں کہ تاریخ کی غلطیاں دہرائی جائیں اور قوم کو ایک بار پھر احتساب کی چکی میں ڈال کر غیر جمہوری عناصر کے سپرد کر دیں۔ جمہوریت کی گاڑی روک دی جائے۔ نظام کو لپیٹ دیا جائے۔ آئین کو بالائے طاق رکھ دیا جائے۔ قوم پھر 10 سال کے لیے نئے مصائب کا شکار ہو اور اس کے بعد جمہوریت بحال کرانے کے لیے تحریکیں چلائی جائیں اور نئی اسمبلی اس شرط پر آئے کہ دس سال کا کیا دھرا آئینی قرار دے اور ایک بار وہی سیاستدان شہادت حاصل کر کے دوبارہ مسلط ہو جائیں۔ یہ عوام کے ساتھ سراسر زیادتی اور دھوکہ ہے۔ جمہوری حکومت کی مدت ختم ہونے کے بعد جمہوری حکومت کا آنا ہی جمہوریت کی کامیابی ہے۔ پولیٹیکل سائنسدانوں کے مطابق انتخابات چار اہم کردار ادا کرتے ہیں۔ اوّل یہ کہ منتخب نمائندوں کو مجبور کرتے ہیں کہ وہ ایسے معیاری اور بہترین فیصلے کریں کہ عوام انہیں بہترین نمائندے سمجھ کر دوبارہ منتخب کریں۔ دوم عوام کے لیے موقع فراہم کرتے ہیں کہ وہ ایسے لوگوں کو رد کر دیں جو کہ ان کی نمائندگی کے لیے مناسب نہ ہوں اور وہ صحیح طریقے سے ان کی ضروریات اور جذبات کو عمل میں تبدیل نہ کر سکیں۔ سوم یہ کہ ایک مسلسل عمل کے ذریعے غیر مناسب لوگ انتخابی عمل سے خود بخود باہر ہو جاتے ہیں اور صرف قابل، ایماندار اور عوامی خدمت کا جذبہ رکھنے والے لوگ ہی اس عمل کا حصہ رہتے ہیں۔ چہارم یہ کہ اگر اس عمل میں تسلسل نہ رہے تو پھر اسے نئے سرے سے شروع کرنا پڑتا ہے اور ایک بار پھر نا اہل لوگ موقع سے فائدہ اٹھا کر اس عمل کا حصہ بننے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔

اگر ہم اپنی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں بھی اسی صورت حال کا سامنا ہے۔ اگر اس وقت احتساب کے نام پر جمہوری عمل میں رکاوٹ ڈالی گئی تو جمہوریت کے لیے یہ خطرناک عمل ہو گا۔ دوسری طرف کیا احتساب جمہوری عمل کے ساتھ ساتھ نہیں چل سکتا۔ کیا احتساب کرنے والے ادارے آئین اور قوانین کے تحت احتساب کرنے کے پابند نہیں۔ وہ کیوں اس بات کے منتظر رہتے ہیں کہ حکومت ختم ہو گی تو صرف اسی صورت میں احتساب کیا جا سکے گا۔ دنیا کی بڑی بڑی جمہوریتوں میں حکمرانوں کا خاص طور پر ان کے دور حکومت میں ہی احتساب کی گیا۔ اگر امریکہ میں کلنٹن کو ان کے دور حکومت میں ہی احتساب سے گزرنا پڑ سکتا ہے تو یہ ہمارے ہاں بھی ہونا چاہیے۔ ہندوستان میں نرسیما راؤ کو ان کے دور حکومت کے بعد احتساب سے گزرنا پڑا۔ اس وقت میڈیا، سول سوسائٹی اور ادارے اس قدرے مضبوط ہیں کہ وہ مل کر حکمرانوں کا احتساب کرنے والے اداروں کی مدد کر سکتے ہیں۔ پاکستان میں آج کے دور کی اتنی بڑی مثال موجود ہے کہ ایک منتخب وزیراعظم کو عدالت عظمیٰ نے حکم عدولی پر گھر بھیج دیا۔ نیا وزیراعظم منتخب ہوا اور جمہوریت چلتی رہی۔ اس سے زیادہ احتساب کی بڑی کیا مثال ہو سکتی ہے۔ اسی طرح فوجی افسران سے لے کر سول افسران اور وزراء سے لے کر کاروباری حضرات تک، سب کو اپنے اختیارات سے تجاوز کرنے پر احتساب سے گزرنا پڑا۔ نہ صرف موجودہ دور بلکہ سابقہ ادوار میں کئے گئے کاموں پر بھی پوچھ گچھ کی گئی۔ اس لیے یہ کہنا کہ صرف غیر جمہوری دور میں یا نئی حکومت آنے سے پہلے احتساب ہونا چاہیے تو تاریخ گواہ ہے کہ یہ عمل کبھی مکمل نہیں ہو سکے گا۔ ایسے نظام کے تجویز کنندہ نہ تو ملک و قوم کے خیر خواہ ہین اور نہ ہی وہ ملک و قوم کو ترقی سے ہم کنار ہوتا دیکھ سکتے ہیں۔
پاکستان میں اس امر کی ضرورت ہے کہ ادارے مضبوط ہوں اور ان پر کسی قسم کی الزام تراشی نہ ہو سکے۔ ان کا کردار بلند ہوتا کہ ان پر اعتماد کیا جا سکے۔ جب یہ صورت حال ہو گی تو کسی عبوری حکومت کی ضرورت رہے گی اور نہ ہی نئی حکومت سے قبل احتساب کرنے کی بلکہ تمام ادارے اپنی اپنی جگہ اور اپنے اپنے وقت پر بکار عمل رہیں گے۔ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوتا رہے گا۔ بدعنوان کو سزا ملے گی اور اچھا کام کرنے والوں کو جزا۔ یہی دنیا کا دستور ہے۔ یہی پاکستان کا دستور ہے۔ یہی عوام کا مطالبہ اور خواہش ہے۔ ہم سب کی یہ کوشش ہونی چاہیے کہ جمہوریت اسی طرح چلتی رہے اور ادارے اپنی اپنی جگہ کام کرتے رہیں۔ ملک اور قوم آگے برھتے رہیں۔ احتساب کا عمل ساتھ ساتھ چلتا رہے۔ اگرہم نے احتساب کے لیے ماضی کی طرح آگے بڑھنا چھوڑ دیا تو بہت پیچھے رہ جائیں گے۔
 

Back
Top