لاہور ہائی کورٹ میں ریپ کے الزام میں گرفتار ملزم واجد علی کی ضمانت کی درخواست اور اینٹی ریپ ایکٹ کے نفاذ کے حوالے سے کیس کی سماعت ہوئی۔ چیف جسٹس عالیہ نیلم کی سربراہی میں تین رکنی بینچ میں جسٹس فاروق حیدر اور جسٹس علی ضیا باجوہ شامل تھے۔
دوران سماعت، عدالت نے ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کی رپورٹ کا جائزہ لیا اور استفسار کیا کہ کیا واقعی پنجاب میں ہر منٹ میں ایک ریپ کا واقعہ پیش آ رہا ہے؟ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے وضاحت کی کہ ڈیڑھ لاکھ کیسز رجسٹر ہوئے ہیں لیکن یہ سب ریپ کے کیسز نہیں ہیں۔
جسٹس علی ضیا باجوہ نے رپورٹ پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پنجاب میں ہر 15 منٹ میں ایک ریپ رپورٹ ہو رہا ہے، اور یہ صورتحال بھارت سے بھی زیادہ سنگین دکھائی دیتی ہے۔ تاہم، ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ ان کیسز میں سے 30 فیصد جھوٹے مقدمات درج کرائے گئے ہیں۔
عدالت نے آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور کو فوری طلب کیا۔ سماعت کے دوران، ایڈووکیٹ جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ پنجاب میں اینٹی ریپ ایکٹ کے تحت 150 خصوصی یونٹ کام کر رہے ہیں، جبکہ تمام ضلعی سینٹرز میں خواتین اہلکار تعینات کی گئی ہیں۔
جسٹس علی ضیا باجوہ نے استفسار کیا کہ آیا ڈی این اے ٹیسٹ کے لیے 32 ہزار کٹس فراہم کی گئی ہیں؟ اس پر ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ عدالتی احکامات پر کئی خامیوں کو دور کر دیا گیا ہے۔
آئی جی پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ سیف سٹی اتھارٹی کے تعاون سے ورچوئل پولیس اسٹیشن قائم کیا گیا ہے، جہاں متاثرہ خواتین ای میل، کال یا واٹس ایپ کے ذریعے شکایات درج کرا سکتی ہیں۔ مزید بتایا گیا کہ 2,100 خواتین اہلکاروں کو خصوصی تربیت دی گئی ہے، جبکہ 880 تفتیشی افسران کی تقرری کی گئی ہے جن کی کم از کم تعلیم گریجویشن ہے۔
چیف جسٹس عالیہ نیلم نے کہا کہ اینٹی ریپ ایکٹ پر مکمل عمل درآمد ضروری ہے اور ان کیسز کی تفتیش کے لیے افسران کی معیاری تربیت کو یقینی بنایا جائے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ صنفی تشدد کے کیسز کی تحقیقات میں ٹراما سے متعلق معلومات کو شامل کیا جائے۔
سماعت کے دوران، میاں داؤد ایڈووکیٹ کی ایک دن کے استثنیٰ کی درخواست پر سوال اٹھایا گیا۔ میاں داؤد نے وضاحت دی کہ یہ ان کے دفتر کی غلطی تھی اور عدالت سے غیر مشروط معافی مانگی۔ چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ ایسے رویے سے عدالتی نظام کو نقصان پہنچتا ہے۔
آخر میں، چیف جسٹس نے آئی جی پنجاب کی کاوشوں کو سراہتے ہوئے کہا کہ جرائم کے خاتمے کے لیے تمام اداروں کو مل کر کام کرنا ہوگا۔