mehwish_ali
Chief Minister (5k+ posts)
ان سب معصوموں کے قتل کے ذمہ دار طالبان تنہا نہیں، بلکہ عمران خان جیسے لیڈر بھی اس معصوم خون کے برابر کے ذمہ دار ہیں۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/09/130925_mohmand_dam_attack_tim.shtml
پاکستان کے قبائلی علاقے مہمندایجنسی میں حکام کا کہنا ہے کہ ایک زیر تعمیر ڈیم کے عملے پر ہونے والے ریموٹ کنٹرول بم حملے میں انجینئر سمیت تین افراد ہلاک اور پانچ زخمی ہوگئے ہیں جبکہ عملے کے دو افراد کو اغواء کرلیا گیا ہے۔
مہمند ایجنسی کے ایک پولیٹکل اہلکار نے بی بی سی کے نامہ نگار رفعت اللہ اورکزئی کو بتایا کہ یہ حملہ بدھ کی صبح ایجنسی ہیڈ کوارٹر غلنئی سے تقریباً پانچ کلومیٹر دور تحصیل حلیم زئی کے علاقے میں پیش آیا ۔ انہوں نے کہا کہ علاقے میں زیر تعمیر گندھاؤ سمال ڈیم کے اہلکار ڈیوٹی پر جارہے تھے کہ سڑک کے کنارے ان کی گاڑی کو ریموٹ کنٹرول بم حملے کا نشانہ بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ دھماکے میں تین افراد ہلاک اور پانچ زخمی ہوئے۔ ہلاک والوں میں ڈیم کے انجینئر ، ٹھیکدار اور ڈرائیور شامل ہیں۔ زخمیوں کو ایجنسی ہیڈ کوارٹر ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دھماکے میں گاڑی مکمل طورپر تباہ ہوگئی ہے۔
اس سے پہلے منگل اور بدھ کی درمیانی شب درجنوں مسلح عسکریت پسندوں نے گندھاؤ سمال ڈیم پر حملہ کیا اور وہاں موجود مشنری کو آگ لگائی اور توڑ پھوڑ کی۔ سرکاری ذرائع کے مطابق آگ لگنے سے ڈیم کی مشنری کو بھاری نقصان پنہچایا گیا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلح افراد نے ڈیم پر کام کرنے والے دو افراد کو اغواء کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔ اغواء ہونے والے اہلکاروں میں ایک انجینئیر اور منشی شامل ہیں۔
\
دریں اثناء کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان مہمند ایجنسی کے سربراہ عمر خالد کے ترجمان عمر خراسانی نے دونوں واقعات کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت ڈیم بنانے کی آڑ میں علاقے میں سکیورٹی چیک پوسٹیں قائم کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں انتظامیہ کو خبردار بھی کیا گیا تھا کہ لیکن ان کی بات پر غور نہیں کیا گیا اسی وجہ سے حملہ کیا گیا۔
خیال رہے کہ حکومت نے پانی اور بجلی کی ضرورت پورا کرنے کےلیے قبائلی علاقوں میں چھوٹے بڑے ڈیمز بنانے کے مختلف منصوبوں پر کام کررہی ہے۔ تاہم قبائلی علاقوں سکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور ان ڈیمز پر کام کرنے والے عملے افراد پر حملوں کے باعث یہ منصوبے تاخیر کا شکار ہورہے ہیں۔ تقریباً ایک سال قبل جنوبی وزیرستان میں گومل زام ڈیم سے اغواء کیے گئے اٹھ اہلکاروں کو دو ہفتے قبل آزاد کیا گیا تھا۔ یہ اہلکار ایک سال تک طالبان کے تحویل میں رہے۔
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2013/09/130925_mohmand_dam_attack_tim.shtml
پاکستان کے قبائلی علاقے مہمندایجنسی میں حکام کا کہنا ہے کہ ایک زیر تعمیر ڈیم کے عملے پر ہونے والے ریموٹ کنٹرول بم حملے میں انجینئر سمیت تین افراد ہلاک اور پانچ زخمی ہوگئے ہیں جبکہ عملے کے دو افراد کو اغواء کرلیا گیا ہے۔
مہمند ایجنسی کے ایک پولیٹکل اہلکار نے بی بی سی کے نامہ نگار رفعت اللہ اورکزئی کو بتایا کہ یہ حملہ بدھ کی صبح ایجنسی ہیڈ کوارٹر غلنئی سے تقریباً پانچ کلومیٹر دور تحصیل حلیم زئی کے علاقے میں پیش آیا ۔ انہوں نے کہا کہ علاقے میں زیر تعمیر گندھاؤ سمال ڈیم کے اہلکار ڈیوٹی پر جارہے تھے کہ سڑک کے کنارے ان کی گاڑی کو ریموٹ کنٹرول بم حملے کا نشانہ بنایا گیا۔
انہوں نے کہا کہ دھماکے میں تین افراد ہلاک اور پانچ زخمی ہوئے۔ ہلاک والوں میں ڈیم کے انجینئر ، ٹھیکدار اور ڈرائیور شامل ہیں۔ زخمیوں کو ایجنسی ہیڈ کوارٹر ہسپتال منتقل کیا گیا ہے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ دھماکے میں گاڑی مکمل طورپر تباہ ہوگئی ہے۔
اس سے پہلے منگل اور بدھ کی درمیانی شب درجنوں مسلح عسکریت پسندوں نے گندھاؤ سمال ڈیم پر حملہ کیا اور وہاں موجود مشنری کو آگ لگائی اور توڑ پھوڑ کی۔ سرکاری ذرائع کے مطابق آگ لگنے سے ڈیم کی مشنری کو بھاری نقصان پنہچایا گیا ہے۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ مسلح افراد نے ڈیم پر کام کرنے والے دو افراد کو اغواء کرکے نامعلوم مقام پر منتقل کردیا ہے۔ اغواء ہونے والے اہلکاروں میں ایک انجینئیر اور منشی شامل ہیں۔
\
دریں اثناء کالعدم تنظیم تحریک طالبان پاکستان مہمند ایجنسی کے سربراہ عمر خالد کے ترجمان عمر خراسانی نے دونوں واقعات کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ انہوں نے الزام لگایا کہ حکومت ڈیم بنانے کی آڑ میں علاقے میں سکیورٹی چیک پوسٹیں قائم کر رہی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس سلسلے میں انتظامیہ کو خبردار بھی کیا گیا تھا کہ لیکن ان کی بات پر غور نہیں کیا گیا اسی وجہ سے حملہ کیا گیا۔
خیال رہے کہ حکومت نے پانی اور بجلی کی ضرورت پورا کرنے کےلیے قبائلی علاقوں میں چھوٹے بڑے ڈیمز بنانے کے مختلف منصوبوں پر کام کررہی ہے۔ تاہم قبائلی علاقوں سکیورٹی کی بگڑتی ہوئی صورتحال اور ان ڈیمز پر کام کرنے والے عملے افراد پر حملوں کے باعث یہ منصوبے تاخیر کا شکار ہورہے ہیں۔ تقریباً ایک سال قبل جنوبی وزیرستان میں گومل زام ڈیم سے اغواء کیے گئے اٹھ اہلکاروں کو دو ہفتے قبل آزاد کیا گیا تھا۔ یہ اہلکار ایک سال تک طالبان کے تحویل میں رہے۔
Last edited by a moderator: