٢٠ کروڑ پاکستانی عوام کی قیمت فقط تلور ؟؟؟
پانامہ کیس میں قطری شاہی خاندان کا شریف خاندان کے لندن فلیٹس (کا مال حرام ) اپنے سر لینا کہ ١٩٨٠ُ میں
ہمارے ابّے آپس میں دوستی کو مزید مضبوط کرنے کے لیے کاروباری شراکت میں ملوث هوئے اور پھر اس شراکت کو اتنا پھل ، اتنا پھل لگا کے اس سے عربوں نے اربوں کے فلیٹ خریدے اور اپنے عجمی لنگوٹیے کے
سب سے چہیتے پوتے کو دان کر دئیے یہاں یہ مدنظر رکھیے کہ ١٩٨٠ُ میں میاں نواز شریف صاحب کو پاکس
میں اتفاق فونڈری کے باہر کیا پڑوس کی فیکٹری میں بھی غالبا کوئی نہیں جانتا تھا لیکن میاں صاحب کے تلوری
دوست کا ابا میاں صاحب کے ابے کو نہ صرف جانتا تھا بلکہ " دیرینہ طور " پر جانتا تھا _
دو دن هوئے کے قطری شاہی خاندان کی آمد سے "رن " کانپ اٹھا اور خبروں کے مطابق "رن " کےموجودہ
وارث کے صاحبزادے اپنے ابے کے ابے کے دوستوں کے خاندان کو سر آنکھوں پر بٹھانے بہ نفس نفیس ہوائی
اڈے پر پہونچےجنھیں سیدھا رائے ونڈ محل لے جا کر عجمی شاہی خاندان کے ساتھ کھانا کھلا کر فیصل آباد شکار پر روانہ کر دیا گیا - پھر خبر آئی کے دیکھا خود آئیں ہے خط پر مہر تصدیق ثبت کر کے جائیں گے ابھی اس خوش
خبری کی ڈولی اٹھی ہی تھی کہ بیوگی کی اطلاعات آنی شروع هوئیں کہ جناب مہمان قطری ضرور ہیں پر فلحال
"تلوری"
بن کر آئے ہیں
اسی "تلوری قطری " آمد پر آپ احباب کی نظر دو خبریں جنھیں پڑھ کر مجھے سمجھ آئ " ہماری اوقات " کیا ہے
آپ بھی پڑھیے شاید آپ کو بھی سمجھ آ جاۓ کہ ٢٠ کروڑ پاکستانی عوام کی اوقات صرف اتنی سی ہے
یعنی " تلور جو ٢٠ کروڑ پر بھاری " ، پڑھیے اور خود فیصلہ کیجیے
_________________________________
نایاب پرندے تلور کے شکار پر مکمل پابندی کا فیصلہ برقرار
شہزاد ملک
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
19 اگست 2015
پاکستان کی سپریم کورٹ نے بلوچستان میں تلور کے شکار پر مکمل پابندی عائد کرنے سے متعلق بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا ہے
جبکہ وزارت خارجہ کی طرف سے اس پرندے کے شکار کے لیے غیر ملکیوں کو جاری کیے گئے لائسنس منسوخ کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔
بدھ کو چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے جنگلی حیات کے سیکریٹری کی طرف سے بلوچستان ہائی کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف دائر کی گئی درخواست کی سماعت کی۔
تلور کے شکار کے بارے میں ایک درخواست شہری راجہ فاروق کی طرف سے بھی دائر کی گئی تھی۔ درخواست گزار کا کہنا تھا کہ حکومت نے نایاب پرندوں کی حفاظت کے معاہدے پر دستخط کر رکھے ہیں لیکن اس کے برعکس غیر ملکی شہزادوں کو تلور کے شکار کا لائسنس جاری کیے گئے ہیں۔ اُنھوں نے کہا کہ ایک روز میں 2100 تلور شکار کیے گئے ہیں۔
بینچ میں موجود جسٹس دوست محمد خان نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا یہ بات درست ہے کہ ایک روز میں 2100 تلوروں کا شکار کیا گیا، جس پر ڈپٹی اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ قانون کے مطابق ایسا نہیں ہو سکتا۔
جسٹس دوست محمد خان نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ کیا یہ بات درست ہے کہ حکومت نے عرب شہزادوں کو تلور کے شکار کے لیے عارضی طور پر زمین فراہم کی ہے جبکہ اس کے علاوہ تلور کے شکار کے لیے عارضی طور پر لائسنس بھی جاری کیے ہیں؟
ڈپٹی اٹارنی جنرل کا کہنا تھا کہ حکومت نے خوشی سے اس کی اجازت نہیں دی بلکہ اس کے لیے بیرونی تعلقات کو بھی دیکھنا پڑتا ہے۔
چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے استفسار کیا کہ ایک شہزادہ کس قانون کے تحت 2100 تلور شکار کر کے لے گیا؟
جس پر بینچ میں موجود جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ کیا بیرون ممالک کے ساتھ تعلقات کی وجہ سے پاکستان میں قتل وغارت کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ اُنھوں نے کہا کہ بیرون ممالک سے آنے والے افراد کو پاکستانی قوانین کا احترام کرنا چاہیے۔
چیف جسٹس جواد ایس خواجہ نے استفسار کیا کہ ایک شہزادہ کس قانون کے تحت 2100 تلور شکار کر کے لے گیا اور دفتر خارجہ نے کس قانون کے تحت ان عرب شہزادوں کوعارضی طور پر لائسنس جاری کیے؟ اُنھوں نے کہا کہ اس طرح لائسنس جاری کرنا پرندوں کے قتل کے زمرے میں آتا ہے اور ان پرندوں کا شکار کرنے کی اجازت کس قانون کے تحت دی گئی ہے؟
اُنھوں نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ مہمان داری کسی کو عظیم نہیں بنا سکتی بلکہ قانون کی پاسدادی عظیم بنا سکتی ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ حکومت کو چاہیے کہ اس پرندے کے شکار کی اجازت کے لیے صوبوں کو لکھے کیونکہ اٹھارہویں آئینی ترمیم کے تحت یہ اختیار
صوبوں کو دے دیا گیا ہے۔
http://www.bbc.com/urdu/pakistan/2015/08/150819_bustard_hunting_case_sh
_______________________________
سپریم کورٹ نے تلور کے شکار کی اجازت دے دی
شہزاد ملک
بی بی سی اردو ڈاٹ کام، اسلام آباد
22 جنوری 2016
فیصلے کے حق میں چار ججوں نے رائے دی جبکہ بینچ کے رکن جسٹس فائز عیسیٰ نے اختلافی نوٹ تحریر ک
پاکستان کی سپریم کورٹ نے تلور کے شکار پر مکمل پابندی عائد کرنے کے فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا ہے۔
عدالت نے یہ حکم وفاق اور صوبہ پنجاب، سندھ اور بلوچستان کی حکومتوں کی جانب سے سپریم کورٹ کے اس فیصلے پر نظرِ ثانی کی درخواستوں پر دیا جس میں شکار پر پابندی کے سپریم کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کیا گیا تھا۔
اگست 2015 میں اس وقت کے چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے تلور کے شکار پر پابندی عائد کرنے کے بلوچستان ہائی کورٹ کے فیصلے کو برقرار رکھا تھا۔
جمعے کو سنائے گئے فیصلے میں چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کثرتِ رائے سے اس فیصلے کو کالعدم قرار دے دیا۔
یہ فیصلہ جسٹس میاں ثاقب نثار نےتحریر کیا ہے جنھوں نے لکھا کہ ہجرت کرنے والے پرندوں سے متعلق اقوام متحدہ کا کنونشن اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ ان نسلوں کی افزائش کر کے شکار کیا جا سکتا ہے۔
فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عالمی ادارہ برائے جنگلی حیات نے تلور کو اُن پرندوں میں شامل نہیں کیا جن کی نسل معدوم ہو رہی ہے۔
سپریم کورٹ کے فیصلے میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ قانون کا جائزہ لے کر عدالت اس نتیجے پر پہنچی ہے کہ تلور کے شکار پر مستقل پابندی نہیں لگائی جا سکتی۔
عدالت کا کہنا تھا کہ صوبوں کا اختیار ہے کہ کس پرندے کے شکار پر پابندی لگائیں اور کس پرندے کے شکار کی اجازت دیں، عدلیہ اس معاملے میں مداخلت نہیں کر سکتی۔
عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ حکومت کی طرف سے تلور کے شکار کے پرمٹ کے طریقہ کار کے بارے میں کچھ نہیں بتایا گیا۔
اس کے علاوہ اس فیصلے میں اس بات کا بھی ذکر کیا گیا ہے کہ عدالت کو کسی بھی مرحلے پر یہ نہیں بتایا گیا کہ جنگلی حیات کے بارے میں صوبوں کے قوانین کیا ہیں۔
عدالت کا یہ بھی کہنا تھا کہ جنگلی حیات کے تحفظ اور افزائش کے لیے محکمہ وائلڈ لائف ایسے اقدامات کرے جو تمام جنگلی حیات کے لیے ہوں۔
فیصلے کے حق میں چار ججوں نے رائے دی جبکہ بینچ کے رکن جسٹس فائز عیسیٰ نے اختلافی نوٹ تحریر کیا۔
جسٹس عیسٰی اس بینچ کے بھی رکن تھے جس نے شکار پر پابندی لگانے کا فیصلہ برقرار رکھا تھا۔
پاکستان ان چند ممالک میں ہے جہاں نایاب سمجھا جانے والا پرندہ تلور موسمِ سرما گزارتا ہے۔
حکومتِ پاکستان اس کے شکار کے لیے خصوصی پرمٹ جاری کرتی ہے اور اس کے شکار کے لیے خلیجی ریاستوں کے شاہی خاندانوں کے ارکان کی بڑی تعداد پاکستان کا رخ کرتی رہی ہے۔
بلوچستان کے مختلف اضلاع میں 1980 کی دہائی سے خلیجی ممالک سے تعلق رکھنے والے عرب شیوخ کو شکار گاہیں الاٹ کی جاتی رہی ہیں۔
اس پرندے کے شکار کے لیے وفاقی وزارتِ خارجہ کی جانب سے جو پرمٹ جاری کیا جاتا ہے اس کے مطابق کسی بھی علاقے میں عرب شیوخ دس دن کے لیے شکار کر سکتے ہیں۔
ان دس دنوں میں ان کو صرف 100 تلور شکار کرنے کی اجازت ہوتی ہے تاہم بلوچستان کے محکمہ تحفظِ جنگلی حیات کی رپورٹ کے مطابق 2014 میں ایک سعودی شہزادے نے چاغی میں تین ہفتے کی کیمپنگ کے دوران 2100 تلور شکار کیے تھے۔
http://www.bbc.com/urdu/pakistan/2016/01/160122_bustard_hunting_case_sc_decision_zs