Shahid Abassi
Chief Minister (5k+ posts)
کیا سیاستدان ہمیں چائنا کی غلامی میں دھکیل رہے ہیں؟
آج پرویز خٹک نے چائنا کے ساتھ ۲۰ ارب ڈالر انویسٹمنٹ کے معائدوں پر دستخط کئے ہیں۔ جس میں چترال سے ڈی آئی خان تک موٹر وے، صوابی اور ڈی آئی خاں میں انٹرنیشنل ائیرپورٹس ، سرکلر ٹرین اور اریگیشن کنال وغیرہ کے ساتھ ساتھ ڈیڑھ ارب ڈالر کی ایک آئیل رفائینری بھی شامل ہیں ۔
خواتین و حضرات چائینا کی پاکستان میں انویسٹمنٹ سو ارب ڈالر تک پہنچنے والی ہے۔ اور آپ با خوبی جانتے ہیں کہ چائینیز انوسٹمنٹ کسی صورت بھی ایک قرض سے کم نہیں کیونکہ اس انویسٹمنٹ میں تین چیزیں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ ایک تو یہ کہ چائینیز انویسٹمنٹ کو دس سال تک ٹیکس کی سو فیصد چھوٹ دی جارہی ہے ، دوسرا یہ کہ اس ساری سرمایہ کاری پر ۲۰ سے ۳۴ فیصد تک منافع کی گارنٹی دی جا رہی ہے
اور تیسری اہم بات یہ کہ چاہے بات لاہور کی اورنج ٹرین کی ہو، کراچی کی میٹرو یا پھر کے پی کے میں ان ۲۰ ارب ڈالر کی، ان میں سے کوئی سرمایا کاری بھی ایسی نہیں جس سے ہماری ایکسپورٹ بڑھنے کا عندیہ ہو۔اس صورتِ حال میں ذرا غور کیجئے کہ اگر چائنیز کمپنیوں نے اپنی سو ارب کی انویسٹمنٹ پر ۲۰ فیصد بھی پرافٹ پاکستان سے چین منتقل کرنا شروع کر دیا تو ہم انہیں یہ سالانہ ۲۰ ارب ڈالر کہاں سے دیں گے ۔ پاکستان تو پہلے ہی ہر سال ۱۰ ارب ڈالر خسارے میں چل رہا ہے جو کہ ہم نئے قرض لے کر پورے کرتے ہیں ۔
ہمارے سیاست دانوں کو چین کو سینٹا کلاز سمجھتے ہوئے پاکستان کے مستقبل کو صرف ووٹر کی خشنودی پر قربان نہیں کرنا چاہیے۔سچی بات تو یہ ہے کہ جس طرح لاہور کو قرض کی اورنج لائن کی کوئی ضرورت نہیں اسی طرح پختون خواہ میں فارن انویسٹمنٹ پرمیٹرو، سرکلر ریلوے، چترال کے لئے موٹر وے اور صوابی اور ڈی آئی خاں میں انٹرنیشنل ائرپورٹس کی کوئی ضرورت نہیں۔
چینی سرمایہ کاری صرف اور صرف انتہائی ضروری انفراسٹرکچر پراجیکٹس کے علاوہ صرف اور صرف ایکسپورٹ اورینٹڈ پراڈکشن یونٹس میں ہی ہونی چاہیے۔ ورنہ چند ہی سالوں میں پاکستان کا ہر اہم ادارہ چین کی ملکیت میں ہوگا اور ہم سب اکنامک غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہوں گے۔
آج پرویز خٹک نے چائنا کے ساتھ ۲۰ ارب ڈالر انویسٹمنٹ کے معائدوں پر دستخط کئے ہیں۔ جس میں چترال سے ڈی آئی خان تک موٹر وے، صوابی اور ڈی آئی خاں میں انٹرنیشنل ائیرپورٹس ، سرکلر ٹرین اور اریگیشن کنال وغیرہ کے ساتھ ساتھ ڈیڑھ ارب ڈالر کی ایک آئیل رفائینری بھی شامل ہیں ۔
خواتین و حضرات چائینا کی پاکستان میں انویسٹمنٹ سو ارب ڈالر تک پہنچنے والی ہے۔ اور آپ با خوبی جانتے ہیں کہ چائینیز انوسٹمنٹ کسی صورت بھی ایک قرض سے کم نہیں کیونکہ اس انویسٹمنٹ میں تین چیزیں بہت اہمیت کی حامل ہیں۔ ایک تو یہ کہ چائینیز انویسٹمنٹ کو دس سال تک ٹیکس کی سو فیصد چھوٹ دی جارہی ہے ، دوسرا یہ کہ اس ساری سرمایہ کاری پر ۲۰ سے ۳۴ فیصد تک منافع کی گارنٹی دی جا رہی ہے
اور تیسری اہم بات یہ کہ چاہے بات لاہور کی اورنج ٹرین کی ہو، کراچی کی میٹرو یا پھر کے پی کے میں ان ۲۰ ارب ڈالر کی، ان میں سے کوئی سرمایا کاری بھی ایسی نہیں جس سے ہماری ایکسپورٹ بڑھنے کا عندیہ ہو۔اس صورتِ حال میں ذرا غور کیجئے کہ اگر چائنیز کمپنیوں نے اپنی سو ارب کی انویسٹمنٹ پر ۲۰ فیصد بھی پرافٹ پاکستان سے چین منتقل کرنا شروع کر دیا تو ہم انہیں یہ سالانہ ۲۰ ارب ڈالر کہاں سے دیں گے ۔ پاکستان تو پہلے ہی ہر سال ۱۰ ارب ڈالر خسارے میں چل رہا ہے جو کہ ہم نئے قرض لے کر پورے کرتے ہیں ۔
ہمارے سیاست دانوں کو چین کو سینٹا کلاز سمجھتے ہوئے پاکستان کے مستقبل کو صرف ووٹر کی خشنودی پر قربان نہیں کرنا چاہیے۔سچی بات تو یہ ہے کہ جس طرح لاہور کو قرض کی اورنج لائن کی کوئی ضرورت نہیں اسی طرح پختون خواہ میں فارن انویسٹمنٹ پرمیٹرو، سرکلر ریلوے، چترال کے لئے موٹر وے اور صوابی اور ڈی آئی خاں میں انٹرنیشنل ائرپورٹس کی کوئی ضرورت نہیں۔
چینی سرمایہ کاری صرف اور صرف انتہائی ضروری انفراسٹرکچر پراجیکٹس کے علاوہ صرف اور صرف ایکسپورٹ اورینٹڈ پراڈکشن یونٹس میں ہی ہونی چاہیے۔ ورنہ چند ہی سالوں میں پاکستان کا ہر اہم ادارہ چین کی ملکیت میں ہوگا اور ہم سب اکنامک غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہوں گے۔
Last edited by a moderator: