waseemshahzada
Councller (250+ posts)
عمران خان کی سیاسی سونامی جو ان کے گزشتہ برس اکتوبر میں لاہور کے عوامی جلسے کے بعد سے ٹھاٹھیں مار رہی تھی لگتا ہے جوں جوں انتخابات قریب آرہے ہیں اس کا زور ٹوٹتا جا رہا ہے۔ منتخب ہونے کی صلاحیت رکھنے والے روایتی سیاستدان تحریک انصاف کے ویٹنگ روم میں کچھ دیر سستا کے اب وہ ٹرینیں پکڑ رہے ہیں جن کا اقتدار کی منزل پر پہنچنے کا امکان ہے۔ عمران خان جو ان منجھے ہوئے سیاستدانوں کی شمولیت پر شادا ں تھے اب کہہ رہے ہیں کہ کسی کے آنے جانے سے ان کی پارٹی کو کوئی فرق نہیں پڑتا، وہ یہ بھی تسلیم کر رہے ہیں کہ ان کی جماعت کا گراف نیچے گرا ہے، اگرچہ الزام یا سہرا اس کا وہ پنجاب اور وفاق کی حکومتوں کے میڈیا سیلز کو دیتے ہیں۔ جب یہ سیاستدان جوق در جوق تحریک انصاف میں شامل ہو رہے تھے تو مرحبا مرحبا کا شور تھا اور اب جب وہ چھوڑ رہے ہیں تو ان کی سابقہ مبینہ بدعنوانیاں گنوائی جا رہی ہیں، یعنی اگر وہ تحریک انصاف میں رہتے تو پاک اورجا رہے ہیں تو گناہگار۔
تحریک انصاف شہری نوجوانوں اور غیر وابستہ ووٹروں میں مقبول ہے، جس کی بڑی وجہ عمران خان کا اس کرکٹ جنونی ملک کے لیے ورلڈ کپ جیتنا اور پھر کینسر ہسپتال کا قیام ہے۔ پھر عمران خان اقتدار کی پل صراط پر ابھی آزمائے بھی نہیں گئے جبکہ اقتدار کی سیاست کی دوسری بڑی جماعتیں بشمول پاکستان آرمی کے گزشتہ تیس بتیس سال میں دیکھی بھالی جا چکی ہیں۔ عمران خان کی ظاہری مقبولیت میں میڈیا خاص طور پر شہری بابو اینکروں میں ان کے لیے چاہت بھی ہے۔ (ظاہری مقبولیت اس لیے کہ حقیقی مقبولیت انتخابی نتائج سے جڑی ہوئی ہے)۔ پاکستان میں صدارتی نظام تو رائج ہے نہیں کہ پورا ملک ایک حلقہ ہو، یہاں پارلیمانی نظام ہے اور سینکڑوں انتخابی حلقے، ہر حلقے کی اپنی سیاست ۔ رہنماء ہرحلقے میں انتخاب لڑنے سے رہا، بلکہ انتخابی مہم کے دوران لیڈرہر حلقے میں بھی نہیں پہنچ پاتا۔ اگرچہ شہروں میں بھی ذات برادریاں انتخابات میں اہم کردار ادا کرتی ہیں لیکن یہ عنصر شاید اتنا غالب نہیں ہوتا جتنا دیہاتوں میں جہاں انتخاب لڑا ہی اسی بنیاد پہ جاتا ہے۔ مثلاً مرحوم فوجی آمر ضیاء الحق کے بیٹے اعجاز الحق کا بہاولنگر سے کوئی تعلق نہیں مگر وہ وہاں سے امیدوار ہوتے ہیں کیونکہ وہاں ان کی ارائیں برادری کا ووٹ بنک ہے۔ میدان سیاست کے پرانے کھلاڑی اپنی کامیابی کو یقینی بنانے کے لیے ٹاپ اپ کے طور پرایسی سیاسی جماعتوں کے ٹکٹ لے لیتے ہیں جن کا ووٹ بھی ہوتا ہے اور اقتدار میں آنے کا امکان بھی۔ عمران خان کی ویگن سے جو سواریاں اتر رہی ہیں وہ ہیں جو انتخابی سیاست کے منجھے ہوئے کھلاڑی ہیں اور مطلب اس کا یہ ہے کہ انہیں محسوس ہو رہا ہے کہ تحریک انصاف ان کے ووٹ ٹاپ اپ نہیں کر سکتی۔ انتخابی معرکے ٹیکنو کریٹس نہیں بلکہ سیاستدان سر کرتے ہیں۔عمران خان سیاست میں اس عمر میں آئے تھے جس عمر میں اوبامہ امریکہ کے صدر اور کیمرون برطانیہ کے وزیراعظم منتخب ہوچکے تھے۔ ہر شعبے کی طرح سیاست بھی تجربے سے آتی ہے ۔ تحریک انصاف میں سابق سفراء، بیورکریٹس اور آرمڈ فورسز کے ریٹائرڈ افسروں کی بھرمار ہے جو عوام سے ہمیشہ دور رہے ہیں اور سیاست ان کے لیے ایسے ہی ہے جیسے ریٹائرمنٹ کے بعد وقت گزاری کے لیے گاف کھیل لی یا برج۔ ایسا نہیں کہ ان میں سے کسی میں بھی ملکی حالات بہتر کرنے کی خواہش نہیں، لیکن کیا کیا جائے صرف خواہش سے کام نہیں چلتا۔ان میں سے شاید ہی کسی کا کوئی انتخابی حلقہ ہو۔ عمران خان ذوالفقار علی بھٹوبھی نہیں کہ کھمبے کو بھی کھڑا کر دینگے تو لوگ ووٹ دے دینگے۔ جو سیاستدان ہیں ان کا بھی انداز عوامی نہیں ہے۔ مخدوم شاہ محمود قریشی اور جہانگیر ترین پاور پوائنٹ سیاستدان ہیں، جو شاید اچھی Presentations تو بنا لیتے ہوں لیکن تحریک انصاف کی ملک گیر کامیابی میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتے۔ شاہ محمود قریشی کو اپنے حلقے میں مشکل صورتحال کا سامنا ہوگا جبکہ جہانگیر ترین کی انتخابی سیاست اپنے کزن رحیم یار خان کے مخدوم احمد محمود کے مرہون منت ہے جو سابق وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کے بھی پھوپی زاد ہیں۔لغاری برادرز (جمال لغاری اور اویس لغاری) اور ان کی کالا باغ سے پھوپی زاد سمیرا ملک اور عائلہ ملک بھی اپنے حلقوں سے باہر نہیں نکل سکیں گے۔ رہی سہی کسر تحریک انصاف کی نظریہ ساز بیگم شیریں مزاری نے لیڈر پر کھلے عام تنقید اور پارٹی چھوڑ کے کر دی ہے۔ ان کے اس فیصلے پر ان کی بیٹی کو سوشل میڈیا پر تحریک انصاف کے Cyber Trollsکے ہاتھوں جس صورتحال کا سامنا کرنا پڑا ہے اس پر وہ بلبلا اٹھی ہیں، اور انہوں نے اس راز سے پردہ اٹھا ہی دیا کہ تحریک انصاف کی Cyber Bulling کے پیچھے پارٹی کے سیکرٹری جنرل عارف علوی کے بلاگر بیٹے اواب علوی ہیں۔( سینئر صحافی نصرت جاویداپنے پروگرام بولتا پاکستان میں اس خدشے کا اظہار کئی ماہ پہلے ہی کر چکے تھے)۔ گزشتہ شب ایک ٹاک شومیں شریں مزاری، محمد خان ہوتی (ریکارڈیڈ)، اکرم بھنڈر اور عارف علوی شریک تھے۔ اکرم بھنڈر جنہوں نے تحریک انصاف چھوڑ کے مسلم لیگ نواز میں شمولیت اختیار کر لی ہے نے انکشاف کیا کہ اپنی پارٹی میں لیتے ہوئے عمران خان نے انہیں کہا تھا کہ آئی ایس آئی نے بھی آپ کو کلیئر کردیا ہے۔اس پر اینکر پرسن خاصے چونکے لیکن جلد ہی انہوں نے الٹااکرم بھنڈرکو لتاڑنا شروع کردیا کہ آپ کو آئی ایس آئی سے کلیئرنس کی ضرورت کیوں محسوس ہوئی، حالانکہ اکرم بھنڈر کے کہنے کا واضح مطلب تھا کہ یہ انکشاف ان پر شمولیت کے وقت کیا گیا، اس پر سوال تو تحریک انصاف سے بنتا تھا کہ کیا وہ آئی ایس آئی سے Vetting کرواتے ہیں؟ شیریں مزاری کا کہنا تھا کہ سونامی محض ایک نعرہ تھا جبکہ عارف علوی کہہ رہے تھے کہ ایسا انقلاب آ رہا ہے جس کا لوگوں کا بھی پتہ نہیں۔ اب جس انقلاب کا عوام کو بھی علم نہیں تو وہ عوامی تو نہ ہوا۔ عمران خان کی مقبولیت کا سکہ انتخابی سیاست میں چلنے کا شاید ابھی وقت نہیں آیا اور لگ ایسا رہا ہے کہ کم از کم آنے والے انتخابات میں سونامی سمندر کی جھاگ ثابت ہوگی۔
http://blog.apnipie.com/2012/11/imran-khan-and-benazir-bhutto-affair.html
The respected author, Christopher Sandford, has claimed that Bhutto became infatuated with Khan and the pair enjoyed a "close" and possibly "sexual" relationship while studying at Oxford.
Read Here Full Article
http://blog.apnipie.com/2012/11/imran-khan-and-benazir-bhutto-affair.html