عمران خان ذرا سوچیے 1

ImRaaN

Chief Minister (5k+ posts)

p3_01.jpg


http://naibaat.com.pk/ePaper/lahore/20-09-2014/Detail/p3_01.jpg
 

Asmat545

Councller (250+ posts)
We will accept the positive criticism sir....kam az kam lifafa nahi hona chahiay...hum to imran k etny adi ho chokay hy k kabi kabi sochty hy k agar wo PM ban gaya to har roz to ows ka interview nahi dekh paay gy awer ye jalsy bi nahi hongay...es lie owsay PM nahi banna chahiay..ap teek kehty hy k wo hamara aheri omeed hy
 

Sniper

Chief Minister (5k+ posts)
عمران خان ذرا سوچئے -- پہلی قسط

ذرا سوچئے۔۔۔یہ الفاظ ایک ٹی وی چینل کے حوالے سے بڑے مشہور ہیں۔ کبھی یہ ٹی وی چینل خود بھی بڑا مشہور ہوتا تھا اب بدنام ہے۔ ایک زمانے میں موجودہ حکمرانوں کی دشمنی اُسے لے ڈوبی تھی اب موجودہ حکمرانوں کی دوستی لے ڈوبی ہے۔ کبھی ناظرین کو اِس چینل کی بہت طلب رہتی تھی اب اِس چینل کو ناظرین کی بہت طلب رہتی ہے۔ دوسروں کو ذرا سوچئے کا سبق دینے والے چینل نے خود پتہ نہیں سنجیدگی سے کبھی سوچا ہے یا نہیں کہ جانبداری نے کیا حالت اُس کی بنا دی ہے؟ فراز کے خوبصورت شعر کا ایک مصرع ہے آنکھ سے دور نہ ہو دِل سے اُتر جائے گا۔۔۔یہ چینل آنکھ سے اِتنا دور نہیں ہواجتنا دِل سے اُتر گیا ہے۔۔۔اِس کالم کا عنوان ذرا سوچئے رکھتے ہوئے میں سوچ رہا تھا اِس عنوان کی نسبت سے عمران خان کہیں مجھے بھی اُس چینل کا کوئی نمائندہ نہ سمجھ لے اور یہ الزام میرے لئے ناقابل برداشت ہوگا۔ مگر کیا کروں جو کچھ عمران خان کے حوالے سے میں لکھنا چاہتا ہوں اِس سے بہتر کوئی اور عنوان اِس کالم کے لئے مجھے نہیں سوجھ رہا۔ سو اِس عنوان کے ساتھ عمران خان کو اُسی طرح گزارہ کرنا پڑے گا جس طرح اپنی پارٹی کے کچھ بددیانت لوگوں کے ساتھ گزراہ کری جا رہا ہے اور وہ بھی اُس کے ساتھ گزارہ کری جا رہے ہیں۔ ۔۔۔کہا جاتا ہے پی ٹی آئی یا عمران خان کے خلاف لکھنے والوں کو سوشل میڈیا پر بہت گالیاں بکی جاتی ہیں۔ میرے ساتھ ایسا کوئی تجربہ نہیں ہوا حالانکہ عمران خان کے حوالے سے جتنی تلخ باتیں اپنے بے شمار کالموں میں میں نے لکھیں ریکارڈ کا حصہ ہیں۔ یہاں تک لکھا پاکستان کی سنہری روایت کے مطابق سیاسی جماعتیں اقتدار میں آنے کے بعد مال بناتی ہیں پی ٹی آئی میں پہلے ہی کام شروع ہوگیا ہے۔۔۔وزیراعظم نواز شریف بنی گالہ گئے تو میرا پیا گھر آیا کے عنوان کے تحت اتنا سخت کالم عمران خان کے خلاف میں نے لکھا مجھے یقین تھا نہ صرف یہ کہ اُس پر بے شمار گالیاں مجھے پڑیں گی بلکہ عمران خان کا میرے ساتھ رابطہ اور تعلق بھی ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم ہو جائے گا۔ ایک بار اُس نے مجھے کہا تم میرے خلاف لکھتے ہو تو میں نے کبھی اُس کا برا نہیں منایا کیونکہ مجھے پتہ ہے تم بدنیت نہیں ہو۔ گزشتہ برس دوستوں کے ایک عشائیے میں میں اُس کے ساتھ کھڑا تھا جب ازرہ مذاق اُس نے کہا اچھا ہوا ہم اقتدار میں نہیں آئے ورنہ تم نے ہمارے خلاف لکھنا شروع کر دینا تھا۔ عرض کیا میں تو اب بھی آپ کے حق میں نہیں لکھتا نہ آپ کے خلاف لکھتا ہوں۔ میری نظر میں جو سچ ہوتا ہے لکھ دیتا ہوں اِس کی پروا کئے بغیر کہ یہ کسی کے حق میں ہے یا خلاف۔ اور سچ لکھتے ہوئے میں تو اِس خوف کو بھی خاطر میں نہیں لاتا کہ کسی روز میرے بارے میں کسی نے سچ لکھ دیا تو کس کس کو صفائیاں میں دیتا پھروں گا؟ ایک دوست نے دوسرے سے کہا بھاٹی گیٹ جاؤ وہاں تمہارے بارے میں کوئی جھوٹی باتیں کر رہا ہے دوست بولا پہلے میں موچی گیٹ جاؤں گا کیونکہ وہاں میرے بارے میں کوئی سچی باتیں کر رہا ہے۔۔۔ ویسے تو اِس معاشرے میں اور اِس دور میں کسی پر کتنے ہی سنگین الزامات کیوں نہ ہوں اُسے پروا ہی نہیں ہوتی۔ حضرت واصف علی واصف نے تو بہت پہلے کہہ دیا تھا جھوٹے معاشرے میں عزت دراصل بے عزتی ہے۔۔۔ شرافت اب ذلالت بن کر رہ گئی ہے۔ مجھے تو لگتا ہے جلد ہی وہ وقت بھی آجائے گا جب لوگ ایک دوسرے سے کہیں گے ہم نے آپ کے گھر اپنی بیٹی یا بیٹا نہیں بیاہنا کیونکہ ہم نے پتہ کروایا ہے آپ تو بڑے شریف لوگ ہیں۔ خیر یہ ایک الگ موضوع ہے جس پر پھر کبھی لکھوں گا۔ فی الحال بات میں عمران خان کی کر رہا تھا جس کے خلاف لکھنے والوں کا دعویٰ ہے سوشل میڈیا پر بہت گالیاں اُنہیں پڑتی ہیں اور میں یہ کہہ رہا تھا میرے ساتھ ایسا کوئی تجربہ نہیں ہوا ہوتا بھی تو اُس سے کونسا میری عزت پر کوئی حرف آجانا تھا بلکہ میں نے تو اور چوڑا ہو جانا تھا کہ گالی کا جواب ایک اور کالم بلکہ گالم کی صورت میں دینے کا مجھے موقع مل جائے گا اور اِس بنیاد پر عمران خان کے دولت مند مخالفین سے مزید کئی طرح کے فائدے میں اُٹھا سکتا ہوں۔ اب یہ جو میں اگلے دو تین کالم عمران خان کے حوالے سے لکھنے جا رہا ہوں تو مجھے یقین ہے کم از کم اِن کالموں پر ضرور مجھے گالیاں پڑیں گی نہ پڑیں تو میری قسمت۔۔۔ ویسے سچی بات تو یہ ہے عمران خان کے خلاف لکھتے ہوئے مجھے اِتنا ڈر نہیں لگتا جتنا حکمرانوں کے حق میں لکھتے ہوئے لگتا ہے۔ خصوصاً ایسے حکمرانوں کے حق میں لکھتے ہوئے تو بہت ہی ڈر لگتا ہے لفافہ صحافت کا جنہیں بانی سمجھا جاتا ہے۔ البتہ عمران خان کے حق میں لکھتے ہوئے ڈر اِس لئے نہیں لگتا کہ جو شخص پانی کا ایک گلاس کسی کو پلانے کا روا دار نہ ہوبذریعہ لفافہ کسی صحافی کی خدمت وہ کیسے کر سکتا ہے؟ کنجوس وہ اِتنا ہے اپنی ذات پر پیسے خرچ نہیں کرتا دوسروں پر خرچ کرنے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ سو اِسی واسطے اُس کے حق میں بولنے یا لکھنے والوں کی تعداد اُس کے مخالفین کے حق میں بولنے یا لکھنے والوں کی تعداد سے بہت کم ہے۔ اور اِس کا اُسے احساس بھی ہے۔ مگر اِس کا کوئی احساس اُسے نہیں ہے بعض لکھنے والے اِسی بددیانت معاشرے کا حصہ ہیں تو اُن سے یہ توقع کیوں وہ رکھتا ہے اپنے صحافتی کردار میں کوئی ڈنڈی وہ نہیں ماریں گے؟ کچھ صحافی اگر بددیانت ہیں تو بددیانت اُس کی پارٹی میں بھی بہت ہیں۔ کچھ صحافیوں نے اگر پیسے پکڑے ہیں تو اُس کی پارٹی کے کچھ راہنماؤں نے انتخابی ٹکٹوں کے معاملے میں پیسے نہیں پکڑے تھے؟ اپنی پارٹی میں موجود اِسمافیا کا اب تک وہ کیا بگاڑ سکا ہے؟ میں تو اکثر اُسے کہتا ہوں اور لکھتا بھی ہوں پہلی بات تو یہ ہے کوئی بڑی تبدیلی یہاں آنی نہیں ہے آگئی تو اُس کے ساتھ ہمارا گزارہ ہی مشکل ہو جائے گا چند روز بعد ہی اُس تبدیلی کے خلاف ہم سڑکوں پر آجائیں گے کہ ہمارا پرانا نظام ہمیں واپس کرو۔۔۔یہ حقیقت نہیں کہ تبدیلی کی بات کرتے کرتے عمران خان خود تبدیل ہوتا جا رہا ہے؟ کہاں وہ عمران خان جس کے بارے میں یہ اعتراف اُس کے دُشمن بھی کرتے تھے جھوٹ کسی صورت میں وہ نہیں بولتا چاہے کتنا بڑا نقصان ہی اُسے کیوں نہ ہو جائے کہاں یہ عمران خان۔ یہ اعتراف اب اُس کے دوست بھی کرتے ہیں بوقت ضرورت یا نظریہ ضرورت کے تحت جھوٹ بولنے میں کوئی عار وہ محسوس نہیں کرتا۔ اُس کی خوش قسمتی مگر یہ ہے اُس کے مخالف حکمرانوں کی خرابیاں اور برائیاں اس قدر ہیں کہ اُن کے مقابلے میں پھر بھی وہ ایک فرشتہ ہی دِکھائی دیتا ہے۔ کبھی کبھی میں سوچتا ہوں وہ تبدیلی کے لئے باہر نکلا ہے اور تبدیلی تبدیلی کی مالا جپتے ہوئے خود تبدیل ہو گیا جس کے آثار بڑھتے جا رہے ہیں تو اُس ملک (پاکستان) کا کیا بنے گا جوبڑی مشکل سے عمران خان کی صورت میں ایک اُمید سے ہمکنار ہوا ہے؟ عمران خان کو یاد ہوگا کچھ عرصہ پہلے جب وہ میرے گھر آیا تھا تو بہت سے قلم کار دوستوں کی موجودگی میں اُس سے میں نے کہا تھا میری خواہش ہے آپ کبھی اقتدار میں نہ آئیں کیونکہ آپ ہماری آخری اُمید ہیں۔۔۔ یہ بات میں نے ایسے ہی نہیں کہہ دی تھی۔ مجھے پتہ تھا جس قسم کی گندگی اپنی جماعت میں اُس نے اکٹھی کر لی ہے وہ اُسے ایسا نظام پاکستان میں کبھی نہیں لانے دے گی جس کی تمنا اُس کے دِل و دماغ میں گزشتہ کئی سالوں سے پل رہی ہے۔ ایک گندی مچھلی سارے تالاب کو گندا کر دیتی ہے مجھے تو صحیح طرح اب یاد بھی نہیں کونسی گندی مچھلی سب سے پہلے تحریک انصاف کے تالاب میں گری تھی جس کے بعد سارا تالاب گندا نہیں تو کم از کم گدلا ضرور ہوگیا ہے !

(جاری ہے)




http://www.naibaat.pk/archives/sp_cpt/عمران-خان-ذرا-سوچئے-۔۔۔-پہلی-قسط
 

Back
Top