داعش سرکوبی کی آڑ میں عراق پر تسلط جمانے کے ایرانی عزائم
ہفتہ 26 شوال 1435هـ - 23 اگست 2014م
العربیہ ڈاٹ نیٹ ۔ صالح حمید
شدت پسند تنظیم دولت اسلامی عراق وشام "داعش" کے خلاف جہاں عراق میں کُرد، امریکی اور عراقی فوج کا مشترکہ آپریشن جاری ہے وہیں ایران نے بھی مغرب کو داعش کے خلاف جنگ میں ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا ہے۔
تاہم ایران داعش کے خلاف جنگ کی آڑ میں اپنے مخصوص مقاصد اور توسیع پسندانہ عزائم کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ ان عزائم میں عراق کے جنوب مشرقی علاقوں کے اہل تشیع کی مدد سے ایک بڑے حصے پر قبضہ کرنا ہے۔
نیوز ویب پورٹل"ہوت ایر" کی ایک رپورٹ میں *بتایا گیا ہے کہ ایرانی پاسداران انقلاب جلد ہی بھاری میشن گنیں، ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں عراق داخل کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس بھاری اسلحے کی عراق پہنچائے جانے کی وجہ دولت اسلامی کے جنگجوئوں کے خلاف کارروائی سے زیادہ بغداد کے شمال میں اہل تشیع مسلک کے اکثریتی علاقوں پر قبضہ کرنا ہے۔
ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ ایرانی ٹینکوں، بکتر بند گاڑیوں اور فوجی ساز وسامان سے لدے ٹرکوں کا ایک قافلہ سربل ذھاب کے پہاڑی اور دشوار گذار راستوں سے ہوتا ہوا عراق میں داخل ہوا ہے۔ جلد ہی ایرانی فوج کے مسلح دستے بھی عراق کے مختلف شہروں میں کرد اور عراقی فوجیوں کے ساتھ داعش کےخلاف جنگ میں شامل ہو جائیں گے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ایران کے اندر بھی یہ تاثر عام ہے کہ پاسداران انقلاب کی جانب سے داعش کی سرکوبی محض ایک بہانہ ہے ورنہ ایرانی فوج کا اصل مقصد عراق کے ایک بڑے حصے پر اپنا تسلط قائم کرنا ہے۔
دوسری جانب ایران کے معاون وزیر خارجہ حسین امیر عبداللھیان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا ملک شدت پسند تنظیم داعش کی سرکوبی کے لیے کرد اور عراقی فورسز کو مشاورتی رہ نمائی فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے عراقی حکومت کو سیاسی معاملات کے حل کے لیے صلاح مشورہ دیا ہے اور یہی صلاح مشورہ وہ عراق کے نیم خودمختار صوبہ کردستان کو بھی دینے کے خواہاں ہیں"۔
قبل ازیں عراقی کردستان کے ایک ذریعے نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا تھا کہ 08 اگست کو جنرل قاسم سلیمانی کی قیادت میں پاسداران انقلاب کی ایلٹ فورس کے 300 اہلکار کردستان پہنچے تھے، جہاں انہوں نے کرد فوج کے ساتھ مل کر مخمور اور دوسرے علاقوں میں قابض داعش کو شکست سے دوچار کرنا تھا۔
ہفتہ 26 شوال 1435هـ - 23 اگست 2014م
العربیہ ڈاٹ نیٹ ۔ صالح حمید
شدت پسند تنظیم دولت اسلامی عراق وشام "داعش" کے خلاف جہاں عراق میں کُرد، امریکی اور عراقی فوج کا مشترکہ آپریشن جاری ہے وہیں ایران نے بھی مغرب کو داعش کے خلاف جنگ میں ہر ممکن تعاون کا یقین دلایا ہے۔
تاہم ایران داعش کے خلاف جنگ کی آڑ میں اپنے مخصوص مقاصد اور توسیع پسندانہ عزائم کے حصول کے لیے کوشاں ہے۔ ان عزائم میں عراق کے جنوب مشرقی علاقوں کے اہل تشیع کی مدد سے ایک بڑے حصے پر قبضہ کرنا ہے۔
نیوز ویب پورٹل"ہوت ایر" کی ایک رپورٹ میں *بتایا گیا ہے کہ ایرانی پاسداران انقلاب جلد ہی بھاری میشن گنیں، ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں عراق داخل کرنے کی تیاری کر رہا ہے۔ اس بھاری اسلحے کی عراق پہنچائے جانے کی وجہ دولت اسلامی کے جنگجوئوں کے خلاف کارروائی سے زیادہ بغداد کے شمال میں اہل تشیع مسلک کے اکثریتی علاقوں پر قبضہ کرنا ہے۔
ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ ایرانی ٹینکوں، بکتر بند گاڑیوں اور فوجی ساز وسامان سے لدے ٹرکوں کا ایک قافلہ سربل ذھاب کے پہاڑی اور دشوار گذار راستوں سے ہوتا ہوا عراق میں داخل ہوا ہے۔ جلد ہی ایرانی فوج کے مسلح دستے بھی عراق کے مختلف شہروں میں کرد اور عراقی فوجیوں کے ساتھ داعش کےخلاف جنگ میں شامل ہو جائیں گے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق ایران کے اندر بھی یہ تاثر عام ہے کہ پاسداران انقلاب کی جانب سے داعش کی سرکوبی محض ایک بہانہ ہے ورنہ ایرانی فوج کا اصل مقصد عراق کے ایک بڑے حصے پر اپنا تسلط قائم کرنا ہے۔
دوسری جانب ایران کے معاون وزیر خارجہ حسین امیر عبداللھیان نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کا ملک شدت پسند تنظیم داعش کی سرکوبی کے لیے کرد اور عراقی فورسز کو مشاورتی رہ نمائی فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم نے عراقی حکومت کو سیاسی معاملات کے حل کے لیے صلاح مشورہ دیا ہے اور یہی صلاح مشورہ وہ عراق کے نیم خودمختار صوبہ کردستان کو بھی دینے کے خواہاں ہیں"۔
قبل ازیں عراقی کردستان کے ایک ذریعے نے العربیہ ڈاٹ نیٹ کو بتایا تھا کہ 08 اگست کو جنرل قاسم سلیمانی کی قیادت میں پاسداران انقلاب کی ایلٹ فورس کے 300 اہلکار کردستان پہنچے تھے، جہاں انہوں نے کرد فوج کے ساتھ مل کر مخمور اور دوسرے علاقوں میں قابض داعش کو شکست سے دوچار کرنا تھا۔