بیمار معاشروں میں خاندانی اور غیر خاندانی کے معیار بہت ہی مضحکہ خیز ہوتے ہیں مثلاً خود ہمارے ہاں بھی جن کو اپنے شجرہ ہائے نسب پر شرم آنی چاہئے وہ اس پر فخر کرتے ہیں اور جنہیں اپنے پچھلوں پر فخر کرنا چاہئے کہ عظیم محنت کش تھے وہ انہیں گناہ کی طرح چھپائے پھرتے ہیں۔ہمیں تربیت تو اس بات کی دی گئی تھی کہ نسب پر نہیں کسب پر فخر کرنا چاہئے لیکن ہم نے کام کرنے والے کو کمی اور ہڈحرام کو چودھری قرار دے ڈالا لیکن شاید اب سائنس اور ٹیکنالوجی کا جبر سب کچھ اتھل پتھل کرکے رکھ دے گا ۔
رونا صرف ہمارا ہی نہیں اہل مغرب اور اہل چین بھی ان ہی مراحل میں سے گزرے ہیں ۔ چین میں تو وہ وقت بھی تھا کہ اشرافیہ ناخن بڑھائے پھرتی تھی کیونکہ بے حدوحساب بڑھے ہوئے ناخن اس حقیقت کا ناقابل تردید ثبوت ہوتے کہ حضرت نے کبھی کسی کام کو ہاتھ نہیں لگایا ۔ نام یاد نہیں آ رہا لیکن کسی انگریز مصنف کا یہ جملہ مجھے کبھی نہیں بھولتا۔
SOME FAMILIES CAN TRACE THEIR ANCESTRY BACK THREE HUNDRED YEARS BUT CAN NOT TELL YOU WHERE THE
CHILDREN WERE
یعنی کچھ خاندان گزشتہ کئی صدیوں تک اپنا شجرہ نسب تو بتا سکتے ہیں لیکن یہ نہیں بتا سکتے کہ پچھلی رات ان کے بچے کہاں تھے اور کیا کر رہے تھے ۔
بنی نوع انسان نے کروڑوں سال میں اتنی ترقی نہیں کی جتنی گزشتہ قریباً دو صدیوں سے کی ہے اور ساری ترقی کا سارا کریڈٹ ان عامیوںکو جاتا ہے جنہیں یہاں کمی کمین کہا اور سمجھا جاتا ہے ۔ بنی نوع انسان کی اس محیر العقول ترقی میں نام نہاد خاندانیوں کی کنٹری بیوشن آٹے میں نمک برابر بھی نہیں ۔یہ ناخواندہ یا نیم خواندہ لوہار، ترکھان، موچی، دھوبی، نائی اور جولاہے ہی تھے جن کی تخلیقی صلاحیتوں نے وہ بنیادیں فراہم کیں جن پر اس عہد جدید کا ڈھانچہ استوار ہوا یعنی کلید کامرانی یہ ہے کہ انسانوں کو صحیح معنوں میں آزاد کرو، فکری اور روحانی طور پر آزاد کرو کیونکہ دولے شاہ کے چوہے تعمیر، تخلیق اور ترقی کی ضمانت نہیں ہو سکتے ۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ فکری، روحانی اور نفسیاتی آزادی کیا ہے اور کیسے حاصل ہوتی ہے ؟ تو اس کا سادہ ترین جواب یہ ہے کہ جس معاشرہ میں عام آدمی کی عزت نفس کی پامالی روز مرہ کا معمول اور وے آف لائف بن جائے، بات بات اور قدم قدم پر لوگوں کی انا زخمی کی جائے، انہیں مسلسل ذلیل و رسوا و پسپا حالت میں رکھا جائے وہ معاشرہ فکری، روحانی اور نفسیاتی طور پر بدترین درجہ کا غلام ہوتا ہے ۔
پاکستان میں روز اول سے یہی کچھ ہو رہا ہے ۔ میری نام نہاد اشرافیہ سے نفرت و کراہت کی وجہ ان کی نالائقی، خود غرضی اور کرپشن نہیں ، مجھے اس بات کی بھی پرواہ نہیں کہ ان کی خباثتوں نے ملکی معیشت کا ستیا ناس کرکے لوگوں کو زندہ درگور کر دیا، میرا ان پر غصہ یہ ہے کہ انہوں نے نام نہاد آزادی کے بعد عام آدمی کی عزت نفس بھی بحال نہیں بلکہ اسے مزید بے حال اور نڈھال کر دیا ۔ مجھے آج تک اک چھوٹا سا واقعہ نہیں بھولتا ۔پرویز مشرف کی اننگ کا آغاز تھا ، مانیٹرنگ ٹیمیں بڑی پھرتیاں دکھا رہی تھیں کہ اک چھوٹی سی خبر شائع ہوئی کہ ٹریکٹروں ٹرالیوں پر کسی غیور باشعور آزاد پاکستانی کی بارات جا رہی تھی ۔ دولہے، شہہ بالے سمیت ساری بارات کو سواریوں سے اتار کر بھل صفائی پر لگا دیا گیا ۔ ایسا تو شاید رومن اپنے غلاموں اور برہمن شودروں کے ساتھ بھی نہ کرتے ہوں گے ۔آج بھی جب تھانوں، کچہریوں، پٹوار خانوں میں آزاد پاکستانیوں کو گھگھیاتے ہوئے مائی باپ سرجیصاحب جی کا ورد کرتے ہوئے ہاتھ جوڑے دیکھتا ہوں تو خون کھول اٹھتا ہے ۔ معیشت گئی بھاڑ میں کہ یہاں کی حکمران ایلیٹ تو وہ عزت نفس بھی نہ دے سکی جو مفت ملتی ہے ۔ معیشت نہیں عوام کی عزت فیصلہ کن ہوتی ہے ۔ کیا معیشت تھی عربوں کی؟ لیکن ہمارے آقا نے جب بلال حبشی کو بھی سیدنا بلال کا درجہ دلایا تو اس زمانے کی عظیم ترین معیشتیں عربوں کی خاک پا ثابت ہوئیں ۔ حضور تو یکتا ہیں۔
رخ مصطفی ہے وہ آئینہ کہ اب ایسا دوسرا آئینہ
نہ نگاہ آئینہ ساز میں نہ دکان آئینہ ساز میں
آپ اینزو آوارہ ترین تاتاریوں کو ہی دیکھ لیں کہ ان کے اتحاد نے دنیا الٹ پلٹ کر رکھ دی اور اتحاد کا پودا باہمی عزت و احترام کی دھرتی پر پروان چڑھاتا ہے جبکہ یہاں تو قرضوں اور وظیفوں کے ذریعہ بھی عزت نفس کی پامالی ہی ہوتی ہے ۔ میں بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے بھی چڑتا تھا کہ اللہ کے بندو! نیشن بلڈنگ اس طرح نہیں ہوتی لیکن یہاں تو ہر منصوبہ کے پیچھے مخصوص سیاسی مقاصد اور مفادات ہوتے ہیں، بظاہر عوام فرینڈلی سکیمیں بھی سازشوں سے کم نہیں ہوتیں اور المیہ یہ ہے کہ عوام اپنے خلاف سازشوں پر بھی تالیاں بجاتے ہیں ۔