ضمیر کے بوجھ کی برسوں بعد تلافی
جرمنی میں شاید معمولی ٹیکس چوری کے مرتکب ایک شخص نے ایک نامعلوم ٹیکس دہندہ کے طور پر شہر ٹریئر کے ٹیکس آفس کو ایک لفافے میں بند ایک سو یورو کا نوٹ بھیج کر اپنے بوجھل ضمیر کو ہلکا کرنے کی کوشش کی ہے۔
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی تاریخی شہر ٹریئر سے اتوار انیس جولائی کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق صوبے رائن لینڈ پلاٹینیٹ کے محکمہ خزانہ کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ اس کے کوبلینس میں قائم دفتر کو جمعہ سترہ جولائی کے روز ایک خط موصول ہوا، جس میں ایک سو یورو کے نوٹ کے ساتھ ایک پوسٹ کارڈ بھی تھا۔
کوبلینس کے دفتر خزانہ کے ایک سینیئر اہلکار نے ڈی پی اے کو بتایا کہ اس پوسٹ کارڈ پر کسی نام یا پتے کے بغیر صرف یہ لکھا ہے: ’’آج میرے گناہ کی معافی اور تلافی کا دن ہے۔‘‘ حکام کے بقول اس پوسٹ کارڈ پر بھیجنے والے کے نام کے طور پر صرف ’’ایک کرسچین‘‘ لکھا ہوا ہے۔
محکمہ خزانہ کے مطابق بہت زیادہ امکان یہ ہے کہ اس طرح 100 یورو کی ادائیگی ’اُس ٹیکس کو ادا کرنے کی کوشش ہے جو اس ٹیکس دہندہ کو ماضی کے کسی مالی سال میں ادا کر دینا چاہیے تھا‘۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ چونکہ اس تحریر میں کوئی نام، پتہ یا قومی ٹیکس نمبر نہیں لکھا گیا، اس لیے نہ تو یہ تعین کیا جا سکتا ہے کہ یہ شہری کون ہے اور نہ ہی یہ کہ ’تلافی کی یہ رقم‘ چوری کیے گئے ٹیکس کی اصل مالیت سے بہت کم ہے یا بہت زیادہ۔
خط پر لگی ڈاک خانے کی مہر کے باعث یہ بات تاہم واضح ہے کہ یہ ادائیگی کرنے والا شہری ٹریئر کا رہائشی ہے۔ ٹریئر کے دفتر مالیات کے سربراہ ژُرگن کَینٹےنِش نے ڈی پی اے کو بتایا، ’’یہ بات یقینی ہے کہ اس ٹیکس دہندہ کو کسی نہ کسی شدید جذبے نے ہی اس اقدام پر مجبور کیا ہے۔ یہ احساس جرم یا ضمیر کا بوجھ ہی ہو سکتا ہے۔ مجھے اپنی زندگی میں پچھلی بار کسی شہری کی طرف سے ٹیکس کی چوری شدہ رقم کی اس طرح ادائیگی کا تجربہ 20 سال پہلے ہوا تھا۔‘‘
یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ چونکہ ذاتی کوائف کی عدم موجودگی میں سرکاری ریکارڈ میں یہ اندراج نہیں کیا جا سکتا کہ یہ سو یورو کس نے اور کیوں ادا کیے، اس لیے یہ رقم سرکاری خزانے میں تو جائے گی لیکن اس کا اندراج ’’مختلف ذرائع سے ہونے والی متفرق آمدنی‘‘ کی مد میں کیا جائے گا۔
حکام کا کہنا ہے کہ جس شخص نے اپنے احساس جرم کو ختم کرنے کے لیے نہ جانے کتنے عرصے بعد اپنے ذمے واجب الادا ٹیکس اس طرح ادا کیا ہے، اور جس نے عقیدے کے لحاظ سے اپنے مسیحی ہونے کا ذکر بھی کیا ہے، اس کے بارے میں امید کی جا سکتی ہے کہ وہ معمولی ٹیکس چوری کا مرتکب ہی ہوا ہو گا کیونکہ دوسری صورت میں وہ جائز مالیت سے کم ٹیکس ادا کر کے اپنے احساس جرم کو ختم کر ہی نہیں سکتا تھا۔
http://www.dw.com/ur/ضمیر-کے-بوجھ-کی-برسوں-بعد-تلافی/a-18594304
جرمنی میں شاید معمولی ٹیکس چوری کے مرتکب ایک شخص نے ایک نامعلوم ٹیکس دہندہ کے طور پر شہر ٹریئر کے ٹیکس آفس کو ایک لفافے میں بند ایک سو یورو کا نوٹ بھیج کر اپنے بوجھل ضمیر کو ہلکا کرنے کی کوشش کی ہے۔
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کی تاریخی شہر ٹریئر سے اتوار انیس جولائی کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق صوبے رائن لینڈ پلاٹینیٹ کے محکمہ خزانہ کی طرف سے بتایا گیا ہے کہ اس کے کوبلینس میں قائم دفتر کو جمعہ سترہ جولائی کے روز ایک خط موصول ہوا، جس میں ایک سو یورو کے نوٹ کے ساتھ ایک پوسٹ کارڈ بھی تھا۔
کوبلینس کے دفتر خزانہ کے ایک سینیئر اہلکار نے ڈی پی اے کو بتایا کہ اس پوسٹ کارڈ پر کسی نام یا پتے کے بغیر صرف یہ لکھا ہے: ’’آج میرے گناہ کی معافی اور تلافی کا دن ہے۔‘‘ حکام کے بقول اس پوسٹ کارڈ پر بھیجنے والے کے نام کے طور پر صرف ’’ایک کرسچین‘‘ لکھا ہوا ہے۔
محکمہ خزانہ کے مطابق بہت زیادہ امکان یہ ہے کہ اس طرح 100 یورو کی ادائیگی ’اُس ٹیکس کو ادا کرنے کی کوشش ہے جو اس ٹیکس دہندہ کو ماضی کے کسی مالی سال میں ادا کر دینا چاہیے تھا‘۔
یہ بھی بتایا گیا ہے کہ چونکہ اس تحریر میں کوئی نام، پتہ یا قومی ٹیکس نمبر نہیں لکھا گیا، اس لیے نہ تو یہ تعین کیا جا سکتا ہے کہ یہ شہری کون ہے اور نہ ہی یہ کہ ’تلافی کی یہ رقم‘ چوری کیے گئے ٹیکس کی اصل مالیت سے بہت کم ہے یا بہت زیادہ۔
خط پر لگی ڈاک خانے کی مہر کے باعث یہ بات تاہم واضح ہے کہ یہ ادائیگی کرنے والا شہری ٹریئر کا رہائشی ہے۔ ٹریئر کے دفتر مالیات کے سربراہ ژُرگن کَینٹےنِش نے ڈی پی اے کو بتایا، ’’یہ بات یقینی ہے کہ اس ٹیکس دہندہ کو کسی نہ کسی شدید جذبے نے ہی اس اقدام پر مجبور کیا ہے۔ یہ احساس جرم یا ضمیر کا بوجھ ہی ہو سکتا ہے۔ مجھے اپنی زندگی میں پچھلی بار کسی شہری کی طرف سے ٹیکس کی چوری شدہ رقم کی اس طرح ادائیگی کا تجربہ 20 سال پہلے ہوا تھا۔‘‘
یہ بات بھی دلچسپ ہے کہ چونکہ ذاتی کوائف کی عدم موجودگی میں سرکاری ریکارڈ میں یہ اندراج نہیں کیا جا سکتا کہ یہ سو یورو کس نے اور کیوں ادا کیے، اس لیے یہ رقم سرکاری خزانے میں تو جائے گی لیکن اس کا اندراج ’’مختلف ذرائع سے ہونے والی متفرق آمدنی‘‘ کی مد میں کیا جائے گا۔
حکام کا کہنا ہے کہ جس شخص نے اپنے احساس جرم کو ختم کرنے کے لیے نہ جانے کتنے عرصے بعد اپنے ذمے واجب الادا ٹیکس اس طرح ادا کیا ہے، اور جس نے عقیدے کے لحاظ سے اپنے مسیحی ہونے کا ذکر بھی کیا ہے، اس کے بارے میں امید کی جا سکتی ہے کہ وہ معمولی ٹیکس چوری کا مرتکب ہی ہوا ہو گا کیونکہ دوسری صورت میں وہ جائز مالیت سے کم ٹیکس ادا کر کے اپنے احساس جرم کو ختم کر ہی نہیں سکتا تھا۔
http://www.dw.com/ur/ضمیر-کے-بوجھ-کی-برسوں-بعد-تلافی/a-18594304