http://www.masoodanwar.com
[email protected]
مسعود انور
برطانیہ اور بھارت دیکھنے میں ہر لحاظ سے دو انتہائی مختلف ملک ہیں ۔ایک مغرب کا نمائندہ ملک ہے تو دوسرا مشرق کا۔ ایک میں سفید فام آباد ہیں جبکہ دوسرے میں رنگ دار ۔ ایک میں عیسائی آبادی بستی ہے تو دوسرے میں ہندو مت کو ماننے والے۔ ایک ترقی یافتہ تو دوسراغیر ترقی یافتہ ۔ ایک سو فیصد تعلیم یافتہ تو دوسرا جاہلیت کا شکار۔ ایک حاکم تھا تو دوسرا محکوم۔ مگر ایک بات ہے جو دونوں ممالک میں مشترک ہے اور وہ ہے جنسی درندگی کا شکار۔ سب سے پہلے برطانیہ کے چند اعدادوشمار دیکھتے ہیں ، اس کے بعد بھارت کے حالات کو دیکھتے ہیں اور پھر پاکستان کی موجودہ تصویر کو۔
برطانیہ کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ہر برس تین ہزار سے زائد بچوں کو اپنے ساتھی بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور جنسی تشدد کرنے کے الزام میں اسکولوں سے نکال دیا جاتا ہے۔ان اعدادوشمار کے مطابق ہر روز اوسطا پندرہ بچوں کو جنسی تشدد اور بے راہ روی کے نتیجے میں اسکول سے نکال دیا جاتا ہے اور اس میں سے کم از کم ایک کا تعلق پرائمری اسکول سے ہوتا ہے۔بچوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ بچوں کا انٹرنیٹ پر فحش مواد کو دیکھنا ہے جس کی وجہ سے پرائمری اسکولوں کے بچے بھی اپنے ساتھیوں کے جنسی تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ بچوں کی انٹرنیٹ تک آسان رسائی کی وجہ سے بچوں کے اندر جنسی تشدد کا رحجان بڑھ رہا ہے۔برطانیہ کی نیشنل یونین آف ٹیچرز کا کہنا ہے کہ بڑے بڑے کاروباری اداروں نے اپنے کاروبار کو توسیع دینے کے لئے بچوں کے لئے بنائے گئے پنسل باکس کو پلے بوائے کی جنسی علامات میں ڈھال کر بچوں میں مقبول بنایا ہے اور یوں ڈانس کرنے والی عورتوں کو طاقتور دکھایا گیا ہے۔اس سے ملک میں ایک خطرناک کلچرنے جنم لیا ہے۔گذشتہ سال تین ہزار تیس بچوں کو جنسی اشتعال پر اسکولوں سے خارج کیا گیا ۔ اس میں سے دو سو بچوں کا تعلق پرائمری اسکولوں سے تھا۔ بتایا گیا ہے کہ جن بچوں کو خارج کیا گیا ہے ، ان کا طرز عمل انتہائی ناقابل برداشت ہوگیا تھا وگرنہ ایک بڑی تعداد کو تو محض تنبیہ کرکے چھوڑ دیا گیا ہے۔اگر ان کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ اعدادوشمار کم از کم دس گنا مزید بڑھ جائیں گے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سیکنڈری اسکولوں کے تیس فیصد اور پرائمری اسکولوں کے گیارہ فیصد اساتذہ کو اس امر کا علم ہوتا ہے کہ ان کے اسکولوں میں بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کیا جارہا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس کی وجوہات میں انٹرنیٹ پر برہنہ اور جنسی ہیجان سے بھرپور فلموں کا دیکھا جاناہے۔
اب بھارت کی طرف چلتے ہیں۔ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں چلتی بس میں ایک طالبہ کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے واقعہ کو ابھی زیادہ دن نہیں گذرے ہیں۔ آئے دن بھارتی اخبارات ان خبروں سے بھرے ہوتے ہیں کہ گوا میں سوئٹزرلینڈ کی سیاح کو اغوا کرکے اجتماعی آبروریزی کی گئی، گو اکے ساحل سے برطانوی خواتین سیاحوں کی لاشیں ملی ہیں جنہیں زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔ جنوبی بھارت میں کھیت میں کام کرنے والی خاتون کو اغوا کرکے ٹرین میں لے گئے اور پھر اس کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا کر چلتی ٹرین سے اس کو نیچے پھینک دیا جس سے وہ شدید زخمی ہوگئی۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب واقعات بھارت میں اتنے تسلسل سے ہورہے ہیں کہ خود بھارتی ہندو چیخ پڑے ہیں اور انہوں نے ان درندوں کے خلاف سنگ زنی کی سزا کا مطالبہ کردیاہے۔ میرے پاس آج بھی دس برس پہلے کی بی بی سی اردو ڈاٹ کام کی وہ خبر محفوظ ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ نئی دہلی کے اسپتالوں میں لیڈی ڈاکٹرز کام کرنے سے گریزاں ہیں کیوں کہ ان کو اپنی عزت کے بارے میں خطرات لاحق ہوتے ہیں۔میں بھاری اعدادوشمار کی بات نہیں کررہا۔ محض چند واقعات نمونے کے طور پر پیش کئے ہیں۔
ان تمام بھارتی واقعات کو دیکھیں ۔ اس میں ایک بات مشترک ہے اور وہ ہے اجتماعی زیادتی۔ یعنی اب بھارتی عورت کسی ایک فرد کی درندگی کا شکار نہیں ہورہی بلکہ پورا بھارتی معاشرہ ہی درندوں میں تبدیل ہوچکا ہے۔ نئی دہلی کے اسپتال میں اگر لیڈی ڈاکٹر رات کی ڈیوٹی سے پریشان ہیں تو اس لئے نہیں کہ کوئی باہر سے آکر ان کو تنگ کرے گا یا مریض کے لواحقین سے ان کو کوئی خطرہ ہے۔ ان کو اگر خطرہ ہے تو ان ہی اپنے ساتھیوں سے جنہیں عام حالات میں ان کا محافظ ہونا چاہئے تھا۔ برطانوی معاشرے کے جو اعدادوشمار میں نے پیش کئے ہیں اس میں درندگی کا شکار ہونے والے اپنے ہی ساتھیوں کا نشانہ بنے ہیں۔ یہ ہے وہ نکتہ جس کی طرف میں نشاندہی کرنا چاہتا ہوں۔
دیکھنے میں دو الگ الگ ملک ، آج ایک جیسی صورتحال کا شکار ہیں اور دنیا ان کو ایک پرامن ملک قرار دیتی ہے۔وہاں جانے والوں کے لئے کوئی ٹریول ایڈوائس نہیں۔ کسی کا کوئی احتجاج نہیں۔ باہر سے آنے والے تو کجا، اب وہاں رہنے والے بھی خوفزدہ ہیں مگر ان کا میڈیا ابھی تک شادیانے بجارہا ہے۔ کوئی سول سوسائٹی نہیں ، کوئی منظم احتجاجی تحریک نہیں، کوئی اصلاحی تحریک نہیں ، کوئی پابندی نہیں۔ ماہر نفسیات بتاتے ہیں کہ جو لوگ اس درندگی کا شکار ہوتے ہیں وہ زندگی بھر ایک نارمل زندگی نہیں گذار پاتے۔ پھر بھی کوئی بلند احتجاجی آواز نہیں۔اب پاکستان کو دیکھتے ہیں۔ پاکستان ایک منظم بیرونی دہشت گردی کا شکار ہے۔ گھر سے باہر نکلنے والا یوں تو خوفزدہ ہوسکتا ہے کہ کسی اندھی گولی یا بم دھماکے کا شکار نہ ہوجائے، اسٹریٹ کرائم عام ہیں مگر یہاں کے بچے اور عورتیں اس معاشرتی درندگی سے محفوظ ہیں۔ اگر کسی فرد پر درندگی سوار ہو بھی جائے توسامنے دوسرے فرد کو دیکھ کر یہ درندہ کہیں دبک جاتا ہے اور اکیلے میں ہی سر ابھارتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ مجموعی طور پر مہذب معاشرہ ہے جہاں پر بچوں سے محبت اور عورتوں کا احترام باقی ہے۔
مگر یہ صورتحال اب پاکستان میں بھی زیادہ دنوں تک بہتر نظر نہیں آرہی کیوں کہ بھارتی ثقافت کی یلغار الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے اب اثر دکھانے لگی ہے۔ ترکی ڈراموں کی آڑ میں یوروپی ثقافت کے حملے کا ایک نیا محاذ کھول دیا گیا ہے۔ موبائل فون پر سستا انٹرنیٹ اب ہر شہری بچے کی دسترس میں ہے۔ این جی اوز روز پرائمری اسکولوں کے معصوم بچوں کو محفوظ سیکس سکھانے کے طریقوں پر کمربستہ ہیں۔ ترقی کے نام پر عریانیت عام ہوتی جارہی ہے۔منظم طریقوں سے جنسی بے راہ روی کو عام کیا جارہا ہے۔بچوں کے اسکول بیگ اب باربی ڈول کی جنسی تصاویر سے بھرے ہوئے ہیں ، ان کے پنسل باکس بھی باربی ڈول کے نام پر فروخت ہورہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کو بھی برطانیہ اور بھارت کی سطح پر لانے کی باقاعدہ کوششیں جاری ہیں۔ یہ صرف اور صرف پاکستان کا اسلامی اور معاشرتی پس منظر ہے جس نے اس کو محفوظ رکھا ہوا ہے اور اب اسی شیلڈ پر منظم اور باقاعدہ حملے جاری ہیں۔ جان لیجئے کہ دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت ون ورلڈ گورنمنٹ کے خواہاں سازشیوں کی پہلی کوشش ہی یہی ہے کہ ہر معاشرے کو شیطانی معاشرے میں تبدیل کردیا جائے ۔ اس کے لئے ان کے نزدیک پاکستانی، بھارتی یا برطانوی معاشرے میں کوئی تخصیص نہیں ہے۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہئے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھئے۔ ہشیار باش۔
[email protected]
مسعود انور
برطانیہ اور بھارت دیکھنے میں ہر لحاظ سے دو انتہائی مختلف ملک ہیں ۔ایک مغرب کا نمائندہ ملک ہے تو دوسرا مشرق کا۔ ایک میں سفید فام آباد ہیں جبکہ دوسرے میں رنگ دار ۔ ایک میں عیسائی آبادی بستی ہے تو دوسرے میں ہندو مت کو ماننے والے۔ ایک ترقی یافتہ تو دوسراغیر ترقی یافتہ ۔ ایک سو فیصد تعلیم یافتہ تو دوسرا جاہلیت کا شکار۔ ایک حاکم تھا تو دوسرا محکوم۔ مگر ایک بات ہے جو دونوں ممالک میں مشترک ہے اور وہ ہے جنسی درندگی کا شکار۔ سب سے پہلے برطانیہ کے چند اعدادوشمار دیکھتے ہیں ، اس کے بعد بھارت کے حالات کو دیکھتے ہیں اور پھر پاکستان کی موجودہ تصویر کو۔
برطانیہ کے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق ہر برس تین ہزار سے زائد بچوں کو اپنے ساتھی بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کرنے اور جنسی تشدد کرنے کے الزام میں اسکولوں سے نکال دیا جاتا ہے۔ان اعدادوشمار کے مطابق ہر روز اوسطا پندرہ بچوں کو جنسی تشدد اور بے راہ روی کے نتیجے میں اسکول سے نکال دیا جاتا ہے اور اس میں سے کم از کم ایک کا تعلق پرائمری اسکول سے ہوتا ہے۔بچوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنے والی تنظیموں کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ بچوں کا انٹرنیٹ پر فحش مواد کو دیکھنا ہے جس کی وجہ سے پرائمری اسکولوں کے بچے بھی اپنے ساتھیوں کے جنسی تشدد کا نشانہ بن رہے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ بچوں کی انٹرنیٹ تک آسان رسائی کی وجہ سے بچوں کے اندر جنسی تشدد کا رحجان بڑھ رہا ہے۔برطانیہ کی نیشنل یونین آف ٹیچرز کا کہنا ہے کہ بڑے بڑے کاروباری اداروں نے اپنے کاروبار کو توسیع دینے کے لئے بچوں کے لئے بنائے گئے پنسل باکس کو پلے بوائے کی جنسی علامات میں ڈھال کر بچوں میں مقبول بنایا ہے اور یوں ڈانس کرنے والی عورتوں کو طاقتور دکھایا گیا ہے۔اس سے ملک میں ایک خطرناک کلچرنے جنم لیا ہے۔گذشتہ سال تین ہزار تیس بچوں کو جنسی اشتعال پر اسکولوں سے خارج کیا گیا ۔ اس میں سے دو سو بچوں کا تعلق پرائمری اسکولوں سے تھا۔ بتایا گیا ہے کہ جن بچوں کو خارج کیا گیا ہے ، ان کا طرز عمل انتہائی ناقابل برداشت ہوگیا تھا وگرنہ ایک بڑی تعداد کو تو محض تنبیہ کرکے چھوڑ دیا گیا ہے۔اگر ان کو بھی شامل کرلیا جائے تو یہ اعدادوشمار کم از کم دس گنا مزید بڑھ جائیں گے۔رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ سیکنڈری اسکولوں کے تیس فیصد اور پرائمری اسکولوں کے گیارہ فیصد اساتذہ کو اس امر کا علم ہوتا ہے کہ ان کے اسکولوں میں بچوں کو جنسی طور پر ہراساں کیا جارہا ہے۔ان کا کہنا ہے کہ اس کی وجوہات میں انٹرنیٹ پر برہنہ اور جنسی ہیجان سے بھرپور فلموں کا دیکھا جاناہے۔
اب بھارت کی طرف چلتے ہیں۔ بھارتی دارالحکومت نئی دہلی میں چلتی بس میں ایک طالبہ کے ساتھ اجتماعی زیادتی کے واقعہ کو ابھی زیادہ دن نہیں گذرے ہیں۔ آئے دن بھارتی اخبارات ان خبروں سے بھرے ہوتے ہیں کہ گوا میں سوئٹزرلینڈ کی سیاح کو اغوا کرکے اجتماعی آبروریزی کی گئی، گو اکے ساحل سے برطانوی خواتین سیاحوں کی لاشیں ملی ہیں جنہیں زیادتی کے بعد قتل کردیا گیا تھا۔ جنوبی بھارت میں کھیت میں کام کرنے والی خاتون کو اغوا کرکے ٹرین میں لے گئے اور پھر اس کو اجتماعی زیادتی کا نشانہ بنا کر چلتی ٹرین سے اس کو نیچے پھینک دیا جس سے وہ شدید زخمی ہوگئی۔ وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب واقعات بھارت میں اتنے تسلسل سے ہورہے ہیں کہ خود بھارتی ہندو چیخ پڑے ہیں اور انہوں نے ان درندوں کے خلاف سنگ زنی کی سزا کا مطالبہ کردیاہے۔ میرے پاس آج بھی دس برس پہلے کی بی بی سی اردو ڈاٹ کام کی وہ خبر محفوظ ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ نئی دہلی کے اسپتالوں میں لیڈی ڈاکٹرز کام کرنے سے گریزاں ہیں کیوں کہ ان کو اپنی عزت کے بارے میں خطرات لاحق ہوتے ہیں۔میں بھاری اعدادوشمار کی بات نہیں کررہا۔ محض چند واقعات نمونے کے طور پر پیش کئے ہیں۔
ان تمام بھارتی واقعات کو دیکھیں ۔ اس میں ایک بات مشترک ہے اور وہ ہے اجتماعی زیادتی۔ یعنی اب بھارتی عورت کسی ایک فرد کی درندگی کا شکار نہیں ہورہی بلکہ پورا بھارتی معاشرہ ہی درندوں میں تبدیل ہوچکا ہے۔ نئی دہلی کے اسپتال میں اگر لیڈی ڈاکٹر رات کی ڈیوٹی سے پریشان ہیں تو اس لئے نہیں کہ کوئی باہر سے آکر ان کو تنگ کرے گا یا مریض کے لواحقین سے ان کو کوئی خطرہ ہے۔ ان کو اگر خطرہ ہے تو ان ہی اپنے ساتھیوں سے جنہیں عام حالات میں ان کا محافظ ہونا چاہئے تھا۔ برطانوی معاشرے کے جو اعدادوشمار میں نے پیش کئے ہیں اس میں درندگی کا شکار ہونے والے اپنے ہی ساتھیوں کا نشانہ بنے ہیں۔ یہ ہے وہ نکتہ جس کی طرف میں نشاندہی کرنا چاہتا ہوں۔
دیکھنے میں دو الگ الگ ملک ، آج ایک جیسی صورتحال کا شکار ہیں اور دنیا ان کو ایک پرامن ملک قرار دیتی ہے۔وہاں جانے والوں کے لئے کوئی ٹریول ایڈوائس نہیں۔ کسی کا کوئی احتجاج نہیں۔ باہر سے آنے والے تو کجا، اب وہاں رہنے والے بھی خوفزدہ ہیں مگر ان کا میڈیا ابھی تک شادیانے بجارہا ہے۔ کوئی سول سوسائٹی نہیں ، کوئی منظم احتجاجی تحریک نہیں، کوئی اصلاحی تحریک نہیں ، کوئی پابندی نہیں۔ ماہر نفسیات بتاتے ہیں کہ جو لوگ اس درندگی کا شکار ہوتے ہیں وہ زندگی بھر ایک نارمل زندگی نہیں گذار پاتے۔ پھر بھی کوئی بلند احتجاجی آواز نہیں۔اب پاکستان کو دیکھتے ہیں۔ پاکستان ایک منظم بیرونی دہشت گردی کا شکار ہے۔ گھر سے باہر نکلنے والا یوں تو خوفزدہ ہوسکتا ہے کہ کسی اندھی گولی یا بم دھماکے کا شکار نہ ہوجائے، اسٹریٹ کرائم عام ہیں مگر یہاں کے بچے اور عورتیں اس معاشرتی درندگی سے محفوظ ہیں۔ اگر کسی فرد پر درندگی سوار ہو بھی جائے توسامنے دوسرے فرد کو دیکھ کر یہ درندہ کہیں دبک جاتا ہے اور اکیلے میں ہی سر ابھارتا ہے۔ پاکستانی معاشرہ مجموعی طور پر مہذب معاشرہ ہے جہاں پر بچوں سے محبت اور عورتوں کا احترام باقی ہے۔
مگر یہ صورتحال اب پاکستان میں بھی زیادہ دنوں تک بہتر نظر نہیں آرہی کیوں کہ بھارتی ثقافت کی یلغار الیکٹرونک میڈیا کے ذریعے اب اثر دکھانے لگی ہے۔ ترکی ڈراموں کی آڑ میں یوروپی ثقافت کے حملے کا ایک نیا محاذ کھول دیا گیا ہے۔ موبائل فون پر سستا انٹرنیٹ اب ہر شہری بچے کی دسترس میں ہے۔ این جی اوز روز پرائمری اسکولوں کے معصوم بچوں کو محفوظ سیکس سکھانے کے طریقوں پر کمربستہ ہیں۔ ترقی کے نام پر عریانیت عام ہوتی جارہی ہے۔منظم طریقوں سے جنسی بے راہ روی کو عام کیا جارہا ہے۔بچوں کے اسکول بیگ اب باربی ڈول کی جنسی تصاویر سے بھرے ہوئے ہیں ، ان کے پنسل باکس بھی باربی ڈول کے نام پر فروخت ہورہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان کو بھی برطانیہ اور بھارت کی سطح پر لانے کی باقاعدہ کوششیں جاری ہیں۔ یہ صرف اور صرف پاکستان کا اسلامی اور معاشرتی پس منظر ہے جس نے اس کو محفوظ رکھا ہوا ہے اور اب اسی شیلڈ پر منظم اور باقاعدہ حملے جاری ہیں۔ جان لیجئے کہ دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت ون ورلڈ گورنمنٹ کے خواہاں سازشیوں کی پہلی کوشش ہی یہی ہے کہ ہر معاشرے کو شیطانی معاشرے میں تبدیل کردیا جائے ۔ اس کے لئے ان کے نزدیک پاکستانی، بھارتی یا برطانوی معاشرے میں کوئی تخصیص نہیں ہے۔
اس دنیا پر ایک عالمگیر شیطانی حکومت کی سازشوں سے خود بھی ہشیار رہئے اور اپنے آس پاس والوں کو بھی خبردار رکھئے۔ ہشیار باش۔