شہباز شریف کا تاریخی قہقہہ

Uncle Q

Minister (2k+ posts)
2040
کی ایک سرد شام ، گوادر کے نیل گوں شفاف ساحل کے کنارے، وہ گوادر کے صدر کا منتظر تھا۔ ان لمحوں کے لیے اس نے مدتوں انتظار کیا تھا۔ وہ ایک پاکستانی تھا، اس لیے گوادر کے ویزے اور پھر صدر کے انٹرویو کے لیے اسے کافی جتن کرنا پڑے تھے۔ ساحل گوادر کے دلکش مناظر کو اپنے اندر جذب کرتے وہ اپنی کمزور یادداشت کو اذیت دے رہا تھا۔ اس ساحل پر وہ پہلے بھی آتا رہا تھا۔ اپنی بھرپور جوانی کی کئی شامیں اس نے یہاں گزاری تھیں۔ اسٹولا کا جزیرہ اور وہاں گزاری گئی رات اسے آج بھی یاد تھی۔ ابھی کل ہی کی تو بات تھی جب وہ وزیراعظم پاکستان کے ہمراہ سی پیک اور بلوچستان کی ترقی کے لیے لگائے گئے منصوبوں کو کور کرنے یہاں آیا تھا۔ گوادر کتنا بدل چکا ہے۔ کیا تھا، کیا سے کیا ہوگیا ہے، وہ محو حیرت تھا۔


چند برس قبل ویران گوادر کے برباد ساحل پر اب بہت سے ہوٹل آباد ہوچکے تھے۔ جھونپڑیوں کی جگہ فلک شگاف عمارتوں نے لے لی تھی۔ جانوروں پر سواری کرنے والے اب پر تعیش گاڑیوں کے مالک تھے۔ بین الاقوامی درسگاہوں کی شاخیں گوادر کا رخ کر رہی تھیں۔ گوادر اسٹاک ایکسچینج کی مجموعی صورتحال کئی برس سے کراچی کی اسٹاک ایکس چینج سے بہتر چلی آ رہی ہے۔ دنیا نے دبئی اور گوادر کا موازنہ شروع کردیا ہے۔ یا خدایا، یہ کیوں اور کیسے ہو گیا؟ کاش ایسے نہ ہوا ہوتا۔۔۔


پچھتاوے اس کے دماغ میں طوفان برپا کر رہے تھے۔ سوالوں کا ایک سمندر تھا جو امنڈ آنے کو بیتاب تھا۔ اچانک اسے محسوس ہوا کہ صدر صاحب کو اب تک یہاں آجانا چاہیے تھا۔ وہ بے تابی سے اٹھ کر ٹہلنے لگا۔ اس دوران میں ایک سرکاری افسر اس تک پہنچا اور ااسے آگاہ کیا کہ کچھ مصروفیات کی بنیاد پر صدر گوادر آپ سے ملنے نہیں آ سکے۔ تاہم انہوں نے آپ کے لیے ایک تحفہ بھجوایا ہے۔ یہ تحفہ لے کر مایوسی کے ساتھ وہ اپنے ہوٹل لوٹ گیا ۔ دکھ اس قدر تھا کہ اس نے تحفے کو کھول کر دیکھنے کی ہمت بھی نہیں کی تھی۔ اگلے ہی روز وہ گوادر سے براستہ دبئی پرواز لیکر پاکستان واپس لوٹ آیا تھا۔ تھکن دور ہانے اور صدمہ کم ہونے کے بعد اس نے سامان کھولا تو تحفہ بھی ہاتھ آیا۔۔۔ بے جان ہاتھوں سے ڈبہ کھولا تو ایک کتاب سامنے تھی، عنوان تھا، شہباز شریف کا تاریخی قہقہہ۔۔۔۔

C0izHniVEAE_HKR.jpg


اگر اس تحریر سے پڑھنے والوں کے جذبات مجروح ہوں تو میں ہاتھ جوڑ کر معافی طلب کرتا ہوں۔ ایسا کبھی نہیں ہوگا اور نہ ہی ہونا چاہیے۔دراصل چند روز قبل وزیراعلی پنجاب شہباز شریف نے گوادر کے چند طالب علموں سے ملاقات کی۔ خلاف توقع طالب علموں نے چند تلخ حقائق شہباز شریف کے سامنے رکھ دیے۔ جن میں سے ایک سوال کے جواب کو وزیراعلی زوردار قہقہہ لگا کر ٹال گئے۔ اگر جواب نہیں تھا تو خاموشی کافی تھی، ہنسنا نہیں چاہیے تھا۔


ایک طالبہ نے وزیراعلی سے شکوہ کیا تھا کہ پنجاب کے بچوں کو چینی زبان سیکھنے کے لیے سرکاری خرچ پر چین بھیجا جا رہا ہے جب کہ بلوچستان کے طالب علم اس سہولت سے محروم ہیں۔ اگر دیکھا جائے تو یہ ایک با معنی سوال تھا۔ پنجاب سے جو بچے چینی زبان سیکھ کر آئیں گے، انہیں سی پیک میں نوکریاں ملیں گی۔ شاید وہ بلوچستان میں بھی کام کریں گے۔ دوسری طرف زبان پر عبور نہ ہونے کے باعث مقامی باشندے روزگار سے محروم رہ جائیں گے، جس سے احساس محرومی میں مزید اضافہ ہوگا، اور ہم اس کے نتائج برداشت کرنے کے قابل نہیں ہیں۔


بے وجہ قہقہے لگانے کی بجائے شہباز شریف کو بلوچستان کی نئی نسل کے زخموں پر مرحم رکھنا چاہیے تھا۔ انہیں ترقی اور بنیادی سہولیات کا یقین کروانا چاہیے تھا۔ بلوچستان سے طالب علموں کے وفد کو چین بھیجنے کا اعلان کرنا چاہیے تھا۔


اگر ہمارے سیاستدان ایسے ہی قہقہے لگاتے رہے تو پھر۔۔۔ یہ قہقہے تاریخی حیثیت اختیار کرجائیں گے۔

http://www.humsub.com.pk/37854/mohsin-shahbaz-9/
 

Two Stooges

Chief Minister (5k+ posts)
بہت ھی خوبصورت تحریر، اور گہری باتیں ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ نہ کرے کہ گوادر ھم سے علیحدہ ھو ۔ ۔
لیکن ان بد ذات لو ھاروں نے جو پالیسیاں اختیار کی ھیں، میرا ذاتی خیال ھے کہ صرف صوبہ پنجاب ھی اگلے آنے والے برسوں میں پاکستان کہلائے گا جسکی نہ بجلی اپنی، نہ گیس اپنی، اور نہ بندر گاہ اپنی ھو گی ۔ ۔ ۔ چھوٹے صوبے
صرف اناج کے لئے تو اس کے ساتھ کبھی بھی نہیں چل سکیں گے
 
Last edited:

Back
Top