??? 2 ??? ??? ??? ????? ??? ??????? ????? ???? ?? ????? ?????? ??????? ?? ?????? ?? ??????? ?? ????? ??? ?? ??? ??? ?? ?? ????? ?? ?????
Last edited by a moderator:
qadri sahib next installment lenay kab a rahay hain ..pichay pesay mokay nahi halay .. what a deen frosh mola
جہاد باالسیف اور دہشت گردی کے مضمون پر ڈاکٹر طاہر القادری اور جاوید احمد غامدی کی سفارشات پر گورنمنٹ کو ضرور عمل کرنا چاہئے کیونکہ یہ دونوں وہی تعلیم پیش کرتے ہیں جو ان سے سو سال پہلے پیدا ہونے والے نے لکھی۔ ان دو موضوعوں پر پاکستان میں بہتر میں سے کسی کی یہ رائے نہیں یہ بات کاپی رائٹ کی نہیں بات ہے قیمتی جانوں کو بچانے کی اور اللہ کے حکم جو کہ اللہ نے حکم و عدل کے ذریعے بھیجا اس پر عمل کی۔صرف اسی صورت میں دہشت گردی کا خاتمہ ممکن ہے۔ یہ دونوں اشخاص کھل کے نہیں کہتے کہ اب فوج کے علاوہ کسی کا جہاد کرنا منسوخ ہے کیونکہ پھر ان پر انکے فالو ورز نے ہی انگلیاں اٹھانی ہیں کے یہ سب کس دور میں ہونا تھا ؟
آنکھیں کھولنے کی ضرورت ہے۔ فتوی آئے ایک صدی سے زائد گزر گئی ہے اور اس عرصہ میں جہاد کے نام پر تلوار اٹھانے پر کامیابیاں کب اور کسے ملی ؟ صرف اور صرف مسلمان فوج کو جب اس نے ملکی دفاع کے لیے ہتھیار اٹھایا یا ان مسلمانوں کو جنہوں نے آزادی کے لیے ہتھیار اٹھایا غیر مسلموں کے خلاف۔ باقی جب جب ہم نے جہاد کے نام پر ہتھیار اٹھایا ہم نے ہمیشہ شکست کھائی اور یہ جاری رہیگا کیونکہ اب ریاست کی فوج کے علاوہ تمام جہاد بالسیف منسوج ہے اللہ کی طرف سے۔
یہ طالبان ظالمان ہمارا خون کر رہے ہیں جہاد کے نام پر لیکن یہ کبھی پاکستان کی حکومت یا جوہری ہتھیاروں پر قبضہ نہیں کر سکیں گےکیونکہ یہ اللہ کی تقدیر ہے۔ جب منسوخ ہے تو اسکا مطلب ہےکبھی کامیابی نصیب نہ ہونا۔ دیکھو سوات میں فوج نے جہاد کیا کامیابی ملی۔ وزیرستان میں کیا کامیابی ملی۔ فوج کو چاہیے کہ نام کے سو کالڈ گڈ سے بھی کٹی کر لے اور کہے ہتھیار حوالے کرو اور قومی دھارے میں شامل ہو اور جن غداروں کے ہاتھ پر خون ہے انکو پاکستان کے ہر کونے اور افغانستان میں بھی گھس کے نشانہ بنائیں اور شدت پسندی اور انتہا پسندی کے جڑھ سے خاتمے کے لیئے طاہر القادری اور غامدی صاحب کا کہنا امپلیمنٹ کیا جائے۔من و عن۔
جناب پہلے تو اپنے مرزا صاحب بارے فیصلہ کرو کہ وہ مفتی تھے ، مجتہد تھے ، مہدی تھے ، مسیح تھے ، یا نبی تھے؟ ہمارے لئے تو وہ کذاب بدزبان تھا۔بدکردار تھا۔
رہی بات جہاد بالسیف کے منسوخ ہونے کی تو پاکستان میں کون کس کے خلاف جہاد بالسیف کررہا ہے؟ یہاں تو مسجدیں تباہ کی جارہی ہیں۔؟ جبکہ اسلام میں تو مسجدوں کی تباہی کا حکم سختی سے منع ہے۔ اسلام اعلانیہ جہاد کا حکم دیتا ہے یہاں کون اعلان کرکے لڑائی کر رہا ہے؟ جناب غامدی صاحب تو حاکم کے خلاف پرامنآوز حق بھی بلند کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ بلکہ انکے نزدیک تو حاکم چاہے جو بھی کرے حالنکہ قتل بھی کرے ،اسکی گرفت صرف پارلیمنت ہی کرے گی۔
جناب کے فتوے کے خلاف افغانستان مسلمانونکی حکومت تھی اسکو کفار نے ختم کرنے کے لئے حملہ کیا۔ انپر قبضہ کرلیا۔ انکی اصل طاقت ختم کردی، فوج تباہ کردی۔
جناب کے مرزا نے غیر مسلم کے قبضے کے خلاف جہاد کو حرام کیاتھا۔
آپ یو ٹیوب سرچ بار پر یہ لکھ کر۔سرچ کا بٹن دبا دیں۔
پانچویں وڈیو جو ہوگی 37 منٹ کی وہ دیکھ لیں۔
" Why & How I Accepted Islam- "
یہ ڈاکٹر طاہر القادری کے سابقہ مرید تھے جو ان سے ہنمائی لینے گئے تھے بطور روحانی پیشوا اور مذہبی رہنما کے اور محفل سے اٹھ کر گئے تو کسی اور کے ہوگئے۔
اور فورم کے رولز اجازت نہیں دیتے کہ میں آپکے الزامات کا جواب دے سکوں۔ 15 ویب سائز پر جواب موجود ہے اور متعدد ویڈیوز بھی یو ٹیوب پر موجود ہیں اس پر جہاں قرآن و حدیث سے دلائل دیئے گئے ہیں۔
یہ بات یاد رکھیں کے سرسید اور دو چار اور کا بھی یہی نظریہ تھا۔ یہ بھی یاد رکھیں کے جہاد کی شرائط پوری نہ تھیں اور اگر ہتھیار اٹھانے والے حق پر ہوتے تو انہیں کامیابی دے کر مخالف کو اللہ غلط ثابت کر دیتا پر ہوا کیا ؟ ہزاروں مسلمانوں کی جانیں گئیں اور کئی گھر اجڑ گئے۔ اور انگریز اگلے 90 سال بھی براجمان رہا۔ اور یہ بھی یاد رکھیں کے انگریز سے پہلے کا کیا دور تھا ؟ سکھ مسلمانوں کے گلے کاٹ رہا تھا اور مسلمانوں کو اپنی عبادت کرنے میں مذہبی آزادی نہیں تھی۔ انگریز غاصب تو تھا پرسکھ کے مقابلہ میں " بلیسنگ ان ڈسگائس " تھا کیونکہ مسلمان اب عبادت کرنے میں بھی آزاد تھے اور جان بھی محفوظ تھی۔ اور انگریز نے جانا تھا اور پھر ہم سکھوں یا ہندوئوں کے غلام بن جاتے۔ انگریز بالآخر مذاکرات اور پر امن تحریک سے ہی گیا اور ہمیں آزاد ملک بھی مل گیا۔ جنگ آزادی جنگ بربادی تھی۔ اور اسکے نتائج بھی منفی نکلے۔ اگر واقعی وہ جہاد ہوتا تو جو اسکا مخالف تھا وہ غلط ثابت ہوتا۔
دروغ گوئی تو بانی سے ہی شروع ہو گئی تھی۔ [FONT="]دروغگو کے شاگرد کب دروغ نہ ہونگے۔ کافی منجھا ہوا شکاری نظر آتا ہے۔ خیر ہر جھوٹ جھوٹ ہی ہوتا ہے۔
میرا سوال تو تم نے بالکل ہی چھوڑ دیا۔ رہی بات تمہارے دعوے کی تو جناب جس وقت مسلمانون کی سلطنت بغداد تباہ ہوئی اس وقت بھی مرزا کی پیش گوئی تھی؟ مسلمان اس وقت کیوں ناکام ہوئے؟
عجیب و غریب حجتیں؟ 90 سال انگریزوں نے حکومت کی مگر ان کی حکومت کے خلاف جو جنگ ہوئی تھی وہ تو مسلم حکومت کے زیر انتظام تھی۔ جیسا بھی تھا مغلوں کا ایک سپوت بدشاہ تھا۔ یہ سب ڈھکوسلے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ تغیرات زمنہ سے مسلمان دین اسلام کی تعلیمات سے عملی منحرف ہونے کے سبب اللہ تعالی نے جیسے پہلے ازمائش میں منتقل کیا۔ ایسے ہی آج بھی 200 سال سے مسلمان ابتلاء میں ہیں۔ انشاء اللہ جلد ہی اس ابتلاء کا خاتمہ ہوگا۔ حق باطل کو پچھاڑے گا۔ تلک الایام نداولھا کاوعدہ جلد پورا ہوگا۔
ہے جرم ضعیفی کی سزا مرگ مفاجات
کی عملی تفسیر مسلمانوں پر طاری ہے۔ [/FONT]
فورم کے رولز پڑھ لیں۔ ظاہر ہے جس شخص پر آپ الزام در الزام لگا رہے ہیں سو اسی شخص کے الفاظ میں الزامات کا رد کیا جا سکتا ہے۔ آپ خوش قسمت ٹھرے کے اگر آپ نے آئوٹ آف کونٹکز دو دو لائنیں یہاں پوسٹ کر دیں تو آپ قائم و دائم رہیں گے مگر اگر میں نے کذب کا جواب دیا تو مجھ پر بین لگا دیا جائے گا۔
یہی تو وجہ ہے کہ جب دلیلوں سے بھرپور کتب قادری صاحب کے مرید وحید اللہ خاں کے ہاتھ لگ گئیں تو پھر وہ رہ نہ سکے حق کے انکار کرنے سے۔ اور سورہ الحاقہ کی آیات کے تحت جواب نہ دے سکے کہ اللہ نے اپنے وعدے کے تحت جو 30 کے ساتھ سلوک کیا تو اکتیسواں اس سے منرہ کیسے رہا ؟ 31 واں کیا لاڈلہ تھا ؟
دفاعی جنگ یا جہاد بالسیف یعنی جب دشمن دینی اقدار کو ختم کرنے اور دین کو تباہ و برباد کرنے کے لئے دین پر حملہ آور ہو تو اس وقت دفاعی جنگ کرنے کو جہاد بالسیف کہتے ہیں۔ نبی کریم ﷺ نے اسے جہاد اصغر قرار دیا ہے۔
اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتا ہے:۔
اُذِنَ لِلَّذِيْنَ يُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّهُمْ ظُلِمُوْا*ؕ وَاِنَّ اللّٰهَ عَلٰى نَـصْرِهِمْ لَـقَدِيْرُۙ ۔ ۨالَّذِيْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِيَارِهِمْ بِغَيْرِ حَقٍّ اِلَّاۤ اَنْ يَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰهُ*ؕ (الحج:۴۰۔۴۱)
یعنی وہ لوگ جن سے (بلاوجہ) جنگ کی جارہی ہے ان کو بھی (جنگ کرنے کی) اجازت دی جاتی ہے۔ کیونکہ ان پر ظلم کیا گیا ہے اور اللہ ان کی مدد پر قادر ہے (یہ وہ لوگ ہیں) جن کو ان کے گھروں سے صرف ان کے اتنا کہنے پر کہ اللہ ہمارا رب ہے بغیر کسی جائز وجہ کے نکالا گیا۔
علماء نے دفاعی جنگ کی بعض شرائط بیان کی ہیں جن کی موجودگی کے بغیر یہ جہاد جائز نہیں۔ چنانچہ سید نذیر حسین صاحب دہلوی لکھتے ہیں:۔
جہاد کی کئی شرطیں ہیں جب تک وہ نہ پائی جائیں جہاد نہ ہوگا(فتاویٰ نذیریہ جلد۳کتاب الامارۃ والجہاد صفحہ۲۸۲۔ناشر اہل حدیث اکادمی کشمیری بازار لاہور)
مولانا ظفر علی خان صاحب ایڈیٹر اخبار زمیندار لاہور نے درج ذیل شرائط کا ذکر کیا ہے:۔
۱۔ امارت ۲۔ اسلامی نظام حکومت ۳۔ دشمنوں کی پیش قدمی و ابتدا (اخبار زمیندار ۱۴جون ۱۹۳۴ء)
خواجہ حسن نظامی نے جہاد کے لئے ۱۔ کفار کی مذہب میں مداخلت ۲۔امام عادل ۳۔ حرب و ضرب کے سامان کے ہونے کا ذکر کیا ہے۔ (رسالہ شیخ سنوسی)
مولوی محمد حسین صاحب بٹالوی نے لکھا کہ :۔
۱۔مسلمانوں میں امام و خلیفہ وقت موجود ہو ۲۔ مسلمانوں میں ایسی جمیعت حاصل جماعت موجود ہو جس میں ان کو کسر شوکت اسلام کا خوف نہ ہو۔ (الاقتصاد فی مسائل الجہاد از مولوی محمد حسین بٹالوی صفحہ۵۱۔۵۲۔مطبع وکٹوریہ پریس)
خلاصہ یہ کہ علماء کے نزدیک جہاد بالسیف کے لئے پانچ شرائط کا پورا ہونا لازمی ہے اور ان میں سے کسی ایک کے بھی نہ ہونے سے دینی قتال نہیں ہوسکتا اور وہ شرائط یہ ہیں کہ ۱۔امام وقت کا ہونا ۲۔اسلامی نظام حکومت ۳۔ ہتھیار و نفری جو مقابلہ کے لئے ضروری ہو ۴۔ کوئی ملک یا قطعہ ہو ۵۔دشمن کی پیش قدمی اور ابتدائ۔
ہندوستان میں جہاد بالسیف اور علماء زمانہ
۔ اہل حدیث کے مشہور عالم و راہنما سید نذیر حسین صاحب دہلوی لکھتے ہیں:۔
جبکہ شرط جہاد کی اس دیار میں معدوم ہوئی تو جہاد کرنا یہاں سبب ہلاکت و معصیت ہوگا (فتاویٰ نذیریہ جلد۳کتاب الامارۃ والجہاد صفحہ۲۸۵۔ناشر اہل حدیث اکادمی کشمیری بازار لاہور)
۔ مولوی محمد حسین بٹالوی لکھتے ہیں:۔
اس زمانہ میں بھی شرعی جہاد کی کوئی صورت نہیں ہے کیونکہ اس وقت نہ کوئی مسلمانوں کا امام موصوف بصفات و شرایط امامت موجود ہے اور نہ ان کو ایسی شوکت و جمیعت حاصل ہے جس سے وہ اپنے مخالفوں پر فتح یاب ہونے کی امید کرسکیں (الاقتصاد فی مسائل الجہاد از مولوی محمد حسین بٹالوی صفحہ۷۲۔مطبع وکٹوریہ پریس)
۔ حضرت سید محمد اسماعیل صاحب شہیدسے ایک شخص نے انگریزوں سے جہاد کے بارے میں سوال کیا تو انہوں نے فرمایا:۔
ایسی بے رو ریا اور غیر متعصب سرکار پر کسی طرح بھی جہاد کرنا درست نہیں ہے اس وقت پنجاب کے سکھوں کا ظلم اس حد کو پہنچ گیا ہے کہ ان پر جہاد کیا جائے (سوانح احمدی۔ صفحہ۵۷۔ مرتبہ محمد جعفر تھانیسری صوفی پرنٹنگ اینڈ پبلشنگ کمپنی لمیٹڈ اسلامیہ سٹیم پریس لاہور)
۔ خواجہ حسن نظامی صاحب لکھتے ہیں۔
انگریز نہ ہمارے مذہبی امور میں دخل دیتے ہیں نہ اور کسی کام میں ایسی زیادتی کرتے ہیں جس کو ظلم سے تعبیر کر سکیں۔ نہ ہمارے پاس سامانِ حرب ہے ایسی صورت میں ہم لوگ ہر گز ہر گز کسی کا کہنا نہ مانیں گے اور اپنی جانوں کو ہلاکت میں نہ ڈالیں گے (رسالہ شیخ سنوسی۔ صفحہ۱۷)
مفتیان مکہ کے فتاویٰ کے بارہ میں شورش کاشمیری مدیر چٹان لکھتے ہیں:۔
ننجمال دین ابن عبد اللہ، شیخ عمر، حنفی مفتی مکہ معظمہ، احمد بن ذنبی شافعی مفتی مکہ معظمہ اور حسین بن ابراہیم مالکی مفتی مکہ معظمہ سے اس مطلب کے فتوے حاصل کئے گئے کہ ہندوستان دارالسلام ہے (کتاب سید عطاء اللہ شاہ بخاری مؤلفہ شورش کاشمیری۔ صفحہ۱۴۱۔ مطبع چٹان پرنٹنگ پریس۔ ۱۹۷۳ء)
۶۔ سرسید احمد خان صاحب لکھتے ہیں:۔
مسلمان ہمارے گورنمنٹ کے مست امن تھے کسی طرح گورنمنٹ کی عملداری میں جہاد نہیں کر سکتے تھے (اسباب بغاوت ہند مؤلفہ سرسید احمد خان صفحہ۳۱۔ سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور)
حضرت بانی جماعت احمدیہ نے جہاد بالسیف کو کیوں ملتوی کیا؟
حضرت بانی جماعت احمدیہ نے جہاد کے التوا کا اعلان اپنی طرف سے ہر گز نہیں فرمایا بلکہ آنحضرت ؐ نے یہ پیشگوئی فرمائی تھی کہ مسیح موعود اور امام مہدی کے زمانہ میں مذہبی جنگوں کا التوا ہو جائے گا۔ چنانچہ فرمایا:۔
یَضَعُ الْحَرْبَ (وہ جنگ کو موقوف کر دے گا) (بخاری کتاب الانبیاء باب نزول عیسیٰ بن مریم)
اسی طرح فرمایا
اس کے زمانہ میں جنگ اپنے ہتھیار رکھ دے گی۔ (الدر المنثور فی التفسیر بالماثور از امام جلال الدین سیوطی۔ دارالمعرفۃ بیروت لبنان)
ان پیشگوئیوں میں یہ اشارہ تھا کہ امام مہدی کے زمانہ میں اس جہاد کی شرائط موجود نہیں ہوں گی۔ چنانچہ حضرت بانی جماعت احمدیہ نے جو مسیح اور مہدی ہونے کے مدعی تھے آنحضرت ﷺ کی پیشگوئی کے عین مطابق قتال کی شرائط موجود نہ ہونے کی وجہ سے اس کے عارضی التوا کا اعلان فرمایا۔
© Copyrights 2008 - 2025 Siasat.pk - All Rights Reserved. Privacy Policy | Disclaimer|