ہمارے حکمرانوں کو اصل میں عزت راس ہی نہیں آتی۔ لاہور کے حلقہ پی پی150میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کی شکایات کا کوئی نوٹس وہ خود ہی لے لیتے اور الیکشن کمیشن کو اِس ضمن میں صاف شفاف تحقیقات کی ہدایات جاری فرماتے تو یہ جو، اب صرف ایک حلقے کی وجہ سے ضمنی انتخابات کا سارا عمل ہی مشکوک دِکھائی دینے لگا ہے یا تحریک ِ انصاف کے رہنما اِس کا تاثر دے رہے ہیں تو ہرگز اِس پر یقین نہ کیا جاتا۔ ایک بات تو بہرحال تحریک انصاف کے رہنماﺅں کو تسلیم کرنا پڑے ضمنی انتخابات میں دھاندلی کی اُتنی شکایات سامنے نہیں آئیں جتنی عام انتخابات میں آئی تھیں اور بہت حد تک درست بھی تھیں۔ جن کے ازالے کے لئے حکمرانوں نے دعوے تو بہت کئے مگرے عملی طور پر ابھی تک کوئی ایسا کام نہیں کیا جس سے وہ ثابت کر سکیں اُن کی سوچ سے بھی زیادہ سیٹیں اُنہیں صرف ”صاف شفاف انتخابات “ کے نتیجے میں ہی ملی تھیں۔
عمران خان نے قومی اسمبلی کے صرف چار حلقوں میں انگوٹھے کے نشانات چیک کروانے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ بڑا ہی جائز مطالبہ تھا۔ میرے خیال میں جتنا زور عمران خان کو اپنے اِس مطالبے کو تسلیم کروانے کے لئے دینا چاہئے تھا اُس نے نہیں دیا۔ سو سیاسی و عدالتی حکمرانوں نے اُس کا اثر بھی ”زور“ کے مطابق ہی قبول کیا جس کے نتیجے میں یہ مطالبہ ابھی تک ہوا میں ہی لٹکا ہوا ہے۔ عدلیہ کی خاموشی اِس ضمن میں اتنی معنی خیز ہے کہ نجی محفلوں میں دھاندلی کے جو الزامات اُس پر لگائے جاتے ہیں اُنہیں تقویت ملتی ہے۔ ایک طرف سیاسی و عدالتی حکمران عمران خان کے اِس مطالبے کو ماننے کے لئے تیار نہیں تو دوسری طرف خود عمران خان بھی اِس ضمن میں سوائے بیانات کے کوئی ایسی حکمتِ عملی واضح نہیں کر سکا جس سے اِس مطالبے کو تسلیم کرنا مجبوری بن جاتی۔
بہرحال عام انتخابات میں دھاندلی کے خلاف نحیف سے احتجاج کا ایک فائدہ ضرور ہوا کہ ضمنی انتخابات میں ایک ادارے سے وابستہ کچھ ریٹائرڈ و حاضر سروس شخصیات کی سرپرستی میں سیاسی حکمران ویسی دھاندلی کا اہتمام نہیں کر سکے جس کی توقع کی جا رہی تھی اور جسے حکمران اپنا حق سمجھتے ہیں۔ فوج کو پولنگ اسٹیشنوں پر لانے کے مثبت نتائج بھی شاید اِس لئے برآمد ہوئے کہ یہ کوئی ریفرنڈم نہیں تھا جو کسی ”فوجی حکمران“ کے صرف حق میں کروا یا جا رہا ہو۔ اِس میں شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں قومی اسمبلی کے صرف چار حلقوں میں انگوٹھے کے نشانات چیک کروا لئے جاتے اور یہ عمل ایک صاف شفاف اور غیر متنازع طریقے سے ممکن بنایا جاتا تو سارے کا سار اانتخابی عمل ہی مشکوک ہو جاتا۔ سیالکوٹ کے حلقہ این اے 110میں دھاندلی کے کچھ شواہد دیکھ کر تو میں حیران رہ گیا تھا۔ اب اِس حلقے سے تحریک انصاف کے ”ہارنے “ والے اُمیدوار نے ”جیتنے “ والے کے خلاف الیکشن ٹربیونل میں ایک رٹ دائر کی ہے۔ الیکشن ٹربیونل کی آنکھیں اور کان پوری طرح کھلے رہے تو مجھے اُمید ہے بجلی و پانی کا وفاقی وزیر شاید فارغ ہی ہو جائے، جو پہلے ہی ”فارغ“ ہے اور اتنی اہم وزارت کا حقدار صرف ”کشمیریوں کی نانی سانجھی “ کے کوٹے سے ٹھہرایا گیا ہے!
ظلم و زیادتی کے خلاف احتجاج کرنا مظلوموں کا حق ہوتا ہے۔ بعض اوقات اِس ضمن میں قانون قاعدے کی پروا وہ شاید اِس لئے نہیں کرتے کہ جن کے ظلم و زیادتی کا شکار وہ ہوئے ہوتے ہیں قانون قاعدے کی کوئی پروا اُنہیں بھی نہیں ہوتی۔ پی ٹی آئی کے کچھ رہنماﺅں اور کارکنوں نے لاہور کے حلقہ پی پی150میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کے خلاف مال روڈ پر جو احتجاج کیا یقینا اُن کا حق ہے، مگر مسئلہ یہ ہے مال روڈ پر ہائی کورٹ نے جلسے جلوسوں پر پابندی عائر کر رکھی ہے جسے توڑنے کا حق صرف ”سرکار کے حق “ میں ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنماﺅں اور کارکنوں نے اِس پابندی کو چونکہ سرکار کے خلاف توڑا ہے تو اُس کی سزا اُنہیں ملنی ہی چاہئے تھی۔ البتہ حکمرانوں کے سوچنے والی بات یہ ہے یہ کیسی ”سزا“ تھی جو اُن کے لئے ”جزا“ بن گئی؟ لاہور کی تحریک انصاف کسی نیک نیت اور باکردار رہنما کی محروی کی وجہ سے ویسے ہی ”مردہ گھوڑے “ کی صورت اختیار کرتی جا رہی تھی۔ اِس کے کچھ رہنماﺅں اور کارکنوں کو گرفتار کرکے اور پھر رہا کرکے اِس ”مردہ گھوڑے“ میں حکمرانوں نے خود ہی جان ڈال دی تو ہم کس سے پوچھیں یہ مشورہ اُنہیں کس ”عقلمند“ نے دیا تھا؟ اُنہیں اگر کسی ”جرم“ میں گرفتار کیا گیا تھا تو ایسا کون سا ”عدالتی اختیار “ وزیراعلیٰ کے پاس ہے کہ اُنہیں فوری طور پر رہا کرنے کا حکم وہ جاری کر دیتے؟ اِس سارے عمل میں ”قانون“ کہاں ہے؟ قانون تو کہیں دکھائی نہیں دیا ”وزیر قانون“ البتہ صاف دِکھائی دے رہے تھے۔
اب وہ فرماتے ہیں”تحریک انصاف کو اپنا نام بدل کر ”تحریک دھاندلی“ رکھ لینا چاہئے“۔ کسی روز وہ یہ بھی بتا دیں اُن کی جماعت کے اُن رہنماﺅں کو اپنا نام بدل کر کیا رکھ لینا چاہئے انتخابی مہم کے دوران بڑے ”بھٹوانہ سٹائل میں “ جو فرماتے تھے ”لوڈشیڈنگ کا مسئلہ چھ ماہ میں حل نہ کیا تو میرا نام بدل دینا“!
میں بات کر رہا تھا کہ حکمرانوں نے تحریکِ انصاف کے ”مردہ گھوڑے“ میں جان ڈال دی ہے مگر تحریک انصاف سے یہ برداشت ہی نہیں ہوا کہ اُس کے ”مردہ گھوڑے“ میں کوئی جان ڈالے۔ چنانچہ اگلے ہی روز دوبارہ جان نکالنے کا بندوبست اُس نے یوں کیا صحافیوں کے ساتھ بدتمیزی اور مار کٹائی کرکے اُنہیں پیغام دیا اُسے اِتنا بھی ”فارغ“ نہ سمجھا جائے کہ ایک صوبے کی حکمرانی تو اب اُس کے پاس بھی ہے جس کا اثر لاہور تک آن پہنچا ہے۔ ایک تو تحریکِ انصاف کے کچھ رہنماﺅں کو ”مفت کوریج“ کی عادت پڑی ہے اُوپر سے صحافیوں سے بدتمیزی کرکے ”چور نالے چتر“ کی جس پالیسی کو زبردستی وہ لاگو کرنا چاہتے ہیں اُس کا نقصان صرف اُنہیں ہی نہیں اُن کے اُس ”لیڈر“ کو بھی ہوگاجو اِن دنوں صرف میانوالی کی زلفوں کا اسیر ہو کر رہ گیا ہے۔ البتہ حکمران جماعت صحافیوں کے ساتھ کی جانے والی بدتمیزی کے فوائد اُٹھانے کی کوشش ضرور کرے گی چاہے ناکام ہی کیوں نہ ہو جائے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق صوبائی وزیر قانون نے صحافیوں سے اظہار یکجہتی فرمائی ہے۔ کچھ پتہ نہیں کل اُن کے خلاف اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید صحافیوں سے اظہار یکجہتی فرما رہے ہوں۔ جہاں تک تحریکِ انصاف کے کچھ کارکنوں کی صحافیوں سے بدتمیزی کا معاملہ ہے تو اطلاعات کے مطابق یہ سلسلہ ایک روز قبل صحافیوں خصوصاً کیمرہ مینوں نے خود شروع کیا تھا، جب پی ٹی آئی کے بہت سے رہنما و کارکن اِس کوشش میں تھے کسی طرح اُن کی گرفتاری کی فلم بن جائے اور چل بھی جائے جس کے بعد ایک تو اپنے لیڈر کے سامنے نمبر ٹانکنے کا اُنہیں موقع مل جائے گا، دوسرے سیاسی طور پر اُن کی اہمیت بھی بن جائے گی، کیونکہ پاکستان میں کوئی سیاسی کارکن یا رہنما چاہے چوری، ڈاکے یا زنا کے جرم میں ہی گرفتار کیوں نہ ہو اپنے خلاف اُسے ”انتقامی کارروائی “ قرار دے کر ”ہیرو“ بننے کی پوری کوشش کرتا ہے اور کچھ بن بھی جاتے ہیں، جیسا کہ ہمارے صدر زرداری بھی ہمارے ”ہیرو“ ہی ہیں۔ اب مال روڈ پر موجود صحافی اور کیمرہ مین پی ٹی آئی کے کس کس رہنما یا کارکن کی تصویر او رخبر بناتے کہ اُس وقت عجب افراتفری بلکہ ”افراتفریح“ کا عالم تھا۔
بیسیوں کو پولیس گرفتار کر رہی تھی اور بیسیوں خود پولیس کی منتیں کر رہے تھے کہ اُنہیں گرفتار کیا جائے۔ ایک کی اپنی ہی درخواست پر پولیس اُسے گرفتار کرنے لگی تو اُس نے دوڑ لگادی۔ کچھ دیر بعد اپنے ساتھ دو چار فوٹو گرافروں اور کیمرہ مینوں کو وہ لے آیا اور اپنی گرفتاری کے لئے قریب کھڑے سب انسپکٹر کی دوبارہ منت کرنے لگا۔ سب انسپکٹر بھی کوئی بڑا ہی چالاک آدمی تھا۔ اُسن نے گرفتار کرنے کے بجائے جیب سے جوس کا ایک پیکٹ نکال کر اُس کے ہاتھ میں تھما دیا۔ فوٹو گرافر اور کیمرہ مین اِس موقع پر اُس کی تصویر بنانے لگے تو اُس نے پھر دوڑ لگا دی۔ سو اِس ضمن میں کچھ رپورٹروں ،فوٹو گرافروں اور کیمرہ مینوں سے جو ”کوتاہی “ ہوئی اگلے روز اُن کے گلے پڑ گئی اور کچھ کے ”سوج“ پڑ گئی تو ظاہر ہے اِس کا ذمہ دار صرف پی ٹی آئی کے کارکنوں یا رہنماﺅں کو تو نہیں ٹھہرایا جا سکتا!
عمران خان نے قومی اسمبلی کے صرف چار حلقوں میں انگوٹھے کے نشانات چیک کروانے کا مطالبہ کیا تھا۔ یہ بڑا ہی جائز مطالبہ تھا۔ میرے خیال میں جتنا زور عمران خان کو اپنے اِس مطالبے کو تسلیم کروانے کے لئے دینا چاہئے تھا اُس نے نہیں دیا۔ سو سیاسی و عدالتی حکمرانوں نے اُس کا اثر بھی ”زور“ کے مطابق ہی قبول کیا جس کے نتیجے میں یہ مطالبہ ابھی تک ہوا میں ہی لٹکا ہوا ہے۔ عدلیہ کی خاموشی اِس ضمن میں اتنی معنی خیز ہے کہ نجی محفلوں میں دھاندلی کے جو الزامات اُس پر لگائے جاتے ہیں اُنہیں تقویت ملتی ہے۔ ایک طرف سیاسی و عدالتی حکمران عمران خان کے اِس مطالبے کو ماننے کے لئے تیار نہیں تو دوسری طرف خود عمران خان بھی اِس ضمن میں سوائے بیانات کے کوئی ایسی حکمتِ عملی واضح نہیں کر سکا جس سے اِس مطالبے کو تسلیم کرنا مجبوری بن جاتی۔
بہرحال عام انتخابات میں دھاندلی کے خلاف نحیف سے احتجاج کا ایک فائدہ ضرور ہوا کہ ضمنی انتخابات میں ایک ادارے سے وابستہ کچھ ریٹائرڈ و حاضر سروس شخصیات کی سرپرستی میں سیاسی حکمران ویسی دھاندلی کا اہتمام نہیں کر سکے جس کی توقع کی جا رہی تھی اور جسے حکمران اپنا حق سمجھتے ہیں۔ فوج کو پولنگ اسٹیشنوں پر لانے کے مثبت نتائج بھی شاید اِس لئے برآمد ہوئے کہ یہ کوئی ریفرنڈم نہیں تھا جو کسی ”فوجی حکمران“ کے صرف حق میں کروا یا جا رہا ہو۔ اِس میں شک و شبہے کی کوئی گنجائش نہیں قومی اسمبلی کے صرف چار حلقوں میں انگوٹھے کے نشانات چیک کروا لئے جاتے اور یہ عمل ایک صاف شفاف اور غیر متنازع طریقے سے ممکن بنایا جاتا تو سارے کا سار اانتخابی عمل ہی مشکوک ہو جاتا۔ سیالکوٹ کے حلقہ این اے 110میں دھاندلی کے کچھ شواہد دیکھ کر تو میں حیران رہ گیا تھا۔ اب اِس حلقے سے تحریک انصاف کے ”ہارنے “ والے اُمیدوار نے ”جیتنے “ والے کے خلاف الیکشن ٹربیونل میں ایک رٹ دائر کی ہے۔ الیکشن ٹربیونل کی آنکھیں اور کان پوری طرح کھلے رہے تو مجھے اُمید ہے بجلی و پانی کا وفاقی وزیر شاید فارغ ہی ہو جائے، جو پہلے ہی ”فارغ“ ہے اور اتنی اہم وزارت کا حقدار صرف ”کشمیریوں کی نانی سانجھی “ کے کوٹے سے ٹھہرایا گیا ہے!
ظلم و زیادتی کے خلاف احتجاج کرنا مظلوموں کا حق ہوتا ہے۔ بعض اوقات اِس ضمن میں قانون قاعدے کی پروا وہ شاید اِس لئے نہیں کرتے کہ جن کے ظلم و زیادتی کا شکار وہ ہوئے ہوتے ہیں قانون قاعدے کی کوئی پروا اُنہیں بھی نہیں ہوتی۔ پی ٹی آئی کے کچھ رہنماﺅں اور کارکنوں نے لاہور کے حلقہ پی پی150میں ہونے والی مبینہ دھاندلی کے خلاف مال روڈ پر جو احتجاج کیا یقینا اُن کا حق ہے، مگر مسئلہ یہ ہے مال روڈ پر ہائی کورٹ نے جلسے جلوسوں پر پابندی عائر کر رکھی ہے جسے توڑنے کا حق صرف ”سرکار کے حق “ میں ہے۔ پی ٹی آئی کے رہنماﺅں اور کارکنوں نے اِس پابندی کو چونکہ سرکار کے خلاف توڑا ہے تو اُس کی سزا اُنہیں ملنی ہی چاہئے تھی۔ البتہ حکمرانوں کے سوچنے والی بات یہ ہے یہ کیسی ”سزا“ تھی جو اُن کے لئے ”جزا“ بن گئی؟ لاہور کی تحریک انصاف کسی نیک نیت اور باکردار رہنما کی محروی کی وجہ سے ویسے ہی ”مردہ گھوڑے “ کی صورت اختیار کرتی جا رہی تھی۔ اِس کے کچھ رہنماﺅں اور کارکنوں کو گرفتار کرکے اور پھر رہا کرکے اِس ”مردہ گھوڑے“ میں حکمرانوں نے خود ہی جان ڈال دی تو ہم کس سے پوچھیں یہ مشورہ اُنہیں کس ”عقلمند“ نے دیا تھا؟ اُنہیں اگر کسی ”جرم“ میں گرفتار کیا گیا تھا تو ایسا کون سا ”عدالتی اختیار “ وزیراعلیٰ کے پاس ہے کہ اُنہیں فوری طور پر رہا کرنے کا حکم وہ جاری کر دیتے؟ اِس سارے عمل میں ”قانون“ کہاں ہے؟ قانون تو کہیں دکھائی نہیں دیا ”وزیر قانون“ البتہ صاف دِکھائی دے رہے تھے۔
اب وہ فرماتے ہیں”تحریک انصاف کو اپنا نام بدل کر ”تحریک دھاندلی“ رکھ لینا چاہئے“۔ کسی روز وہ یہ بھی بتا دیں اُن کی جماعت کے اُن رہنماﺅں کو اپنا نام بدل کر کیا رکھ لینا چاہئے انتخابی مہم کے دوران بڑے ”بھٹوانہ سٹائل میں “ جو فرماتے تھے ”لوڈشیڈنگ کا مسئلہ چھ ماہ میں حل نہ کیا تو میرا نام بدل دینا“!
میں بات کر رہا تھا کہ حکمرانوں نے تحریکِ انصاف کے ”مردہ گھوڑے“ میں جان ڈال دی ہے مگر تحریک انصاف سے یہ برداشت ہی نہیں ہوا کہ اُس کے ”مردہ گھوڑے“ میں کوئی جان ڈالے۔ چنانچہ اگلے ہی روز دوبارہ جان نکالنے کا بندوبست اُس نے یوں کیا صحافیوں کے ساتھ بدتمیزی اور مار کٹائی کرکے اُنہیں پیغام دیا اُسے اِتنا بھی ”فارغ“ نہ سمجھا جائے کہ ایک صوبے کی حکمرانی تو اب اُس کے پاس بھی ہے جس کا اثر لاہور تک آن پہنچا ہے۔ ایک تو تحریکِ انصاف کے کچھ رہنماﺅں کو ”مفت کوریج“ کی عادت پڑی ہے اُوپر سے صحافیوں سے بدتمیزی کرکے ”چور نالے چتر“ کی جس پالیسی کو زبردستی وہ لاگو کرنا چاہتے ہیں اُس کا نقصان صرف اُنہیں ہی نہیں اُن کے اُس ”لیڈر“ کو بھی ہوگاجو اِن دنوں صرف میانوالی کی زلفوں کا اسیر ہو کر رہ گیا ہے۔ البتہ حکمران جماعت صحافیوں کے ساتھ کی جانے والی بدتمیزی کے فوائد اُٹھانے کی کوشش ضرور کرے گی چاہے ناکام ہی کیوں نہ ہو جائے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق صوبائی وزیر قانون نے صحافیوں سے اظہار یکجہتی فرمائی ہے۔ کچھ پتہ نہیں کل اُن کے خلاف اپوزیشن لیڈر میاں محمود الرشید صحافیوں سے اظہار یکجہتی فرما رہے ہوں۔ جہاں تک تحریکِ انصاف کے کچھ کارکنوں کی صحافیوں سے بدتمیزی کا معاملہ ہے تو اطلاعات کے مطابق یہ سلسلہ ایک روز قبل صحافیوں خصوصاً کیمرہ مینوں نے خود شروع کیا تھا، جب پی ٹی آئی کے بہت سے رہنما و کارکن اِس کوشش میں تھے کسی طرح اُن کی گرفتاری کی فلم بن جائے اور چل بھی جائے جس کے بعد ایک تو اپنے لیڈر کے سامنے نمبر ٹانکنے کا اُنہیں موقع مل جائے گا، دوسرے سیاسی طور پر اُن کی اہمیت بھی بن جائے گی، کیونکہ پاکستان میں کوئی سیاسی کارکن یا رہنما چاہے چوری، ڈاکے یا زنا کے جرم میں ہی گرفتار کیوں نہ ہو اپنے خلاف اُسے ”انتقامی کارروائی “ قرار دے کر ”ہیرو“ بننے کی پوری کوشش کرتا ہے اور کچھ بن بھی جاتے ہیں، جیسا کہ ہمارے صدر زرداری بھی ہمارے ”ہیرو“ ہی ہیں۔ اب مال روڈ پر موجود صحافی اور کیمرہ مین پی ٹی آئی کے کس کس رہنما یا کارکن کی تصویر او رخبر بناتے کہ اُس وقت عجب افراتفری بلکہ ”افراتفریح“ کا عالم تھا۔
بیسیوں کو پولیس گرفتار کر رہی تھی اور بیسیوں خود پولیس کی منتیں کر رہے تھے کہ اُنہیں گرفتار کیا جائے۔ ایک کی اپنی ہی درخواست پر پولیس اُسے گرفتار کرنے لگی تو اُس نے دوڑ لگادی۔ کچھ دیر بعد اپنے ساتھ دو چار فوٹو گرافروں اور کیمرہ مینوں کو وہ لے آیا اور اپنی گرفتاری کے لئے قریب کھڑے سب انسپکٹر کی دوبارہ منت کرنے لگا۔ سب انسپکٹر بھی کوئی بڑا ہی چالاک آدمی تھا۔ اُسن نے گرفتار کرنے کے بجائے جیب سے جوس کا ایک پیکٹ نکال کر اُس کے ہاتھ میں تھما دیا۔ فوٹو گرافر اور کیمرہ مین اِس موقع پر اُس کی تصویر بنانے لگے تو اُس نے پھر دوڑ لگا دی۔ سو اِس ضمن میں کچھ رپورٹروں ،فوٹو گرافروں اور کیمرہ مینوں سے جو ”کوتاہی “ ہوئی اگلے روز اُن کے گلے پڑ گئی اور کچھ کے ”سوج“ پڑ گئی تو ظاہر ہے اِس کا ذمہ دار صرف پی ٹی آئی کے کارکنوں یا رہنماﺅں کو تو نہیں ٹھہرایا جا سکتا!
- Featured Thumbs
- http://naibaat.pk/wp-content/uploads/col/tofeeq-butt.jpg
Last edited by a moderator: