حمزہ شہباز کی زیر صدارت ایک اجلاس میں فیصلہ ہوا کہ لاہور کی تاریخی حیثیت اور اس کا پرانا کلچر بحال کیا جائے گا۔ اس مقصد کے لئے یہ طے کیا گیا ہے کہ مال روڈ پر دیدہ زیب تانگے چلائے جائیں گے۔ کہتے ہیں، جوزمانہ بیت جائے ، وہ واپس نہیں آ سکتا، بس اس کی نشانیاں محفوظ رکھی جا سکتی ہیں۔ لاہور میں ماضی کی بے شمار نشانیاں ہیں۔ پوری جی ٹی روڈ ایک سے لے کر دوسرے سرے تک ماضی کے مزاروں سے اٹی ہوئی حیرت انگیز شاہراہ ہے۔ قدم قدم پر مقبرے، مسجدیں، مزار، بارہ دریاں، حویلیاں، اور نہ جانے کون کون سی عمارتیں موجود ہیں۔ اندرون لاہور تو کاروانِ گزراں کی وہ تصویر ہے جو اپنی جگہ منجمد ہو گئی ہے لیکن ا فسوس یہ ہے کہ ماضی کی یہ یادگاریں کھنڈر بنتی جارہی ہیں اور ان کو بچانے کا کوئی ٹھیک انتظام نہیں۔ پاکستان ایک بھوکوں مرتی قوم ہے۔ اس کے پاس اتنی رقم کہاں سے آئے جو ماضی کی نشانیوں کو سنبھال سکے، یہاں تو حال کی بدحالی اتنی بڑھتی جا رہی ہے کہ پاکستان کو اپنے المشہور کشکول کا دامن وسیع کرنا پڑ گیا ہے۔
دیدہ زیب تانگے چلانے سے لاہور کا پرانا کلچر کیسے بحال ہو گا۔ یہ دیدہ زیب تانگے اشرافیہ کی ذہنی عیاشی کا سامان تو ہو سکتے ہیں، کلچر کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا کہ کلچر والے روایتی تانگے ان معنوں میں دیدہ زیب نہیں تھے جن معنوں میں اجلاس والوں نے لئے ہیں۔یہ دیدہ زیب تانگے ان چنگیروں ، موڑھوں اور پیڑھیوں کی طرح ہوں گے جو رؤسا کے ڈرائنگ روموں میں سجائے جاتے ہیں اور یوں دکھایا جاتا ہے کہ رئیس صاحب کتنے عظیم ہیں، اتنے ترقی یافتہ ہو کر بھی اپنے لوک ورثے کو نہیں بھولے۔ اور وہ روایتی تانگے بحال اس لئے نہیں ہو سکتے کہ زمانہ بہت آگے بڑھ گیا ہے، لاہور کی سڑکوں پر تیز رفتار ٹریفک کے لئے جگہ نہیں، تانگوں کی گنجائش کہاں سے نکل سکتی ہے۔ ڈیڑھ دو عشرے پہلے تک سارے سرکلر روڈ پر تانگوں کے کارواں چلتے تھے اور تانگوں کے اڈوں کی رونق بجائے خود ایک چھوٹی سی چوپال کی متبادل ہوا کرتی تھی لیکن یہ گزری بہار کا دمِ آخر تھا۔ اب سرکلر روڈ اور مال روڈ میں کوئی فرق نہیں رہا۔ پرانے لاہور کی ایک شناخت سرکلر باغ تھا جو پورے سرکلر روڈ کے ساتھ ساتھ لہراتا اور سرسراتا تھا ۔ اب یہ کہاں ہے۔ موچی دروازہ کے باغ جیسی تاریخی شہرت کسی اور باغ کو نہیں ملی ہو گی۔ یہ باغ جلسہ گاہ تھا، اب پارکنگ لاٹ بنا دیا گیا ہے۔ کیا کوئی اجلاس موچی دروازے کے باغ کی جلسہ گاہ کو پھر سے بحال کر سکتا ہے۔ اور کر بھی دے تو بھی کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ اہل نظر سیاستدانوں نے نئی بستیاں، یعنی نئی جلسہ گاہیں بنا لی ہیں۔ موچی دروازے کی جلسہ گاہ میں 20ہزار سے زیادہ آدمی آہی نہیں سکتے۔ اور آج سیاستدانوں کو ایسی جلسہ گاہیں چاہئیں جس میں لاکھوں افراد آ سکیں۔ اب مینار پاکستان سے کم پر نظر ٹھہرتی ہی نہیں، موچی دروازے کی جلسہ گاہ بحال ہو جائے تب بھی اس کا رخ کون کرے گا۔ ہاں، اتنا ضرور ہو گا کہ ایک تاریخی جلسہ گاہ محفوظ ہو جائے گی۔ اس جلسہ گاہ کے ساتھ کوئی پتھر کی تختی لگائی جا سکتی ہے کہ یہاں کس کس لیڈر اور کس کس جماعت کے تاریخی جلسے ہوئے۔
وقت ایسی آندھی ہے جو پرانی چیزیں اڑالے جاتی ہے اور نئی چیزیں لا پھینکتی ہے۔ مذکورہ اجلاس میں اس بات کو نا پسند کیا گیا کہ فٹ پاتھ پر کتابیں بیچی جاتی ہیں۔ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ قدیم لاہور کی ایک اور نشانی جانے کو ہے۔ یعنی فٹ پاتھ پر سجی بلکہ پھیلی کتابوں کی بے الماری دکانیں اٹھا دی جائیں گی۔ اجلاس سے یہ عرض کرنا ہے کہ کچھ ٹھہر جائیں۔ حکومت جس تیزی سے مہنگائی بڑھا رہی ہے، اس کی وجہ سے یہ فٹ پاتھ خود ہی اجڑ جائیں گے۔ دس روپے کی روٹی اور بارہ روپے کا نان ملے گا تو پرانی کتابوں کے گاہک کہاں رہ جائیں گے۔ اوپر سے نئی ٹیکنالوجی نے لگتا ہے کہ کتاب کی شکل ہی گم کردی ہے ۔ ای ریڈنگ کے دور کی ابھی تو ٹھیک سے شروعات بھی نہیں ہوئی کہ کتاب غائب ہونے لگی ہے، بات آگے بڑھے گی تو نہ جانے کہاں تک پہنچے گی۔ آج سے پچاس سال پہلے کسی نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہو گا کہ انٹرنیٹ نام کی کوئی شے ایجاد ہو گی۔ جس کے بعد آنکھوں کے سامنے کتاب نہیں، کمپیوٹر ہو گا، اور اب تو ای ریڈنگ کے لئے کمپیوٹر کے سامنے بیٹھنا بھی کہاں ضروری رہا۔ ٹیبلٹ کمپیوٹر اور آئی پیڈ کی ا یسی نعمت ملی ہے کہ گھر ہو یا سفر کتاب کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ورچوئل ریالٹی والی کتاب کے صفحات انگلی کے اشارے سے پلٹے جاتے ہیں۔ریالٹی کی کتاب اس ورچوئل ریالٹی میں سما گئی ہے۔ایک آئی پیڈ کے اندر سینکڑوں کتابوں کی الماری ساتھ لئے پھرو۔ خدا جانے کون کون سی ریالٹی ورچوئل ریالٹی کی اس دنیا میں گم ہونے والی ہے۔ایسے میں پرانے کلچر کی بحالی کی اصطلاح ہی بے معنی ہے۔ پرانے کلچر میں تو ٹی وی تک نہیں تھا۔ ایک سماجی یونٹ گھر تھا تو دوسرا محلّہ۔جس کی ساری رونق کا محور لوگ خود تھے یا میز پرجما ہوا ریڈیو۔ اب نہ جانے کتنی ہی مواصلاتی چیزوں نے گھر بھر دیا ہے۔ اور یہی چیزیں مل کر سماجی یونٹ بن گئی ہیں اور سماجی رابطے کی جگہ بھی۔ ایک ہی گھر کے لوگ گھر کے ایک کمرے میں نہیں بیٹھتے ، اپنے اپنے کمروں میں الگ الگ ٹی وی دیکھتے ہیں، تنہا بیٹھ کر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر سماجی رابطے کرتے ہیں، موبائل فون پر پیغامات بھیج کر ان رابطوں کو زندہ رکھتے ہیں۔ سامنے کون رہتا ہے، سامنے سے کون آ رہا ہے، ان تنہا لوگوں کو اس کا علم ہے نہ جاننے کی ضرورت۔ سماجی رابطے کے معنی لغت میں جو بھی ہوں، نئی ڈکشنری میں سماجی رابطہ سماج سے کٹ جانے کا نام ہے۔سماجی رابطوں کی دنیا میں سماج لاپتہ ہوتا جا رہا ہے۔ وقت کی تیز آندھی اتنی زور آور ہو جائے گی کہ سماج کو بھی اڑا لے جائے گی،کسی نے کب ایسا سوچا تھا۔بھری بزم میں تنہائی کا شاعرانہ تصّور سائنس نے ریالٹی میں بدل دیا ہے۔
اور یہ محض وقت کی آندھی نہیں ہے، یہ دنیا پر بالا دست قوتوں کی زور آوری بھی ہے جو زندگی کا نقشہ بدل رہی ہے۔ گلوبلائزیشن کا مقصد پوری دنیا کو ایک گاؤں بنا دینا ہے۔ ایسا عالمگیر گاؤں جس کے کسی گھر کی دیوار سے کسی گھر کی دیوار نہیں ملتی ہو گی اور جس کو چلانے والی ایک ہی حکومت ہو گی۔ اس گاؤں کے دیہاتیوں نے کیا دیکھنا ہے ، کیا پڑھنا ہے، کیا کھانا ہے، کیا پہننا ہے،کیا سوچنا ہے، یہ سب یہی واحد حکومت طے کررہی ہے ۔ آج کسی ملک کا الیکٹرانک میڈیا سچے معنوں میں اس ملک کا کم، عالمی گاؤں کا میڈیا زیادہ ہے۔ جس کی پروگرامنگ اسی عالمی حکومت نے کی ہے۔عالمگیر گاؤں کے دیہاتیوں کے خیال میں جس شے کی انہیں بالکل ضرورت نہیں، یہ الیکٹرانک میڈیا اُسی شے کو زندگی کیلئے لازمی قرار دیتا ہے اوراس طرح کہ دیہاتی اسے خریدنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ انٹرنیٹ اور ٹی وی کے اثرات فیصلہ کن بھی ہیں اور فیصلہ ساز بھی اور ان دونوں میڈیا کا رخ کدھر کو ہے؟
گلوبل ویلج میں اقدار اور اخلاقیات اور زندگی کی معصوم مسّرتوں سمیت کسی بھی ایسی اچھی بری شے کا وجود نہیں رہے گا جس کاتعلق ماضی سے ہے۔ یہ گلوبل ویلج بالکل نئی زندگی اور بالکل نیا معاشرہ لے کر آ رہا ہے جس میں رہنے کو (ایک وقت ایسا آئیگا ) یہ بھی پتہ نہیں چلے گا کہ وہ جس شخص سے بات کررہا ہے وہ اسی جیسا آدمی ہے یا میٹرکس ، کوئی جینوم، کسی بائیو ٹیک کھیت یا جنیٹک لیبارٹری میں اگا ہوا آدمی!کیا پتہ اس آدمی کے کاسۂ سر میں دماغ ہے یا کوئی سم اورکوئی چپ لگی ہے۔
بہرحال، غنیمت ہے کہ پرانی شکل بحال کرنے کا خیال تو آیا، اگرچہ محال ہے۔
source
دیدہ زیب تانگے چلانے سے لاہور کا پرانا کلچر کیسے بحال ہو گا۔ یہ دیدہ زیب تانگے اشرافیہ کی ذہنی عیاشی کا سامان تو ہو سکتے ہیں، کلچر کا ان سے کوئی تعلق نہیں ہو سکتا کہ کلچر والے روایتی تانگے ان معنوں میں دیدہ زیب نہیں تھے جن معنوں میں اجلاس والوں نے لئے ہیں۔یہ دیدہ زیب تانگے ان چنگیروں ، موڑھوں اور پیڑھیوں کی طرح ہوں گے جو رؤسا کے ڈرائنگ روموں میں سجائے جاتے ہیں اور یوں دکھایا جاتا ہے کہ رئیس صاحب کتنے عظیم ہیں، اتنے ترقی یافتہ ہو کر بھی اپنے لوک ورثے کو نہیں بھولے۔ اور وہ روایتی تانگے بحال اس لئے نہیں ہو سکتے کہ زمانہ بہت آگے بڑھ گیا ہے، لاہور کی سڑکوں پر تیز رفتار ٹریفک کے لئے جگہ نہیں، تانگوں کی گنجائش کہاں سے نکل سکتی ہے۔ ڈیڑھ دو عشرے پہلے تک سارے سرکلر روڈ پر تانگوں کے کارواں چلتے تھے اور تانگوں کے اڈوں کی رونق بجائے خود ایک چھوٹی سی چوپال کی متبادل ہوا کرتی تھی لیکن یہ گزری بہار کا دمِ آخر تھا۔ اب سرکلر روڈ اور مال روڈ میں کوئی فرق نہیں رہا۔ پرانے لاہور کی ایک شناخت سرکلر باغ تھا جو پورے سرکلر روڈ کے ساتھ ساتھ لہراتا اور سرسراتا تھا ۔ اب یہ کہاں ہے۔ موچی دروازہ کے باغ جیسی تاریخی شہرت کسی اور باغ کو نہیں ملی ہو گی۔ یہ باغ جلسہ گاہ تھا، اب پارکنگ لاٹ بنا دیا گیا ہے۔ کیا کوئی اجلاس موچی دروازے کے باغ کی جلسہ گاہ کو پھر سے بحال کر سکتا ہے۔ اور کر بھی دے تو بھی کوئی زیادہ فرق نہیں پڑے گا۔ اہل نظر سیاستدانوں نے نئی بستیاں، یعنی نئی جلسہ گاہیں بنا لی ہیں۔ موچی دروازے کی جلسہ گاہ میں 20ہزار سے زیادہ آدمی آہی نہیں سکتے۔ اور آج سیاستدانوں کو ایسی جلسہ گاہیں چاہئیں جس میں لاکھوں افراد آ سکیں۔ اب مینار پاکستان سے کم پر نظر ٹھہرتی ہی نہیں، موچی دروازے کی جلسہ گاہ بحال ہو جائے تب بھی اس کا رخ کون کرے گا۔ ہاں، اتنا ضرور ہو گا کہ ایک تاریخی جلسہ گاہ محفوظ ہو جائے گی۔ اس جلسہ گاہ کے ساتھ کوئی پتھر کی تختی لگائی جا سکتی ہے کہ یہاں کس کس لیڈر اور کس کس جماعت کے تاریخی جلسے ہوئے۔
وقت ایسی آندھی ہے جو پرانی چیزیں اڑالے جاتی ہے اور نئی چیزیں لا پھینکتی ہے۔ مذکورہ اجلاس میں اس بات کو نا پسند کیا گیا کہ فٹ پاتھ پر کتابیں بیچی جاتی ہیں۔ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ قدیم لاہور کی ایک اور نشانی جانے کو ہے۔ یعنی فٹ پاتھ پر سجی بلکہ پھیلی کتابوں کی بے الماری دکانیں اٹھا دی جائیں گی۔ اجلاس سے یہ عرض کرنا ہے کہ کچھ ٹھہر جائیں۔ حکومت جس تیزی سے مہنگائی بڑھا رہی ہے، اس کی وجہ سے یہ فٹ پاتھ خود ہی اجڑ جائیں گے۔ دس روپے کی روٹی اور بارہ روپے کا نان ملے گا تو پرانی کتابوں کے گاہک کہاں رہ جائیں گے۔ اوپر سے نئی ٹیکنالوجی نے لگتا ہے کہ کتاب کی شکل ہی گم کردی ہے ۔ ای ریڈنگ کے دور کی ابھی تو ٹھیک سے شروعات بھی نہیں ہوئی کہ کتاب غائب ہونے لگی ہے، بات آگے بڑھے گی تو نہ جانے کہاں تک پہنچے گی۔ آج سے پچاس سال پہلے کسی نے خواب میں بھی نہیں سوچا ہو گا کہ انٹرنیٹ نام کی کوئی شے ایجاد ہو گی۔ جس کے بعد آنکھوں کے سامنے کتاب نہیں، کمپیوٹر ہو گا، اور اب تو ای ریڈنگ کے لئے کمپیوٹر کے سامنے بیٹھنا بھی کہاں ضروری رہا۔ ٹیبلٹ کمپیوٹر اور آئی پیڈ کی ا یسی نعمت ملی ہے کہ گھر ہو یا سفر کتاب کی ضرورت ہی نہیں رہی۔ورچوئل ریالٹی والی کتاب کے صفحات انگلی کے اشارے سے پلٹے جاتے ہیں۔ریالٹی کی کتاب اس ورچوئل ریالٹی میں سما گئی ہے۔ایک آئی پیڈ کے اندر سینکڑوں کتابوں کی الماری ساتھ لئے پھرو۔ خدا جانے کون کون سی ریالٹی ورچوئل ریالٹی کی اس دنیا میں گم ہونے والی ہے۔ایسے میں پرانے کلچر کی بحالی کی اصطلاح ہی بے معنی ہے۔ پرانے کلچر میں تو ٹی وی تک نہیں تھا۔ ایک سماجی یونٹ گھر تھا تو دوسرا محلّہ۔جس کی ساری رونق کا محور لوگ خود تھے یا میز پرجما ہوا ریڈیو۔ اب نہ جانے کتنی ہی مواصلاتی چیزوں نے گھر بھر دیا ہے۔ اور یہی چیزیں مل کر سماجی یونٹ بن گئی ہیں اور سماجی رابطے کی جگہ بھی۔ ایک ہی گھر کے لوگ گھر کے ایک کمرے میں نہیں بیٹھتے ، اپنے اپنے کمروں میں الگ الگ ٹی وی دیکھتے ہیں، تنہا بیٹھ کر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر سماجی رابطے کرتے ہیں، موبائل فون پر پیغامات بھیج کر ان رابطوں کو زندہ رکھتے ہیں۔ سامنے کون رہتا ہے، سامنے سے کون آ رہا ہے، ان تنہا لوگوں کو اس کا علم ہے نہ جاننے کی ضرورت۔ سماجی رابطے کے معنی لغت میں جو بھی ہوں، نئی ڈکشنری میں سماجی رابطہ سماج سے کٹ جانے کا نام ہے۔سماجی رابطوں کی دنیا میں سماج لاپتہ ہوتا جا رہا ہے۔ وقت کی تیز آندھی اتنی زور آور ہو جائے گی کہ سماج کو بھی اڑا لے جائے گی،کسی نے کب ایسا سوچا تھا۔بھری بزم میں تنہائی کا شاعرانہ تصّور سائنس نے ریالٹی میں بدل دیا ہے۔
اور یہ محض وقت کی آندھی نہیں ہے، یہ دنیا پر بالا دست قوتوں کی زور آوری بھی ہے جو زندگی کا نقشہ بدل رہی ہے۔ گلوبلائزیشن کا مقصد پوری دنیا کو ایک گاؤں بنا دینا ہے۔ ایسا عالمگیر گاؤں جس کے کسی گھر کی دیوار سے کسی گھر کی دیوار نہیں ملتی ہو گی اور جس کو چلانے والی ایک ہی حکومت ہو گی۔ اس گاؤں کے دیہاتیوں نے کیا دیکھنا ہے ، کیا پڑھنا ہے، کیا کھانا ہے، کیا پہننا ہے،کیا سوچنا ہے، یہ سب یہی واحد حکومت طے کررہی ہے ۔ آج کسی ملک کا الیکٹرانک میڈیا سچے معنوں میں اس ملک کا کم، عالمی گاؤں کا میڈیا زیادہ ہے۔ جس کی پروگرامنگ اسی عالمی حکومت نے کی ہے۔عالمگیر گاؤں کے دیہاتیوں کے خیال میں جس شے کی انہیں بالکل ضرورت نہیں، یہ الیکٹرانک میڈیا اُسی شے کو زندگی کیلئے لازمی قرار دیتا ہے اوراس طرح کہ دیہاتی اسے خریدنے پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ انٹرنیٹ اور ٹی وی کے اثرات فیصلہ کن بھی ہیں اور فیصلہ ساز بھی اور ان دونوں میڈیا کا رخ کدھر کو ہے؟
گلوبل ویلج میں اقدار اور اخلاقیات اور زندگی کی معصوم مسّرتوں سمیت کسی بھی ایسی اچھی بری شے کا وجود نہیں رہے گا جس کاتعلق ماضی سے ہے۔ یہ گلوبل ویلج بالکل نئی زندگی اور بالکل نیا معاشرہ لے کر آ رہا ہے جس میں رہنے کو (ایک وقت ایسا آئیگا ) یہ بھی پتہ نہیں چلے گا کہ وہ جس شخص سے بات کررہا ہے وہ اسی جیسا آدمی ہے یا میٹرکس ، کوئی جینوم، کسی بائیو ٹیک کھیت یا جنیٹک لیبارٹری میں اگا ہوا آدمی!کیا پتہ اس آدمی کے کاسۂ سر میں دماغ ہے یا کوئی سم اورکوئی چپ لگی ہے۔
بہرحال، غنیمت ہے کہ پرانی شکل بحال کرنے کا خیال تو آیا، اگرچہ محال ہے۔
source