Muqadas
Chief Minister (5k+ posts)
اسلام آباد : اٹک سے تعلق رکھنے والا اٹھائیس سالہ دیہاڑی پر کام کرنے والا مزدور غلام رسول آج کل منفرد ادائیگی کے ساتھ چھٹیوں کے مزے لوٹ رہا ہے اور اس کے لیے وہ اسلام آباد میں جاری دو دھرنوں کا شکر گزار ہے۔
غلام رسول گزشتہ تین سال سے اپنے خاندان کا پیٹ بھرنے کے لیے علی الصبح اٹھ کر کام کی تلاش کے لیے نکل جاتا تھا" میں اس وقت سیکٹر آئی ٹین کے آئی جے پرنسپل روڈ کے بس اسٹاپ کے قریب کھڑا تھا، مگر بارش کی وجہ سے مجھے اس روز کام کی تلاش میں مشکل پیش آرہی تھی"۔
یہ تین ہفتے پہلے کی بات ہے، غلام رسول نے بتایا کہ اس کے ایک دوست نے مشورہ دیا کہ میں ڈی چوک میں پاکستان عوامی تحریک(پی اے ٹی) کے دھرنے کا حصہ بن جاﺅں کیونکہ پی اے ٹی نہ صرف شرکاءکو مفت کھانا فراہم کررہی ہے بلکہ وہ مزدوروں کو معاوضہ بھی ادا کررہی ہے۔
اس نے بتایا"اگرچہ خوراک کے حصول کے لیے قطار میں کھڑا ہونا مشکل ہے مگر یہ مجھ جیسے افراد کے لیے اپنے خاندانوں کے ماہانہ اخراجات پورے کرنے کا واھد آپشن ہے"۔
اس نے مزید بتایا کہ وہ اپنے کام سے روزانہ چھ سو روپے کمالیتا ہے مگر یہاں اسے کچھ کیے بغیر ہی چار سے پانچ سو روپے مل رہے ہیں"مجھے توقع ہے کہ پی اے ٹی اور پی ٹی آئی کے دھرنے جاری رہیں گے کیونکہ میں یہاں رہ کر مزے کررہا ہوں"۔
غلام رسول کی طرح ضلع صوابی کے 44 سالہ رفیق خان بھی اسلام آباد میں مزدوری کا کام کرتا ہے، اس کا کہنا ہے کہ سیکٹرجی نائن میں پشاور موڑ کے قریب مزدور کے طور پر کام کی تلاش کرتا ہے۔
اس نے مزید بتایا"ایک دن صبح کے دس بجے تک کسی نے بھی مجھ سے مزدوری کے لیے رابطہ نہیں کیا، آدھے گھنٹے بعد ایک ایک شخص ایک وین میں آیا اور مجھ سمیت دیگر مزدوروں کو پی اے ٹی کے دھرنے کا حصہ بننے کی پیشکش کی"۔
رفیق خان کا کہنا تھا" اس شخص نے ہمیں یقین دہانی کرائی کہ ہمیں ڈاکٹر طاہر القادری کے خطاب تک رکنے پر روزانہ چار سے پانچ سو روپے ادا کیے جائیں گے"۔
اگرچہ یہ بطور مزدور اس کی آمدنی سے سو روپے تھے مگر رفیق نے اسے قبول کرلیا کیونکہ اسے کوئی مشقت کا کام نہیں کرنا تھا۔
اس کا کہان ہے کہ وہ شارع دستور میں رات کے وقت سونے کو ترجیح دیتا تھا اور یہ پشاور موڑ پر کھڑے ہوےن سے زیادہ بہتر تھا جہاں عام طور پر اسے سڑک کے کنارے سونا پڑتا تھا" ہم روزانہ اپنے شناختی پی اے ٹی کے متعلقہ عہدیداران کے پاس جمع کراتے ہیں اور طاہر القادری کے خطاب کے بعد وہ ہمٰں رقم اور شناختی کارڈز دے دیتے ہیں"۔
اسی طرح راولپنڈی کا چوبیس سالہ سرور عباسی پی ٹی آئی کا حامی ہے، اس کا کہنا ہے کہ معاشیات میں ماسٹرز کرنے کے باوجود وہ بے روزگار ہے" میرے دوستوں نے مجھے اپنے ساتھ پی ٹی آئی کے دھرنے میں روزانہ چار سے پانچ گھنٹے آنے کے لیے کہا،جس کے عوض پی ٹی آئی کے مقامی رہنماءہمیں پانچ سو روپے دیتے ہیں تاکہ ہم ایندھن اور دیگر اخراجات پورے کرسکیں"۔
سرور عباسی نے بتایا کہ یہ اس کے لیے اچھا کہ وہ اپنا کچھ وقت اس ہجوم میں گزارتا ہے جہاں اسے موسیقی اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی تقریروں سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملتا ہے۔
اس کا کہنا تھا کہ اس سے اسے بیروزگاری کے تناﺅ سے نجات میں مدد ملتی ہے۔
دھرنے کے شرکاءکے مطابق یہ مزدوروں، ٹیکسی ڈرائیوروں، مساجرز اور بیروزگار نوجوانوں کے لیے اچھا موقع ہے کہ وہاں دھرنے میں شریک ہوکر کچھ آسان رقم کمائیں اور اپنے ماہانہ اخراجات پورے کرلیں۔
ڈان کی کوششوں کے باوجود پی اے ٹی اور پی ٹی آئی کے ترجمان اس حوالے سے بات کرنے کے لیے دستیاب نہیں ہوسکے۔
غلام رسول گزشتہ تین سال سے اپنے خاندان کا پیٹ بھرنے کے لیے علی الصبح اٹھ کر کام کی تلاش کے لیے نکل جاتا تھا" میں اس وقت سیکٹر آئی ٹین کے آئی جے پرنسپل روڈ کے بس اسٹاپ کے قریب کھڑا تھا، مگر بارش کی وجہ سے مجھے اس روز کام کی تلاش میں مشکل پیش آرہی تھی"۔
یہ تین ہفتے پہلے کی بات ہے، غلام رسول نے بتایا کہ اس کے ایک دوست نے مشورہ دیا کہ میں ڈی چوک میں پاکستان عوامی تحریک(پی اے ٹی) کے دھرنے کا حصہ بن جاﺅں کیونکہ پی اے ٹی نہ صرف شرکاءکو مفت کھانا فراہم کررہی ہے بلکہ وہ مزدوروں کو معاوضہ بھی ادا کررہی ہے۔
اس نے بتایا"اگرچہ خوراک کے حصول کے لیے قطار میں کھڑا ہونا مشکل ہے مگر یہ مجھ جیسے افراد کے لیے اپنے خاندانوں کے ماہانہ اخراجات پورے کرنے کا واھد آپشن ہے"۔
اس نے مزید بتایا کہ وہ اپنے کام سے روزانہ چھ سو روپے کمالیتا ہے مگر یہاں اسے کچھ کیے بغیر ہی چار سے پانچ سو روپے مل رہے ہیں"مجھے توقع ہے کہ پی اے ٹی اور پی ٹی آئی کے دھرنے جاری رہیں گے کیونکہ میں یہاں رہ کر مزے کررہا ہوں"۔
غلام رسول کی طرح ضلع صوابی کے 44 سالہ رفیق خان بھی اسلام آباد میں مزدوری کا کام کرتا ہے، اس کا کہنا ہے کہ سیکٹرجی نائن میں پشاور موڑ کے قریب مزدور کے طور پر کام کی تلاش کرتا ہے۔
اس نے مزید بتایا"ایک دن صبح کے دس بجے تک کسی نے بھی مجھ سے مزدوری کے لیے رابطہ نہیں کیا، آدھے گھنٹے بعد ایک ایک شخص ایک وین میں آیا اور مجھ سمیت دیگر مزدوروں کو پی اے ٹی کے دھرنے کا حصہ بننے کی پیشکش کی"۔
رفیق خان کا کہنا تھا" اس شخص نے ہمیں یقین دہانی کرائی کہ ہمیں ڈاکٹر طاہر القادری کے خطاب تک رکنے پر روزانہ چار سے پانچ سو روپے ادا کیے جائیں گے"۔
اگرچہ یہ بطور مزدور اس کی آمدنی سے سو روپے تھے مگر رفیق نے اسے قبول کرلیا کیونکہ اسے کوئی مشقت کا کام نہیں کرنا تھا۔
اس کا کہان ہے کہ وہ شارع دستور میں رات کے وقت سونے کو ترجیح دیتا تھا اور یہ پشاور موڑ پر کھڑے ہوےن سے زیادہ بہتر تھا جہاں عام طور پر اسے سڑک کے کنارے سونا پڑتا تھا" ہم روزانہ اپنے شناختی پی اے ٹی کے متعلقہ عہدیداران کے پاس جمع کراتے ہیں اور طاہر القادری کے خطاب کے بعد وہ ہمٰں رقم اور شناختی کارڈز دے دیتے ہیں"۔
اسی طرح راولپنڈی کا چوبیس سالہ سرور عباسی پی ٹی آئی کا حامی ہے، اس کا کہنا ہے کہ معاشیات میں ماسٹرز کرنے کے باوجود وہ بے روزگار ہے" میرے دوستوں نے مجھے اپنے ساتھ پی ٹی آئی کے دھرنے میں روزانہ چار سے پانچ گھنٹے آنے کے لیے کہا،جس کے عوض پی ٹی آئی کے مقامی رہنماءہمیں پانچ سو روپے دیتے ہیں تاکہ ہم ایندھن اور دیگر اخراجات پورے کرسکیں"۔
سرور عباسی نے بتایا کہ یہ اس کے لیے اچھا کہ وہ اپنا کچھ وقت اس ہجوم میں گزارتا ہے جہاں اسے موسیقی اور پی ٹی آئی چیئرمین عمران خان کی تقریروں سے لطف اندوز ہونے کا موقع ملتا ہے۔
اس کا کہنا تھا کہ اس سے اسے بیروزگاری کے تناﺅ سے نجات میں مدد ملتی ہے۔
دھرنے کے شرکاءکے مطابق یہ مزدوروں، ٹیکسی ڈرائیوروں، مساجرز اور بیروزگار نوجوانوں کے لیے اچھا موقع ہے کہ وہاں دھرنے میں شریک ہوکر کچھ آسان رقم کمائیں اور اپنے ماہانہ اخراجات پورے کرلیں۔
ڈان کی کوششوں کے باوجود پی اے ٹی اور پی ٹی آئی کے ترجمان اس حوالے سے بات کرنے کے لیے دستیاب نہیں ہوسکے۔
http://urdu.dawn.com/news/1009438/
Admins, kindly merge this article with any unrelated 2-3 years old Thread as soon as possible.
Thanks
Admins, kindly merge this article with any unrelated 2-3 years old Thread as soon as possible.
Thanks
- Featured Thumbs
- http://i.dawn.com/primary/2014/09/5410cc5139a1d.jpg
Last edited: