Zafar Bukhari
Politcal Worker (100+ posts)
اور یوں ایک بوڑھے پٹھان میوہ فروش کو پنجاب پولیس نے ناکے پہ روک کر بڑی کامیابی سے تھانے منتقل کر دیا جہاں اس ’مجرم‘ نے ۲۰۰۵ سے لے کر اب تک پنجاب کے بڑے شہروں میں ہونے والی ہر بڑی واردات میں ملوث ہونے کا اعتراف کرلیا۔
موجودہ ملکی حالات اور بالخصوص پنجاب کے شہری مراکز میں جنم لینے والی دہشت گردی کی لہر نے جہاں حقیقی دہشت گردوں کو کھل کھیلنے کا موقع فرہم کرنا شروع کردیا ہے وہیں اس ملک کے غریب اور دہاڑی دار لوگوں کو جو پہلے ہی لاوارث تھے،مزید خستہ حال بنادیا ہے۔
ناکہ لگادو لوگوں سے پیسے بٹورو اور جب تک وی آئی پی ڈیوٹی نہ لگے یا کوئی اور دہشت گردی کا واقعہ رونما نہ ہو،ناکے لگاتے رہو اور لوگوں سے بھتہ وصول کرتے رہو۔ہے نا مزے کی ڈیوٹی؟ہماری پنجاب پولیس تو کم از کم یہی کچھ کرتی نظر آرہی ہے۔ناکوں پہ لوٹ مار ہوتی ہے اور اسی بد ترین پولیس گردی میں نہ صرف غرباء کی جیبیں کٹتی ہیں بلکہ انہیں ناکردہ گناہوں میں اندر بھی کردیا جاتا ہے۔اور جب تک کسی انصاف کے دیوتا کو گہری نیند سے جاگنے کا خیال آتا ہے،وہ غریب مزدور داعیِ اجل کو لبیک کہہ چکا ہوتا ہے۔
پنجاب پولیس کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔آپ بھتہ نہیں دینا چاہتے،ایمانداری کا بہت تیز بخار چڑھا ہوا ہے اور پنجاب پولیس سے بحث کے موڈ میں ہیں تو یقین جانئیے کہ آپ بہت بڑی افتاد میں پڑچکے ہیں۔آپ کو’انتہائی مطلوب دہشت گرد‘،’منشیات فروش‘ یا کم از کم ’سہولت کار‘ قرار دیا جاسکتا ہے اور آپ کے پاس لاکھ دلائل اور ثبوت موجود ہوں پھر بھی آپ اس ’لاڈلی‘ پولیس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔پچھلے چند دنوں میں بہت سے دوستوں نے لاہور اور پنجاب کے کئی دیگر بڑے شہروں میں بہت سے سفید ریش پٹھانوں کو محض اس وجہ سے پولیس کو رشوت دیتے دیکھا ہے کہ کہیں پولیس برسرِعام مرغا نہ بنادے۔
یہ حالات ایک ایسی خطرناک فضا پیدا کررہے ہیں جو حقیقی دہشت گردوں کے لئے ایک سازگار صورتحال پیدا کررہی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ پنجاب کی حکومت دہشت گردی سے نمٹنے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتی۔آپ خود ہی سوچیئے جس صوبے کا وزیرِقانون خود ایک عادی مجرم اور قاتل ہو وہاں تو دہشت گردوں کی زندگیاں آسان اور عام انسانوں کی زندگیاں جہنم بننی چاہیئں(یہی کچھ ہوتا نظر آرہا ہے)۔جس صوبے کے اندر دن کے اجالے میں خواتین کوبرسرِعام ماڈل ٹاؤن میں گولیاں ماردی جائیں،ان کے ماتم کناں ورثاء کو عقوبت خانوں کے اندر تشدد کا نشانہ بنایا جائے،حکومت کو قاتل قرار دینے والے جج کو قاتل وزراء کی طرف سے سرِعام دھمکیاں دی جائیں اور اسی جج کی رپورٹ کو جعل سازی پہ مبنی ایک اور فرمائشی فیصلے کی نذر کر دیا جائے،وہاں یہ کچھ ہونا ہی چاہیے۔
ویسے تو پنجاب حکومت گڈ گورننس کا دعویٴ کرتے نہیں تھکتی مگر کیا اس سوال کا کسی کے پاس کوئی جواب ہے کہ دھماکہ تو لاہور میں ہوتا ہے،دھماکے کے سہولت کار بھی لاہور سے گرفتار ہوتے ہیں،خود کش جیکٹ بھی پولیس کے کسی ناکے پہ پیسے دے کر شہر میں لائی گئی ہوگی مگر ’گرینڈ آپریشن‘ جنوبی پنجاب میں ہونا شروع ہوجاتا ہے؟کیا ہم سب یہ نہیں جانتے کہ پنجاب کے آدھے سے زیادہ وزراء قاتل غنڈے اور بد معاش ہیں؟کیا وزیرِقانون کی نگرانی میں ماڈل ٹاؤن اور فیصل آباد میں معصوم لوگوں کو شہید نہیں کیا گیا؟پھر دہشت گردی کا حقیقی سہولت کار کون ہوا؟کیا آج تک ہر مجرم وزیر کے جرئم پہ باز پرس کے بجائے پردہ نہیں ڈالا گیا؟کیا پنجاب پولیس کی حیثیت حکومت اور حکومتی اراکین کی فرمائشوں پہ دم ہلانے والے کتے جیسی نہیں؟
آپریشن جنوبی پنجاب میں ہو یا وزیرستان میں حقیقی دہشت گردی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ طاقتور سرپرستوں کا سر نہیں کچلا جاتا اور پولیس کو سیاسی غنڈوں کے چنگل سے آزاد نہیں کرالیا جاتا۔
ایک دوست کی زبانی معلوم ہوا کہ گزشتہ دنوں کسی ناکے پہ ایک نوجوان پولیس والے نے کسی غریب پٹھان بھائی کو روکا،دستاویزات کی تفصیلی جانچ کی اور ہر ظرح کی تسلی کے بعد اسے جانے کی اجازت دینے لگا تو پٹھان بھائی نے اس پولیس والے کا شکریہ ادا کیا اور ایک درخواست کی کہ ’جس عمدگی کے ساتھ آپ نے میری جانچ پڑتال کی ہے،وزراء اور اراکینِ اسمبلی کی بھی ایسے ہی جانچ پڑتال کرلیں تو میں ضمانت دیتا ہوں کہ نہ آپ کے بچے یتیم ہوں گے اور نہ ہی کسی اور پاکستانی کو ناگہانی اور درد ناک موت سے دوچار ہونا پڑے گا‘۔
مگر پنجاب میں ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا کیونکہ اربابِ اختیار کا مفاد اسی میں ہے کہ پولیس رشوت خور اور بدعنوان ہی رہے تاکہ اْسے اپنے مفادات کے لئے برتا جاسکے۔رہ گئی عوام تو ان کی دلچسپی کے لیئے روز نت نئی کہانیاں اخبارات میں چھپوادی جائیں گی جن کا لبِ لباب یہی ہوگا کہ
’اور یوں ایک بوڑھے پٹھان میوہ فروش کو پنجاب پولیس نے ناکے پہ روک کر بڑی کامیابی سے تھانے منتقل کر د یا جہاں اس ’مجرم‘ نے ۲۰۰۵ سے لے کر اب تک پنجاب کے بڑے شہروں میں ہونے والی ہر بڑی واردات میں ملوث ہونے کا اعتراف کرلیا۔‘
موجودہ ملکی حالات اور بالخصوص پنجاب کے شہری مراکز میں جنم لینے والی دہشت گردی کی لہر نے جہاں حقیقی دہشت گردوں کو کھل کھیلنے کا موقع فرہم کرنا شروع کردیا ہے وہیں اس ملک کے غریب اور دہاڑی دار لوگوں کو جو پہلے ہی لاوارث تھے،مزید خستہ حال بنادیا ہے۔
ناکہ لگادو لوگوں سے پیسے بٹورو اور جب تک وی آئی پی ڈیوٹی نہ لگے یا کوئی اور دہشت گردی کا واقعہ رونما نہ ہو،ناکے لگاتے رہو اور لوگوں سے بھتہ وصول کرتے رہو۔ہے نا مزے کی ڈیوٹی؟ہماری پنجاب پولیس تو کم از کم یہی کچھ کرتی نظر آرہی ہے۔ناکوں پہ لوٹ مار ہوتی ہے اور اسی بد ترین پولیس گردی میں نہ صرف غرباء کی جیبیں کٹتی ہیں بلکہ انہیں ناکردہ گناہوں میں اندر بھی کردیا جاتا ہے۔اور جب تک کسی انصاف کے دیوتا کو گہری نیند سے جاگنے کا خیال آتا ہے،وہ غریب مزدور داعیِ اجل کو لبیک کہہ چکا ہوتا ہے۔
پنجاب پولیس کے لئے کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔آپ بھتہ نہیں دینا چاہتے،ایمانداری کا بہت تیز بخار چڑھا ہوا ہے اور پنجاب پولیس سے بحث کے موڈ میں ہیں تو یقین جانئیے کہ آپ بہت بڑی افتاد میں پڑچکے ہیں۔آپ کو’انتہائی مطلوب دہشت گرد‘،’منشیات فروش‘ یا کم از کم ’سہولت کار‘ قرار دیا جاسکتا ہے اور آپ کے پاس لاکھ دلائل اور ثبوت موجود ہوں پھر بھی آپ اس ’لاڈلی‘ پولیس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔پچھلے چند دنوں میں بہت سے دوستوں نے لاہور اور پنجاب کے کئی دیگر بڑے شہروں میں بہت سے سفید ریش پٹھانوں کو محض اس وجہ سے پولیس کو رشوت دیتے دیکھا ہے کہ کہیں پولیس برسرِعام مرغا نہ بنادے۔
یہ حالات ایک ایسی خطرناک فضا پیدا کررہے ہیں جو حقیقی دہشت گردوں کے لئے ایک سازگار صورتحال پیدا کررہی ہے۔حقیقت یہ ہے کہ پنجاب کی حکومت دہشت گردی سے نمٹنے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتی۔آپ خود ہی سوچیئے جس صوبے کا وزیرِقانون خود ایک عادی مجرم اور قاتل ہو وہاں تو دہشت گردوں کی زندگیاں آسان اور عام انسانوں کی زندگیاں جہنم بننی چاہیئں(یہی کچھ ہوتا نظر آرہا ہے)۔جس صوبے کے اندر دن کے اجالے میں خواتین کوبرسرِعام ماڈل ٹاؤن میں گولیاں ماردی جائیں،ان کے ماتم کناں ورثاء کو عقوبت خانوں کے اندر تشدد کا نشانہ بنایا جائے،حکومت کو قاتل قرار دینے والے جج کو قاتل وزراء کی طرف سے سرِعام دھمکیاں دی جائیں اور اسی جج کی رپورٹ کو جعل سازی پہ مبنی ایک اور فرمائشی فیصلے کی نذر کر دیا جائے،وہاں یہ کچھ ہونا ہی چاہیے۔
ویسے تو پنجاب حکومت گڈ گورننس کا دعویٴ کرتے نہیں تھکتی مگر کیا اس سوال کا کسی کے پاس کوئی جواب ہے کہ دھماکہ تو لاہور میں ہوتا ہے،دھماکے کے سہولت کار بھی لاہور سے گرفتار ہوتے ہیں،خود کش جیکٹ بھی پولیس کے کسی ناکے پہ پیسے دے کر شہر میں لائی گئی ہوگی مگر ’گرینڈ آپریشن‘ جنوبی پنجاب میں ہونا شروع ہوجاتا ہے؟کیا ہم سب یہ نہیں جانتے کہ پنجاب کے آدھے سے زیادہ وزراء قاتل غنڈے اور بد معاش ہیں؟کیا وزیرِقانون کی نگرانی میں ماڈل ٹاؤن اور فیصل آباد میں معصوم لوگوں کو شہید نہیں کیا گیا؟پھر دہشت گردی کا حقیقی سہولت کار کون ہوا؟کیا آج تک ہر مجرم وزیر کے جرئم پہ باز پرس کے بجائے پردہ نہیں ڈالا گیا؟کیا پنجاب پولیس کی حیثیت حکومت اور حکومتی اراکین کی فرمائشوں پہ دم ہلانے والے کتے جیسی نہیں؟
آپریشن جنوبی پنجاب میں ہو یا وزیرستان میں حقیقی دہشت گردی اس وقت تک جاری رہے گی جب تک کہ طاقتور سرپرستوں کا سر نہیں کچلا جاتا اور پولیس کو سیاسی غنڈوں کے چنگل سے آزاد نہیں کرالیا جاتا۔
ایک دوست کی زبانی معلوم ہوا کہ گزشتہ دنوں کسی ناکے پہ ایک نوجوان پولیس والے نے کسی غریب پٹھان بھائی کو روکا،دستاویزات کی تفصیلی جانچ کی اور ہر ظرح کی تسلی کے بعد اسے جانے کی اجازت دینے لگا تو پٹھان بھائی نے اس پولیس والے کا شکریہ ادا کیا اور ایک درخواست کی کہ ’جس عمدگی کے ساتھ آپ نے میری جانچ پڑتال کی ہے،وزراء اور اراکینِ اسمبلی کی بھی ایسے ہی جانچ پڑتال کرلیں تو میں ضمانت دیتا ہوں کہ نہ آپ کے بچے یتیم ہوں گے اور نہ ہی کسی اور پاکستانی کو ناگہانی اور درد ناک موت سے دوچار ہونا پڑے گا‘۔
مگر پنجاب میں ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا کیونکہ اربابِ اختیار کا مفاد اسی میں ہے کہ پولیس رشوت خور اور بدعنوان ہی رہے تاکہ اْسے اپنے مفادات کے لئے برتا جاسکے۔رہ گئی عوام تو ان کی دلچسپی کے لیئے روز نت نئی کہانیاں اخبارات میں چھپوادی جائیں گی جن کا لبِ لباب یہی ہوگا کہ
’اور یوں ایک بوڑھے پٹھان میوہ فروش کو پنجاب پولیس نے ناکے پہ روک کر بڑی کامیابی سے تھانے منتقل کر د یا جہاں اس ’مجرم‘ نے ۲۰۰۵ سے لے کر اب تک پنجاب کے بڑے شہروں میں ہونے والی ہر بڑی واردات میں ملوث ہونے کا اعتراف کرلیا۔‘
Last edited by a moderator: