تبدیلی ٹرسٹ کی رقم کسی نے چرائی؟
ایک دلچسپ کہانی
آج سیاست موضوع نہیں۔آج کچھ الگ کرنے کو دل چاہ رہا ہے۔ ایک کہانی سنانے کو دل کررہا ہے۔ہوسکتا ہے کہانی آپ کو جانی پہچانی سی لگے لیکن گبھرائیے گا نہیں۔ اس کا کسی موجودہ یا سابق زمانے سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بس ایک کہانی ہے
اور کہانی ہے پاک پورشہر کی۔اس شہر میں عمران اور شکیل نامی دو دوست رہتے تھے۔عمران اور شکیل یونیورسٹی میں ساتھ پڑھتے تھے۔عمران ایک انتہائی درد دل رکھنے والا انسان تھا جبکہ شکیل کو اللہ نے بے پناہ ذہانت دی تھی۔عمران ہر وقت لوگوں کی مدد کےلئے تیار رہتا تھا۔بلکہ ان کی مدد کے طریقے سوچا کرتا تھا۔ کسی کو فیس کا مسئلہ ہے تو عمران، کوئی بیمار ہے تو عمران، کسی کو کوئی اسائنمنٹ سمجھنے میں پرابلم ہے تو عمران۔یونیورسٹی کے تمام سٹوڈنٹس عمران سے پیار کرتے تھے اور اس کی انسان دوستی کی قدر کرتے تھے۔کبھی کبھی اس کے ان کاموں میں شکیل بھی اس کا ساتھ دیتا تھا اور ایسے ہر موقع پر عمران اس کی حوصلہ افزائی کیلئے سب دوستوں کے سامنے اس کے کام کی تعریف کرتا تھا۔اور ایسے ہر موقع پر شکیل ہنستے ہوئے اسے کہتا تھا کہ بھائی زبان سے نہ کہو، یہی بات کاغذ پر لکھ کر دے دو۔اور عمران واقعی اسے لکھ کر بھی دیتا تھا۔
ایک دفعہ دونوں شکیل کی گاڑی میں یونیورسٹی سے گھرجارہے تھے۔ شدید گرمی کا موسم تھا۔ راستے میں انہوں نے دیکھا کہ سڑک پر کوئی بے ہوش پڑا ہے۔ عمران نے شکیل سے گاڑی روکنے کو کہا اور نیچے اتر کردیکھا تو پتہ چلاکوئی بوڑھی خاتون ہے ۔عمران نے شکیل سے کہا کہ چلو اسے ہسپتال لے کر چلتے ہیں۔ شکیل نے اس کی بات مان لی اور دونوں نے مل کر خاتون کو گاڑی میں ڈالا اور ہسپتال لے گئے۔ خاتون کو ہوش آیا تو انہیں بہت دعائیں دیں۔اگلے دن یونیورسٹی میں عمران نے سب کو بتایا کہ کیسے شکیل نے خاتون کی مدد کی اور اس کی انسان دوستی کی خوب تعریفیں کی اور دوستوں سے کہا کہ "جیو تو ایسے"۔سب نے خوب واہ واہ کی اور شکیل کو داد دی۔
دن اسی طرح گذرتے رہے۔اس دوران شکیل کچھ ایسے لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے لگا جو سٹریٹ کرائم میں ملوث تھے۔ربنواز اور شہباز نامی ان لوگوں کیساتھ مل کر شکیل نے چھوٹی موٹی چوریا ں شروع کر دیں۔عمران شکیل کے اس روپ سے بے خبر تھا چونکہ وہ خود دل کا صاف تھا اس لئے باقی سب کو بھی اپنی طرح نیک دل سمجھتا تھا۔ عمران کے کچھ دوستوں نے اشاروں کنایوں میں اسے سمجھانے کی کوشش بھی کی کہ شکیل غلط راستوں پر چل رہا ہے لیکن عمران نے ان کی نہ سنی کیونکہ بظاہر شکیل میں کوئی "تبدیلی" نہیں آئی تھی۔وہ اسی طرح خندہ پیشانی سے شکیل سے ملتا رہا ۔کبھی کبھی شکیل کسی کی مدد کرنے میں بظاہر اس کا ساتھ بھی دے دیتا تھا اور عمران حسب معمول اس کی تعریف کردیتا تھا۔
کچھ عرصہ بعدعمران نے یونیورسٹی میں "تبدیلی "کے نام سے ایک ٹرسٹ فنڈ بنانے کا تہیہ کیا۔اس ٹرسٹ کا مقصد یہ تھا کہ غریب طالبعلموں کی مددکی جائے، ان کی فیسیں ادا ہوں، بیماری کی صورت میں ان کا علاج ہو، ان کو کتا بیں دی جائیں اور کوچنگ وغیرہ بھی کروائی جائے۔عمران اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر شہر کے بڑےتاجروں اور صنعتکاروں کے پاس گیا اور ان سےڈونیشن جمع کیں۔ اس کام میں یونیورسٹی کے باقی سٹوڈنٹس نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔سترہ مہینے کی محنت کے بعد انہوں نےتقریباٌ دس لاکھ روپے جمع کرلئے۔ یہ رقم عمران کے پاس ہاسٹل کی الماری میں پڑی تھی اور اگلے دن" گیارہ مئی " کو اس نے بینک میں"تبدیلی "ٹرسٹ کے نام سے یہ رقم جمع کروانی تھی۔
لیکن کسی طرح شکیل کو اس رقم کے بارے میں پتہ چل گیااور اس کی رال ٹپک پڑی۔ اس نے چپکے سے اپنے سٹریٹ کرائم کے گروؤں رب نواز اور شاہ باز کو خبر کردی۔رب نواز نے اپنے اڈے پر کام کرنے والے ایک شاطر چور نجمی کو ٹاسک دیا کہ وہ جاکر یہ رقم چوری کرلے۔ نجمی کی شخصیت بڑی عجیب سی تھی۔ لوگوں کو کبوتر یا طوطے وغیرہ پالنے کا شوق ہوتا ہے لیکن نجمی کوچڑیاں" پالنے کا شوق تھا۔ نہ جانے کیوں۔بہرحال جب رب نواز نے نجمی کو اس چوری کیلئے کہا تو اس نے کہا "ربنواز بھائی مشکل کام ہےدن دہاڑے ہاسٹل میں گھس کر چوری کرنا"۔
ربنواز نے کہا "بھائی مشکل کیا ہے؟ ہاسٹل کا چوکیدار فخربابا چھیاسی سال کا بوڑھاآدمی ہے جسے نہ کچھ صاف سنائی دیتا ہے اورنہ ہی دکھائی دیتا ہے"۔
نجمی بولا" لیکن ربنواز بھائی اس ہاسٹل کا وارڈن افتخارشاہ کافی ایمان دار مشہور ہے۔اس کی موجودگی میں چوری کیسے کروں گا"؟ربنواز نے نجمی کو آنکھ مارتے ہوئے کہا "تم ہمیں سمجھتے کیا ہو؟افتخارشاہ بھی اپنا ہی آدمی ہے۔وارڈن کم اور ڈان زیادہ ہے۔اس کا ایمان صرف ایک آنکھ سے دیکھ سکتا ہے اور اس کی اس واحد آنکھ پر اگر پیسے کی پٹی چڑھادی جائے تو وہ کچھ نہیں دیکھے گا۔بس اس کو حصہ دینا پڑے گا"۔
یہ سن کر نجمی نے کہا "واہ استاد مان گئے۔ ایمپائر ملا کرکھیلتے ہو"۔اس پرربنواز، شہاہ باز، نجمی اور شکیل نے مل کر ایک قہقہہ لگایا۔
اگلے دن (۱۱ مئی) کو نجمی اور شکیل عمران کے ہاسٹل پہنچے۔ شکیل نے کینٹین میں چائے پینے کے بہانے سے عمران کو کمرے سے اپنے ساتھ باہر نکالا۔ کمرے سے باہر نکلتے ہی شکیل نے نجمی کو ایس ایم ایس کر دیا کہ راستہ صاف ہے۔نجمی نے افتخارشاہ سے عمران کے کمرےکی متبادل چابی لے کر کمرہ کھولا، اس کی الماری کھول کر پیسے نکالے اور رفوچکر ہوگیا۔ عمران کمرے میں واپس آیا تو الماری کھلی دیکھ کر اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے پیسوں والی دراز کھولی تو دیکھا کہ پیسے غائب ہوچکے ہیں۔اس کا ذہن فوراٌ شکیل کی طرف گیا کہ وہی اسے بہانے سے کمرے سے باہرلے کرگیا تھااور اسی دوران میں چوری ہوگئی۔اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کا قریبی دوست اس کے ساتھ ایسی حرکت کرسکتا ہے۔ اسےاپنے دوستوں کی اشاروں کنایوں میں کی گئی باتیں یاد آئیں جن میں اسے شکیل سے ہوشیار رہنے کو کہا گیا تھا۔
عمران فوراٌ اہاسٹل کے چوکیدار فخربابا کے پاس پہنچا۔ فخربابا حسب معمول اونگھ رہا تھا۔ عمران نے اسے بتایا کہ اس کے کمرے سے "تبدیلی " ٹرسٹ کے دس لاکھ روپے چوری ہوگئے ہیں۔فخربابا نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا کہ میری موجودگی میں کون چوری کرسکتا ہے بھلا۔ تم جھوٹ بول رہے ہو۔ جب عمران نے اپنی بات پرزور دیا تو فخر بولا جاؤ بابا اپنا کام کرو۔ مجھے تنخواہ چوکیداری کی ملتی ہے، چوریا ں روکنے کی نہیں۔ عمران یہ بات سن کر دنگ رہ گیا۔ اس نے کہا چوری روکنے ہی کو تو چوکیداری کہتے ہیں"۔
فخر بولا ۔" کہتے ہوں گے امریکہ برطانیہ میں ۔ اس ملک میں چوکیداری کا مطلب چوری روکنا نہیں۔ ہاں جی"۔
عمران فخربابا سے مایوس ہوکر وارڈن افتخارشاہ کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ جناب میرے کمرے سے چوری ہوگئی ہے لیکن کمرے کا تالہ سلامت ہے جس کا ایک ہی مطلب ہے کہ تالہ کسی متبادل چابی سے کھولا گیا ہے اور میرے علاوہ اس کمرے کی متبادل چابی صرف آپ ہی کے پاس تھی۔اب آپ ہی بتائیے اس شرمناک صورتحال میں کیا کیا جائے؟"۔افتخارشاہ یہ سن کر آگ بگولہ ہوگیا اورعمران سے کہا "جائیں جناب اپنا کام کریں۔ میں بہت مصروف ہوں۔میرے ہاسٹل میں بیس ہزار مچھر ہیں جن سے ڈینگی پھیلنے کا خطرہ ہے اور میں نے ہاسٹل میں مچھر مار سپرے کروانا ہے۔ میرے پاس تمہاری چھوٹی سی چوری پر توجہ دینے کا ٹائم نہیں"۔
وارڈن کے اس سلوک سے عمران کو یقین کرنا پڑا کہ بظاہر ایماندار نظر آنے والا وارڈن اصل میں چوروں کیساتھ ملا ہوا ہے۔عمران کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ آخر یونیورسٹی کے ان سینکڑوں غریب طالبعلموں کو کیا جواب دے گا جن کو اس نے تبدیلی ٹرسٹ کے تحت مدد کی یقین دہانی کرائی تھی۔ اسے یہ بھی فکر تھی کہ وہ سب لوگ جنہوں نے اس کے تبدیلی ٹرسٹ کیلئے ڈونیشن دی تھی، وہ جب سوال کریں گے کہ رقم کہاں گئی تو وہ کیا جواب دے گا؟
اس نے شکیل سے رابطہ کیا اور اسے پیسے واپس کرنے کو کہا ۔ لیکن شکیل صاف مکر گیا۔ اس نے عمران سے کہا کہ جاؤ تھانے میں رپورٹ درج کرواؤ۔عمران کو معلوم تھا کہ تھانیدار تو خود ربنواز کا پارٹنر ہے، وہ کبھی اسے نہیں پکڑے گا۔
آڈیٹوریم میں موجود ساری "عوام" عمران کی آواز میں موجود سچائی اور درد کو محسوس کررہی تھی۔ سب کے دل یہی کہہ رہے تھے کہ ہاں یہ شخص سچ کہہ رہا ہے۔ لیکن بظاہر اس چوری کا کوئی ثبوت نہیں تھا کیونکہ عیار چوروں نے کوئی نشان نہیں چھوڑا تھا۔ واقعاتی شہادتیں موجود تھیں لیکن "اندھا قانون" صرف ٹھوس ثبوت مانگتا ہے( اور قانون کے اسی اندھے پن سے فائدہ اٹھا کر بڑے بڑے مجرم صاف بچ نکلتے ہیں)۔
آڈیٹوریم میں عمران نے دل کی بھڑاس تو نکال لی لیکن ربنواز، شاہ باز، نجمی ، افتخارشاہ اور شکیل وغیرہ نے بھی کوئی کچی گولیاں نہیں کھیلی تھیں۔شکیل نے فوراٌ ہی سٹیج پر آکر مائیک پکڑا اور حاضرین سے کہا کہ عمران سٹھیا گیا ہے۔ میں بھلا کیوں اس کی رقم چوری کروں گا؟ کیا عمران کو یہ بھی یاد نہیں کہ وہ میں ہی تھا جو اس کے ساتھ مل کر لوگوں کی مدد کرتا تھا؟ کیا عمران اس بوڑھی خاتون کو بھول گیا جس کو میں نے اپنی گاڑی میں ہسپتال پہنچایا تھا اور عمران نے اس پر سب کے سامنے میری تعریف کی تھی اور کہا تھا
جیو تو ایسے"۔ کیا عمران بھول گیا کہ وہ کئی دفعہ مجھے میری انسان دوستی کی تعریف کی سندیں دے چکا ہے۔ (اس کے ساتھ ہی شکیل کے چیلے چانٹے نورانی، چیمہ وغیرہ عمران کی دستخط شدہ ماضی کی وہ تعریفی سندیں "عوام" کو دکھاتے ہیں جو عمران نے شکیل کوکسی کی مدد کرنے پر لکھ کے دی تھیں)۔شکیل کہتا ہےعمران صاحب آخر آج آپ کس کے اشارے پر میرے خلاف بول رہے ہیں۔آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں۔ ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔
آڈیٹوریم میں بیٹھی ہوئی عوام کنفیوز ہوگئی۔ کبھی وہ عمران کی سچائی سے بھرپور باتوں پر غور کرتی تھی اور کبھی وہ شکیل کے پیش کیے ہوئے "ثبوتوں" کو دیکھتے تھے ۔ خیر یہ معاملہ اس دن آڈیٹوریم میں ختم نہیں ہوگیا۔
عمران بمقابلہ ربنواز جمع شہاہ باز جمع شکیل کی یہ جنگ ابھی جاری ہے۔عمران کو یقین ہے کہ "تبدیلی "ٹرسٹ کا خواب شکیل کیساتھ مل کر ربنواز شاہ باز نے چوری کیا ہے لیکن شاطر شکیل اپنی چرب زبانی کے بل پریونیورسٹی کی "عوام" کو یقین دلانے کی کوشش کررہا ہےکہ اس کے ہاتھ صاف ہیں اور عمران "کسی کے اشارے پر" اس کے خلاف کھڑا ہوا ہے۔ماضی کی تعریفی رسیدوں کی ہزاروں کاپیاں کراکے اس نے کیبل ٹی وی کے ذریعے چلانی بھی شروع کی ہوئیں ہیں تاکہ عمران کو بلیک میل کرکے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا جاسکے۔شکیل یونیورسٹی کی "عوام" کو یقین دلانے کی کوشش کررہا ہے کہ عمران یوٹرن لینے کا ماہر ہے"۔ اس مقصد کیلئے شکیل نے اپنے ایک چیلے سلیم لفافی کو یونیورسٹی کی مسجد کے مولوی ملا فضل دین سے بھی مدد لینے کیلئے بھیجا اور ملا صاحب مناسب نذرانے کے عوض عمران کو غیر سنجیدہ ثابت کرنے کیلئے فتوے چھاپ رہے ہیں۔ کبھی کبھی یونیورسٹی میں موجود ایک پختون ٹھیکیدار اسفندخان بھی عمران کو ایک آدھ سنادیتا ہے۔ یونیورسٹی کے احاطے میں قائم کسی پرانے سندھی بزرگ کے مزار کے مجاور آصف بیداری اور بلاول بیداری بھی "سسٹم" (عرف عام میں مک مکا) کو بچانے کے نام پر عمران کو چار پانچ سنادیتے ہیں۔ یونیورسٹی کے کچھ "لبرل" لیکچررز کا تو پوچھئے ہی مت ۔"تبدیلی ٹرسٹ" کی رقم کی چوری کو چھپانے کی وہ جس طرح کوششیں کررہے ہیں، سوچ ہے آپ کی۔ اور تو اوریونیورسٹی کے ایف ایم ریڈیو پر "بات سے بات" نکالنے والے وسعت اللہ پائیدان نامی بظاہر پڑھے لکھے آر جے بھی عمران کو سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ خیرہے اگر"تبدیلی" ٹرسٹ کا خواب چرالیا گیا۔ تم دوبارہ محنت کرو۔
پس تحریر: اس کہانی کے آغاز سے پہلے بھی خبردار کیا گیا تھا اور اب پھر واضح کیا جاتا ہے کہ یہ صرف ایک کہانی ہے اور اس کا (حالات حاضرہ) سے کوئ تعلق نہیں۔اگر آپ کو پاکستان نامی ملک کی تحریک انصاف نامی جماعت کے عمران خان نامی شخص کی الیکشن میں دھاندلی کے خلاف تحریک اور ہماری کہانی کے عمران کی "تبدیلی" ٹرسٹ کی رقم کی چوری میں کوئی مماثلت محسوس ہو تو یہ اتفاقی ہوگا۔اگر ہماری کہانی کے شکیل کی کہانی آپ کو کسی جیو ٹی وی یا جنگ گروپ کے کسی میر شکیل الرحمن سے مماثل محسوس ہو تویہ اتفاقی ہوگا۔ اگر جیو ٹی وی پر آج کل چلنے والے عمران خان کے پرانے "جیو تو ایسے" والے کلپ آپ کو ہماری کہانی کی "تعریفی رسیدوں" کی کاپی محسوس ہوں تو یہ اتفاقی امر ہوگا۔
اگرربنواز، شاہ باز، افتخار ڈان، فخربابا چوکیدار،چڑیا والے چور نجمی،سلیم لفافی، اسفند خان، آصف بیداری، ملا فضل دین ، نورانی، چیمہ وغیرہ کے کردار آپ کو اپنے ملک کے حالات حاضرہ میں دکھائی دیں تو یہ عین اتفاقی امر ہوگا۔
(عمران خان اور نیا پاکستان سے ماخوذ)
ایک دلچسپ کہانی
آج سیاست موضوع نہیں۔آج کچھ الگ کرنے کو دل چاہ رہا ہے۔ ایک کہانی سنانے کو دل کررہا ہے۔ہوسکتا ہے کہانی آپ کو جانی پہچانی سی لگے لیکن گبھرائیے گا نہیں۔ اس کا کسی موجودہ یا سابق زمانے سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بس ایک کہانی ہے
اور کہانی ہے پاک پورشہر کی۔اس شہر میں عمران اور شکیل نامی دو دوست رہتے تھے۔عمران اور شکیل یونیورسٹی میں ساتھ پڑھتے تھے۔عمران ایک انتہائی درد دل رکھنے والا انسان تھا جبکہ شکیل کو اللہ نے بے پناہ ذہانت دی تھی۔عمران ہر وقت لوگوں کی مدد کےلئے تیار رہتا تھا۔بلکہ ان کی مدد کے طریقے سوچا کرتا تھا۔ کسی کو فیس کا مسئلہ ہے تو عمران، کوئی بیمار ہے تو عمران، کسی کو کوئی اسائنمنٹ سمجھنے میں پرابلم ہے تو عمران۔یونیورسٹی کے تمام سٹوڈنٹس عمران سے پیار کرتے تھے اور اس کی انسان دوستی کی قدر کرتے تھے۔کبھی کبھی اس کے ان کاموں میں شکیل بھی اس کا ساتھ دیتا تھا اور ایسے ہر موقع پر عمران اس کی حوصلہ افزائی کیلئے سب دوستوں کے سامنے اس کے کام کی تعریف کرتا تھا۔اور ایسے ہر موقع پر شکیل ہنستے ہوئے اسے کہتا تھا کہ بھائی زبان سے نہ کہو، یہی بات کاغذ پر لکھ کر دے دو۔اور عمران واقعی اسے لکھ کر بھی دیتا تھا۔
ایک دفعہ دونوں شکیل کی گاڑی میں یونیورسٹی سے گھرجارہے تھے۔ شدید گرمی کا موسم تھا۔ راستے میں انہوں نے دیکھا کہ سڑک پر کوئی بے ہوش پڑا ہے۔ عمران نے شکیل سے گاڑی روکنے کو کہا اور نیچے اتر کردیکھا تو پتہ چلاکوئی بوڑھی خاتون ہے ۔عمران نے شکیل سے کہا کہ چلو اسے ہسپتال لے کر چلتے ہیں۔ شکیل نے اس کی بات مان لی اور دونوں نے مل کر خاتون کو گاڑی میں ڈالا اور ہسپتال لے گئے۔ خاتون کو ہوش آیا تو انہیں بہت دعائیں دیں۔اگلے دن یونیورسٹی میں عمران نے سب کو بتایا کہ کیسے شکیل نے خاتون کی مدد کی اور اس کی انسان دوستی کی خوب تعریفیں کی اور دوستوں سے کہا کہ "جیو تو ایسے"۔سب نے خوب واہ واہ کی اور شکیل کو داد دی۔
دن اسی طرح گذرتے رہے۔اس دوران شکیل کچھ ایسے لوگوں کی صحبت میں بیٹھنے لگا جو سٹریٹ کرائم میں ملوث تھے۔ربنواز اور شہباز نامی ان لوگوں کیساتھ مل کر شکیل نے چھوٹی موٹی چوریا ں شروع کر دیں۔عمران شکیل کے اس روپ سے بے خبر تھا چونکہ وہ خود دل کا صاف تھا اس لئے باقی سب کو بھی اپنی طرح نیک دل سمجھتا تھا۔ عمران کے کچھ دوستوں نے اشاروں کنایوں میں اسے سمجھانے کی کوشش بھی کی کہ شکیل غلط راستوں پر چل رہا ہے لیکن عمران نے ان کی نہ سنی کیونکہ بظاہر شکیل میں کوئی "تبدیلی" نہیں آئی تھی۔وہ اسی طرح خندہ پیشانی سے شکیل سے ملتا رہا ۔کبھی کبھی شکیل کسی کی مدد کرنے میں بظاہر اس کا ساتھ بھی دے دیتا تھا اور عمران حسب معمول اس کی تعریف کردیتا تھا۔
کچھ عرصہ بعدعمران نے یونیورسٹی میں "تبدیلی "کے نام سے ایک ٹرسٹ فنڈ بنانے کا تہیہ کیا۔اس ٹرسٹ کا مقصد یہ تھا کہ غریب طالبعلموں کی مددکی جائے، ان کی فیسیں ادا ہوں، بیماری کی صورت میں ان کا علاج ہو، ان کو کتا بیں دی جائیں اور کوچنگ وغیرہ بھی کروائی جائے۔عمران اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر شہر کے بڑےتاجروں اور صنعتکاروں کے پاس گیا اور ان سےڈونیشن جمع کیں۔ اس کام میں یونیورسٹی کے باقی سٹوڈنٹس نے بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔سترہ مہینے کی محنت کے بعد انہوں نےتقریباٌ دس لاکھ روپے جمع کرلئے۔ یہ رقم عمران کے پاس ہاسٹل کی الماری میں پڑی تھی اور اگلے دن" گیارہ مئی " کو اس نے بینک میں"تبدیلی "ٹرسٹ کے نام سے یہ رقم جمع کروانی تھی۔
لیکن کسی طرح شکیل کو اس رقم کے بارے میں پتہ چل گیااور اس کی رال ٹپک پڑی۔ اس نے چپکے سے اپنے سٹریٹ کرائم کے گروؤں رب نواز اور شاہ باز کو خبر کردی۔رب نواز نے اپنے اڈے پر کام کرنے والے ایک شاطر چور نجمی کو ٹاسک دیا کہ وہ جاکر یہ رقم چوری کرلے۔ نجمی کی شخصیت بڑی عجیب سی تھی۔ لوگوں کو کبوتر یا طوطے وغیرہ پالنے کا شوق ہوتا ہے لیکن نجمی کوچڑیاں" پالنے کا شوق تھا۔ نہ جانے کیوں۔بہرحال جب رب نواز نے نجمی کو اس چوری کیلئے کہا تو اس نے کہا "ربنواز بھائی مشکل کام ہےدن دہاڑے ہاسٹل میں گھس کر چوری کرنا"۔
ربنواز نے کہا "بھائی مشکل کیا ہے؟ ہاسٹل کا چوکیدار فخربابا چھیاسی سال کا بوڑھاآدمی ہے جسے نہ کچھ صاف سنائی دیتا ہے اورنہ ہی دکھائی دیتا ہے"۔
نجمی بولا" لیکن ربنواز بھائی اس ہاسٹل کا وارڈن افتخارشاہ کافی ایمان دار مشہور ہے۔اس کی موجودگی میں چوری کیسے کروں گا"؟ربنواز نے نجمی کو آنکھ مارتے ہوئے کہا "تم ہمیں سمجھتے کیا ہو؟افتخارشاہ بھی اپنا ہی آدمی ہے۔وارڈن کم اور ڈان زیادہ ہے۔اس کا ایمان صرف ایک آنکھ سے دیکھ سکتا ہے اور اس کی اس واحد آنکھ پر اگر پیسے کی پٹی چڑھادی جائے تو وہ کچھ نہیں دیکھے گا۔بس اس کو حصہ دینا پڑے گا"۔
یہ سن کر نجمی نے کہا "واہ استاد مان گئے۔ ایمپائر ملا کرکھیلتے ہو"۔اس پرربنواز، شہاہ باز، نجمی اور شکیل نے مل کر ایک قہقہہ لگایا۔
اگلے دن (۱۱ مئی) کو نجمی اور شکیل عمران کے ہاسٹل پہنچے۔ شکیل نے کینٹین میں چائے پینے کے بہانے سے عمران کو کمرے سے اپنے ساتھ باہر نکالا۔ کمرے سے باہر نکلتے ہی شکیل نے نجمی کو ایس ایم ایس کر دیا کہ راستہ صاف ہے۔نجمی نے افتخارشاہ سے عمران کے کمرےکی متبادل چابی لے کر کمرہ کھولا، اس کی الماری کھول کر پیسے نکالے اور رفوچکر ہوگیا۔ عمران کمرے میں واپس آیا تو الماری کھلی دیکھ کر اس کے ہاتھ پاؤں پھول گئے۔ اس نے کانپتے ہاتھوں سے پیسوں والی دراز کھولی تو دیکھا کہ پیسے غائب ہوچکے ہیں۔اس کا ذہن فوراٌ شکیل کی طرف گیا کہ وہی اسے بہانے سے کمرے سے باہرلے کرگیا تھااور اسی دوران میں چوری ہوگئی۔اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کا قریبی دوست اس کے ساتھ ایسی حرکت کرسکتا ہے۔ اسےاپنے دوستوں کی اشاروں کنایوں میں کی گئی باتیں یاد آئیں جن میں اسے شکیل سے ہوشیار رہنے کو کہا گیا تھا۔
عمران فوراٌ اہاسٹل کے چوکیدار فخربابا کے پاس پہنچا۔ فخربابا حسب معمول اونگھ رہا تھا۔ عمران نے اسے بتایا کہ اس کے کمرے سے "تبدیلی " ٹرسٹ کے دس لاکھ روپے چوری ہوگئے ہیں۔فخربابا نے سنی ان سنی کرتے ہوئے کہا کہ میری موجودگی میں کون چوری کرسکتا ہے بھلا۔ تم جھوٹ بول رہے ہو۔ جب عمران نے اپنی بات پرزور دیا تو فخر بولا جاؤ بابا اپنا کام کرو۔ مجھے تنخواہ چوکیداری کی ملتی ہے، چوریا ں روکنے کی نہیں۔ عمران یہ بات سن کر دنگ رہ گیا۔ اس نے کہا چوری روکنے ہی کو تو چوکیداری کہتے ہیں"۔
فخر بولا ۔" کہتے ہوں گے امریکہ برطانیہ میں ۔ اس ملک میں چوکیداری کا مطلب چوری روکنا نہیں۔ ہاں جی"۔
عمران فخربابا سے مایوس ہوکر وارڈن افتخارشاہ کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ جناب میرے کمرے سے چوری ہوگئی ہے لیکن کمرے کا تالہ سلامت ہے جس کا ایک ہی مطلب ہے کہ تالہ کسی متبادل چابی سے کھولا گیا ہے اور میرے علاوہ اس کمرے کی متبادل چابی صرف آپ ہی کے پاس تھی۔اب آپ ہی بتائیے اس شرمناک صورتحال میں کیا کیا جائے؟"۔افتخارشاہ یہ سن کر آگ بگولہ ہوگیا اورعمران سے کہا "جائیں جناب اپنا کام کریں۔ میں بہت مصروف ہوں۔میرے ہاسٹل میں بیس ہزار مچھر ہیں جن سے ڈینگی پھیلنے کا خطرہ ہے اور میں نے ہاسٹل میں مچھر مار سپرے کروانا ہے۔ میرے پاس تمہاری چھوٹی سی چوری پر توجہ دینے کا ٹائم نہیں"۔
وارڈن کے اس سلوک سے عمران کو یقین کرنا پڑا کہ بظاہر ایماندار نظر آنے والا وارڈن اصل میں چوروں کیساتھ ملا ہوا ہے۔عمران کو سمجھ نہیں آرہی تھی کہ وہ آخر یونیورسٹی کے ان سینکڑوں غریب طالبعلموں کو کیا جواب دے گا جن کو اس نے تبدیلی ٹرسٹ کے تحت مدد کی یقین دہانی کرائی تھی۔ اسے یہ بھی فکر تھی کہ وہ سب لوگ جنہوں نے اس کے تبدیلی ٹرسٹ کیلئے ڈونیشن دی تھی، وہ جب سوال کریں گے کہ رقم کہاں گئی تو وہ کیا جواب دے گا؟
اس نے شکیل سے رابطہ کیا اور اسے پیسے واپس کرنے کو کہا ۔ لیکن شکیل صاف مکر گیا۔ اس نے عمران سے کہا کہ جاؤ تھانے میں رپورٹ درج کرواؤ۔عمران کو معلوم تھا کہ تھانیدار تو خود ربنواز کا پارٹنر ہے، وہ کبھی اسے نہیں پکڑے گا۔
آڈیٹوریم میں موجود ساری "عوام" عمران کی آواز میں موجود سچائی اور درد کو محسوس کررہی تھی۔ سب کے دل یہی کہہ رہے تھے کہ ہاں یہ شخص سچ کہہ رہا ہے۔ لیکن بظاہر اس چوری کا کوئی ثبوت نہیں تھا کیونکہ عیار چوروں نے کوئی نشان نہیں چھوڑا تھا۔ واقعاتی شہادتیں موجود تھیں لیکن "اندھا قانون" صرف ٹھوس ثبوت مانگتا ہے( اور قانون کے اسی اندھے پن سے فائدہ اٹھا کر بڑے بڑے مجرم صاف بچ نکلتے ہیں)۔
آڈیٹوریم میں عمران نے دل کی بھڑاس تو نکال لی لیکن ربنواز، شاہ باز، نجمی ، افتخارشاہ اور شکیل وغیرہ نے بھی کوئی کچی گولیاں نہیں کھیلی تھیں۔شکیل نے فوراٌ ہی سٹیج پر آکر مائیک پکڑا اور حاضرین سے کہا کہ عمران سٹھیا گیا ہے۔ میں بھلا کیوں اس کی رقم چوری کروں گا؟ کیا عمران کو یہ بھی یاد نہیں کہ وہ میں ہی تھا جو اس کے ساتھ مل کر لوگوں کی مدد کرتا تھا؟ کیا عمران اس بوڑھی خاتون کو بھول گیا جس کو میں نے اپنی گاڑی میں ہسپتال پہنچایا تھا اور عمران نے اس پر سب کے سامنے میری تعریف کی تھی اور کہا تھا
جیو تو ایسے"۔ کیا عمران بھول گیا کہ وہ کئی دفعہ مجھے میری انسان دوستی کی تعریف کی سندیں دے چکا ہے۔ (اس کے ساتھ ہی شکیل کے چیلے چانٹے نورانی، چیمہ وغیرہ عمران کی دستخط شدہ ماضی کی وہ تعریفی سندیں "عوام" کو دکھاتے ہیں جو عمران نے شکیل کوکسی کی مدد کرنے پر لکھ کے دی تھیں)۔شکیل کہتا ہےعمران صاحب آخر آج آپ کس کے اشارے پر میرے خلاف بول رہے ہیں۔آپ ہی اپنی اداؤں پہ ذرا غور کریں۔ ہم اگر عرض کریں گے تو شکایت ہوگی۔
آڈیٹوریم میں بیٹھی ہوئی عوام کنفیوز ہوگئی۔ کبھی وہ عمران کی سچائی سے بھرپور باتوں پر غور کرتی تھی اور کبھی وہ شکیل کے پیش کیے ہوئے "ثبوتوں" کو دیکھتے تھے ۔ خیر یہ معاملہ اس دن آڈیٹوریم میں ختم نہیں ہوگیا۔
عمران بمقابلہ ربنواز جمع شہاہ باز جمع شکیل کی یہ جنگ ابھی جاری ہے۔عمران کو یقین ہے کہ "تبدیلی "ٹرسٹ کا خواب شکیل کیساتھ مل کر ربنواز شاہ باز نے چوری کیا ہے لیکن شاطر شکیل اپنی چرب زبانی کے بل پریونیورسٹی کی "عوام" کو یقین دلانے کی کوشش کررہا ہےکہ اس کے ہاتھ صاف ہیں اور عمران "کسی کے اشارے پر" اس کے خلاف کھڑا ہوا ہے۔ماضی کی تعریفی رسیدوں کی ہزاروں کاپیاں کراکے اس نے کیبل ٹی وی کے ذریعے چلانی بھی شروع کی ہوئیں ہیں تاکہ عمران کو بلیک میل کرکے پیچھے ہٹنے پر مجبور کیا جاسکے۔شکیل یونیورسٹی کی "عوام" کو یقین دلانے کی کوشش کررہا ہے کہ عمران یوٹرن لینے کا ماہر ہے"۔ اس مقصد کیلئے شکیل نے اپنے ایک چیلے سلیم لفافی کو یونیورسٹی کی مسجد کے مولوی ملا فضل دین سے بھی مدد لینے کیلئے بھیجا اور ملا صاحب مناسب نذرانے کے عوض عمران کو غیر سنجیدہ ثابت کرنے کیلئے فتوے چھاپ رہے ہیں۔ کبھی کبھی یونیورسٹی میں موجود ایک پختون ٹھیکیدار اسفندخان بھی عمران کو ایک آدھ سنادیتا ہے۔ یونیورسٹی کے احاطے میں قائم کسی پرانے سندھی بزرگ کے مزار کے مجاور آصف بیداری اور بلاول بیداری بھی "سسٹم" (عرف عام میں مک مکا) کو بچانے کے نام پر عمران کو چار پانچ سنادیتے ہیں۔ یونیورسٹی کے کچھ "لبرل" لیکچررز کا تو پوچھئے ہی مت ۔"تبدیلی ٹرسٹ" کی رقم کی چوری کو چھپانے کی وہ جس طرح کوششیں کررہے ہیں، سوچ ہے آپ کی۔ اور تو اوریونیورسٹی کے ایف ایم ریڈیو پر "بات سے بات" نکالنے والے وسعت اللہ پائیدان نامی بظاہر پڑھے لکھے آر جے بھی عمران کو سمجھانے کی کوشش کررہے ہیں کہ خیرہے اگر"تبدیلی" ٹرسٹ کا خواب چرالیا گیا۔ تم دوبارہ محنت کرو۔
پس تحریر: اس کہانی کے آغاز سے پہلے بھی خبردار کیا گیا تھا اور اب پھر واضح کیا جاتا ہے کہ یہ صرف ایک کہانی ہے اور اس کا (حالات حاضرہ) سے کوئ تعلق نہیں۔اگر آپ کو پاکستان نامی ملک کی تحریک انصاف نامی جماعت کے عمران خان نامی شخص کی الیکشن میں دھاندلی کے خلاف تحریک اور ہماری کہانی کے عمران کی "تبدیلی" ٹرسٹ کی رقم کی چوری میں کوئی مماثلت محسوس ہو تو یہ اتفاقی ہوگا۔اگر ہماری کہانی کے شکیل کی کہانی آپ کو کسی جیو ٹی وی یا جنگ گروپ کے کسی میر شکیل الرحمن سے مماثل محسوس ہو تویہ اتفاقی ہوگا۔ اگر جیو ٹی وی پر آج کل چلنے والے عمران خان کے پرانے "جیو تو ایسے" والے کلپ آپ کو ہماری کہانی کی "تعریفی رسیدوں" کی کاپی محسوس ہوں تو یہ اتفاقی امر ہوگا۔
اگرربنواز، شاہ باز، افتخار ڈان، فخربابا چوکیدار،چڑیا والے چور نجمی،سلیم لفافی، اسفند خان، آصف بیداری، ملا فضل دین ، نورانی، چیمہ وغیرہ کے کردار آپ کو اپنے ملک کے حالات حاضرہ میں دکھائی دیں تو یہ عین اتفاقی امر ہوگا۔
(عمران خان اور نیا پاکستان سے ماخوذ)