قائد اعظم جناب محمد علی جناح نے عوام کو "ایمان - اتحاد - تنظیم " کی تین وصیتیں کی اور ترقی کی راہ پر گامزن کیا - وقت گزرنے کے ساتھ ماحولیاتی، معاشی اور نفسیاتی تبدیلیوں نے ان تین وصیتیں کے اثر کو ماند کر دیا تو قائد اعظم ثانی جناب عمران خان صاحب نے اس میں چوتھی نصیحت کا اضافہ کیا - اور اب اس کو
"ایمان - اتحاد - تنظیم - توہین "
بنایا ہے
اپنے عمل سے پہلے تینوں پر تو زیادہ زور نہیں دیا کیوں کہ وہ تو قائد اعظم اول کی ذمہ داری تھی پر موصوف چوتھے موٹو پر پورا عمل کرتے ہوے نظر آتے ہیں اور بلا تفریق عمل بھی کر کے اس کے بے دریغ استمعال کی تربییت بھی کر رہے ہیں - اس بلا تفریق استمعال کی عمدہ مثال خان صاب کی موجودہ تقریریں ہیں جن میں موصوف پاکستانی عوام کو بھی رگڑا لگا رہے ہیں
"حلقہ این اے ١٢٠ کا انتخاب بتا دے گا کہ عوام عدلیہ کے ساتھ ہیں یا ڈاکؤں کے ساتھ "
یہ سن کر تو مجھ میں رہی سہی پٹوارییت بھی مر جاتی ہے - یہ وھی صورت حال ہے جب مرد حق نے ریفرنڈم میں عوام سے پوچھا تھا کہ "کیا آپ اسلام کے ساتھ ہیں یا نہیں؟" اب کون مائی کا لال تھا جو کہے میں اسلام کے ساتھ نہیں - بس اتنا ہے کہ اگر آپ اسلام کے ساتھ ہیں تو مرد حق کو اگلے گیارہ سال عوام پر اپنی مردانہ قوت کے بے دریغ استمعال کی اجازت ہو گی
کہنے کا مقصد صرف یہ ہے کہ دوسروں کو کم از کم آزادی کے ساتھ سانس لینے کی اجازت پلیز دے ہیں
اگر عوام ڈاکوؤں کے ساتھ نکلی تو اس چوتھے موٹو کا سارا گند قائد اعظم ثانی کے چہرے پر ہی نظر آے گا