کراچی ( بلال احمداسٹاف رپورٹر ) سپریم کورٹ نے بحری جہازوں اور لانچوں سے اسلحہ کی اسمگلنگ اور ریونیوچوری پر کمیشن قائم کردیا۔سابق ممبر کسٹم رمضان بھٹی کمیشن کے سربراہ ہونگے، کمیشن سات دن میں رپورٹ سپریم کورٹ میں پیش کریگا ۔ کمیشن سپریم کورٹ کو ہتھیاروں کی خریداری ، اسمگلنگ ، بحری جہاز اور لانچوں سے اسمگلنگ اور خاتمے سے متعلق تجاویز پر مشتمل رپورٹ سپریم کورٹ کو پیش کریگا۔ دوران سماعت چیف جسٹس نے کہا کہ ڈی جی رینجرز بتائیں کہ کراچی میں اسلحہ کہاں سے آتا ہے آسمان سے تو نہیں گرتا ؟ڈی جی رینجرز نے جواب دیا کہ 19ہزار کنٹینرزکے غائب ہونے کا مسئلہ کئی سال پرانا ہے ،کراچی میں اسلحہ کے کنٹینر سابق وفاقی وزیر پورٹ اینڈ شپنگ کے دور میں آئے اور کھولے گئے،انہوں نے عدالت کو بتایا کہ یہ اسلحہ کراچی میں استعمال ہورہا ہے اور شہر جل رہا ہے ۔انہوں نے کہا کہ مختلف ایجنسیاں اس اسلحہ سے متعلق تحقیقات کررہی ہیں۔ عدالت نے اپنے عبوری حکم نامے میں آئندہ سماعت سے قبل شہر میں سی سی ٹی وی کیمرے نصب کرنے اور وفاقی و صوبائی حکومتوں کو کراچی کے مسئلے کا حل نکالنے کی ہدایت کی۔جبکہ نادرا کو حکم دیا گیا ہے کہ سندھ میں اسلحہ لائسنس کیلئے رجسٹریشن اور ریکارڈ مرتب کرنے کا کام جلد از جلد مکمل کیا جائے۔دوران سماعت جسٹس گلزار نے ریمارکس دیئے کہ تھانے کاروباری مراکز بن گئے، رقم دیکر کرائم ختم کرا ئے جاتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے لارجر بینچ نے 10 صفحات پر مشتمل عبوری حکم نامہ جاری کردیا ہے جس میں سپریم کورٹ نے ڈی جی رینجرز اور چیف کلیکٹرز کی جانب سے کراچی سمیت لاتعداد راستوں سے ملکی و غیر ملکی اسلحہ ، بارود، اور منشیات کی اسمگلنگ جاری ہونے اور مذکورہ اسلحہ اور بارود کراچی سمیت ملک بھر میں استعمال ہونے کے اعتراف کے بعد صوبائی اور وفاقی حکومتوں کو احکامات جاری کیے ہیں کہ وہ فوری طور پر سمندری راستوں کے ذریعے کشیوں ، لانچوں ، جہازوں جبکہ زمینی راستوں کے ذریعے بلوچستان سندھ ، خیبر پختون خواہ کے لا تعداد مقامات سے اسمگلنگ روکنے کے اقدامات کیے جائیں، مذکورہ راستوں کو سیل کیا جائے۔ عدالت نے ڈی جی رینجرز کی جانب سے سابق وفاقی وزیر برائے پورٹ اینڈ شیپنگ کی جانب سے اسلحہ سے بھرا جہاز کراچی میں لانے اور اسلحہ کراچی میں موجود ہونے کے انکشاف ہونے پر تحقیقات کرنے کا حکم جاری کر دیا، عدالت نے اپنی آبزرویشن میں کہا کہ اس کا مطلب ہے کہ سیکڑوں کی تعدا د میں کنٹینر ز کھولے جارہے اور ان میں موجود اسلحہ کراچی میں زیادہ تر اور ملک میں بھی استعمال ہورہاہے۔یہ بات درست ہے کہ سابقہ وزارت پورٹ اینڈ شپنگ نے اسلحہ اسمگلنگ میں مدد فراہم کی ،عدالت نے حکم دیا کہ قانون نافذ کرنے والے ادارے ملزمان کو پکڑیں، چاہے تحریک طالبان پاکستان کے ہوں یاکسی بھی مسلح گروہ ،ٹارگٹ کلر ہو یاذاتی دشمنی پر قتل کرنے والے ہوں کسی کرمنل کو کوئی رعایت نہ دی جائے۔ تفصیلات کے مطابق چیف جسٹس کی سربراہی میں جسٹس جواد ایس خواجہ، جسٹس گلزار احمد ، جسٹس اطہر سعید اورجسٹس شیخ عظمت سعیدنے سماعت کی آغاز سے قبل ایف سی کے سربراہ نے کارکردگی کی رپورٹ بھی پیش کی۔ جبکہ چیف کسٹم کلیکٹر ساوٴتھ محمد یحییٰ سے چیف جسٹس نے استفسارکیاکہ رمضان بھٹی آئے ہیں کسٹم افیسر نے بتا یاکہ عدالت کا حکم ان تک پہنچادیا گیا ہے تاہم اس وقت موجود نہیں ہیں۔ انہوں نے اسمگل ہونے والے اسلحے سے متعلق عدالت کو بتانا چاہا تاہم چیف جسٹس نے کہا کہ اسمگلنگ سمندری راستے سے ہو یا لینڈ روٹ سے اسلحہ کراچی میں ہی داخل ہوتا ہے اور وہ اسمگلنگ کے بارے میں علم رکھتے ہیں۔ چیف جسٹس نے استفسارکیا کہ آپ یہ بتائیں کہ یہ اسلحہ اتا کہاں سے ہے۔کسٹم آفیسر کی خاموشی پر عدالت نے ڈی جی رینجرزمیجر جنرل رضوان اختر کو مخاطب کیا اور انہیں کہا کہ وہ بتائیں کہ ٓاپریشن کے موقع پر جو اسلحہ برآمد کرتے ہیں وہ کہاں کا تیار کردہ ہے؟اور یہ اسلحہ آتا کہاں سے ہے ؟ڈی جی رینجرز نے اپنے بیان میں کہا کہ میری معلومات کے مطابق نیٹو کا استعمال ہونے والا ایسا کوئی اسلحہ نہیں جو یہاں ہم استعمال کرتے ہوں ،انہوں نے انکشاف کیا کہ 19 ہزار کنٹینرز کا مسئلہ چند سال پرانا ہے اور سابق وزیر پورٹ اینڈ شپنگ کے دور میں سیکڑوں کی تعداد میں کنٹینر لائے گئے جن میں غیر ملکی اور جدید اسلحہ تھا اور ان کنٹینرز کو کھولا گیا اور اسلحہ غائب کردیا گیا، یہ اسلحہ کراچی میں استعمال ہورہا ہے اور شہر جل رہا ہے۔ اس معاملے پر ابھی قانون نافذ کرنے والے ادارے مزید تحقیقات بھی کررہے ہیں، ٹارگٹ کلنگ میں لوکل، جرمن،امریکی ساختہ نائن ایم ایم پستول استعمال ہوتی ہے، پشاور کی اسلحہ مارکیٹ کارخانوں اور درہ آدم خیل میں بھیجاگیا اسلحہ غیرملکی ہے،چند واقعات میں اے کے 47 استعمال ہوئے ڈی جی رینجرز نے مزید کہا کہ جب وہ وزیرستان میں تھے۔ کنٹینر پکڑے گئے ان میں امریکی فوج کا استعمال شدہ اسلحہ تھا،کنٹینر پورٹ سے نکل کر بلوچستان اور خیبر پختونخواجاتے ہیں۔ چیف جسٹس نے بھی پورٹ اینڈ شپنگ کے حوالے سے ریمارکس دئیے کہ سابقہ وزارت پورٹ اینڈ شپنگ نے اسلحہ اسمگلنگ میں مدد فراہم کی ہے۔چیف جسٹس افتخار چوہدری نے ڈی جی رینجرز سے استفسارکیا کہ کراچی میں اسلحہ کہاں سے آتا ہے؟۔ڈی جی رینجرز نے عدالت کو بتایا کہ حب ، نیشنل ہائی وے،سپر ہائی وے کے راستے اسلحہ لانے کیلئے استعمال ہوتے ہیں، رینجرز نے اسلحہ اسمگلنگ کو روکنے کیلئے سراغ رساں کتوں کا بھی استعمال کیا مگر اسمگلر بہت شاطر ہیں اسلحہ کے ساتھ کثیر مقدار میں لہسن رکھا جاتا ہے جس کے نتیجے میں کتوں کی سونگنے کی حس مانند پڑجاتی ہے۔اس سلسلے میں مشینری گئی مگر اس کے استعمال کیلئے ہمیں فنڈز نہیں دیئے جا رہے ہیں اگر وسائل بروئے کار لائے جائیں تو شاید تھوڑا بہت مثبت نتیجہ اخذ ہوجائے۔ جس پر چیف جسٹس نے کہا کہ تھوڑا نہیں بہت کچھ ہوگا۔ ڈی جی رینجرز نے مزید کہا کہ شہر میں ہونے والی ٹارگٹ کلنگ میں کچھ پتہ نہیں کہ اسلحہ لائسنس والا ہے یا بغیر لائسنس والا ہے اس سلسلے میں حکومت کو چاہیے کہ وہ تمام لائسنس یافتہ افراد کا ازسر نو ریکارڈ مرتب کرنے کیلئے ڈیڈ لائن دے اور نادرا اسلحہ لائسنس کا ازسر نوریکارڈ مرتب کرے۔ڈی جی رینجر نے کہا کہ اندرون ملک چلنے والی ہیوی ٹرانسپورٹ میں ایک ہی کمیونٹی شامل ہے جو ٹرک اور کنٹینرز کو ملک کے ایک کونے سے دوسرے کونے تک لاتے لے جاتے ہیں۔ دوران سماعت عدالت نے چیف کسٹم کلکٹر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ شکایت ہے کنٹینرز میں اسلحہ منشیات آرہی ہے۔ یہاں لانچوں کے ذریعے بھی اسلحہ آتا ہے۔چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کہا کہ آپ لوگوں کے کام نہ کرنے کی وجہ سے ڈالر سو روپے سے تجاوز کرگیا ہے۔ چیف جسٹس نے چیف کسٹم کلکٹر کی جانب سے نفری بڑھانے سے متعلق اٹارنی جنرل سے جواب طلب کیا۔ اٹارنی جنرل منیر اے ملک نے کہا کہ کسٹم حکام نے خط لکھنے کے بعد اسے فالو نہیں کیا۔ چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کہا کہ ملک بھر میں ہتھیاروں کی ترسیل اور کنٹرول امن وامان کا اہم مسئلہ ہے۔ انہوں نے کراچی پورٹ سے نکالے جانے والے کنٹینرز کی مانیٹرنگ اور چیکنگ کو بھی سخت کرنے کے احکامات دیئے۔آئی جی سندھ نے عدالت میں اپنے بیان میں کہا کہ جمعرات کو 13 افراد کراچی میں قتل ہوئے۔ جن میں3 ٹارگٹ کلنگ کے واقعات ہیں۔ ضلع غربی کا علاقہ تحریک طالبان کا متاثرہ ہے۔ جس پرعدالت نے برہمی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ آپ ملزمان پکڑیں۔چیف جسٹس نے بھتے سے متعلق استفسار کیا تو آئی جی نے پر اعتماد انداز میں جواب دیا کہ گزشتہ روز بھتہ نہیں لیا گیا جس پر جسٹس گلزار احمد نے تعجب کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کیا مطلب ہے آپ کا تو آئی جی بوکھلا گئے اور کہا کہ ان کے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ گزشتہ روز پولیس کو بھتے سے متعلق کوئی شکایت موصول نہیں ہوئی۔ جس پر جسٹس جواد ایس خواجہ نے برہمی کا اظہار کیا کہ شکایت نہ ملنے کی وجہ آپ جانتے ہیں ؟ نہیں جانتے تو ہم بتاتے ہیں کہ شہری آپ کی پولیس پر اعتماد ہی نہیں کرتا ایک ایف آئی آر درج کرواتے کرواتے کئی ہفتے لگ جاتے ہیں تب تک اس مقدمے کے گواہان کو ڈرا دھمکا کر بھگا دیا جاتا ہے۔ جسٹس گلزار نے ریمارکس دیتے ہوئے کہا کہ کراچی میں تھانے درحقیقت کاروباری مراکز ہیں جہاں جتنا بڑا کرائم کا واقعہ پیش آتا ہے تو اتنی ہی بڑی رقم دیکر کرائم ختم کروا دیا جاتاہے۔آئی جی نے کہا کہ بھتہ ختم نہ ہونے کی وجہ اس کیس میں سزا کم ملتی ہے۔ چیف جسٹس نے کہا کہ آپ کم سزا ہی دلوا دیں تو بھی آپ پر شکوہ نہیں ہے جبکہ جسٹس جواد ایس خواجہ نے کہا کہ ہم ایسا کرتے ہیں کہ بھتے کے جرم پر 30 سال سزا مقرر کردیتے ہیں لیکن آپ یقین دلوائیں کہ بھتہ ختم ہوجائیگا۔ تاہم آئی جی اس بات پر کوئی جواب نہ دے سکے۔بھتہ خوری سے متعلق چیف جسٹس نے کہا کہ کراچی میں بھتہ تو بینکوں کے ذریعے بھی لیا جاتا ہے۔ جسٹس جواد نے کہا کہ اعتماد کا مسئلہ ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں پولیس کو بتائیں گے تو مشکل میں پڑ جائیں گے۔ایڈووکیٹ جنرل نے اپنے پیش کیا اور پڑھ کرسنایا کہ شہر میں خفیہ کیمروں کی اشد ضرورت ہے وفاق تعاون کرے۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ شہر میں سی سی ٹی وی کیمرے اب تک کیوں نہیں نصب کئے گئے۔ آئی جی سندھ نے بتایا کہ جتنے فنڈ جاری ہوئے وہ ختم ہوگئے۔چیف جسٹس نے کہا کہ ضرور آپ نے کسی کو ٹھیکہ دیا ہوگا اور اس میں کوئی چکر ہوگا۔ دوران سماعت چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کہا کہ اٹارنی جنرل اور ایڈوکیٹ جنرل نے وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی جانب سے شہریوں کی جان ومال اور حقوق کے تحفظ کی یقین دہانی کرائی ہے ، توقع ہے عدالتی احکامات پر عمل درآمد کیا جائیگا۔ عدالت نے سماعت 18 ستمبر کیلئے ملتوی کردی ہے ۔علاوہ ازیں سپریم کورٹ نے اپنے عبوری حکم نامے میں سندھ حکومت کو حکم دیا کہ کرچی میں سپریم کورٹ کی آئندہ سماعت سے قبل سی سی ٹی وی کیمرے ترجیحی بنیادوں پر لگائے جائیں، اس کے لئے ماہرین کی ضرورت ہو تو وہ فوری طور پر حاصل کی جائیں جبکہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے عدالت کو یقین دلایا ہے اور کہا ہے کہ دونوں حکومتیں آن بورڈ ہیں اور امید کرتے ہیں کہ آئندہ سماعت سے قبل کراچی کے حالات میں خاطر خواہ بہتری آئے گی۔ عدالت نے دونوں حکومتوں کو حکم دیا کہ وفاقی کابینہ کے اجلاس کے بعد کراچی کے مسئلے کا حل نکالا جائے اور سپریم کورٹ کو بتایا جائے کہ دونوں حکومتیں کس طرح مخدوش صورتحال کو تبدیل کرکے شہریوں کی جان و مال کا تحفظ کریں گی۔ سپریم کورٹ نے اپنی رپورٹ میں کہا کہ پورٹ پر 100/ فیصد ڈیوٹیاں اور ٹیکس لیا جارہا ہے مگر کرپشن کے باعث قومی خزانے کو تلافی نہ ہونیوالا نقصان ہورہا ہے۔ حکومتیں اس مسئلے پر توجہ دیں اور فوری ضروری اقدامات کئے جائیں۔ اگر پورٹ کے ذریعے ہونیو الے کرپشن ور ٹیکس کی چوری روک لی جائے توملکی بجٹ کا خسارہ پورا ہوسکتاہے۔
source