پیکا ایکٹ ترمیمی بل قومی اسمبلی میں پیش، فیک نیوز پر 3 سال کی سزا ہو گی

azam-nazeer-tarar-resigns-as-federal-law-minister-citing-personal-reasons-1687413077-1080.png


وفاقی حکومت نے قومی اسمبلی میں پیکا (پریوینشن آف الیکٹرانک کرائمز ایکٹ) ترمیمی بل 2025 پیش کر دیا ہے۔ اس بل کے تحت ایک نئی "سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی" قائم کی جائے گی جو ملک میں سوشل میڈیا پر جھوٹی خبروں کے پھیلاؤ، غیر قانونی مواد کی روک تھام، اور صارفین کے تحفظ کو یقینی بنائے گی۔

بل کے مطابق، سوشل میڈیا پروٹیکشن اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی کا مرکزی دفتر اسلام آباد میں ہوگا، جبکہ صوبائی دارالحکومتوں میں اس کے ذیلی دفاتر قائم کیے جائیں گے۔ اتھارٹی کو یہ اختیارات دیے جائیں گے کہ وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو رجسٹر کرے اور ان کے معیارات طے کرے۔ اتھارٹی کو رجسٹریشن منسوخ کرنے، غیر قانونی مواد کے خلاف کارروائی کرنے، اور صارفین کے حقوق کا تحفظ یقینی بنانے کا بھی اختیار ہوگا۔

اتھارٹی کا دائرہ کار وسیع ہوگا، جس میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ساتھ مشاورت، غیر قانونی مواد کو ہٹانے کی ہدایت، اور صارفین کی شکایات کا ازالہ شامل ہوگا۔ متاثرہ افراد کے لیے لازم ہوگا کہ وہ غیر قانونی سرگرمیوں کی اطلاع 24 گھنٹے کے اندر اتھارٹی کو دیں۔

نئی ترمیم کے تحت سوشل میڈیا پلیٹ فارم کو اتھارٹی سے رجسٹر کرانا لازمی قرار دیا گیا ہے

بل میں جھوٹی خبروں کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے سخت سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ جھوٹی خبر پھیلانے والے شخص کو 3 سال قید یا 20 لاکھ روپے جرمانے کی سزا دی جا سکے گی۔ اس کے علاوہ، چیئرمین اتھارٹی کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ غیر قانونی مواد کو فوری طور پر بلاک کرنے کی ہدایت دے۔

اتھارٹی نظریہ پاکستان کے برخلاف مواد، شہریوں کو قانون توڑنے پر اکسانے والے مواد، اور قومی سلامتی یا ریاستی اداروں کے خلاف غیر قانونی مواد کو بلاک کرنے کی مجاز ہوگی۔ مسلح افواج، پارلیمنٹ، اور صوبائی اسمبلیوں کے خلاف مواد کو ہٹانے کا اختیار بھی اتھارٹی کو دیا گیا ہے۔

اتھارٹی کل 9 اراکین پر مشتمل ہوگی، جن میں سیکریٹری داخلہ، چیئرمین پی ٹی اے، اور چیئرمین پیمرا بطور ایکس آفیشو اراکین شامل ہوں گے۔ اس کے علاوہ 10 سالہ تجربہ رکھنے والا صحافی، سافٹ ویئر انجنیئر، وکیل، سوشل میڈیا پروفیشنل، اور نجی شعبے سے تعلق رکھنے والا آئی ٹی ماہر بھی اراکین میں شامل ہوں گے۔

اتھارٹی کے چیئرمین کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ بیچلرز ڈگری کے حامل ہوں اور متعلقہ شعبے میں کم از کم 15 سال کا تجربہ رکھتے ہوں۔ چیئرمین اور دیگر اراکین کی تعیناتی پانچ سال کے لیے ہوگی، اور وہ کسی بھی دوسرے کاروبار میں ملوث نہیں ہو سکیں گے۔

بل کے تحت سوشل میڈیا سے متعلق مسائل کے فوری حل کے لیے ایک "سوشل میڈیا شکایت کونسل" بھی قائم کی جائے گی۔ یہ کونسل 5 اراکین اور ایک ایکس آفیشو رکن پر مشتمل ہوگی۔ کونسل کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ صارفین کی شکایات کا بروقت ازالہ کرے اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کو قانون کے دائرے میں لائے۔

بل کے مطابق، وفاقی حکومت ایک "سوشل میڈیا پروٹیکشن ٹربیونل" قائم کرے گی۔ اس ٹربیونل کا چیئرمین ہائی کورٹ کا سابق جج ہوگا، جبکہ دیگر اراکین میں ایک صحافی اور ایک سافٹ ویئر انجنیئر شامل ہوں گے۔ ٹربیونل کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے خلاف تادیبی کارروائی کرے اور صارفین کی شکایات کا ازالہ کرے۔

ٹربیونل کے فیصلوں کو سپریم کورٹ میں 60 دن کے اندر چیلنج کیا جا سکے گا۔

بل میں ایک قومی سائبر کرائم تحقیقاتی ایجنسی کے قیام کی بھی تجویز دی گئی ہے، جس کا مقصد غیر قانونی سوشل میڈیا سرگرمیوں کی تحقیقات کرنا ہوگا۔ اس ایجنسی کا سربراہ ڈائریکٹر جنرل ہوگا، جس کی تعیناتی 3 سال کے لیے ہوگی۔ ایجنسی کے افسران کو پولیس کے مساوی اختیارات حاصل ہوں گے، اور اس کے قیام کے بعد ایف آئی اے کے سائبر کرائم ونگ کو تحلیل کر دیا جائے گا۔

بل میں یہ بھی تجویز دی گئی ہے کہ پابندی کا شکار اداروں یا شخصیات کے بیانات سوشل میڈیا پر شائع نہیں کیے جا سکیں گے۔ اس کے علاوہ، پارلیمنٹ کی کارروائی کے دوران حذف شدہ مواد کو دوبارہ سوشل میڈیا پر اپلوڈ کرنا ممنوع ہوگا۔
https://twitter.com/x/status/1882134185898590278 https://twitter.com/x/status/1882250929543815217
 
Last edited by a moderator:

Back
Top