
ملک میں بیروزگاری کی بڑھتی ہوئی شرح ایک سنگین مسئلہ بن چکی ہے، جس نے عوام کو شدید معاشی مشکلات میں مبتلا کر دیا ہے۔ اقتصادی ماہرین کا کہنا ہے کہ بیروزگاری کی بنیادی وجہ کاروباری سرگرمیوں میں کمی اور صنعتوں کی بندش ہے، جو ملکی معیشت پر منفی اثرات ڈال رہی ہے۔
ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں بیروزگاری کی شرح 7 فیصد تک پہنچ چکی ہے، جو کہ بھارت اور بنگلا دیش کے مقابلے میں زیادہ ہے۔ پلاننگ کمیشن کی رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ملک میں بیروزگاری کے خاتمے کے لیے سالانہ کم از کم 15 لاکھ نئی ملازمتوں کی ضرورت ہے، تاہم موجودہ معاشی حالات میں اس ہدف کا حصول مشکل دکھائی دیتا ہے۔
ماہرین کے مطابق مہنگی بجلی اور گیس، بھاری ٹیکسوں اور دیگر اقتصادی مسائل کی وجہ سے پیداواری لاگت میں اضافہ ہوا ہے، جس کے باعث درجنوں صنعتیں بند ہوچکی ہیں اور لاکھوں افراد بےروزگار ہوگئے ہیں۔ کراچی سمیت ملک کے مختلف شہروں میں مزدور طبقہ کام نہ ملنے کی شکایات کرتا نظر آتا ہے۔
اقتصادی ماہر اسامہ رضوی کے مطابق بڑی صنعتوں کی پیداوار میں نمایاں کمی آئی ہے، ٹیکسٹائل کی درجنوں ملز بند ہوچکی ہیں اور 45 لاکھ نوجوان روزگار کی تلاش میں سرگرداں ہیں۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ ملکی معیشت کی بحالی کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں تاکہ کاروباری سرگرمیاں بحال ہوسکیں اور روزگار کے مواقع پیدا ہوں۔
صنعت کار بھی موجودہ صورتحال پر سخت پریشان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے جلد اقدامات نہ کیے تو صنعتی بحران مزید سنگین ہو سکتا ہے، جس کے نتیجے میں بےروزگاری کی شرح میں مزید اضافہ ہوگا اور معیشت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ بیروزگاری کے خاتمے کے لیے حکومت کو سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال کرنا ہوگا، توانائی بحران پر قابو پانا ہوگا اور کاروبار دوست پالیسیاں متعارف کرانی ہوں گی تاکہ معیشت کو استحکام مل سکے اور لاکھوں افراد کو روزگار فراہم کیا جا سکے۔