فاطمہ فرڑو قتل کیس کے گواہ بیانات سے مکر گئے، دہشتگردی دفعات خارج

fatn11g213g3.jpg


رانی پور کے علاقے میں 10 دن پہلے ایک بااثر پیر کے گھر میں جنسی زیادتی کے ساتھ تشدد سے جاں بحق ہونے والے کمسن گھریلو ملازمہ 10 سالہ فاطمہ فرڑو کے قتل کیس میں سے دہشت گردی کی دفعات حذف کر دی گئی ہیں۔

ذرائع کے مطابق انسداد دہشت گردی عدالت خیرپور میں آج فاطمہ فرڑو قتل کیس کی سماعت ہوئی تھی جہاں پر مدعی مقتولہ بچی کی والدہ سمیت 4 گواہ پیش ہوئے تھے جبکہ نامزد ملزم اسد شاہ، فیاض شاہ، حنا شاہ اور امتیاز مراثی عدالت میں ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہوئے۔

مقدمے کی سماعت کے دوران مقتولہ بچی فاطمہ فرڑو کے رشتہ دار 4 گواہ عدالت میں اپنے بیانات سے انکاری ہو گئے جس کے بعد عدالت نے کیس میں سے دہشت گردی کی دفعات کو ختم کرنے کے بعد کیس سیشن کورٹ خیرپور منتقل کرنے کے احکامات جاری کر دیئے۔

دس سالہ فاطمہ فرڑو کی پوسٹ مارٹم رپورٹ بھی سامنے آچکی ہے جس میں بتایا گیا تھا کہ لاش کا ڈی کمپوزیشن کا عمل ابتدائی مرحلے میں تھا، بچی کے چہرے کے دائیں طرف نیل کے نشانات جبکہ کانوں اور ناک سے خون نکل رہا تھا۔ فاطمہ کی آنکھیں سوج چکی تھیں اور زبان دانتوں تلے دبی ہوئی تھی، پیشانی کی دائیں طرف چوٹ، سینے کی دائیں طرف زخموں نشانات تھے جبکہ ٹیشوز کے نیچے بھی خون جمع تھا۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق فاطمہ کی کمر میں 5 سے 2 سینٹی میٹر زخم، کمر کی نچلی طرف 6 سینٹی میٹر زخم، کمر کی بائیں طرف 2 سینٹی میٹر، ہاتھ سے بازو تک 10 سینٹی میٹر اور دائیں ہاتھ پر 6 سینٹی میٹر گہرا زخم کا نشان موجود تھا۔ بچی کے بائیں ہاتھ میں بھی سوراچ کے نشانات اور سر پر چوٹیں موت سےپہلے کی ہیں اور بچی سے زیادتی کیے جانے کا بھی انکشاف ہوا ہے۔

یاد رہے کہ واقعہ 16 اگست 2024ء کو خیرپور میں بااثر پیر کی حویلی میں پیش آیا تھا جہاں 10 سالہ فاطمہ فرڑو کے پراسرار طو رپر جاں بحق ہونے کا پتہ چلا اور بچی کی لاش کی ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی تھی۔ بچی کو پوسٹ مارٹم کے بغیر دفن کیا جا چکا تھا اور پولیس بچی کا میڈیکل کیے بغیر کیس داخل دفتر کر چکی تھی، بچی کے والدین نے بتایا کہ وہ ان کے مرشد کے گھر کام کرتی تھی جسے غربت کی وجہ سے وہاں چھوڑا تھا۔

فاطمہ فرڑو کے والدین نے بیان دیا کہ وہ 3 دنوں سے بیمار تھی اور اس وجہ سے فوت ہو گئی تاہم پولیس کارروائی کے بعد کہا کہ وہ تشدد سے جاں بحق ہوئی ہے اور ورثاء کی طرف سے ملزموں کو گرفتار کرنے کیلئے احتجاج بھی کیا گیا۔ مدعی مقدمہ اور فاطمہ کی والدہ شبنم نے ویڈیو پیغام میں انکشاف کیا کہ اسے ملزمہ حنا شاہ کی چچی نے دھمکیاں دیتے ہوئے کہا کہ اسد شاہ تک رہو حنا شاہ پر بات نہ کرنا ورنہ تمہاری خیر نہیں۔

فاطمہ فرڑو کی والدہ نے اپنے بیان میں کہا کہ اسد شاہ اور حنا شاہ میں سے کسی کو رعایت نہیں دوں گی سزا دلوا کر انصاف لے کر ہی دم لوں گی۔ واضح رہے کہ 19 اگست کو پولیس نے ملزم اسد شاہ سے تفتیش کے بعد رانی پور ہسپتال کے ڈسپنسر امتیاز میر کو گرفتار کیا تھا جو فاطمہ کا بااثر پیر کے گھر پر علاج کرتا تھا جبکہ محکمہ سندھ نے انکشاف کیا کہ وہ ہسپتال میں ڈسپنر نہیں بلکہ نائب قاصد ہے۔
 

Nebula

Minister (2k+ posts)
وہ ہسپتال میں ڈسپنر نہیں بلکہ نائب قاصد ہے

System is broken. Who going to give justice. How many Fatima we will loss.