گوگل اور ٹک ٹاک معلومات کے مطابق عائشہ اکرم عمر ہے اٹھائیس سال۔ دوست کے ساتھ ! مکرر پڑھیے ! دوست کے ساتھ ٹک ٹاک بناتی ہے اس کا نام ہے سہیل اور ایک ان کا کیمرہ مین بھی صدام نام کا
اور ٹک ٹاک کیا ہے؟؟ کسی میں ڈانس ہے تو کسی میں سہیل محترمہ کے گالوں پہ ہاتھ پھیرتا ہے تو کہیں محترمہ سہیل کے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟ محترمہ کی والدہ ان سے ناراض ہیں. لیکن ٹک ٹاک پر ایک لاکھ بیس ہزار محترمہ کے فالورز ہیں۔
محترمہ ٹک ٹاک پر خود بتاتی ہیں کہ فلاں تاریخ کو وہ مینار پاکستان جائیں گی.چنانچہ فالورز یعنی تماش بین پہلے ہی مینار پاکستان پہنچ گئے۔ پھر محترمہ وہاں دوستوں کے ساتھ انٹر ہوتی ہیں اور سہیل کی بانہوں میں لپٹ کر ٹک ٹاک بناتی ہیں۔ ہر طرف لڑکوں کا ہجوم ہے۔ چند فالورز کے کہنے پر جنگلے کے پیچھے بند جگہ پر "مزید خصوصی پوز" کی فرمائش ہوئی تو چوکیدار نے کہا کہ لڑکی اس دروازے سے اور باقی دوسری طرف سے اندر آ جاؤ۔( ڈیلی پاکستان والے یاسر شامی کی ویڈیو میں محترمہ کا یہ اپنا انٹرویو ہے۔ سن لیجئے) اس خفیہ جگہ پر دور دور تک کوئی اور لڑکی نہیں ہے اور لڑکے بھی سب ٹک ٹاکر اور اس کے اپنے فالورز اور یوٹیوبر ہیں۔ جیسی روح ویسے فرشتے۔ جب چند فالورز کی فرمائش پر "مزید خصوصی پوز" کے لیے محترمہ نے ان "چند مقربین" کو جنگلے کے پیچھے بلایا تو باقی فالوورز نے سوچا دور سے حسد پر گزارا کیوں ؟ یہ سارا ہجوم محترمہ کے اپنے بلانے پر وہاں تشریف لایا تھا۔ سو ایسے لڑکوں میں ایک لڑکی جس کے سینے کے گرد خصوصی پوز کے لیے دوست نے بازو لپیٹے ہوں وہ نشان عبرت بنے تو حیرت کیسی؟
لیکن رکیے نشان عبرت کیسی؟ وہ تو وائرل ہوچکی ہے۔ اس کی فین فالونگ ایک لاکھ سے بیس لاکھ تک ہو چکی ہے اور یہی ٹک ٹاکرز کی منزل ہے۔ اسی مقصد کے لیے کبھی یہ۔لوگ اپنی جھوٹی موت کی خبر دیتے ہیں تو کبھی اپنے سچے سکینڈل وائرل کرتے ہیں۔ آگے چلیے۔
یہ واقعہ محترمہ نے خود وائرل کیا ہے۔ دو دن تک تو کسی کو پتا ہی نہ تھا کہ کیا کچھ ہوا بھی یا نہیں۔ پھر تیسرے محترمہ تھانے پہنچی ایف آئی آر کروائی اور مین سٹریم میڈیا کا ہائی لائٹ موضوع بن گئی۔ جی ہاں تین دن بعد۔ یہ سارا ڈرامہ اس کا اور اس کے اپنے فالورز کا تھا۔کیا باقی سارے لاہوری سوئے ہوئے تھے۔ کوئی اخباری نمائندہ۔کل ٹی وی کا نمائندہ۔ یہ سب تین دن سوئے رہے یا اصحاب کہف کی غار میں چھپے ہوئے تھے۔
اب ان کی فین فالونگ دیکھ کر نہ جانے کتنی لڑکیاں بھرے مجمعوں میں گھسیں گے تاکہ ان کے ساتھ بھی کچھ ہو اور وہ بھی وائرل ہوں
اور حد یہ ہے کہ گالیاں ہمارے معاشرے کو پڑ رہی ہیں اور وہ لوگ دے رہیں جو اس سب فساد کی جڑ ہیں
[]تحریرو تحقیق :معوض جبلی[]