Sohraab
Prime Minister (20k+ posts)
صدر یحییٰ خان عیش و عشرت کا دلدادہ تھا۔ ایک روز قصرِصدارت میں مشہور خوبصورت اداکارہ ترانہ کو بلوایا ۔ اداکارہ ترانہ صدر یحییٰ سے ملاقات کے لیے اپنی کار پر سوار پریذیڈنٹ ہاؤس پہنچی۔ سنتری نے گاڑی کو بلاروک ٹوک اندر جانے دیا ۔ رات گئے جب ملاقات کے بعد واپس جانے لگی تو مرکزی دروازے پر موجود چاق و چوبند جوان نے اداکارہ ترانہ کو پرزور سیلیوٹ کیا ۔ اس پذیرائی پر اداکارہ ترانہ رک گئی اور سنتری سے پوچھا
" جب میں اندر گئی تھی تو تم نے سیلیوٹ نہیں*کیا تھا۔ جب کہ اب واپس جاتے ہوئے تم سیلیوٹ کررہے ہو؟ اسکی کیا وجہ ہے ؟ "
سپاہی نے بلاجھجک جواب دیا
" میڈم ! داخل ہوتے وقت آپ صرف ترانہ تھیں۔ اب صدرِ مملکت سے ملاقات کے بعد آپ " قومی ترانہ " بن چکی ہیں۔ اور قومی ترانے کو سیلیوٹ کرنا میرا فرض ہے "
---------------------------
وزیر اعلٰی پنجاب جناب شہباز شریف 1998 کے شروع میں بھل صفائی کے سلسلہ میں قصورگئے تو انھوں نے ایک گورنمنٹ پرائمری سکول کا دورہ کیا۔ اسکی پانچویں جماعت کے سترہ بچوں میں سے کسی کو معلوم نہ تھا کہ پاکستان کا دارالحکومت کہاں واقع ہے۔ حتٰی کہ کوئی بچہ بانیِ پاکستان کا نام بھی نہ بتا سکا۔ وزیر اعلیٰ نے پوچھا نوازشریف کون ہے۔ تو ایک بچہ نے معصومیت سے جواب دیا بابرہ شریف کا بھائی؛؛
------------------------
ایک بار میاں نواز شریف اپنے وفد کے ساتھ چین کا دورہ کرنے گئے تو جہاز کے اندر انہوں نے سری پائے سے بھرے پیالے سب کو دیئے اور خود بھی یہ کھانا کھایا۔ اِس کے بعد ہریسہ، نہاری، حلیم، تکے ، کباب اور بہت سا دوسرا سامانِ خوردونوش آگیا۔ سب نے ڈٹ کرکھایا، پھر لسی کے بڑے بڑے گلاس بھی پینے کو ملے۔ پیٹ بھر کر کھانا کھانے کے بعد سب لوگ نیند کی آغوش میں چلے گئے، بلکہ نیند کی شدت سے میاں صاحب سمیت سب افراد گررہے تھے۔ چین میں ہوائی اڈے پر اُترے تو وزیراعظم سمیت تمام قافلے کو فوراَ ہوٹل پہنچایا گیا۔ وفد کے تمام ارکان جی بھر کر سوئے اور اگلے روز اُٹھے تو پھر سرکاری دورہ شروع ہوا۔
-----------------
ملک معراج خالد مرحوم نگران وزیراعظم بنے تو انہوں نے قوم کو سادگی سکھانے کے لیے اپنے لیے ہر قسم کا سرکاری پروٹوکول منع کردیا ۔ ایک دن وہ مال سے گذررہے تھے کہدیکھا کہ پولیس نے ہرطرف ٹریفک جام کررکھی ہے۔ آدھا گھنٹہ انتظار کے بعد انہوں نے گاڑی کے قریب گذرتے ایک پولیس کانسٹیبل سے پوچھا
" بھإئی ۔ پچھلے آدھے گھنٹے سے ٹریفک کیوں بند ہے ؟ ۔
کانسٹیبل نے انہیں پہچانے بغیر کہا " جناب گورنر پنجاب خواجہ رحیم گذر رہے ہیں"
ملک معراج خالد نے موبإئیل پر خواجہ رحیم سے رابطہ کیا اور کہا کہ " آپ کے پروٹوکول میں میں بھی پھنسا ہوا ہوں۔ "
خواجہ رحیم نے قہقہہ لگایا اور کہا " ملک صاحب ۔ معذرت۔ لیکن اب تو میرے گذرنے کے بعد ہی ٹریفک کھلے گی اور میرے گذرنے میں ابھی 1 گھنٹہ باقی ہے"
چنانچہ ایسا ہی ہوا۔ خواجہ رحیم کا قافلہ کافی دیر بعد گذرا ۔ اور سادگی پسند وزیراعظم صاحب کی گاڑی کو 2 گھنٹے کے بعد آگے بڑھنا نصیب ہوا۔
-------------------
جنرل فیض علی چشتی بیان کرتے ہیں جنرل ضیاء الحق کے ہمراہ ہم فرانس کے دورے پر گئے، وفد کے ارکان کو ایک اعلی ہوٹل میں ٹھہرایا گیا ۔ اسی شام جنرل ضیاء الحق کے دروازے پر دستک ہوئی ، صدر مملکت نے دروازہ کھولا تو دیکھا کہ دروازے پر سفید وردی میں ملبوس ایک گورا کھڑا ہے جس کے کندھے اور سینے پر کافی تمغے اور پٹیاں لگی ہوئی تھیں۔
صدر مملکت اسے دیکھ کر فوراً تپاک سے ہاتھ ملایا ، بغلگیر ہوئے اور اسے اندر آنے کی دعوت دی ۔ علیک سلیک اور خیر خیریت دریافت کرنے کے بعد صوفے پر بٹھایا اور فرانس کے قومی حالات اور فرانس پاکستان فوجی تعاون پر بات چیت شروع کی۔
چند منٹوں*کے بعد گورے شخص نے کہا " جناب مجھے آپکی باتیں سمجھ نہیں آرہیں۔ لیکن پھر بھی میرے لائق جو خدمت ہے وہ بتائیں میں حاضر ہوں
جنرل ضیاء الحق حیران ہوگئے۔ اور اب اس شخص کا تعارف پوچھا ۔ جس پر گورا بولا
"جناب میں اس ہوٹل کا بیرا ہوں ۔ اور آپکی سروس کے لیے آیا تھا۔ کوئی خدمت ہوتو بتائیے"
جنرل چشتی بیان کرتے ہیں کہ یہ سن کر صدر ضیاالحق بڑے شرمندہ ہوئے۔ اس گورے کو رخصت کیا ۔ اور بعد میں، میں نے صدر مملکت سے پوچھا ۔ آپ نے اس بیرے کو کیا سمجھا تھا ۔
جنرل صاحب کہنے لگے۔۔۔۔ " میں سمجھا تھا فرانسیسی بحریہ کے ایڈمرل ملاقات کے لیے آئے ہیں۔ "
اسکے بعد ہم دونوں جنرل ہنسی سے لوٹ پوٹ ہوتے رہے۔
-----------------
محترمہ بےنظیر بھٹو جب 1993 میں*دوسری بار وزیراعظم بنی تو انہوں نے پی پی پی کے سردار فاروق لغاری کو صدر پاکستان منتخب کروایا۔ جب چاہتی لغاری صاحب کو اپنے پاس طلب کر لیتی تھیں۔ پہلے انہیں مسٹر لغاری اور بعد مسٹر پریذیڈنٹ کہہ کر پکارتی تھیں۔
عینی شاہدین کے مطابق جب آخری دور میں دونوں میں اختلافات عروج پر پہنچ گئے تو بےنظیر خود چل کر ایوانِ صدر گئیں اور لغاری صاحب سے ملاقات میں انہیں " بھائی لغاری " کہہ کر مخاطب کیا۔
فاروق لغاری نے کہا " میڈم ۔ یہ ملاقات وزیراعظم اور صدر مملکت کے درمیاں ہے۔ بہن بھائی کے درمیان نہیں۔ اس لیے بھائی بھائی کی بجائے سیاسی حالات پر بات کیجئے۔ "
تاکید کے باوجود بھی جب بےنظیر بھٹو " بھائی لغاری " کہنے سے باز نہ آئیں تو فاروق لغاری اٹھ کھڑے ہوئے ۔ اپنی اہلیہ کو بلا کر کہنے لگے " تمھاری نند آئی ہیں۔ ان سے گپ شپ لگاؤ۔ میں ضروری کام سے آفس جارہا ہوں " اور گاڑی میں بیٹھ کر باہر چلے گئے۔
اسکے تھوڑے دن بعد ہی صدر لغاری نے بےنظیر کی حکومت توڑ کر نگران حکومت بنا ڈالا
-----------------
ایک بار بے نظیر بھٹو نے اپنے بیٹے کی سالگرہ بحری جہاز میں منانے کا فیصلہ کیا۔ سالگرہ کے انتظامات مکمل ہوگئے تو کیک کاٹا گیا ۔اُسی دوران بچے نے اپنی اِس خواہش کا اظہار کیا کہ وہ بندر کا تماشا دیکھنا چاہتا ہے۔ بچے کی ضد بڑھی تو بے نظیر بھٹو نے اُسے پورا کرنے کا حکم دیا ۔ آخر سرکاری کارندے ایک ہیلی کاپڑ میں*کراچی کی دُور دراز بستی سے ایک مداری کو مع بندر ڈھونڈ لائے۔ تب بچے سمیت تمام مہانوں نے بندر کا تماشا دیکھا اور پھر بندر والے کو ہیلی کاپڑ کے ذریعے واپس چھوڑا گیا۔
--------------
ضیاء الحق کابینہ کے ایک وزیر کے پاس اس وقت کے برطانوی سفیر آئے اور انہوں نے کہا ہے کہ جناب میں نے اٹک قلعہ کی حالت زار دیکھی ہے اوراس کی بہتری کیلئے برطانیہ حکومت سے بات کی ہے آپ مجھے ایک پرپوزل بنا دیں اور بتائیں کہ برطانیہ اٹک قلعے کی تزئین و آرائش کیلئے کیا کر سکتا ہے ۔اس پر وزیر صاحب نے کہا چھوڑیں جی اٹک قلعے کو آپ یہ بتائیں آپ کی ایمبیسی نے میرے چھوٹے بھائی کا ویزہ کیوں نہیں لگایا
--------------
Last edited by a moderator: