Zafar Bukhari
Politcal Worker (100+ posts)
پاکستان میں مبینہ بھارتی جاسوس کی گرفتاری پاکستانی اردو میڈیا کا اہم موضوع بنی ہوئی ہے اور اس کے ذریعے انڈیا پر پھر بلوچستان میں دخل اندازی کے الزام لگائے گئے ہیں۔
اخبار جنگ لکھتا ہے کہ پاکستان پہلے بھی بھارتی مداخلت ٹھوس ثبوت دے چکا ہے لیکن بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ایک بڑے ایجنٹ کی گرفتاری کے بعد اس بارے میں کوئی شک نہیں بچا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ ملزم کا نام كلبھوشن یادو ہے اور وہ سلیم عمران کے نام سے خفیہ سرگرمیاں انجام دے رہے تھے۔
اخبار کا دعویٰ ہے کہ گرفتاری کے بعد انھوں نے اعتراف کیا ہے کہ وہ بھارتی بحریہ میں کمانڈر رینک کے افسر ہیں اور بلوچستان کے علیحدگی پسند رہنماؤں سے ان کے رابطے ہیں۔
نوائے وقت نے پاکستانی وزیر اعظم کے خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز کے اس بیان کا ذکر کیا ہے کہ را کے افسر کی گرفتاری کا معاملہ بھارت کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔
اخبار کہتا ہے کہ پاکستان بننے کے بعد سے بھارت پاکستان میں دخل اندازی کرتا رہا ہے اور بلوچستان میں اس کا جاسوسی کا نیٹ ورک ہے جہاں سے ٹریننگ حاصل کر کے دہشت گرد بلوچستان ہی نہیں بلکہ کراچی اور دوسرے شہروں میں بھی گھناؤنی کارروائیاں کرتے ہیں۔
نوائے وقت نے پاکستانی وزیر اعظم کے خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز کے اس بیان کا ذکر کیا ہے کہ را کے افسر کی گرفتاری کا معاملہ بھارت کے ساتھ اٹھایا جائے گا
اخبار ایکسپریس کہتا ہے کہ اس بات کو خود بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے تسلیم کیا ہے کہ بنگلہ دیش کو پاکستان سے الگ کرنے میں بھارتی فوج کا ہاتھ تھا، اس لیے بلوچستان میں بھارت کی مداخلت شک اور شبہے سے بالاتر ہے اور اس بات کو اب سب جان چکے ہیں۔
اخبار لکھتا ہے کہ حیران کن بات یہ ہے کہ افغانستان جیسے چھوٹے سے ملک میں بھارت نے 15 قونصل خانے بنا رکھے ہیں جو پاکستان سے متصل شہروں میں قائم ہیں۔
وہیں دنیا کا کہنا ہے کہ یہ بہت عجیب ہے کہ بھارتی جاسوس کی گرفتاری پر حکومت پاکستان کی طرف سے کوئی بیان جاری نہیں ہوا۔
بھارتی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ مبینہ جاسوس پہلے بحریہ میں کام کرتے تھے، لیکن اب ان کا حکومت ہند سے لینا دینا نہیں ہے۔
اخبار کا کہنا ہے کہ لیکن اب تک نہ تو پاکستانی وزیر اعظم نے منہ کھولا ہے اور نہ ہی وزیر داخلہ نے، جبکہ یہ لوگ چھوٹی چھوٹی بات پر شیخی بگھارنے لگتے ہیں۔
اس کے علاوہ جسارت نے پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری کے اس بیان پر اداریہ لکھا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اگر بھارت میں اقلیتی برادری کا شخص صدر بن سکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں۔
Image copyrightAP
اخبار کہتا ہے کہ ایسا اس لیے نہیں ہو سکتا کیونکہ 1973 میں ان کے نانا ذولفقار علی بھٹّو کے بنائے آئین میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ ہولی پر ہندوؤں کو خوش کرنے کے لیے بلاول نے بے سر پاؤں کا خطاب کر دیا لیکن انھیں تو یہ بھی نہیں معلوم ہوگا کہ ہولی کیوں منائی جاتی ہے اور دیوالی کیا ہوتی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ کسی ملسمان یا سکھ کو صدر بنا کر بھارت صرف غیر جانبداری کا ڈھونگ کرتا ہے کیونکہ وہاں صدر کے پاس کوئی طاقت نہیں ہوتی ہے، یہ عہدے صرف نمائشی ہوتا ہے۔
وہیں ایرانی صدر کی پاکستانی دورے پر اوصاف نے لکھا ہے کہ یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دونوں ممالک کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اور امریکہ سمیت کئی ملک نہیں چاہتے کہ پاکستان اور ایران کے تعلقات بہتر ہوں۔
اخبار کی رائے ہے کہ دونوں ممالک کی طویل مشترکہ سرحدیں ہیں اور ان کے بہتر تعلقات نہ صرف دو طرفہ رشتوں کو بلکہ اس پورے علاقے میں موجود ممالک کے تعلقات میں بہتری کا راستہ تیار کر سکتے ہیں۔
http://www.bbc.com/urdu/regional/2016/03/160327_india_pakistan_espionage_arrest_press_review_sz
اخبار جنگ لکھتا ہے کہ پاکستان پہلے بھی بھارتی مداخلت ٹھوس ثبوت دے چکا ہے لیکن بھارتی خفیہ ایجنسی را کے ایک بڑے ایجنٹ کی گرفتاری کے بعد اس بارے میں کوئی شک نہیں بچا ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ ملزم کا نام كلبھوشن یادو ہے اور وہ سلیم عمران کے نام سے خفیہ سرگرمیاں انجام دے رہے تھے۔
اخبار کا دعویٰ ہے کہ گرفتاری کے بعد انھوں نے اعتراف کیا ہے کہ وہ بھارتی بحریہ میں کمانڈر رینک کے افسر ہیں اور بلوچستان کے علیحدگی پسند رہنماؤں سے ان کے رابطے ہیں۔
نوائے وقت نے پاکستانی وزیر اعظم کے خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز کے اس بیان کا ذکر کیا ہے کہ را کے افسر کی گرفتاری کا معاملہ بھارت کے ساتھ اٹھایا جائے گا۔

اخبار کہتا ہے کہ پاکستان بننے کے بعد سے بھارت پاکستان میں دخل اندازی کرتا رہا ہے اور بلوچستان میں اس کا جاسوسی کا نیٹ ورک ہے جہاں سے ٹریننگ حاصل کر کے دہشت گرد بلوچستان ہی نہیں بلکہ کراچی اور دوسرے شہروں میں بھی گھناؤنی کارروائیاں کرتے ہیں۔
نوائے وقت نے پاکستانی وزیر اعظم کے خارجہ امور کے مشیر سرتاج عزیز کے اس بیان کا ذکر کیا ہے کہ را کے افسر کی گرفتاری کا معاملہ بھارت کے ساتھ اٹھایا جائے گا
اخبار ایکسپریس کہتا ہے کہ اس بات کو خود بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی نے تسلیم کیا ہے کہ بنگلہ دیش کو پاکستان سے الگ کرنے میں بھارتی فوج کا ہاتھ تھا، اس لیے بلوچستان میں بھارت کی مداخلت شک اور شبہے سے بالاتر ہے اور اس بات کو اب سب جان چکے ہیں۔

اخبار لکھتا ہے کہ حیران کن بات یہ ہے کہ افغانستان جیسے چھوٹے سے ملک میں بھارت نے 15 قونصل خانے بنا رکھے ہیں جو پاکستان سے متصل شہروں میں قائم ہیں۔
وہیں دنیا کا کہنا ہے کہ یہ بہت عجیب ہے کہ بھارتی جاسوس کی گرفتاری پر حکومت پاکستان کی طرف سے کوئی بیان جاری نہیں ہوا۔
بھارتی وزارت خارجہ نے کہا ہے کہ مبینہ جاسوس پہلے بحریہ میں کام کرتے تھے، لیکن اب ان کا حکومت ہند سے لینا دینا نہیں ہے۔
اخبار کا کہنا ہے کہ لیکن اب تک نہ تو پاکستانی وزیر اعظم نے منہ کھولا ہے اور نہ ہی وزیر داخلہ نے، جبکہ یہ لوگ چھوٹی چھوٹی بات پر شیخی بگھارنے لگتے ہیں۔
اس کے علاوہ جسارت نے پیپلز پارٹی کے رہنما بلاول بھٹو زرداری کے اس بیان پر اداریہ لکھا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ اگر بھارت میں اقلیتی برادری کا شخص صدر بن سکتا ہے تو پاکستان میں کیوں نہیں۔
Image copyrightAP
اخبار کہتا ہے کہ ایسا اس لیے نہیں ہو سکتا کیونکہ 1973 میں ان کے نانا ذولفقار علی بھٹّو کے بنائے آئین میں اس کی گنجائش نہیں ہے۔
اخبار لکھتا ہے کہ ہولی پر ہندوؤں کو خوش کرنے کے لیے بلاول نے بے سر پاؤں کا خطاب کر دیا لیکن انھیں تو یہ بھی نہیں معلوم ہوگا کہ ہولی کیوں منائی جاتی ہے اور دیوالی کیا ہوتی ہے۔
اخبار کہتا ہے کہ کسی ملسمان یا سکھ کو صدر بنا کر بھارت صرف غیر جانبداری کا ڈھونگ کرتا ہے کیونکہ وہاں صدر کے پاس کوئی طاقت نہیں ہوتی ہے، یہ عہدے صرف نمائشی ہوتا ہے۔
وہیں ایرانی صدر کی پاکستانی دورے پر اوصاف نے لکھا ہے کہ یہ دورہ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب دونوں ممالک کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اور امریکہ سمیت کئی ملک نہیں چاہتے کہ پاکستان اور ایران کے تعلقات بہتر ہوں۔
اخبار کی رائے ہے کہ دونوں ممالک کی طویل مشترکہ سرحدیں ہیں اور ان کے بہتر تعلقات نہ صرف دو طرفہ رشتوں کو بلکہ اس پورے علاقے میں موجود ممالک کے تعلقات میں بہتری کا راستہ تیار کر سکتے ہیں۔
http://www.bbc.com/urdu/regional/2016/03/160327_india_pakistan_espionage_arrest_press_review_sz
Last edited by a moderator: