سہیل وڑائچ نے جو کہا ہے کہ اب عمران خان کو اقتدار دیے بغیر چارہ نہيں ہے۔ وزیراعظم بنا کر سازش کر کے ناکام کر کے نکال دیں گے تو بہتر ہے۔
یہی منصوبہ جنرل باجوہ کا 2018 میں تھا کہ وزیراعظم بنا کر ذلیل کریں گے اور 2019 میں نکال دیں گے۔ ایکسٹینشن کے بعد یہ پلان پکا تھا۔ ڈگی کے اندر ملاقاتیں ہو چکی تھیں۔ اس کے بعد لندن میں ملاقاتیں ہوچکی تھیں۔
خان صاحب کی حکومت کے خلاف لفافوں کے پٹے کھول دیے گئے تھے۔ اور وہ ہر طرف سے حملہ آور تھے۔ اندر سے جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے ٹاؤٹ ساتھ ملے ہوئے تھے۔
ڈاکٹر شہبازگل کا کہنا ہے کہ انہيں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ان پر اتنی خوفناک یلغار کیوں ہو رہی ہے۔ وہ تو بعد میں پتہ چلا کہ جنرل باجوہ اس کے پیچھے تھا۔
عمران خان صحیح معنوں میں ڈیموکریٹ ہے۔ وہ برداشت کرتا رہا۔ اور اللہ کا نام لے کر محنت کرتا رہا۔ آخر 2020 آیا تو کروناوائرس آ گیا۔
جنرل باجوہ خوشی سے نڈھال ہوگیا کہ اب تو نہيں بچے گا۔ چین اور امریکہ جیسی طاقتوں کی معیشتیں نہیں بچیں تو پاکستان کیا چیز ہے۔ دوسری طرف اس نے میاں شکیل الرحمٰن اور میاں عامر کو کہا کہ حملے تیز کردو۔ بچ کر جانے نہ پائے۔ اپنے شکاریوں کو کہو اچھل اچھل کر حملے کریں۔
درویش لیکن صدائے سگہا سے بےنیاز اپنے لوگوں کی خدمت میں عبادت سمجھ کر جتا رہا۔ اس کی حسن نیت دیکھ کر ذات باری تعالٰی نے معجزہ کیا اور پاکستان کروناوائرس سے پہلے سے بھی مضبوط بن کر نکلا۔
ایک صدی کے سب سے بڑے میڈیکل کرائسس سے پیدا ہونے والے اقتصادی بحران نے دنیا بھر کی معیشتیں تباہ کردیں لیکن عمران خان پاکستان کو صحیح و سالم نکال لایا۔ دنیا عمران خان کی قیادت کی مثالیں دیتی تھی۔
اس سب کے باوجود جنرل باجوہ کو شرم نہ آئی بلکہ بائولا ہو کر حکومت کو پڑ گیا اور چوروں کو لے آیا۔
اب سہیل وڑائچ کہتا ہے آؤ عمران خان کو اقتدار دیں کیونکہ مجبوری ہے اور اسی طرح کا پلان پھر بنائیں۔
یہی منصوبہ جنرل باجوہ کا 2018 میں تھا کہ وزیراعظم بنا کر ذلیل کریں گے اور 2019 میں نکال دیں گے۔ ایکسٹینشن کے بعد یہ پلان پکا تھا۔ ڈگی کے اندر ملاقاتیں ہو چکی تھیں۔ اس کے بعد لندن میں ملاقاتیں ہوچکی تھیں۔
خان صاحب کی حکومت کے خلاف لفافوں کے پٹے کھول دیے گئے تھے۔ اور وہ ہر طرف سے حملہ آور تھے۔ اندر سے جہانگیر ترین اور علیم خان جیسے ٹاؤٹ ساتھ ملے ہوئے تھے۔
ڈاکٹر شہبازگل کا کہنا ہے کہ انہيں سمجھ نہیں آرہی تھی کہ ان پر اتنی خوفناک یلغار کیوں ہو رہی ہے۔ وہ تو بعد میں پتہ چلا کہ جنرل باجوہ اس کے پیچھے تھا۔
عمران خان صحیح معنوں میں ڈیموکریٹ ہے۔ وہ برداشت کرتا رہا۔ اور اللہ کا نام لے کر محنت کرتا رہا۔ آخر 2020 آیا تو کروناوائرس آ گیا۔
جنرل باجوہ خوشی سے نڈھال ہوگیا کہ اب تو نہيں بچے گا۔ چین اور امریکہ جیسی طاقتوں کی معیشتیں نہیں بچیں تو پاکستان کیا چیز ہے۔ دوسری طرف اس نے میاں شکیل الرحمٰن اور میاں عامر کو کہا کہ حملے تیز کردو۔ بچ کر جانے نہ پائے۔ اپنے شکاریوں کو کہو اچھل اچھل کر حملے کریں۔
درویش لیکن صدائے سگہا سے بےنیاز اپنے لوگوں کی خدمت میں عبادت سمجھ کر جتا رہا۔ اس کی حسن نیت دیکھ کر ذات باری تعالٰی نے معجزہ کیا اور پاکستان کروناوائرس سے پہلے سے بھی مضبوط بن کر نکلا۔
ایک صدی کے سب سے بڑے میڈیکل کرائسس سے پیدا ہونے والے اقتصادی بحران نے دنیا بھر کی معیشتیں تباہ کردیں لیکن عمران خان پاکستان کو صحیح و سالم نکال لایا۔ دنیا عمران خان کی قیادت کی مثالیں دیتی تھی۔
اس سب کے باوجود جنرل باجوہ کو شرم نہ آئی بلکہ بائولا ہو کر حکومت کو پڑ گیا اور چوروں کو لے آیا۔
اب سہیل وڑائچ کہتا ہے آؤ عمران خان کو اقتدار دیں کیونکہ مجبوری ہے اور اسی طرح کا پلان پھر بنائیں۔