یہ گنوار نہیں تھے۔ کسی جنگل سے نہیں آئے تھے۔ ان پڑھ بھی نہیں تھے۔
یہ کسی سیاسی جماعت کے، دریاں بچھانے والے، کارکن بھی نہیں تھے۔ نہ یہ دیہاڑی پر کام کرنے والے مزدور تھے۔ کسی عرس کے لنگر پر ٹوٹ پڑنے والے خوش عقیدہ عوام سے بھی ان کا کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ ملک کے سب سے زیادہ تعلیم یافتہ طبقے کی نمائندگی کر رہے تھے۔ نئی صدی کو بھی دو عشرے ہو چکے۔ اس ملک میں ڈاکٹر اور انجینئر بننا آج بھی سنہری خواب ہے۔
یہ ایک سدا بہار چوائس ہے۔ سارے پیشوں پر فوقیت رکھنے والے دو پیشے! سی ایس ایس بھی خوب ہے۔ عساکرِ پاکستان کا کیریئر بھی جلال و شوکت رکھتا ہے۔ بینک کاری میں بھی آرام سے گزرتی ہے۔ ایم بی اے کا بخار بھی اپنا زور دکھا کر اتر چکا‘ مگر ماں باپ کی بھاری اکثریت آج بھی بچوں کو ڈاکٹر بنانا چاہتی ہے یا انجینئر! آج بھی ذہین ترین طلبہ و طالبات ڈاکٹری کی طرف جاتے ہیں یا انجینئری کی طرف! اگر یہ کہا جائے کہ ملک کی کریم کا زیادہ حصہ آج بھی انہی دو شعبوں کا انتخاب کرتا ہے تو ہرگز مبالغہ نہ ہو گا۔
کہا جاتا ہے کہ یہ انجینئر تھے۔ کھانا کھلا تو جو مظاہرہ ملک کی اس کریم نے کیا اس کی وڈیو وائرل ہو چکی ہے اور اب تک، ملک کے اندر اور ملک سے باہر بے شمار لوگ اسے دیکھ چکے ہیں۔ قیامت کا سماں تھا۔ شمشیر زنی، نیزہ بازی، تیر اندازی اور گھڑ سواری کا مظاہرہ بیک وقت ہو رہا تھا۔ مختصر ترین تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ڈشوں،
پراتوں اور ڈونگوں سے پلاؤ، چمچوں کے ذریعے نہیں، براہ راست پلیٹوں سے نکالا جا رہا تھا۔ کچھ بہادر‘ ہاتھوں سے چاول نکال نکال کر پلیٹوں میں ڈال رہے تھے۔ میدان کار زار تھا۔ کشتوں کے پشتے لگ رہے تھے۔ اس ساری جنگی کارروائی کے دوران جو شور تھا، پانی پت کے معرکوں کی یاد دلا رہا تھا۔ کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی۔ جو شے جس کے ہاتھ آئی لے اُڑا۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ انجینئرز کے بجائے کوئی اور گروہ بھی ہوتا تو مظاہرہ ایسا ہی ہونا تھا۔ ایسا نہیں کہ باقی سب شائستگی کے پیکر ہیں اور صرف ایک طبقہ اس ہلڑ بازی کا مرتکب ہوا ہے۔ یہ صرف ایک جھلک ہے قومی سطح پر ہمارے ابتذال اور پستی کی! شادیوں پر جب کھانا کُھلتا ہے تو اچکنوں، شیروانیوں، ریشمی واسکٹوں، تھری پیس سوٹوں اور برانڈڈ نکٹائیوں میں ملبوس شرفا جس ''شرافت‘‘ اور ''ٹھہراؤ‘‘ کا ثبوت دیتے ہیں‘ اس سے ہمارے قومی مائنڈ سیٹ پر خوب روشنی پڑتی ہے۔ اچھے خاصے متین حضرات کو ایسی نشست تاکتے دیکھا ہے
جہاں سے میدان کار زار نزدیک پڑتا ہو اور حملہ کرنے میں پہل ہو سکتی ہو۔ ایک زمانے میں حکیم محمد سعید مرحوم نے شامِ ہمدرد کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ یہ خالص علمی اور ادبی تقاریب ہوتی تھیں مگر ان میں بھی حاضرین کی زیادہ تعداد چائے کے موقع پر ہڑبونگ مچا دیتی تھی۔ سیاسی پارٹیوں کے اجلاسوں کے حوالے سے بھی اس قسم کی خبریں آئے دن رپورٹ ہوتی ہیں کہ کارکنوں نے ساری رکاوٹیں توڑ ڈالیں اور وقت سے پہلے ہی کھانے پر پل پڑے۔ اس میں سب پارٹیاں، ایک جیسی ہیں۔ سب اسی زمین سے اٹھی ہیں۔ آسمان سے کوئی نہیں اتری۔
کیا بد نظمی اور اوچھے پن کا سلسلہ صرف کھانے تک محدود ہے؟ نہیں! یہ بیماری پورے وجود میں سرایت کیے ہوئے ہے۔ یہ برف کا ایک بہت بڑا تودہ ہے جو زیرِ آب چلا آ رہا ہے اور کھانے پر جو ہمارا طرز عمل ہے اس برفانی تودے کا صرف وہ ذرا سا حصہ ہے جو پانی سے باہر دکھائی دے رہا ہے۔ ملک کے معتبر ترین اور معزز ترین ایوان میں چند روز پہلے جو کچھ ہوا، جس طرح دشنام طرازی کی گئی، جس طرح بجٹ دستاویزات کو میزائلوں کے طور پر استعمال کیا گیا یہاں تک کہ خواتین کے چہرے زخمی ہو گئے اور جس طرح سب نے، حسب توفیق،
اس جوتم پیزار میں حصہ لیا اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہم سب، بطور قوم، شائستگی، نظم و ضبط اور خوش اطواری سے محروم ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہم، من حیث القوم، کرخت، درشت اور اکھڑ ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ کرختگی، درشتی اور اکھڑ پن صرف اس چیز کا نام نہیں کہ آپ کسی کو ڈانٹ دیں یا اونچی آواز میں کھردری بات کریں۔ کسی کا شکریہ نہ ادا کرنا، کسی کی گاڑی کے پیچھے گاڑی کھڑی کر دینا، قطار توڑ کر آگے بڑھنا،
جہاز میں کسی کی نشست پر اجازت لیے بغیر بیٹھ جانا، سڑک پر تھوکنا، سب کے سامنے ناک میں انگلی گھمانا، جمائی لیتے وقت منہ پر ہاتھ نہ رکھنا، سگرٹ اس طرح پینا کہ دھواں ساتھ بیٹھے ہوئے کی آنکھوں میں پڑے، دوسروں کی موجودگی میں، خاص طور پر بس یا ٹرین میں،
فون پر بلند آواز میں بات کرنا، باتھ روم کو استعمال کے بعد فلش نہ کرنا، یہ صرف چند مثالیں ہیں ہمارے اکھڑ پن، کھردرے پن اور کرختگی کی! اب تو دو سال ہونے کو ہیں کورونا نے مقید کر کے رکھ دیا ہے، ورنہ لاہور اور راولپنڈی کے درمیان سفر کے لیے یہ کالم نگار ہمیشہ ریل کار پارلر کو ترجیح دیتا ہے۔ ایسے ایسے تجربے ہوئے کہ خدا کی پناہ۔ ایک بار ایک صاحب نے فون پر، انتہائی بلند آواز میں کاروبار، ٹینڈروں اور نیلامیوں پر مشتمل گفتگو شروع کی۔ لاہور سے چلے، جہلم آ گیا۔ وہ لگے رہے۔ پورے ڈبے پر ان کی آواز چھائی رہی۔ ریلوے کا ایک اہلکار گزرا تو اس سے شکایت کی۔ اس نے بے بسی سے کہا کہ منع کیا تو جھگڑا کریں گے اور مزید شور مچے گا۔
کوئی افتاد پڑے، جیسے سیلاب، زلزلہ یا وبا، تو امدادی اشیا کی تقسیم ہمیں پوری طرح بے نقاب کر کے رکھ دیتی ہے۔ قطار بندی کا دور دور تک وجود نہیں ہوتا۔ چاروں طرف ہجوم اور عجیب بے رحم اور کٹ تھروٹ قسم کا عالم ہوتا ہے۔ بیک وقت سینکڑوں دست ہائے سوال دراز ہوتے ہیں۔ کوئی بہت کچھ لے اُڑتا ہے اور کسی کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا۔
یہ تو لینے والوں کا حال ہے۔ رہے دینے والے، تو انہیں بھی پروا نہیں کہ کسی قاعدے اور ترتیب سے تقسیم کریں اور مستحقین کی عزتِ نفس کا خیال رکھیں۔ سرکاری شخصیات تو ایسے مواقع پر یوں بھی صرف فوٹو سیشن میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ کسی قوم کی شائستگی کو جانچنا ہو اور یہ دیکھنا ہو کہ وہ کتنی مہذب ہے تو دو پہلوئوں کا جائزہ لو۔ ایک یہ دیکھو کہ ٹریفک کیسی ہے، دوسرے، یہ دیکھو کہ باتھ روم کتنے صاف ہیں۔
اب تو موٹر وے پر
بھی وہ پہلی سی بات نہیں رہی۔ کسی کو ہماری اصل نیچر جاننی ہے تو قصبوں کی ٹریفک کا حال دیکھے۔ لاقانونیت برہنہ ہو کر رقص کر رہی ہوتی ہے۔ بڑے شہروں کی ٹریفک بھی کم شرمناک نہیں۔ وفاقی دارالحکومت کی کسی شاہراہ پر رات کو کھڑے ہو جائیے۔ ہر پچیس تیس گاڑیوں کے بعد ایک گاڑی بتیوں کے بغیر جا رہی ہو گی۔ نوے پچانوے فی صد موٹر سائیکلوں کی عقبی بتیاں غائب ہیں۔ لین نام کی کوئی شے نہیں
، پوری سڑک آپ کی جاگیر ہے۔ سامنے سے آنے والا، روشنیاں، چاقو کی نوک کی طرح آپ کی آنکھوں میں چبھوتا ہے۔ آپ وقتی طور پر اندھے ہو جاتے ہیں۔ آپ نے بائیں طرف مُڑنے کا اشارہ دے رکھا ہے مگر سب یہی سمجھ رہے ہیں کہ آپ مذاق کر رہے ہیں چنانچہ سب آپ کو بائیں طرف سے اوور ٹیک کیے جا رہے ہیں۔ آپ خود بھی یہی کچھ کرتے ہیں!
انگریز کے بارے میں لطیفہ ہے کہ ایک ہو تب بھی قطار بناتا ہے۔ ہم بہت سے ہوں تب بھی نہیں بناتے‘ اور کھانا لیتے ہوئے تو بالکل نہیں۔ کیا خبر یہ زندگی کا آخری کھانا ہو!
یہ کسی سیاسی جماعت کے، دریاں بچھانے والے، کارکن بھی نہیں تھے۔ نہ یہ دیہاڑی پر کام کرنے والے مزدور تھے۔ کسی عرس کے لنگر پر ٹوٹ پڑنے والے خوش عقیدہ عوام سے بھی ان کا کوئی تعلق نہ تھا۔ یہ ملک کے سب سے زیادہ تعلیم یافتہ طبقے کی نمائندگی کر رہے تھے۔ نئی صدی کو بھی دو عشرے ہو چکے۔ اس ملک میں ڈاکٹر اور انجینئر بننا آج بھی سنہری خواب ہے۔
یہ ایک سدا بہار چوائس ہے۔ سارے پیشوں پر فوقیت رکھنے والے دو پیشے! سی ایس ایس بھی خوب ہے۔ عساکرِ پاکستان کا کیریئر بھی جلال و شوکت رکھتا ہے۔ بینک کاری میں بھی آرام سے گزرتی ہے۔ ایم بی اے کا بخار بھی اپنا زور دکھا کر اتر چکا‘ مگر ماں باپ کی بھاری اکثریت آج بھی بچوں کو ڈاکٹر بنانا چاہتی ہے یا انجینئر! آج بھی ذہین ترین طلبہ و طالبات ڈاکٹری کی طرف جاتے ہیں یا انجینئری کی طرف! اگر یہ کہا جائے کہ ملک کی کریم کا زیادہ حصہ آج بھی انہی دو شعبوں کا انتخاب کرتا ہے تو ہرگز مبالغہ نہ ہو گا۔
کہا جاتا ہے کہ یہ انجینئر تھے۔ کھانا کھلا تو جو مظاہرہ ملک کی اس کریم نے کیا اس کی وڈیو وائرل ہو چکی ہے اور اب تک، ملک کے اندر اور ملک سے باہر بے شمار لوگ اسے دیکھ چکے ہیں۔ قیامت کا سماں تھا۔ شمشیر زنی، نیزہ بازی، تیر اندازی اور گھڑ سواری کا مظاہرہ بیک وقت ہو رہا تھا۔ مختصر ترین تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ ڈشوں،
پراتوں اور ڈونگوں سے پلاؤ، چمچوں کے ذریعے نہیں، براہ راست پلیٹوں سے نکالا جا رہا تھا۔ کچھ بہادر‘ ہاتھوں سے چاول نکال نکال کر پلیٹوں میں ڈال رہے تھے۔ میدان کار زار تھا۔ کشتوں کے پشتے لگ رہے تھے۔ اس ساری جنگی کارروائی کے دوران جو شور تھا، پانی پت کے معرکوں کی یاد دلا رہا تھا۔ کان پڑی آواز نہیں سنائی دے رہی تھی۔ جو شے جس کے ہاتھ آئی لے اُڑا۔
یہاں یہ وضاحت ضروری ہے کہ انجینئرز کے بجائے کوئی اور گروہ بھی ہوتا تو مظاہرہ ایسا ہی ہونا تھا۔ ایسا نہیں کہ باقی سب شائستگی کے پیکر ہیں اور صرف ایک طبقہ اس ہلڑ بازی کا مرتکب ہوا ہے۔ یہ صرف ایک جھلک ہے قومی سطح پر ہمارے ابتذال اور پستی کی! شادیوں پر جب کھانا کُھلتا ہے تو اچکنوں، شیروانیوں، ریشمی واسکٹوں، تھری پیس سوٹوں اور برانڈڈ نکٹائیوں میں ملبوس شرفا جس ''شرافت‘‘ اور ''ٹھہراؤ‘‘ کا ثبوت دیتے ہیں‘ اس سے ہمارے قومی مائنڈ سیٹ پر خوب روشنی پڑتی ہے۔ اچھے خاصے متین حضرات کو ایسی نشست تاکتے دیکھا ہے
جہاں سے میدان کار زار نزدیک پڑتا ہو اور حملہ کرنے میں پہل ہو سکتی ہو۔ ایک زمانے میں حکیم محمد سعید مرحوم نے شامِ ہمدرد کا سلسلہ شروع کیا تھا۔ یہ خالص علمی اور ادبی تقاریب ہوتی تھیں مگر ان میں بھی حاضرین کی زیادہ تعداد چائے کے موقع پر ہڑبونگ مچا دیتی تھی۔ سیاسی پارٹیوں کے اجلاسوں کے حوالے سے بھی اس قسم کی خبریں آئے دن رپورٹ ہوتی ہیں کہ کارکنوں نے ساری رکاوٹیں توڑ ڈالیں اور وقت سے پہلے ہی کھانے پر پل پڑے۔ اس میں سب پارٹیاں، ایک جیسی ہیں۔ سب اسی زمین سے اٹھی ہیں۔ آسمان سے کوئی نہیں اتری۔
کیا بد نظمی اور اوچھے پن کا سلسلہ صرف کھانے تک محدود ہے؟ نہیں! یہ بیماری پورے وجود میں سرایت کیے ہوئے ہے۔ یہ برف کا ایک بہت بڑا تودہ ہے جو زیرِ آب چلا آ رہا ہے اور کھانے پر جو ہمارا طرز عمل ہے اس برفانی تودے کا صرف وہ ذرا سا حصہ ہے جو پانی سے باہر دکھائی دے رہا ہے۔ ملک کے معتبر ترین اور معزز ترین ایوان میں چند روز پہلے جو کچھ ہوا، جس طرح دشنام طرازی کی گئی، جس طرح بجٹ دستاویزات کو میزائلوں کے طور پر استعمال کیا گیا یہاں تک کہ خواتین کے چہرے زخمی ہو گئے اور جس طرح سب نے، حسب توفیق،
اس جوتم پیزار میں حصہ لیا اس سے واضح ہوتا ہے کہ ہم سب، بطور قوم، شائستگی، نظم و ضبط اور خوش اطواری سے محروم ہیں۔ اگر یہ کہا جائے کہ ہم، من حیث القوم، کرخت، درشت اور اکھڑ ہیں تو غلط نہ ہو گا۔ کرختگی، درشتی اور اکھڑ پن صرف اس چیز کا نام نہیں کہ آپ کسی کو ڈانٹ دیں یا اونچی آواز میں کھردری بات کریں۔ کسی کا شکریہ نہ ادا کرنا، کسی کی گاڑی کے پیچھے گاڑی کھڑی کر دینا، قطار توڑ کر آگے بڑھنا،
جہاز میں کسی کی نشست پر اجازت لیے بغیر بیٹھ جانا، سڑک پر تھوکنا، سب کے سامنے ناک میں انگلی گھمانا، جمائی لیتے وقت منہ پر ہاتھ نہ رکھنا، سگرٹ اس طرح پینا کہ دھواں ساتھ بیٹھے ہوئے کی آنکھوں میں پڑے، دوسروں کی موجودگی میں، خاص طور پر بس یا ٹرین میں،
فون پر بلند آواز میں بات کرنا، باتھ روم کو استعمال کے بعد فلش نہ کرنا، یہ صرف چند مثالیں ہیں ہمارے اکھڑ پن، کھردرے پن اور کرختگی کی! اب تو دو سال ہونے کو ہیں کورونا نے مقید کر کے رکھ دیا ہے، ورنہ لاہور اور راولپنڈی کے درمیان سفر کے لیے یہ کالم نگار ہمیشہ ریل کار پارلر کو ترجیح دیتا ہے۔ ایسے ایسے تجربے ہوئے کہ خدا کی پناہ۔ ایک بار ایک صاحب نے فون پر، انتہائی بلند آواز میں کاروبار، ٹینڈروں اور نیلامیوں پر مشتمل گفتگو شروع کی۔ لاہور سے چلے، جہلم آ گیا۔ وہ لگے رہے۔ پورے ڈبے پر ان کی آواز چھائی رہی۔ ریلوے کا ایک اہلکار گزرا تو اس سے شکایت کی۔ اس نے بے بسی سے کہا کہ منع کیا تو جھگڑا کریں گے اور مزید شور مچے گا۔
کوئی افتاد پڑے، جیسے سیلاب، زلزلہ یا وبا، تو امدادی اشیا کی تقسیم ہمیں پوری طرح بے نقاب کر کے رکھ دیتی ہے۔ قطار بندی کا دور دور تک وجود نہیں ہوتا۔ چاروں طرف ہجوم اور عجیب بے رحم اور کٹ تھروٹ قسم کا عالم ہوتا ہے۔ بیک وقت سینکڑوں دست ہائے سوال دراز ہوتے ہیں۔ کوئی بہت کچھ لے اُڑتا ہے اور کسی کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آتا۔
یہ تو لینے والوں کا حال ہے۔ رہے دینے والے، تو انہیں بھی پروا نہیں کہ کسی قاعدے اور ترتیب سے تقسیم کریں اور مستحقین کی عزتِ نفس کا خیال رکھیں۔ سرکاری شخصیات تو ایسے مواقع پر یوں بھی صرف فوٹو سیشن میں دلچسپی رکھتی ہیں۔ کہتے ہیں کہ کسی قوم کی شائستگی کو جانچنا ہو اور یہ دیکھنا ہو کہ وہ کتنی مہذب ہے تو دو پہلوئوں کا جائزہ لو۔ ایک یہ دیکھو کہ ٹریفک کیسی ہے، دوسرے، یہ دیکھو کہ باتھ روم کتنے صاف ہیں۔
اب تو موٹر وے پر
بھی وہ پہلی سی بات نہیں رہی۔ کسی کو ہماری اصل نیچر جاننی ہے تو قصبوں کی ٹریفک کا حال دیکھے۔ لاقانونیت برہنہ ہو کر رقص کر رہی ہوتی ہے۔ بڑے شہروں کی ٹریفک بھی کم شرمناک نہیں۔ وفاقی دارالحکومت کی کسی شاہراہ پر رات کو کھڑے ہو جائیے۔ ہر پچیس تیس گاڑیوں کے بعد ایک گاڑی بتیوں کے بغیر جا رہی ہو گی۔ نوے پچانوے فی صد موٹر سائیکلوں کی عقبی بتیاں غائب ہیں۔ لین نام کی کوئی شے نہیں
، پوری سڑک آپ کی جاگیر ہے۔ سامنے سے آنے والا، روشنیاں، چاقو کی نوک کی طرح آپ کی آنکھوں میں چبھوتا ہے۔ آپ وقتی طور پر اندھے ہو جاتے ہیں۔ آپ نے بائیں طرف مُڑنے کا اشارہ دے رکھا ہے مگر سب یہی سمجھ رہے ہیں کہ آپ مذاق کر رہے ہیں چنانچہ سب آپ کو بائیں طرف سے اوور ٹیک کیے جا رہے ہیں۔ آپ خود بھی یہی کچھ کرتے ہیں!
انگریز کے بارے میں لطیفہ ہے کہ ایک ہو تب بھی قطار بناتا ہے۔ ہم بہت سے ہوں تب بھی نہیں بناتے‘ اور کھانا لیتے ہوئے تو بالکل نہیں۔ کیا خبر یہ زندگی کا آخری کھانا ہو!
زندگی کا آخری کھانا
محمد اظہارالحق کا کالمـ - زندگی کا آخری کھانا 2021-08-05 کو روزنامہ دنیا میں شائع ہوا۔ پڑھنے کے لیے کلک کریں
dunya.com.pk