صرف چار چیزیں!
اصناف:
وسعت اللہ خان | 2010-08-13 ، 4:05
اب تک حکومتِ پاکستان نے جو تخمیہ لگایا ہے اسکے حساب سے ڈیڑھ کروڑ افراد متاثر ہوئے ہیں اور پچیس لاکھ ایکڑ زرعی زمین پانی تلے آئی ہے۔ پانچ لاکھ ٹن گندم کے ذخائر برباد ہوئے ہیں اور گنے کی بیشتر فصل ڈوب گئی ہے۔ اقوامِ متحدہ کہتی ہے کہ بحالی کے لیے اربوں ڈالر درکار ہیں۔
جب میں یہ اعداد و شمار کروڑ لعل عیسن کے ایک سیلاب زدہ ایف اے پاس کسان یوسف علی کو بتا رہا تھا تو اس نے کہا ہمیں اربوں ڈالر نہیں چاہیئیں۔ ہمیں تو بس حکومت ہر شخص کے متاثرہ رقبے کے حساب سے گندم کی اگلی فصل کے لیے مفت بیج ، کھاد ، ڈیزل اور ٹیوب ویل کا انجن دے دے۔ جیسے جیسے فصل کھڑی ہوتی جائے گی ہم بھی کھڑے ہوتے چلے جائیں گے۔
ان چار چیزوں کی بنیاد پر حاصل ہونے والی پیداوار کی آمدنی سے ہم سال بھر میں دو کچے کمرے تعمیر کرلیں گے۔ایک دو بھینسیں خرید لیں گے اور اگلے برس کی کاشت بھی اپنے بل بوتے پر کرلیں گے۔
جس سیلاب نے برباد کیا ہے وہی سیلاب نئی مٹی کی شکل میں پیدا ہونے والی زرخیزی کا مرہم ہمارے زخموں پر رکھ دے گا ۔
جو لوگ اربوں ڈالر کی بات کر رہے ہیں وہ ہمارے لیے نہیں ہیں۔ وہ تو اسلام آباد کے ای اور ایف سیکٹرز ، پشاور کے حیات آباد ، کراچی کے ڈیفنس اور کلفٹن ، لاہور کے گلبرگ، ماڈل ٹاؤن اور ڈیفنس کے لیے ہیں۔
ہمیں بس ایک فصل کا بیج، کھاد، ڈیزل اور ٹیوب ویل انجن دے دو ۔باقی خود رکھ لو۔یوسف علی نے اپنے ہاتھ جوڑ دیے۔۔۔
قوم کا ہر شخص اپنے حکمرانوں کے کرتوت ديکھتا رہا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ امداد کی رقم اس تک پہنچنے کے امکانات کم ہيں اور اگر دو چار ہزار کی امداد مل بھی گئی تو ڈھول بجا بجا کر پورا ملک سر پر اٹھاليں گے يا جعلی امداد کے ڈرامے اور فوٹو سيشن اخبارات ميں جابجا صرف ايک وزير اعلیٰ اپنے ہی ہاتھوں سے بانٹتا نظر آتا ہے بڑی ہمت اور طاقت ہے۔ اور لوگوں کو بھی کچھ بانٹنے چاہيں۔ سندھ کے وزير اعلی اتنا کام تو نہيں کر سکتے، پيران سالی ان کی راہ ميں مزاحم ہے۔ اب يہ امداد کس طرح بانٹتے ہيں ابھی نظر نہيں آيا، دور دور سے سيلاب کا جائزہ ليتے نظر آئے۔ اب تو ہر صوبے ميں اس کے لوگوں کی اپنی حکومتيں ہيں۔ وہ تو اپنے صوبے کے لوگوں کو امداد اور معاوضہ صحيح طريقہ سے ديں گے۔ اب تو انہيں اعتماد کرنا چاہيے۔
اصناف:
وسعت اللہ خان | 2010-08-13 ، 4:05
اب تک حکومتِ پاکستان نے جو تخمیہ لگایا ہے اسکے حساب سے ڈیڑھ کروڑ افراد متاثر ہوئے ہیں اور پچیس لاکھ ایکڑ زرعی زمین پانی تلے آئی ہے۔ پانچ لاکھ ٹن گندم کے ذخائر برباد ہوئے ہیں اور گنے کی بیشتر فصل ڈوب گئی ہے۔ اقوامِ متحدہ کہتی ہے کہ بحالی کے لیے اربوں ڈالر درکار ہیں۔
جب میں یہ اعداد و شمار کروڑ لعل عیسن کے ایک سیلاب زدہ ایف اے پاس کسان یوسف علی کو بتا رہا تھا تو اس نے کہا ہمیں اربوں ڈالر نہیں چاہیئیں۔ ہمیں تو بس حکومت ہر شخص کے متاثرہ رقبے کے حساب سے گندم کی اگلی فصل کے لیے مفت بیج ، کھاد ، ڈیزل اور ٹیوب ویل کا انجن دے دے۔ جیسے جیسے فصل کھڑی ہوتی جائے گی ہم بھی کھڑے ہوتے چلے جائیں گے۔
ان چار چیزوں کی بنیاد پر حاصل ہونے والی پیداوار کی آمدنی سے ہم سال بھر میں دو کچے کمرے تعمیر کرلیں گے۔ایک دو بھینسیں خرید لیں گے اور اگلے برس کی کاشت بھی اپنے بل بوتے پر کرلیں گے۔
جس سیلاب نے برباد کیا ہے وہی سیلاب نئی مٹی کی شکل میں پیدا ہونے والی زرخیزی کا مرہم ہمارے زخموں پر رکھ دے گا ۔
جو لوگ اربوں ڈالر کی بات کر رہے ہیں وہ ہمارے لیے نہیں ہیں۔ وہ تو اسلام آباد کے ای اور ایف سیکٹرز ، پشاور کے حیات آباد ، کراچی کے ڈیفنس اور کلفٹن ، لاہور کے گلبرگ، ماڈل ٹاؤن اور ڈیفنس کے لیے ہیں۔
ہمیں بس ایک فصل کا بیج، کھاد، ڈیزل اور ٹیوب ویل انجن دے دو ۔باقی خود رکھ لو۔یوسف علی نے اپنے ہاتھ جوڑ دیے۔۔۔
قوم کا ہر شخص اپنے حکمرانوں کے کرتوت ديکھتا رہا ہے۔ اسے معلوم ہے کہ امداد کی رقم اس تک پہنچنے کے امکانات کم ہيں اور اگر دو چار ہزار کی امداد مل بھی گئی تو ڈھول بجا بجا کر پورا ملک سر پر اٹھاليں گے يا جعلی امداد کے ڈرامے اور فوٹو سيشن اخبارات ميں جابجا صرف ايک وزير اعلیٰ اپنے ہی ہاتھوں سے بانٹتا نظر آتا ہے بڑی ہمت اور طاقت ہے۔ اور لوگوں کو بھی کچھ بانٹنے چاہيں۔ سندھ کے وزير اعلی اتنا کام تو نہيں کر سکتے، پيران سالی ان کی راہ ميں مزاحم ہے۔ اب يہ امداد کس طرح بانٹتے ہيں ابھی نظر نہيں آيا، دور دور سے سيلاب کا جائزہ ليتے نظر آئے۔ اب تو ہر صوبے ميں اس کے لوگوں کی اپنی حکومتيں ہيں۔ وہ تو اپنے صوبے کے لوگوں کو امداد اور معاوضہ صحيح طريقہ سے ديں گے۔ اب تو انہيں اعتماد کرنا چاہيے۔