Watch the reality behind the theory of killer game 'Blue Whale'

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
انٹرنیٹ پر سیکورٹی کیسے رکھی جائے ، اس پریشان کن سوال کا کوئی واضح جواب نہیں . . . . . حکومتی غفلت سب کے سامنے ہے .. . . . والدین بے چارے انٹرنیٹ کی دنیا میں طفل مکتب ہیں گویا اس بلا کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں


کسی زمانے میں لوگ ریڈیو اور ٹی وی کو ام الخبائث قرار دیتے تھے ، آج انٹرنیٹ کے سامنے یہ چیزیں مونگ پھلی کی طرح لگتی ہیں
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
انٹرنیٹ پر سیکورٹی کیسے رکھی جائے ، اس پریشان کن سوال کا کوئی واضح جواب نہیں . . . . . حکومتی غفلت سب کے سامنے ہے .. . . . والدین بے چارے انٹرنیٹ کی دنیا میں طفل مکتب ہیں گویا اس بلا کے سامنے کوئی رکاوٹ نہیں


کسی زمانے میں لوگ ریڈیو اور ٹی وی کو ام الخبائث قرار دیتے تھے ، آج انٹرنیٹ کے سامنے یہ چیزیں مونگ پھلی کی طرح لگتی ہیں

یہ مسئلہ میرے ذاتی خیال کے مطابق جتنا نظر آتا ہے اس سے زیادہ گھمبیر ہے۔
بات یہ ہے کہ یہ گیم کھیلنے والے ہر شخص نے کبھی خودکشی نہیں کی، اور ہر خودکشی کرنے والے بچے نے یہ گیم نہیں کھیلی۔


ہاں لیکن آپ یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ جو بچے ذہنی طور پر کسی ہیجان کا شکار ہوتے ہیں، انھیں غلط رستے پر لگانے میں یہ گیم ایک بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہی بات اس گیم کے خالق فلپ بدیکین نے بھی کہی ہے کہ یہ گیم اس نے یونیورسٹی سے نکالے جانے کے بعد بنائی جسکا مقصد معاشرے کو ایسے ذہنی طور پر کمزور افراد سے پاک کرنا تھا جو نفسیاتی طور پر اپنے اندر خودکشی کے جراثیم رکھتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس گیم کا خالق فلپ بذات خود سایئکالوجی کا طالب علم تھا۔ گو کہ اسکی سوچ بھی کچھ کچھ ہٹلر اور سٹالن سے ملتی جلتی ہے۔


بہرحال، حقائق کچھ اس طرح سے ہیں کہ آجکل کے دور میں سب سے پہلے اپنے بچوں پر یہ نظر رکھنی چاہیئے کہ کیا انکی نفسیاتی نگہداشت مناسب طور پر ہو رہی ہے؟ مغرب میں خاص کر امریکہ میں یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔


  • Suicide is the SECOND leading cause of death for ages 10-24. (2015 CDC WISQARS)
  • Suicide is the SECOND leading cause of death for college-age youth and ages 12-18. (2015 CDC WISQARS)
  • More teenagers and young adults die from suicide than from cancer, heart disease, AIDS, birth defects, stroke, pneumonia, influenza, and chronic lung disease, COMBINED.
  • Each day in our nation, there are an average of over 3,470 attempts by young people grades 9-12. If these percentages are additionally applied to grades 7 & 8, the numbers would be higher.

http://prp.jasonfoundation.com/facts/youth-suicide-statistics/


مغربی طرز زندگی میں جہاں خاندان کی اقدار کو تباہ کر دیا گیا ہے، اور بعد از کسی بھی قسم کے مذہب کو بھی زندگی سے نکال پھینکا گیا ہے، ایسی زندگی میں انسان ایک عجب تذبذب کا شکار رہتا ہے۔ مذہب رکھنے والے لوگوں کے پاس دعا نام کی کوئی چیز ہوتی ہے اور خالق و مالک کی ذات سے اسے امید نام کی کوئی چیز مل ہی جاتی ہے جو اسے زندگی کی صعوبتو ں سے مقابلہ کرنا سکھاتی ہے۔
اس کے علاوہ خاندان میں اگر ماں باپ دونوں ایک ساتھ میسر ہوں اور بچوں کی صحیح طرح پرورش پر معمور ہوں تو بچوں کو ان کے ساتھ ایک تعلق محسوس ہوتا ہے۔ جہاں بچے اپنے ماں یا باپ کو جنسی تسکین کی خاطر ہر طرف لڑھکتا دیکھیں اور ساتھ ہی یہ بات بھی ہو کہ ان بچوں کو ان کے والدین ایک اخلاقی و معاشی مجبوری کے طور پر دیکھتے ہوں، وہاں ان بچوں کا اس طرف راغب ہوجانا ایک بہت ہی معمول کا کام ہے۔


اگر ان باتوں کی بیخ کنی شروع ہی سے کر دی جائے تو بچے نفسیاتی طور پر مضبوط ہوتے ہیں اور اس طرح کے کسی فعل کی طرف رغبت کم ہی رکھتے ہیں۔
لیکن میں آجکل ایک اور چیز کو اپنے یہاں پروان چڑھتے دیکھتا ہوں جس سے اکثر کچھ فکر لاحق ہوتی ہے۔ وہ چیز ہے کہ بچہ علیحدہ انٹرنیٹ پر لگا ہوا ہوتا ہے اور ماں باپ علیٰحدہ۔
میرا بدذاتی خیال ہے کہ نہ صرف بچوں کو، بلکہ انکے والدین کو بھی انٹرنیٹ اور موبائل کی دنیا سے باہر نکل کر رہنا چاہیئے۔ ان چیزوں کا استعمال صرف ضرورت کی حد تک کریں۔ اگر سمجھ نہیں آ رہی تو آئی فون کے موجد سٹیو جابز کے بارے میں پڑھیں کہ اس کے اپنے بچوں نے کبھی آئی پیڈ استعمال نہیں کیا تھا اور اس نے یہ لازم کیا ہوا تھا کہ کھانے کی میز پر سب گھر والے بیٹھیں گے، ساتھ کھانا کھایئنگے اور کوئی بھی اپنا موبائل فون استعمال نہیں کریگا، بلکہ سب گھر والے ایک دوسرے سے باتیں کرینگے۔​
http://www.independent.co.uk/life-s...ad-children-technology-birthday-a6893216.html


تو سب سے پہلے یہ کہ اپنے گھر کے ماحول کو صحیح رکھیں، جس میں بچے نفسیاتی دباوٗ کا شکار نہ ہوں۔ بعد از انکی جسمانی نشونما کے لیئے انکو کسی کھیل کود میں لگایئں، جس میں جسم کا استعمال ہوتا ہو اور بچے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ٹیم بنا کر کھیلنا سیکھیں۔ اسی طرح مذہب کی تعلیم انکی مثبت سوچ اور کردار سازی کے لیئے بہت ضروری ہے۔ اسکے علاوہ اپنے بچوں کو ٹائم دیا کریں اور خود بھی انٹرنیٹ، موبائل اور ٹی وی کی دنیا سے تھوڑا باہر نکل کر سوچیں۔
 

There is only 1

Chief Minister (5k+ posts)
یہ مسئلہ میرے ذاتی خیال کے مطابق جتنا نظر آتا ہے اس سے زیادہ گھمبیر ہے۔
بات یہ ہے کہ یہ گیم کھیلنے والے ہر شخص نے کبھی خودکشی نہیں کی، اور ہر خودکشی کرنے والے بچے نے یہ گیم نہیں کھیلی۔


ہاں لیکن آپ یہ ضرور کہہ سکتے ہیں کہ جو بچے ذہنی طور پر کسی ہیجان کا شکار ہوتے ہیں، انھیں غلط رستے پر لگانے میں یہ گیم ایک بہت اہم کردار ادا کرتی ہے۔ یہی بات اس گیم کے خالق فلپ بدیکین نے بھی کہی ہے کہ یہ گیم اس نے یونیورسٹی سے نکالے جانے کے بعد بنائی جسکا مقصد معاشرے کو ایسے ذہنی طور پر کمزور افراد سے پاک کرنا تھا جو نفسیاتی طور پر اپنے اندر خودکشی کے جراثیم رکھتے ہیں۔ یاد رہے کہ اس گیم کا خالق فلپ بذات خود سایئکالوجی کا طالب علم تھا۔ گو کہ اسکی سوچ بھی کچھ کچھ ہٹلر اور سٹالن سے ملتی جلتی ہے۔


بہرحال، حقائق کچھ اس طرح سے ہیں کہ آجکل کے دور میں سب سے پہلے اپنے بچوں پر یہ نظر رکھنی چاہیئے کہ کیا انکی نفسیاتی نگہداشت مناسب طور پر ہو رہی ہے؟ مغرب میں خاص کر امریکہ میں یہ ایک بہت بڑا مسئلہ ہے۔ [/RIGHT]




http://prp.jasonfoundation.com/facts/youth-suicide-statistics/


مغربی طرز زندگی میں جہاں خاندان کی اقدار کو تباہ کر دیا گیا ہے، اور بعد از کسی بھی قسم کے مذہب کو بھی زندگی سے نکال پھینکا گیا ہے، ایسی زندگی میں انسان ایک عجب تذبذب کا شکار رہتا ہے۔ مذہب رکھنے والے لوگوں کے پاس دعا نام کی کوئی چیز ہوتی ہے اور خالق و مالک کی ذات سے اسے امید نام کی کوئی چیز مل ہی جاتی ہے جو اسے زندگی کی صعوبتو ں سے مقابلہ کرنا سکھاتی ہے۔
اس کے علاوہ خاندان میں اگر ماں باپ دونوں ایک ساتھ میسر ہوں اور بچوں کی صحیح طرح پرورش پر معمور ہوں تو بچوں کو ان کے ساتھ ایک تعلق محسوس ہوتا ہے۔ جہاں بچے اپنے ماں یا باپ کو جنسی تسکین کی خاطر ہر طرف لڑھکتا دیکھیں اور ساتھ ہی یہ بات بھی ہو کہ ان بچوں کو ان کے والدین ایک اخلاقی و معاشی مجبوری کے طور پر دیکھتے ہوں، وہاں ان بچوں کا اس طرف راغب ہوجانا ایک بہت ہی معمول کا کام ہے۔


اگر ان باتوں کی بیخ کنی شروع ہی سے کر دی جائے تو بچے نفسیاتی طور پر مضبوط ہوتے ہیں اور اس طرح کے کسی فعل کی طرف رغبت کم ہی رکھتے ہیں۔
لیکن میں آجکل ایک اور چیز کو اپنے یہاں پروان چڑھتے دیکھتا ہوں جس سے اکثر کچھ فکر لاحق ہوتی ہے۔ وہ چیز ہے کہ بچہ علیحدہ انٹرنیٹ پر لگا ہوا ہوتا ہے اور ماں باپ علیٰحدہ۔
میرا بدذاتی خیال ہے کہ نہ صرف بچوں کو، بلکہ انکے والدین کو بھی انٹرنیٹ اور موبائل کی دنیا سے باہر نکل کر رہنا چاہیئے۔ ان چیزوں کا استعمال صرف ضرورت کی حد تک کریں۔ اگر سمجھ نہیں آ رہی تو آئی فون کے موجد سٹیو جابز کے بارے میں پڑھیں کہ اس کے اپنے بچوں نے کبھی آئی پیڈ استعمال نہیں کیا تھا اور اس نے یہ لازم کیا ہوا تھا کہ کھانے کی میز پر سب گھر والے بیٹھیں گے، ساتھ کھانا کھایئنگے اور کوئی بھی اپنا موبائل فون استعمال نہیں کریگا، بلکہ سب گھر والے ایک دوسرے سے باتیں کرینگے۔​
http://www.independent.co.uk/life-s...ad-children-technology-birthday-a6893216.html


تو سب سے پہلے یہ کہ اپنے گھر کے ماحول کو صحیح رکھیں، جس میں بچے نفسیاتی دباوٗ کا شکار نہ ہوں۔ بعد از انکی جسمانی نشونما کے لیئے انکو کسی کھیل کود میں لگایئں، جس میں جسم کا استعمال ہوتا ہو اور بچے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ ٹیم بنا کر کھیلنا سیکھیں۔ اسی طرح مذہب کی تعلیم انکی مثبت سوچ اور کردار سازی کے لیئے بہت ضروری ہے۔ اسکے علاوہ اپنے بچوں کو ٹائم دیا کریں اور خود بھی انٹرنیٹ، موبائل اور ٹی وی کی دنیا سے تھوڑا باہر نکل کر سوچیں۔

اس گیم کے علاوہ بھی انٹرنیٹ تباہ کن چیزوں سے بھرا پڑا ہے ، ہر کوئی اس کا شکار ہے کوئی زیادہ ہے تو کوئی کم . . . . . . . .حقیقی معنی میں آسمان سے فتنہ برس رہا ہے

آپ کی تجاویز اچھی ہیں ، ساتھ میں اگر حکومت کی بھی توجہ مل جائے تو صورت حال کافی بہتر ہو جائے
 

Sohail Shuja

Chief Minister (5k+ posts)
اس گیم کے علاوہ بھی انٹرنیٹ تباہ کن چیزوں سے بھرا پڑا ہے ، ہر کوئی اس کا شکار ہے کوئی زیادہ ہے تو کوئی کم . . . . . . . .حقیقی معنی میں آسمان سے فتنہ برس رہا ہے

آپ کی تجاویز اچھی ہیں ، ساتھ میں اگر حکومت کی بھی توجہ مل جائے تو صورت حال کافی بہتر ہو جائے

جی اس میں کوئی شک یا ابہام کا شائبہ بھی نہیں کہ جیسا آج سے ۱۴۰۰ سال پہلے بتا دیا گیا تھا، بلکل ویسے ہی فتنہ ہم پر آسمان سے نازل ہو رہا ہے۔
یہ بھی ذہن میں رکھیں کہ ہر ایک نیا دن ہمیں قیامت سے اور قریب تر کر دیتا ہے۔


حکومتیں بت کچھ کر سکتی ہیں۔ لیکن دراصل مسئلہ یہ ہے کہ جن ممالک میں حکومتیں پہلے ہی بہت کچھ کر رہی ہیں، وہاں پر بھی صورتحال کچھ بہت زیادہ اچھی نہیں۔ امریکہ کی مثال میں آپکو دے چکا ہوں، یورپ، روس اور حتیٰ کے چین میں جہاں انٹرنیٹ اور میڈیا پر بہت کڑی نگرانی رکھی جاتی ہے، وہاں بھی باڈی اسٹچنگ جیسے رجحان زور پکڑ رہے ہیں
http://www.bbc.com/news/world-asia-china-40382127
http://www.dailymail.co.uk/news/article-4633244/Children-stitching-patterns-SKIN.html



بلیو وھیل کی گیم میں بھی زیادہ تر اموات روس اور چین میں دیکھی گئیں۔


یہ دیکھ کر میرا یقین اس بات پر مزید پختہ ہو جاتا ہے کہ ایسی نفسیاتی کمزوریاں آجکل کے بدلتے دور اور اسکی بہت تیزی سے بدلتی اقدار و روایات ہیں۔ لوگوں کی زندگیاں آپس میں جزباتی سے زیادہ مادّی اور جسمانی ضروریات کی وجہہ سے زیادہ جڑی ہوئی ہیں۔ اسکی وجہ سے آج کے انسان کا جسم تو بہت آرام میں ہے، جیسا کہ آپکی جیب میں موبائل فون ہے، گھر اور گاڑی میں ائیر کنڈیشن ہے، آپ آن لائن شاپنگ کر سکتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ لیکن اس کے برعکس، آجکل کے انسان کی روح اتنی ہی متذبذب ہے۔ آجکل کا انسان اتنا ہی تنہا اور قدرت سے دور ہوتا چلا جا رہا ہے۔ اسکی وجہ سے آجکل لوگوں کی روحانی اور نفسیاتی صحت پر بہت برا اثر پڑ رہا ہے۔
ان دونوں چیزوں کی نگہداشت کے لیئے دین سے قربت اور خاندان کا ایک مربوط نظام بہت ضروری ہے، جہاں بچوں کی تربیت پر خاص توجہ دی جائے اور انھیں تنہائی، نا امیدی اور انتہا پسندی کے رجحانات سے بچایا جائے۔



 

Back
Top