Verbal fight between Rauf Klasra and Chinese Ambassy Official

amir_ali

Chief Minister (5k+ posts)
چینی سفارتکار محمد لی چیان زاو اور راوف کلاسرا کے درمیان ٹویٹر پر شروع ہونے والی گفتگو لفظی جنگ میں تبدیل ۔۔۔۔۔بحث سی پیک کے حوالے سے پاکستانیوں کو نوکریاں دینے سے شروع ہوئی جس پر گرما گرمی بھی ہو گئی ۔روف کلاسرا اور چینی سفارتکار ایک مقام پر آ کر تلخ ہو گئے ،روف کلاسرا کا کہنا تھا کہ مجھے خوف آرہاہے کہ آپ چین میں کوئلے کے پلانٹس کے حوالے سے تمام معلومات سے لاعلم ہیں اور آپ بطور ترجمان چینی حکومت کی ساکھ کو تباہ کر دیں گے ۔روف کلاسرا کو چینی سفارتکار نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ تینگ شیاﺅ کہتے ہیں کہ جب آپ کھڑکی کھولتے ہیں تو ہوا اور مکھیاں دونوں اندر آ جاتی ہیں ،سی پیک کو پاکستان میں وسیع حمایت حاصل ہے ،معمولی شور سی پیک کیلئے کوئی معنی نہیں رکھتا۔

روف کلاسرا میدان نے کہا کہ سینیٹ میں اس بات کا انکشاف ہواہے کہ سی پیک کیلئے چین تمام تر لیبر چین سے برآمد کر رہاہے اور مقامیوں کو نوکریاں نہیں دی جار ہیں جبکہ خریداری بھی پاکستان سے نہیں کی جارہی ۔ جس پر چینی سفارتکار فوری نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ کیا آپ مجھے بتا سکتے ہیں کہ یہ جھوٹ سینیٹ میں کس نے بولا ہے ،،انہوں نے ایک دوسرے پیغام میں یہ بھی کہا کہ یہ آج کے روز کا مذاق ہے ۔لی چیان زاﺅ نے کہا کہ ایک ہزار سے زائد پاکستانی ساہیوال ،پورٹ قاسم ،M-5،کے کے ایچ سمیت دیگر پراجیکٹس پر کام کر رہے ہیں جبکہ سیمنٹ ،ریت اور سٹیل بھی یہیں سے خریدا جارہاہے ۔

روف کلاسرا نے کوئلے سے چلنے والے پلانٹس کا ذکر چھیڑ دیا کہ وہ آلودگی پیدا کرتے ہیں اور اسی لیے چین میں انہیں بند کیا جارہاہے جبکہ حیرت انگیز طور پر ہے وہی پلانٹس پاکستان میں بھی لگائے جارہے ہیں ۔روف کلاسرا کا کہناتھا کہ کیا آپ ہمیں اس بات سے بتاسکتے ہیں کہ کیا یہ انہی کوئلے کے پلانٹس کی مشینری کی طرح ہی ہے جو کہ چین میں آلودگی میں اضافہ کرنے کے باعث بند کیے جارہے ہیں یا پھر یہ کوئی نئی مشینری ہے ۔انہوں نے چینی سفارتکا ر سے کہا کہ آپ اس حوالے سے دی اکانومسٹ کی دسمبر 2014 کی رپورٹ پڑھیں جس میں کہا گیاہے کہ چین میں کوئلے کے کوئلے سے چلنے والے پلانٹس بند کیے جارہے ہیں کیونکہ یہ ہر سال پانچ لاکھ لوگوں کی اموات کا باعث بن رہے ہیں ورنہ میں آپ کو اس کی ایک کاپی بھیج دیتاہوں ۔ چینی سفارتکار نے بھی ہار نہیں مانی اور کوئلے کے پاورپلانٹس کے بند ہونے کی خبروں کو غلط اور بڑا جھوٹ قرار دیتے ہوئے جواب دیا کہ کوئلے کے پلانٹس ہی چین کی پاور پروڈکشن کا بنیادی ذریعہ ہیں ۔

جس پر کلاسرا پھر ایک بار میدان میں آئے اور کہا کہ برائے مہربانی حقائق کو جھٹلا نا بند کریںاور اپنے ملک کے حالات کو پڑھیں ،معذرت کے طور پر مجھے یہ کہنا پڑ رہاہے کہ آپ اپنے ملکی حالات سے لاعلم ہیں ۔


Last edited by a moderator:

insaf-tiger

Banned
Re: Official of Chinese Embassy Thwarting Lies of Klasara

what a joke ...are telling us defenation of lie .. mr siyasi bayan ..mariiaym qatri ka london mein tu kia pakistan mein bhi koi baap nahi hai pata nahi pti walay kahan say roz naye baap maraim qatri ke nikal latay hain ... consider this twit of chines a siyasi biyan or harmi .shareef in parliament
 

ThirdUmpireFinger

Chief Minister (5k+ posts)
Re: Official of Chinese Embassy Thwarting Lies of Klasara

Even country like Germany is going back to coal plants to produce cheapest energy and improve their exports. Klasra should discuss Reham khan and IK marriage issue and leave coal plants alone.
 

Galaxy

Chief Minister (5k+ posts)
Re: Official of Chinese Embassy Thwarting Lies of Klasara

​I don't think germany would ever go back to coal plant.Whom are you trying to bullshitt.Every body in the world is trying to reduce the carbon footprint and with that contain the global warming to only 2 degree C by 2050. Do you make your own news?
 
Last edited:

loser24x7

Chief Minister (5k+ posts)
Re: Official of Chinese Embassy Thwarting Lies of Klasara

Even country like Germany is going back to coal plants to produce cheapest energy and improve their exports. Klasra should discuss Reham khan and IK marriage issue and leave coal plants alone.

Instead of being ill-informed Noora-mongering ghulam, look at the trend of power generation in Germany from 1990 to the present. They are moving towards renewable energy at a fast pace. The goal is at least 80 percent by 2050. On July 25, 2015, it was very windy in the north and sunny in the south. For a few hours renewables yielded about three-quarters of Germany's electricity.


fig2-gross-power-production-germany-1990-2016.png
 

Muqadas

Chief Minister (5k+ posts)
Re: Official of Chinese Embassy Thwarting Lies of Klasara

اگر سارا کوئلہ بجلی بنانے پر لگا دیا گیا تو عوام بار بی کیو کیسے بنائے گی ؟ سینٹ میں رپورٹ پیش کر دی گئی
روف کلاسرہ کا انکشاف

محمد لیجان زاہو اگر زیادہ پڑھا لکھا نہ ہوتا تو پھر میں اس کو دیکھتا
سنئیر صحافی روف کلاسرہ

بشکریہ بروکن نیوز
 

Galaxy

Chief Minister (5k+ posts)
Re: Official of Chinese Embassy Thwarting Lies of Klasara

​These Butt league planted people are mostly stupid and they think every body else is stupid too.You know how fast the western countries are trying to convert their energy source from facill fuel to solar,wind,hydro,thermal and neuclear.
 

Muqadas

Chief Minister (5k+ posts)
Re: Official of Chinese Embassy Thwarting Lies of Klasara

روف کلاسرہ جیسے صحافی حضرات ہیں ۔۔ جو تحریک انصاف کی تنخواہ پر پاکستان دشمنی پر اتر آئے ہیں

شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرو تو یہی لوگ آسمان سر پر اٹھاتے ہیں کہ رات کو تو بجلی ہی پیدا نہیں ہوتی ۔۔ تھر کا کوئلہ بے کار پڑا ہے
کوئلے سے کرو تو کہتے ہیں آلودگی ہو جائے گی ۔۔ شمسی توانائی سے کیوں پیدا نہیں کرتے

یہ وہ ہیں جو ہر چلتے قافلے پر شور مچاتے ہیں
قافلے چلتے رہیں گے انشااللہ


 

Galaxy

Chief Minister (5k+ posts)
Re: Official of Chinese Embassy Thwarting Lies of Klasara

​Since the global warming is rapidly coming on us with far reaching effects .Rise of sea level,shortage of clean drinking water ,rapidly melting of glaciers ,changing of birds habitat and migration,changing of crops in many areas of the globe,changes in the weather,and many more.In many devolop countries they are installing heat pumps to extract ,heat from sewage water.installing titanium coils deep in the ground to heat water with thermal heat.
 

rashi88

Politcal Worker (100+ posts)
Re: Official of Chinese Embassy Thwarting Lies of Klasara

who said germany is going back to coal?? why you are lying only to support your corrupt owners, you should be ashamed of yourself. your parents should be ashamed of you.
 

loser24x7

Chief Minister (5k+ posts)
Re: Official of Chinese Embassy Thwarting Lies of Klasara

روف کلاسرہ جیسے صحافی حضرات ہیں ۔۔ جو تحریک انصاف کی تنخواہ پر پاکستان دشمنی پر اتر آئے ہیں

شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرو تو یہی لوگ آسمان سر پر اٹھاتے ہیں کہ رات کو تو بجلی ہی پیدا نہیں ہوتی ۔۔ تھر کا کوئلہ بے کار پڑا ہے
کوئلے سے کرو تو کہتے ہیں آلودگی ہو جائے گی ۔۔ شمسی توانائی سے کیوں پیدا نہیں کرتے

یہ وہ ہیں جو ہر چلتے قافلے پر شور مچاتے ہیں
قافلے چلتے رہیں گے انشااللہ




Choron ke bhi qaafilay hotay hain kia?:lol:WAH TERI NOORA MANTIQ....
 

Husaink

Prime Minister (20k+ posts)
Re: Official of Chinese Embassy Thwarting Lies of Klasara

روف کلاسرہ جیسے صحافی حضرات ہیں ۔۔ جو تحریک انصاف کی تنخواہ پر پاکستان دشمنی پر اتر آئے ہیں

شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرو تو یہی لوگ آسمان سر پر اٹھاتے ہیں کہ رات کو تو بجلی ہی پیدا نہیں ہوتی ۔۔ تھر کا کوئلہ بے کار پڑا ہے
کوئلے سے کرو تو کہتے ہیں آلودگی ہو جائے گی ۔۔ شمسی توانائی سے کیوں پیدا نہیں کرتے

یہ وہ ہیں جو ہر چلتے قافلے پر شور مچاتے ہیں
قافلے چلتے رہیں گے انشااللہ




قافلے تو چلتے چلتے ایک دفعہ پورا بھنگ بستہ لے کر جدّہ بھی پہنچ گئے تھے ، یاد تو ہوگا ؟
 

crankthskunk

Chief Minister (5k+ posts)
Re: Official of Chinese Embassy Thwarting Lies of Klasara

روف کلاسرہ جیسے صحافی حضرات ہیں ۔۔ جو تحریک انصاف کی تنخواہ پر پاکستان دشمنی پر اتر آئے ہیں

شمسی توانائی سے بجلی پیدا کرو تو یہی لوگ آسمان سر پر اٹھاتے ہیں کہ رات کو تو بجلی ہی پیدا نہیں ہوتی ۔۔ تھر کا کوئلہ بے کار پڑا ہے
کوئلے سے کرو تو کہتے ہیں آلودگی ہو جائے گی ۔۔ شمسی توانائی سے کیوں پیدا نہیں کرتے

یہ وہ ہیں جو ہر چلتے قافلے پر شور مچاتے ہیں
قافلے چلتے رہیں گے انشااللہ



Don't equate him with PTI, he has nothing to do with PTI. He is the agent of the West and India, therefore, his opposition of CPEC is understandable. I have warned participants here to be aware of Rauf.
 

smack

Councller (250+ posts)
Re: Verbal fight between Rauf Klasra and Chinese Ambassy Offical

I doubt that this twitter handle belongs to real person as it retweet all PMLN media cell twitters :lol:
 

USTADBONA

Senator (1k+ posts)
Re: Official of Chinese Embassy Thwarting Lies of Klasara

Even country like Germany is going back to coal plants to produce cheapest energy and improve their exports. Klasra should discuss Reham khan and IK marriage issue and leave coal plants alone.
[FONT=&quot]قادر آباد (ساہیوال) میں پنجاب کا پہلا کول فائر پاور پلانٹ لگ رہا ہے۔ 1320 میگاواٹ کا یہ پاور جنریشن پلانٹ پاکستان کی زرخیز ترین زمین پر لگ رہا ہے۔ ایک ہزار ایکڑ یعنی 40 مربع زرعی اراضی پر لگنے والے اس کوئلے کے بجلی گھر کے لیے 12 سے 18 ہزار ٹن کوئلہ روزانہ کی بنیاد پر درکار ہو گا۔ یہ مقدار 12 سے 18 ہزار ٹن اس لیے ہے کہ یہ براہ راست کوئلے کی کوالٹی سے منسلک ہے اور اس کی مقدار کا دارومدار کوئلے کی HEAT ENERGY کے یونٹ Kcal سے وابستہ ہے۔ اگر عام قسم کا کوئلہ استعمال کیا جائے جو عموماً ان پلانٹس پر استعمال ہوتا ہے تو اس کا حساب قادر آباد پاور پلانٹ کے لیے تقریباً 18 ہزار 4 سو 80 ٹن روزانہ ہو گا۔ اس سارے حساب کتاب کی تفصیل بڑی گنجلک ہے اور عام قاری کے لیے اسے سمجھنا اور میرے لیے اس کالم میں سمجھانا خاصا مشکل ہے؛ تاہم مختصراً بتاتا چلوں کہ اگر "D" گریڈ کا کوئلہ استعمال کیا جائے تو ایک کلو گرام کوئلے کی Kcal یعنی کلو ریفک ویلیو (Calorific Value) 4200 ہو گی۔ مختلف سائکلز میں ہونے والی ہیٹ انرجی کے نقصان کے باعث پلانٹ کی مجموعی کارکردگی یعنی Overall efficiency تقریباً 35 فیصد ہو تو حرارت کی طاقت جو 100 فیصد پر P=Q/t کے حساب سے Q=239 ہے، 35 فیصد پر 239/0.35=683 ہو گی۔ اس حساب سے ایک میگاواٹ بجلی کے حصول کے لیے 683 کو 4200 سے تقسیم کریں تو 162 گرام کوئلہ فی میگاواٹ فی سیکنڈ چاہئے یعنی 162 ضرب 24 (گھنٹے) ضرب 3600 (ایک گھنٹے میں سیکنڈ) تو جواب 14 ٹن فی میگاواٹ روزانہ بنتا ہے۔ اس طرح 1320 میگاواٹ کے قادر آباد کول پاور پلانٹ کے لیے روزانہ 18 ہزار 4 سو 80 ٹن کوئلہ درکار ہے۔ دوسرے لفظوں میں کراچی سے روزانہ قادر آباد کے لیے 18 ہزار ٹن کوئلہ لانا ہو گا۔[/FONT][FONT=&quot]
میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ دنیا بھر میں کوئلے کی ترسیل کوئی آسان کام نہیں۔ ایسے بجلی گھر یا تو سمندر کے کنارے لگائے جاتے ہیں کہ درآمد شدہ کوئلہ براہِ راست جیٹی پر اتار کر بلکہ وہیں سے متحرک بیلٹ کے ذریعے پلانٹ تک پہنچایا جا سکے یا دریائوں کے کنارے لگائے جاتے ہیں (یورپ وغیرہ میں دریا گہرے ہیں اور وہاں جہاز رانی معمول کی بات ہے۔ ہمارے دریا زیادہ چوڑے اور کم گہرے ہیں اس لیے یہاں جہاز رانی ممکن نہیں) جہاں سے بندرگاہوں پر اترنے والے کوئلے کو ان دریائوں کے راستے فلیٹ بیڈ بار جز (مسطح پیندے والی بڑی کشتیاں) کے ذریعے کول پلانٹ پر پہنچایا جاتا ہے یا کوئلے کی کان کے ساتھ لگایا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان میں کول پاور پلانٹ یا تو بلوچستان اور سندھ کے ساحلی علاقوں میں لگائے جا سکتے تھے یا پھر تھر وغیرہ میں جہاں کوئلے کی دستیابی ہے۔ لیکن خادم اعلیٰ صرف اس غرض سے کہ بجلی ان کے گھر کے صحن میں پیدا ہو کوئلے کے بجلی گھر ساہیوال میں لگا رہے ہیں جو نہ صرف تکنیکی اعتبار سے غلط ہے، بلکہ معاشی حوالوں سے بھی سود مند نہیں ہے۔ اس قسم کے منصوبوں کو کوئلے کی سپلائی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور خادم اعلیٰ نے بجلی کی سپلائی بذریعہ ڈی سی ٹرانسمیشن لائن کرنے کے بجائے کوئلہ بذریعہ ریل منگوانے کو ترجیح دی ہے جو موجودہ ریلوے کی استعداد سے کہیں باہر کی چیز ہے۔ اب وہ ریلوے کی استعداد بڑھائیں گے اور ریلوے کو اس کے لیے 20 ارب ڈالر درکار ہیں۔
فی الوقت ریلوے کے چلنے والی ایکسپریس ٹرینوں کے بعد بچنے والی LINE CAPACITY چوبیس ٹرینیں فی یوم ہے۔ یعنی موجودہ ریلوے ٹریک کی استعداد کار 24 مال گاڑیاں ہے جس میں سے 10 مال گاڑیاں فی الوقت چل رہی ہیں۔ اس حساب سے بقیہ لائن کپیسیٹی 14 گاڑیاں فی یوم ہے۔ اگر ریلوے کا نظام بہتر ہو جاتا ہے اور چار پانچ ایکسپریس ٹرینیں مزید چلتی ہیں تو یہ لائن کپیسیٹی 10 رہ جائے گی۔ صرف قادر آباد کول پلانٹ کے 18 ہزار ٹن کوئلے کو جسے ہم زیادہ بہتر کوالٹی کا کوئلہ ہونے کی صورت میں 15 ہزار ٹن تصور کر لیتے ہیں کے لیے ریلوے کی روزانہ تقریباً 8 گاڑیاں درکار ہیں۔
ریلوے کی ایک کوئلے کی ویگن 60 ٹن کوئلہ لاد سکتی ہے۔ یاد رہے کہ کوئلہ کی ترسیل کے لیے ریلوے کے پاس اوپر سے کھلی ویگنوں کی شاید اتنی تعداد بھی میسر نہیں ہے؛ تاہم فی الحال ہم فرض کر لیتے ہیں کہ یہ ویگنیں دستیاب ہیں۔ موجودہ ریلوے انجنوں کی طاقت 3 ہزار ہارس پاور ہے اور فارمولا یہ ہے کہ انجن کی گاڑی کھینچنے کی طاقت یعنی HANDLING CAPACITY اپنی ہارس پاور کا 80 فیصد ہوتی ہے۔ 3 ہزار ہارس پاور کا انجن 24 سو ٹن وزن کھینچ سکتا ہے۔ موجودہ انجنوں کی طاقت کو مدنظر رکھیں تو ویگنوں کا اپنا وزن نکال کر خالص وزن کھینچنے کی استطاعت 18 سو ٹن بچتی ہے۔ اس طرح ایک ٹرین 18 سو ٹن کوئلہ لا سکتی ہے اور 15 ہزار ٹن کے لیے روزانہ 30 ویگنوں والی کم از کم 8 گاڑیاں درکار ہیں۔ اب 8 گاڑیاں قادر آباد اَن لوڈنگ میں، ہر 3 گھنٹے بعد ایک گاڑی کے حساب سے کراچی سے قادر آباد تک 30 گھنٹوں پر مشتمل سفر میں کوئلے سے لدی ہوئی 10 گاڑیاں رواں دواں ہیں۔ اسی طرح قادر آباد سے خالی ہو کر واپس کراچی جانے والی 10 گاڑیاں بھی ریلوے ٹریک پر ہیں۔ کم از کم 8 گاڑیاں بندرگاہ پر کوئلہ لادنے کے عمل سے گزر رہی ہیں۔ یہ کل 36 گاڑیاں ہو گئیں۔ ریلوے کے پاس اتنے انجن ہی نہیں ہیں۔ ان انجنوں کی کمی پورا
کرنے کے لیے امریکی کمپنی جنرل الیکٹرک سے 55 نئے انجن خریدے جا رہے ہیں جن کی مالیت 22 ارب روپے ہے۔ یہ انجن 4500 ہارس پاور کے ہیں اور 36 سو ٹن وزن کھینچ سکتے ہیں۔ ان انجنوں کے ذریعے کوئلہ لایا جائے تو ساڑھے پانچ ٹرینیں درکار ہیں۔
اب آ جائیں کوئلے پر۔ عام لوگوں کا خیال ہے کہ کول پلانٹس پر استعمال ہونے والا کوئلہ ڈھیلوں کی شکل کا ہوتا ہے حالانکہ یہ موٹی ریت کی مانند ہے۔ ریلوے کی کھلی ویگنوں پر آنے والا یہ کوئلہ اڑے گا اور کراچی سے قادر آباد تک کا سارا ریلوے ٹریک اور آس پاس کی آبادیوں کو کالا کرے گا۔ خستہ حال ویگنوں سے راستے میں سوراخوں سے گرنے والا کوئلہ اس پر مستزاد ہو گا۔ ایک اور مسئلہ اس کوئلے کی راکھ کو سمیٹنا ہے۔ سمندر کے کنارے پلانٹس یہ راکھ سمندر میں ڈال دیتے ہیں یا ان سے ''ڈائون سٹریم انڈسٹری‘‘ چلائی جاتی ہے اور اس راکھ سے خاص طرح کا سیمنٹ اور ہلکی اینٹیں بنائیں جاتی ہیں۔ قادر آباد کی 40 مربع زرخیز ترین زمین کی بربادی کے بعد یہ راکھ مزید زمینیں خراب کرے گی۔ اگر پنجاب میں یہ پلانٹ لگانا ہی مقصود تھا تو اس کے لیے بہترین جگہ رحیم یار خان تھی جہاں کوئلے کی فراہمی کے سلسلے میں ساڑھے چار سو کلو میٹر کا فاصلہ بچایا جا سکتا تھا اور چولستان کی غیر آباد زمین پر لگنے والے اس بجلی گھر سے اڑنے والی راکھ، دھواں اور فضائی آلودگی سے آبادی کو بچایا جا سکتا تھا مگر یہ سوچنے کی باتیں ہیں اور فیصلہ کرنے والوں کا ایسی فضولیات سے کوئی واسطہ نہیں۔ یہ سارا حساب کتاب صرف قادر آباد کول پاور پلانٹ کا تھا۔ جامشورو میں لگنے والے کول پاور پلانٹ کو شامل کریں تو ساری ریلوے کی ''پھوک‘‘ نکل جائے گی۔
[/FONT]​
 

USTADBONA

Senator (1k+ posts)
Re: Official of Chinese Embassy Thwarting Lies of Klasara

اگر سارا کوئلہ بجلی بنانے پر لگا دیا گیا تو عوام بار بی کیو کیسے بنائے گی ؟ سینٹ میں رپورٹ پیش کر دی گئی
روف کلاسرہ کا انکشاف

محمد لیجان زاہو اگر زیادہ پڑھا لکھا نہ ہوتا تو پھر میں اس کو دیکھتا
سنئیر صحافی روف کلاسرہ

بشکریہ بروکن نیوز

(عقل نہ ہووے تے موجاں ا ی موجاں)
[FONT=&quot]
قادر آباد کول پاور پلانٹ کے لیے روزانہ 18 ہزار 4 سو 80 ٹن کوئلہ درکار ہے۔ دوسرے لفظوں میں کراچی سے روزانہ قادر آباد کے لیے 18 ہزار ٹن کوئلہ لانا ہو گا۔
میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ دنیا بھر میں کوئلے کی ترسیل کوئی آسان کام نہیں۔ ایسے بجلی گھر یا تو سمندر کے کنارے لگائے جاتے ہیں کہ درآمد شدہ کوئلہ براہِ راست جیٹی پر اتار کر بلکہ وہیں سے متحرک بیلٹ کے ذریعے پلانٹ تک پہنچایا جا سکے یا دریائوں کے کنارے لگائے جاتے ہیں (یورپ وغیرہ میں دریا گہرے ہیں اور وہاں جہاز رانی معمول کی بات ہے۔ ہمارے دریا زیادہ چوڑے اور کم گہرے ہیں اس لیے یہاں جہاز رانی ممکن نہیں) جہاں سے بندرگاہوں پر اترنے والے کوئلے کو ان دریائوں کے راستے فلیٹ بیڈ بار جز (مسطح پیندے والی بڑی کشتیاں) کے ذریعے کول پلانٹ پر پہنچایا جاتا ہے یا کوئلے کی کان کے ساتھ لگایا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان میں کول پاور پلانٹ یا تو بلوچستان اور سندھ کے ساحلی علاقوں میں لگائے جا سکتے تھے یا پھر تھر وغیرہ میں جہاں کوئلے کی دستیابی ہے۔ لیکن خادم اعلیٰ صرف اس غرض سے کہ بجلی ان کے گھر کے صحن میں پیدا ہو کوئلے کے بجلی گھر ساہیوال میں لگا رہے ہیں جو نہ صرف تکنیکی اعتبار سے غلط ہے، بلکہ معاشی حوالوں سے بھی سود مند نہیں ہے۔ اس قسم کے منصوبوں کو کوئلے کی سپلائی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور خادم اعلیٰ نے بجلی کی سپلائی بذریعہ ڈی سی ٹرانسمیشن لائن کرنے کے بجائے کوئلہ بذریعہ ریل منگوانے کو ترجیح دی ہے جو موجودہ ریلوے کی استعداد سے کہیں باہر کی چیز ہے۔ اب وہ ریلوے کی استعداد بڑھائیں گے اور ریلوے کو اس کے لیے 20 ارب ڈالر درکار ہیں۔
فی الوقت ریلوے کے چلنے والی ایکسپریس ٹرینوں کے بعد بچنے والی LINE CAPACITY چوبیس ٹرینیں فی یوم ہے۔ یعنی موجودہ ریلوے ٹریک کی استعداد کار 24 مال گاڑیاں ہے جس میں سے 10 مال گاڑیاں فی الوقت چل رہی ہیں۔ اس حساب سے بقیہ لائن کپیسیٹی 14 گاڑیاں فی یوم ہے۔ اگر ریلوے کا نظام بہتر ہو جاتا ہے اور چار پانچ ایکسپریس ٹرینیں مزید چلتی ہیں تو یہ لائن کپیسیٹی 10 رہ جائے گی۔ صرف قادر آباد کول پلانٹ کے 18 ہزار ٹن کوئلے کو جسے ہم زیادہ بہتر کوالٹی کا کوئلہ ہونے کی صورت میں 15 ہزار ٹن تصور کر لیتے ہیں کے لیے ریلوے کی روزانہ تقریباً 8 گاڑیاں درکار ہیں۔
ریلوے کی ایک کوئلے کی ویگن 60 ٹن کوئلہ لاد سکتی ہے۔ یاد رہے کہ کوئلہ کی ترسیل کے لیے ریلوے کے پاس اوپر سے کھلی ویگنوں کی شاید اتنی تعداد بھی میسر نہیں ہے؛ تاہم فی الحال ہم فرض کر لیتے ہیں کہ یہ ویگنیں دستیاب ہیں۔ موجودہ ریلوے انجنوں کی طاقت 3 ہزار ہارس پاور ہے اور فارمولا یہ ہے کہ انجن کی گاڑی کھینچنے کی طاقت یعنی HANDLING CAPACITY اپنی ہارس پاور کا 80 فیصد ہوتی ہے۔ 3 ہزار ہارس پاور کا انجن 24 سو ٹن وزن کھینچ سکتا ہے۔ موجودہ انجنوں کی طاقت کو مدنظر رکھیں تو ویگنوں کا اپنا وزن نکال کر خالص وزن کھینچنے کی استطاعت 18 سو ٹن بچتی ہے۔ اس طرح ایک ٹرین 18 سو ٹن کوئلہ لا سکتی ہے اور 15 ہزار ٹن کے لیے روزانہ 30 ویگنوں والی کم از کم 8 گاڑیاں درکار ہیں۔ اب 8 گاڑیاں قادر آباد اَن لوڈنگ میں، ہر 3 گھنٹے بعد ایک گاڑی کے حساب سے کراچی سے قادر آباد تک 30 گھنٹوں پر مشتمل سفر میں کوئلے سے لدی ہوئی 10 گاڑیاں رواں دواں ہیں۔ اسی طرح قادر آباد سے خالی ہو کر واپس کراچی جانے والی 10 گاڑیاں بھی ریلوے ٹریک پر ہیں۔ کم از کم 8 گاڑیاں بندرگاہ پر کوئلہ لادنے کے عمل سے گزر رہی ہیں۔ یہ کل 36 گاڑیاں ہو گئیں۔ ریلوے کے پاس اتنے انجن ہی نہیں ہیں۔ ان انجنوں کی کمی پورا
کرنے کے لیے امریکی کمپنی جنرل الیکٹرک سے 55 نئے انجن خریدے جا رہے ہیں جن کی مالیت 22 ارب روپے ہے۔ یہ انجن 4500 ہارس پاور کے ہیں اور 36 سو ٹن وزن کھینچ سکتے ہیں۔ ان انجنوں کے ذریعے کوئلہ لایا جائے تو ساڑھے پانچ ٹرینیں درکار ہیں۔
اب آ جائیں کوئلے پر۔ عام لوگوں کا خیال ہے کہ کول پلانٹس پر استعمال ہونے والا کوئلہ ڈھیلوں کی شکل کا ہوتا ہے حالانکہ یہ موٹی ریت کی مانند ہے۔ ریلوے کی کھلی ویگنوں پر آنے والا یہ کوئلہ اڑے گا اور کراچی سے قادر آباد تک کا سارا ریلوے ٹریک اور آس پاس کی آبادیوں کو کالا کرے گا۔ خستہ حال ویگنوں سے راستے میں سوراخوں سے گرنے والا کوئلہ اس پر مستزاد ہو گا۔ ایک اور مسئلہ اس کوئلے کی راکھ کو سمیٹنا ہے۔ سمندر کے کنارے پلانٹس یہ راکھ سمندر میں ڈال دیتے ہیں یا ان سے ''ڈائون سٹریم انڈسٹری چلائی جاتی ہے اور اس راکھ سے خاص طرح کا سیمنٹ اور ہلکی اینٹیں بنائیں جاتی ہیں۔ قادر آباد کی 40 مربع زرخیز ترین زمین کی بربادی کے بعد یہ راکھ مزید زمینیں خراب کرے گی۔ اگر پنجاب میں یہ پلانٹ لگانا ہی مقصود تھا تو اس کے لیے بہترین جگہ رحیم یار خان تھی جہاں کوئلے کی فراہمی کے سلسلے میں ساڑھے چار سو کلو میٹر کا فاصلہ بچایا جا سکتا تھا اور چولستان کی غیر آباد زمین پر لگنے والے اس بجلی گھر سے اڑنے والی راکھ، دھواں اور فضائی آلودگی سے آبادی کو بچایا جا سکتا تھا مگر یہ سوچنے کی باتیں ہیں اور فیصلہ کرنے والوں کا ایسی فضولیات سے کوئی واسطہ نہیں۔ یہ سارا حساب کتاب صرف قادر آباد کول پاور پلانٹ کا تھا۔ جامشورو میں لگنے والے کول پاور پلانٹ کو شامل کریں تو ساری ریلوے کی ''پھوک نکل جائے گی۔
[/FONT]​

 

mh.saghir

Minister (2k+ posts)
Re: Official of Chinese Embassy Thwarting Lies of Klasara

[FONT=&amp]قادر آباد (ساہیوال) میں پنجاب کا پہلا کول فائر پاور پلانٹ لگ رہا ہے۔ 1320 میگاواٹ کا یہ پاور جنریشن پلانٹ پاکستان کی زرخیز ترین زمین پر لگ رہا ہے۔ ایک ہزار ایکڑ یعنی 40 مربع زرعی اراضی پر لگنے والے اس کوئلے کے بجلی گھر کے لیے 12 سے 18 ہزار ٹن کوئلہ روزانہ کی بنیاد پر درکار ہو گا۔ یہ مقدار 12 سے 18 ہزار ٹن اس لیے ہے کہ یہ براہ راست کوئلے کی کوالٹی سے منسلک ہے اور اس کی مقدار کا دارومدار کوئلے کی HEAT ENERGY کے یونٹ Kcal سے وابستہ ہے۔ اگر عام قسم کا کوئلہ استعمال کیا جائے جو عموماً ان پلانٹس پر استعمال ہوتا ہے تو اس کا حساب قادر آباد پاور پلانٹ کے لیے تقریباً 18 ہزار 4 سو 80 ٹن روزانہ ہو گا۔ اس سارے حساب کتاب کی تفصیل بڑی گنجلک ہے اور عام قاری کے لیے اسے سمجھنا اور میرے لیے اس کالم میں سمجھانا خاصا مشکل ہے؛ تاہم مختصراً بتاتا چلوں کہ اگر "D" گریڈ کا کوئلہ استعمال کیا جائے تو ایک کلو گرام کوئلے کی Kcal یعنی کلو ریفک ویلیو (Calorific Value) 4200 ہو گی۔ مختلف سائکلز میں ہونے والی ہیٹ انرجی کے نقصان کے باعث پلانٹ کی مجموعی کارکردگی یعنی Overall efficiency تقریباً 35 فیصد ہو تو حرارت کی طاقت جو 100 فیصد پر P=Q/t کے حساب سے Q=239 ہے، 35 فیصد پر 239/0.35=683 ہو گی۔ اس حساب سے ایک میگاواٹ بجلی کے حصول کے لیے 683 کو 4200 سے تقسیم کریں تو 162 گرام کوئلہ فی میگاواٹ فی سیکنڈ چاہئے یعنی 162 ضرب 24 (گھنٹے) ضرب 3600 (ایک گھنٹے میں سیکنڈ) تو جواب 14 ٹن فی میگاواٹ روزانہ بنتا ہے۔ اس طرح 1320 میگاواٹ کے قادر آباد کول پاور پلانٹ کے لیے روزانہ 18 ہزار 4 سو 80 ٹن کوئلہ درکار ہے۔ دوسرے لفظوں میں کراچی سے روزانہ قادر آباد کے لیے 18 ہزار ٹن کوئلہ لانا ہو گا۔[/FONT][FONT=&amp]
میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ دنیا بھر میں کوئلے کی ترسیل کوئی آسان کام نہیں۔ ایسے بجلی گھر یا تو سمندر کے کنارے لگائے جاتے ہیں کہ درآمد شدہ کوئلہ براہِ راست جیٹی پر اتار کر بلکہ وہیں سے متحرک بیلٹ کے ذریعے پلانٹ تک پہنچایا جا سکے یا دریائوں کے کنارے لگائے جاتے ہیں (یورپ وغیرہ میں دریا گہرے ہیں اور وہاں جہاز رانی معمول کی بات ہے۔ ہمارے دریا زیادہ چوڑے اور کم گہرے ہیں اس لیے یہاں جہاز رانی ممکن نہیں) جہاں سے بندرگاہوں پر اترنے والے کوئلے کو ان دریائوں کے راستے فلیٹ بیڈ بار جز (مسطح پیندے والی بڑی کشتیاں) کے ذریعے کول پلانٹ پر پہنچایا جاتا ہے یا کوئلے کی کان کے ساتھ لگایا جاتا ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان میں کول پاور پلانٹ یا تو بلوچستان اور سندھ کے ساحلی علاقوں میں لگائے جا سکتے تھے یا پھر تھر وغیرہ میں جہاں کوئلے کی دستیابی ہے۔ لیکن خادم اعلیٰ صرف اس غرض سے کہ بجلی ان کے گھر کے صحن میں پیدا ہو کوئلے کے بجلی گھر ساہیوال میں لگا رہے ہیں جو نہ صرف تکنیکی اعتبار سے غلط ہے، بلکہ معاشی حوالوں سے بھی سود مند نہیں ہے۔ اس قسم کے منصوبوں کو کوئلے کی سپلائی ایک بہت بڑا مسئلہ ہے اور خادم اعلیٰ نے بجلی کی سپلائی بذریعہ ڈی سی ٹرانسمیشن لائن کرنے کے بجائے کوئلہ بذریعہ ریل منگوانے کو ترجیح دی ہے جو موجودہ ریلوے کی استعداد سے کہیں باہر کی چیز ہے۔ اب وہ ریلوے کی استعداد بڑھائیں گے اور ریلوے کو اس کے لیے 20 ارب ڈالر درکار ہیں۔
فی الوقت ریلوے کے چلنے والی ایکسپریس ٹرینوں کے بعد بچنے والی LINE CAPACITY چوبیس ٹرینیں فی یوم ہے۔ یعنی موجودہ ریلوے ٹریک کی استعداد کار 24 مال گاڑیاں ہے جس میں سے 10 مال گاڑیاں فی الوقت چل رہی ہیں۔ اس حساب سے بقیہ لائن کپیسیٹی 14 گاڑیاں فی یوم ہے۔ اگر ریلوے کا نظام بہتر ہو جاتا ہے اور چار پانچ ایکسپریس ٹرینیں مزید چلتی ہیں تو یہ لائن کپیسیٹی 10 رہ جائے گی۔ صرف قادر آباد کول پلانٹ کے 18 ہزار ٹن کوئلے کو جسے ہم زیادہ بہتر کوالٹی کا کوئلہ ہونے کی صورت میں 15 ہزار ٹن تصور کر لیتے ہیں کے لیے ریلوے کی روزانہ تقریباً 8 گاڑیاں درکار ہیں۔
ریلوے کی ایک کوئلے کی ویگن 60 ٹن کوئلہ لاد سکتی ہے۔ یاد رہے کہ کوئلہ کی ترسیل کے لیے ریلوے کے پاس اوپر سے کھلی ویگنوں کی شاید اتنی تعداد بھی میسر نہیں ہے؛ تاہم فی الحال ہم فرض کر لیتے ہیں کہ یہ ویگنیں دستیاب ہیں۔ موجودہ ریلوے انجنوں کی طاقت 3 ہزار ہارس پاور ہے اور فارمولا یہ ہے کہ انجن کی گاڑی کھینچنے کی طاقت یعنی HANDLING CAPACITY اپنی ہارس پاور کا 80 فیصد ہوتی ہے۔ 3 ہزار ہارس پاور کا انجن 24 سو ٹن وزن کھینچ سکتا ہے۔ موجودہ انجنوں کی طاقت کو مدنظر رکھیں تو ویگنوں کا اپنا وزن نکال کر خالص وزن کھینچنے کی استطاعت 18 سو ٹن بچتی ہے۔ اس طرح ایک ٹرین 18 سو ٹن کوئلہ لا سکتی ہے اور 15 ہزار ٹن کے لیے روزانہ 30 ویگنوں والی کم از کم 8 گاڑیاں درکار ہیں۔ اب 8 گاڑیاں قادر آباد اَن لوڈنگ میں، ہر 3 گھنٹے بعد ایک گاڑی کے حساب سے کراچی سے قادر آباد تک 30 گھنٹوں پر مشتمل سفر میں کوئلے سے لدی ہوئی 10 گاڑیاں رواں دواں ہیں۔ اسی طرح قادر آباد سے خالی ہو کر واپس کراچی جانے والی 10 گاڑیاں بھی ریلوے ٹریک پر ہیں۔ کم از کم 8 گاڑیاں بندرگاہ پر کوئلہ لادنے کے عمل سے گزر رہی ہیں۔ یہ کل 36 گاڑیاں ہو گئیں۔ ریلوے کے پاس اتنے انجن ہی نہیں ہیں۔ ان انجنوں کی کمی پورا
کرنے کے لیے امریکی کمپنی جنرل الیکٹرک سے 55 نئے انجن خریدے جا رہے ہیں جن کی مالیت 22 ارب روپے ہے۔ یہ انجن 4500 ہارس پاور کے ہیں اور 36 سو ٹن وزن کھینچ سکتے ہیں۔ ان انجنوں کے ذریعے کوئلہ لایا جائے تو ساڑھے پانچ ٹرینیں درکار ہیں۔
اب آ جائیں کوئلے پر۔ عام لوگوں کا خیال ہے کہ کول پلانٹس پر استعمال ہونے والا کوئلہ ڈھیلوں کی شکل کا ہوتا ہے حالانکہ یہ موٹی ریت کی مانند ہے۔ ریلوے کی کھلی ویگنوں پر آنے والا یہ کوئلہ اڑے گا اور کراچی سے قادر آباد تک کا سارا ریلوے ٹریک اور آس پاس کی آبادیوں کو کالا کرے گا۔ خستہ حال ویگنوں سے راستے میں سوراخوں سے گرنے والا کوئلہ اس پر مستزاد ہو گا۔ ایک اور مسئلہ اس کوئلے کی راکھ کو سمیٹنا ہے۔ سمندر کے کنارے پلانٹس یہ راکھ سمندر میں ڈال دیتے ہیں یا ان سے ''ڈائون سٹریم انڈسٹری‘‘ چلائی جاتی ہے اور اس راکھ سے خاص طرح کا سیمنٹ اور ہلکی اینٹیں بنائیں جاتی ہیں۔ قادر آباد کی 40 مربع زرخیز ترین زمین کی بربادی کے بعد یہ راکھ مزید زمینیں خراب کرے گی۔ اگر پنجاب میں یہ پلانٹ لگانا ہی مقصود تھا تو اس کے لیے بہترین جگہ رحیم یار خان تھی جہاں کوئلے کی فراہمی کے سلسلے میں ساڑھے چار سو کلو میٹر کا فاصلہ بچایا جا سکتا تھا اور چولستان کی غیر آباد زمین پر لگنے والے اس بجلی گھر سے اڑنے والی راکھ، دھواں اور فضائی آلودگی سے آبادی کو بچایا جا سکتا تھا مگر یہ سوچنے کی باتیں ہیں اور فیصلہ کرنے والوں کا ایسی فضولیات سے کوئی واسطہ نہیں۔ یہ سارا حساب کتاب صرف قادر آباد کول پاور پلانٹ کا تھا۔ جامشورو میں لگنے والے کول پاور پلانٹ کو شامل کریں تو ساری ریلوے کی ''پھوک‘‘ نکل جائے گی۔
[/FONT]

Although it is a horrific picture and I don't want to like what you have written but said fact is that it is the truth and could not agree more.
There is no planning just the show of, just to get the votes in next ballot season. I hope people use their brains this time and leave their stomachs out of this practice.
 

SahirShah

Minister (2k+ posts)
Re: Official of Chinese Embassy Thwarting Lies of Klasara

Even country like Germany is going back to coal plants to produce cheapest energy and improve their exports. Klasra should discuss Reham khan and IK marriage issue and leave coal plants alone.

What a lame information. Where did you get that ?
 

Back
Top