Trump statement and boot chataee

PappuChikna

Chief Minister (5k+ posts)
Trump kee statement kiaa aaee kay boot chataee ka naya season start.
Boot chaat se bharay newspaper articles by boot chaat lover safai.

STarting with Haroon Rasheed (Kyaani).
According to Harron Boot Rasheed, Bajwaa ne amreeka ko aankein dikha dein and democratic politicians specially NAwaz Shareef is an Indian agent.
This boot lover used to say Kyani ne amreeka ko aankhein dikhaa deein and zaradi is an amreeki agent. Now we all know what kyani and pasha did for raymond and other cases.


x20477_67018730.jpg.pagespeed.ic.064yC5NYuj.webp
 

PappuChikna

Chief Minister (5k+ posts)
Haroon Boot Rasheed used to say Kyani ne amreeka kee aankoo mein aakhein daal kay said NO to North Wazeeristan operation and saved multi ghairat--o-hummiat.
All that happened while there were non-stop terrorism in Pakistan.

Just a couple of years later, the same boot polishia was praising thank you raheel shareef for carrying out N Wazeeristan operation and cleaning terrorists. This boot polishia never felt ashamed when thank you raheel shareef told whole nation numerous times that all terrorists had their bases in North Wazeeristan which as now been cleaned.

Now this boot polishia is again saying Bajwa ne Donald Trump ko aankhein dikhaaa dein and that shareefs are indian agents.

yeh boot polishiay baaz nahi aaein gay and the best part is pti naive social media workers will continue to love ppl like him.
 

PappuChikna

Chief Minister (5k+ posts)
Now here is a real article that shows the real situation, lekin awam aisee cheezoo se duur hee bhaagtee hai.



[FONT=&quot][h=1]خدا شاہد خاقان اور خواجہ آصف کو بھی اپنی امان میں رکھے[/h]کالم نگار | نصرت جاوید
[/FONT]

[FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot][FONT=&quot][FONT=&quot][/FONT][FONT=&quot][/FONT][FONT=&quot]
[/FONT]12[FONT=&quot][/FONT][FONT=&quot]
[/FONT][FONT=&quot][/FONT][FONT=&quot]

[/FONT][FONT=&quot][/FONT][FONT=&quot]
[/FONT][FONT=&quot][/FONT][FONT=&quot]
[/FONT]21
[/FONT]


[/FONT]

[FONT=&quot][/FONT]
[FONT=&quot]
news-1503520220-3977.gif
[/FONT]

[FONT=&quot]پاکستانی وقت کے مطابق منگل کی صبح 6بجے امریکی صدر نے بہت انتظار کروانے کے بعد جنوبی ایشیاءاور افغانستان کے بارے میں اپنی پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے جو تقریر کی، میں اسے پاکستان کے خلاف اعلانِ جنگ سمجھتا ہوں۔ ہمارے ملک کے انتہائی پڑھے لکھے ماہرینِ عالمی امور کی اکثریت مگر پریشان نہیں ہے۔ اپنی ذہانت و فراست کا اظہار ان دنوں وہ بہت تحقیق کے بعد لکھی کتابوں یا مضامین کے ذریعے نہیں کرتے۔ مختلف ٹی وی چینلوں کی سکرینوں پر براجمان ہوئے حکمت کے موتی بکھیرتے نظر آتے ہیں۔ بہت رعونت وحقارت سے انہوں نے ”فکرناٹ“ والی فضا بنادی۔
ہمیں بتایا گیا کہ پنجابی محاورے والے گدھے سے گرکر امریکی صدر اپنی خفت پاکستان کو ڈانٹتے ہوئے مٹانے کی کوشش کررہا ہے۔ اس کا ملک اب بھی دنیا کی واحد سپر طاقت ہونے کا دعوے دار ہے۔ 16سال سے افغانستان پر قابض ہے۔ اس نے اپنے قبضے کو قائم رکھنے کے لئے کھربوں ڈالر خرچ کئے۔ جدید ترین تباہ کن اسلحہ استعمال کیا۔ ہزاروں فوجیوں کی جانیں گنوائیں۔ یہ سب کرنے کے باوجود اگر وہ ایمان کی دولت سے مالا مال طالبان کو شکست نہ دے پایا تو اس میں ہمارا کیا قصور؟
ہمیں یقین ہے کہ 2014ءمیں پشاور میں ایک سکول پر ہوئے حملے کے بعد سے مسلسل جاری آپریشنز کی بدولت ہمارے ہاں امریکہ کی جانب سے دہشت گرد ٹھہرائے افراد کی مبینہ پناہ گاہیں ہرگز موجود نہیں رہیں۔ ان آپریشنز سے گھبرا کر یہ دہشت گرد بلکہ افغانستان جاچکے ہیں۔ افغان اور بھارتی انٹیلی جنس ایجنسیوں نے انہیں وہاں پناہ گاہیں فراہم کیں۔ ان پناہ گاہوں سے وہ کسی نہ کسی طرح پاک افغان سرحد پار کرنے کے بعد ہمارے شہروں میں خودکش حملہ آوروں کے ذریعے تباہی پھیلانے میں مصروف رہتے ہیں۔ ہمارے دوست ہونے کے دعوے دار امریکہ کو پاکستان سے شکایات کے بجائے افغانستان میں موجود دہشت گردوں کی پناگاہوں کا اعتراف کرنا چاہیے۔ وہ ان کی موجودگی تسلیم کرنے کو بھی لیکن تیار نظر نہیں آرہا۔
تقریباََ یکسو ہوکر ہمارے تمام ٹی وی چینل اس بات پر بھی بہت چراغ پا سنائی دئیے کہ ہماری وزارتِ خارجہ مذکورہ بالا حقائق دنیا کے سامنے لانے میں ناکام رہی۔ سپریم کورٹ کے ہاتھوں نااہل قرار پائے نواز شریف نے اپنے چار سالہ دور میں ایک کل وقتی وزیر خارجہ کا تعین ہی نہیں کیا تھا۔ سرتاج عزیز اور طارق فاطمی ان کی جانب سے اس وزارت کے معاملات دیکھتے رہے۔ ان دونوں کے مابین اختیارات کی جنگ رہی۔ بالآخر طارق فاطمی ڈان اخبار کو ایک ”جھوٹی خبر“ دینے کے جرم میں فارغ ہوئے۔ نواز شریف کی فراغت کے بعد شاہد خاقان عباسی تشریف لائے تو انہوں نے خواجہ آصف کو کل وقتی وزیر خارجہ مقرر کر دیا۔ ہمارے بہت ہی پڑھے لکھے ماہرینِ امور خارجہ کو یہ انتخاب مگر پسند نہیں آیا۔ خواجہ آصف ان کی نظر میں محض ایک پھکڑباز سیاست دان ہیں۔ ان سے ایسی بردباری کی توقع نہیں جو ہارورڈ یاآکسفورڈ جیسی یونیورسٹیوں کے پروفیسروں سے وابستہ ہوا کرتی ہے۔
خواجہ آصف بھی مگر منگل کی شام تک ٹرمپ کی تقریر کے بارے میں خاموش رہے۔ ٹرمپ کو پارلیمان میں کھڑے ہوکر منہ توڑ جواب نہ دے پائے۔ ان کے مقابلے میں چینی وزارتِ خارجہ کی ترجمان سے جب ٹرمپ کی تقریر کی بابت سوال پوچھا گیا تو انہوں نے دو ٹوک الفاظ میں امریکی صدر کے خیالات کو جھٹلایا۔ پاکستان کو دہشت گردی کا شکار بتاتے ہوئے دہشت گردی کے خلاف برپا جنگ کی اولیں صفوں میں کھڑا شمار کیا۔
مجھے امید ہے کہ منگل کی شب تک اپنی مسلسل مذمت کے بعد خواجہ آصف اب امریکی صدر کو ”اوئے ٹرمپ“ پکار کر للکارتے نظر آئیں گے۔ یہ سوال اگرچہ اپنی جگہ موجود رہے گا کہ کیا خواجہ آصف یا پاکستانی ریاست کے کسی اور اہم فرد کی جانب سے دھواں دھار تقاریر امریکہ کے ساتھ معاملات طے کرنے میں کوئی ٹھوس کردار ادا کرسکتی ہیں یا نہیں۔
گزشتہ چار برسوں سے بہت تواتر کے ساتھ ہمارے میڈیا میں ایک کل وقتی وزیر خارجہ کے نہ ہونے کے بارے میں مسلسل ماتم برپا رہا ہے۔ ماتم کنائی میں مصروف لوگوں نے کبھی یاد ہی نہ رکھا کہ 1947ءسے 1960کے آغاز تک دنیا کی اصلی تے وڈی کہلاتی پارلیمانی جمہوریت بھارت میں بھی وہاں کے وزیر اعظم جواہرلال نہرو نے یہ عہدہ کسی اور کو نہیں دیا تھا۔ 1962ءمیں چین کے ہاتھوں ہزیمت کے بعد یہ منصب سردار سورن سنگھ کو ملا تھا۔
اپنے پورے دورِ اقتدار میں ذوالفقار علی بھٹو نے بھی کوئی کل وقتی وزیر خارجہ مقرر نہیں کیا تھا۔1974ءکے بعد فارن آفس سے ریٹائر ہوئے عزیز احمد کو سینٹ کا رکن بنواکر انہیں خارجہ امور کا وزیر مملکت بنادیا تھا۔ پاکستان ایسے ملک کا وزیر اعظم خوب جانتا ہے کہ خارجہ امور کے بارے میں حتمی پالیسی سازی محض وزارتِ خارجہ کو نصیب نہیں ہوتی۔ ہمارے ریاست کے دائمی ادارے اسے طے کرنے میں بالادست Stakeholders کا کردار ادا کرتے ہیں۔
1985ءکے غیر جماعتی انتخابات کے بعد وزیر اعظم محمد خان جونیجو کو صاحبزادہ یعقوب علی خان بطور وزیر خارجہ ”ورثے“ میں ملے تھے۔ صاحبزادہ صاحب اپنے وزیر اعظم کے بجائے ہدایات لینے کے لئے صدر جنرل ضیاءالحق ہی سے رجوع کرتے رہے۔ اپنی ذہانت، فطانت اور بین الاقوامی مقبولیت پر مکمل بھروسہ کرتے ہوئے صاحبزادہ صاحب نے اقوام متحدہ کے ایک ذیلی ادارے کی صدارت کا انتخاب لڑا اور شرمناک شکست سے دو چار ہوئے۔ اس شکست کے بعد انہیں اپنے عہدے سے استعفیٰ دینا پڑا تو جونیجو مرحوم نے کراچی سے منتخب ہوئے ایک انتہائی محنتی اور ذہین رکن اسمبلی زین نورانی مرحوم کو وزیر مملکت برائے امور خارجہ مقرر کردیا۔ مکمل وزارت مگر اپنے پاس ہی رکھی۔
1986ءکے اواخر میں ان دنوں کے سوویت یونین نے باقاعدہ سفارت کاروں کے ذریعے پیغام بھجوانا شروع کردیا کہ وہ افغانستان سے اپنی فوجیں باہر نکالنا چاہتا ہے۔ پاکستان نے اس کی خواہش پر کان نہ دھرا تو اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی وساطت سے پاکستان کو جنیوا میں ہوئے مذاکرات کے ذریعے افغان مسئلہ کا کوئی حل ڈھونڈنے پر مجبور کردیا گیا۔
زین نورانی مرحوم ان مذاکرات میں حصہ لینے کے لئے کئی ہفتوں تک جنیوا میں مقیم رہے۔ ان مذاکرات کے ا ختتام پر بالآخر ایک معاہدے کا ڈرافٹ تیار ہوگیا۔ آج بھی اس ڈرافٹ پر ٹھنڈے دل سے غور کریں تو خیال آتا ہے کہ اس معاہدے پر رضا مندی کے اظہار کے بعد دیانت داری سے عمل پیرا ہوا جاتا تو شاید ہمارے خطے میں افغانستان کے تناظر میں وہ تباہی پھیلی ہوئی نظر نہ آتی جو ان دنوں ہمارا مقدر ٹھہری نظر آرہی ہے۔
جنیوا معاہدے کا ڈرافٹ لے کر زین نورانی مرحوم پاکستان واپس آئے تو جونیجو مرحوم نے اس پر طویل غور کرنے کے بعد منظوری کے لئے اپنی کابینہ کا اجلاس بلالیا۔
اس ”منتخب“ کابینہ کا جو کسی ریاست میں حتمی فیصلہ سازشمار ہوتی ہے اجلاس ابھی جاری تھا کہ وہاں جنرل ضیاءالحق انتہائی مشتعل انداز میں تشریف لے آئے۔اپنی نشست پر براجمان ہوتے ہی انہوں نے زین نورانی کی طرف اُنگلی ہلاتے ہوئے اعلان کیا کہ اگر اس معاہدے پر دستخط کی منظوری دی گئی تو ”میں تمہارے.... (وہ لفظ لکھا نہیں جا سکتا“ کو باندھ کر درخت سے الٹا لٹکادوں گا۔“ یہ دھمکی دینے کے بعد وہ اجلاس سے روانہ ہوگئے۔ جونیجو کابینہ نے اس کے باوجود جنیوا معاہدے پر دستخط کردئیے اور مئی 1988ءمیں ضیاءالحق نے منتخب حکومت کو اسمبلیوں سمیت فارغ کر دیا۔
اس واقعے کے بعد سے کوئی دیوانہ سویلین ہی وزارتِ عظمیٰ کے عہدے پر فائز ہونے کے بعد اس ملک کی خارجہ پالیسی طے کرنے کے لئے کسی کل وقتی وزیر کی تعیناتی والی حماقت کا ارتکاب کرسکتا ہے۔ خدا شاہد خاقان عباسی اور خواجہ آصف کو بھی اپنی امان میں رکھے۔
بلوچستان میں مشہور زمانہ میگا کرپشن کیس میں اس وقت اہم پیش رفت ہورہی ہے گزشتہ دنوں عدالت نے اس کیس کے مرکزی کردار سابق سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی کی ضمانت کی درخواست بھی مسترد کردی ہے اور اس وقت میگا کرپشن کیس پر کارروائی کو نیب بلوچستان نے تیز تر کردیا ہے تاکہ اس اہم نوعیت کے میگا کرپشن کیس کو انجام تک پہنچایا جا سکے اس سلسلے میں بعض اہم نوعیت کی کارروائیاں بھی نیب کی جانب سے کی جارہی ہیں۔
نیب بلوچستان نے میگا کرپشن کیس میں دورانِ تفتیش ملزمان سے اربوں روپے کی بر آمد ہونے والی جائیدادوں کے ملکیتی حقوق کی بلوچستان حکومت کے نام منتقلی کے لئے سندھ حکومت سے رابطہ کر لیا ، جائیدادوں کے ملکیتی حقوق کی ٹرانسفر کا عمل ہنگامی بنیادوں پر شروع کر دیا گیا ، ریونیو آفس کراچی، ڈی ایچ اے کراچی و دیگر متعلقہ دفاتر ملزمان کی کرپشن سے بنائی گئی جائیدادیں بلوچستان حکومت کے نام فوری ٹرانسفر کرنے کےلئے سرگرم عمل ہو گئے۔
بلوچستان کی تاریخ کے سب سے بڑے کرپشن اسکینڈ ل جس میں دوران تفتیش سابق سیکرٹری خزانہ مشتاق رئیسانی و دیگر ملزمان کے نام ڈی ایچ اے کراچی میں اربوں روپے کے بنگلوں اور پلاٹس کا انکشاف ہوا تھا اور بعد ازاں نیب نے قانونی کارروائی کرتے ہوئے متعلقہ جائیدادیں اپنے قبضہ میں لے لی تھیں۔
نیب بلوچستان نے چیئرمین قمر زمان چوہدری کی ہدایت پر متعلقہ جائیدادیں بلوچستان حکومت کے نام منتقل کرنے کے لئے ایک ٹیم تشکیل دی۔ تفتیشی افسر نیب بلوچستان شیخ محمد شعیب نے بہ ہمراہ حکومت بلوچستان کے نمائندگان حکومت سندھ سے اس سلسلے میں رابطہ کیا اور ریونیو آفس کراچی ، ڈی ایچ اے کراچی اور دیگر متعلقہ دفاتر کے افسران سے ملاقات کر کے جائیدادوں کی ملکیتی حقوق کی ٹرانسفر کا کام شروع کروا دیا ہے۔ اس سلسلے میں ریونیو آفس کراچی، ڈی ایچ اے کراچی اور دیگر متعلقہ دفاتر کو تمام امور جلد از جلد مکمل کرنے کی خصوصی ہدایت جاری کی گئی ہے۔[/FONT]
 

PappuChikna

Chief Minister (5k+ posts)
Haroon Boot Rasheed used to say Kyani ne amreeka kee aankoo mein aakhein daal kay said NO to North Wazeeristan operation and saved multi ghairat--o-hummiat.
All that happened while there were non-stop terrorism in Pakistan.

Just a couple of years later, the same boot polishia was praising thank you raheel shareef for carrying out N Wazeeristan operation and cleaning terrorists. This boot polishia never felt ashamed when thank you raheel shareef told whole nation numerous times that all terrorists had their bases in North Wazeeristan which as now been cleaned.

Now this boot polishia is again saying Bajwa ne Donald Trump ko aankhein dikhaaa dein and that shareefs are indian agents.

yeh boot polishiay baaz nahi aaein gay and the best part is pti naive social media workers will continue to love ppl like him.


This same Haroon Boot Rasheed used to say during Kyani times when terrorism was at its peak in Pakistan that all this terrorism is due to inefficiencies and bad governance of Zardari and Kyani is a farishta.

When terrorism came down during Thankyou Raheel shareef times, he used to say this peace is due to the efforts of thank you raheel shareef and nawaz shareef got nothing do to with it.

How can they insult awami intellect like this? but I guess they can because awam loves this BS!
 

GreenMaple

Prime Minister (20k+ posts)
اور ہم سمجھے کہ یہ اُس بوٹ چاٹیئے اور گھس بیٹھیئے کی بات ہو رہی ہے جس نے اپنے روحانی باپ ضیاالحق کے بوٹ اور تلوے چاٹ کر چور دروازے سے اپنے آپ کو قوم پر ٹھونس دیا
 

PappuChikna

Chief Minister (5k+ posts)
اور ہم سمجھے کہ یہ اُس بوٹ چاٹیئے اور گھس بیٹھیئے کی بات ہو رہی ہے جس نے اپنے روحانی باپ ضیاالحق کے بوٹ اور تلوے چاٹ کر چور دروازے سے اپنے آپ کو قوم پر ٹھونس دیا

expected response for a naie pti social media worker.
 

atensari

(50k+ posts) بابائے فورم
تم بھولنا تو چاہو ہم بھولنے نا دیں گے
images

بوٹ چاٹئیے - تم ہی تو ہو
 

Eyeaan

Chief Minister (5k+ posts)
Haroon Boot Rasheed used to say Kyani ne amreeka kee aankoo mein aakhein daal kay said NO to North Wazeeristan operation and saved multi ghairat--o-hummiat.
All that happened while there were non-stop terrorism in Pakistan.

Just a couple of years later, the same boot polishia was praising thank you raheel shareef for carrying out N Wazeeristan operation and cleaning terrorists. This boot polishia never felt ashamed when thank you raheel shareef told whole nation numerous times that all terrorists had their bases in North Wazeeristan which as now been cleaned.

Now this boot polishia is again saying Bajwa ne Donald Trump ko aankhein dikhaaa dein and that shareefs are indian agents.

yeh boot polishiay baaz nahi aaein gay and the best part is pti naive social media workers will continue to love ppl like him.

جہان تک بات محترم ھارون صاحب سے متعلق ہے وہ سپاٹ آن ہے اور کویَ اختلاف بھی نہیں مگر اس بہانے محترم نصرت جاوید کو کرسی نشیں کرنا مناسب نہیں۔
۔ محترم نصرت جاوید صاحب اسی کی دھای کی ایک ایسی بوڑھی روح ہے جس میں جوں جوں وقت گزرتا ہے بچگانہ چونچلے بڑھتے جاتے ہیں ۔ فارن پالیسی یا جزیات پر محترم کے افکارِعالیہ کا نہ کویَ فایدہ ہے اور نہ ہی ضرورت۔ ایک منجمد اور خوردہ ذہن سواے گھسے پٹے الفاظ کے دہراوَ کے، یا کسی دوست یار کے الفاظ ہفتہ اتوار شنیدہ الفاظ سبب غصَہ جتلانے کے کیا دے پاےَ گا۔ محترم نصرت جب ناصر چٹھہ یا وٹو صاحب کے چٹکلے مزے لے لے کر سناتے ہیں تو بہت بھلے لگتے ہیں، اس سے زیادہ تو بس دں دھاڑے ستم،آزردگی جانیے، زباں پہ آیا کہا تو صریحاََ بد اخلاقی ہو گی۔۔ گیے دنوں ملت جریدہ کے صفحات سے ضیا مرحوم خلاف کالی پینٹ پہنے، بٹن کھولے، ایک ٹانگ کھڑے، انقلاب لاتے تھے۔ وقت بیت گیا محترم آج اسی ٹانگ کھڑے ہیں۔ انقلاب تو کیا مردگی کے داعی دکھتے ہیں ۔۔ یہ بد قسمتی ہوتی ہے کہ شہر و در رنگ روپ بدل چکے، نسل پلی اور بوڑھا ہونے کو آیَ، نیا دور آیا بیت گیا، مگر کہنہ فکر قوم کے حصے کو مرضِ خوردگی میں مبتلا رکھتے ہیں اور شرمندہ بھی نہیں ہوتے۔ ناپختہ ذہن کے نذدیک یہ بھی عذاب من اللھ کی ایک شکل ہے۔ پاک صحافت میں کویَ گریس فلَی بوڑھا ہوا ہے تو وہ عبدل قادر صاحب ہیں کہ ایک دور تھا جملہ جملہ زھر آلود، خوں کھولانے والا، مخالفین کو مغلضات بھی مطمعن نہ کر پاتے، کہاں آج کی انکساری، دھیمہ پن اور بھایَ چارگی پر اصرار۔ محترم نصرت جاوید صاحب ظمن کہنا تھا وہ کہ چکے، آپ بھایَ خود مالک جو چاہیں وہی سو فیصد مناسب ۔


جہاں تک بات ٹرمپ پر خاص متوجہ نہ ہونے کی ہے اس بات میں وزن ہے اور اس نکتہ کی وجوہ امریکی سیاست سے ہیں۔ جنگ، کانگرس اور پنٹاگون کے مابین مسلہ ہے، صدر کا نہیں۔ حقیتاََ امریکی فارن پالیسی کی وضع بھی یونہی ہی ہے۔ ھاں جب کویَ جنگ عوام میں مقبول ہوتی ہے تو صدر ڈرایونگ سیٹ پر آ جاتا ہے مگر افغان وار کی عوامی مقبویت یک ہندسے تک بمشکل ہو گی۔ ٹرمپ کو دھمکیاں اور فضول پالیسی بیانات کی عادت ہے، اسکے کور معدودے سپورٹر ایسے میں خوش ہوتے ہیں۔ اسنے میکسیکو، کینیڈا، یورپین یونین وغیرہ اور دسیوں اور سے بھی بد زبانی کی تھی۔ میکسیکن سربراہ نے جواباََ منھ بھر گالی کو مناسب جانا اور امریکی عوام کی اکثریت کو بھی یہی پسند آیا۔ غالباََ،وہ امریکی تھنک ٹینک جو افواج اور کانگرس کو گایَڈ کرتے ہیں اس پالیسی بیان سے متفق نہیں دکھتے۔ پنٹاگون اس سٹیج پر بھارت کو افغانستان کو کویَ جنگی رول کیوں دے گا اور پرانی پالیسی کس مقصد کو تبدیل کرے، سواے انڈیا سے کچھ مفادات خاطر بے وزن، بے اصل بیان بازی کے۔ یاد رہے افغان اور عراق کی جنگیں اتنے عرصہ میں صرف اور صرف بھارتی عوام( یا ہندو مذھب میں ) میں واضح عوامی مقبویت رکھتی رہی ہیں( امریکہ یا اسرایلَ تک میں نہیں )، اور امریکہ میں انڈیا نواز حلقے اس سے واقف ہیں۔الفاظی غبار کا بہت تعلق بھارتی عوام ، حکومت کو خوش کرنے سے بھی ہے۔ ورنہ اصلی جنگی مسایل دو جنرل آمنے سامنے بیٹھ کر طے کریں گے کہ پنٹگون کا جنگی آپریشنل معاملات میں یہی طریقہ ہے، ٹرمپ کا عمل تھوڑا اور کم ہی ہے۔
ھاں یہ ضرور ممکن ہے کہ سبھی محترم نصرت جاوید صاحب کے چرنوں حاضری دیں اور پوچھیں کہ مایَ باپ آپ کو یاسین وٹو نے کونسی گھنڈی بتایَ تھی۔ آخر کیوں نہیں۔
 

Back
Top