کسانوں سے تنازعے کو دہشت گردی بنایا جا رہا ہے
شیئر
انجمن مزارعین کے مطابق 13 کارکنان کو کئی دنوں سےجبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے جن میں دو خواتین شامل ہیںانسانی حقوق کے ادارے
ہیومن رائٹس کمشین آف پاکستان نے الزام لگایا ہے کہ صوبہ پنجاب کے ضلع اوکاڑہ میں فوج اور مقامی کسانوں کے درمیان کئی برس سے چلنے والے زمینی تنازعے کو دہشت گردی کا رنگ دیا جا رہا ہے۔
ایچ آر سی پی کے تحفظات ہیں کہ انسداد دہشت گردی کے قوانین کی آڑ میں کسانوں کی اپنے حق کے لیے کی جانے والی جدوجہد کی جڑیں کاٹی جا رہی ہیں۔
اسی حوالے سے پیر کو لاہور میں انسانی حقوق کی وکیل عاصمہ جہانگیر کی سربراہی میں عوامی ورکرز پارٹی نے ایک پریسں کانفرنس بھی منعقد کی۔
انجمن مزارعین کے مطابق 13 کارکنان کو کئی دنوں سےجبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے جن میں دو خواتین شامل ہیںانسانی حقوق کے ادارے
ہیومن رائٹس کمشین آف پاکستان نے الزام لگایا ہے کہ صوبہ پنجاب کے ضلع اوکاڑہ میں فوج اور مقامی کسانوں کے درمیان کئی برس سے چلنے والے زمینی تنازعے کو دہشت گردی کا رنگ دیا جا رہا ہے۔
ایچ آر سی پی کے تحفظات ہیں کہ انسداد دہشت گردی کے قوانین کی آڑ میں کسانوں کی اپنے حق کے لیے کی جانے والی جدوجہد کی جڑیں کاٹی جا رہی ہیں۔
اسی حوالے سے پیر کو لاہور میں انسانی حقوق کی وکیل عاصمہ جہانگیر کی سربراہی میں عوامی ورکرز پارٹی نے ایک پریسں کانفرنس بھی منعقد کی۔
ہم نے دیکھا کہ سڑکوں پر ٹینک کھڑے تھے، اور پولیس اور فوج کی بھاری نفری نے دیہاتوں کا گھیراؤ کیا ہوا تھا۔ بلکل ایسا ہی عمل دیکھنے کو ملا جو جنرل مشرف کے دور میں ہوا کرتا تھا۔فاروق طارق
پریس کانفرنس میں عوامی ورکرز پارٹی کے جنرل سیکریٹری فاروق طارق نے بتایا کہ انجمن مزارعین نے گذشتہ روز کسانوں کے عالمی دن کے موقع پر ایک کنونشن کی تیاری کی تھی لیکن ضلعی انتظامیہ نے اس پر نیشنل ایکشن پلان کے تحت پابندی عائد کر دی اور کہا کہ یہ دہشت گردی ہے۔اجتماع سے ایک دن پہلے انجمن مزارعین کے پنجاب میں سیکریٹری جنرل عبدالجبار اور چار رہنماؤں کو گرفتار بھی کر لیا گیا۔
فاروق طارق کا کہنا تھا کہ ہم نے دیکھا کہ سڑکوں پر ٹینک کھڑے تھے، اور پولیس اور فوج کی بھاری نفری نے دیہاتوں کا گھیراؤ کیا ہوا تھا۔ بلکل ایسا ہی عمل دیکھنے کو ملا جو جنرل مشرف کے دور میں ہوا کرتا تھا۔
ان کے مطابق انجمن کے کارکنان کو مجبوراً اپنے ذاتی کھیت میں اجتماع منعقد کرانا پڑا۔ اس کے باوجود انتظامیہ نے جمع ہوئے کسانوں پر شدید تشدد کیا جن میں عورتیں بھی شامل تھیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ نہتے مزارعوں کو مسلح اہلکاروں نے کیرئرز کے ذریعے ہٹایا اور آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی جس کے نتِیجے میں ایک نوجوان ہلاک ہو گیا۔
فاروق طارق کا کہنا تھا کہ ہم نے دیکھا کہ سڑکوں پر ٹینک کھڑے تھے، اور پولیس اور فوج کی بھاری نفری نے دیہاتوں کا گھیراؤ کیا ہوا تھا۔ بلکل ایسا ہی عمل دیکھنے کو ملا جو جنرل مشرف کے دور میں ہوا کرتا تھا۔
ان کے مطابق انجمن کے کارکنان کو مجبوراً اپنے ذاتی کھیت میں اجتماع منعقد کرانا پڑا۔ اس کے باوجود انتظامیہ نے جمع ہوئے کسانوں پر شدید تشدد کیا جن میں عورتیں بھی شامل تھیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ نہتے مزارعوں کو مسلح اہلکاروں نے کیرئرز کے ذریعے ہٹایا اور آنسو گیس کی شیلنگ کی گئی جس کے نتِیجے میں ایک نوجوان ہلاک ہو گیا۔
کسانوں اور فوج کے درمیان اوکاڑہ اور پنجاب کے 22 دیہاتوں کو لے کر زمین کی ملکیت کا تنازع کئی دہایئوں سے چل رہا ہےانجمن مزارعین کے مطابق 13 کارکنان کو کئی دنوں سےجبری طور پر لاپتہ کیا گیا ہے جن میں دو خواتین شامل ہیں۔
عوامی ورکرز پارٹی کے رہنما فارق طارق نےسوال اٹھایا کہ یہ کنونشن کسانوں کے عالمی دن کے موقعے پر ہر سال منعقد کرایا جاتا ہے۔شرکت کرنے والے کسانوں کے پاس کوئی اسلحہ نہیں تھا اور احتجاج پرامن تھا تو پھر اس پر انسداد دہشت گردی کا رنگ دینے کا کیا جواز تھا؟
ان کا کہنا تھا کہ مزارعین کا قصور صرف یہ ہے کہ وہ اپنی زمینوں کی ملکیت کے حق کے لیے پر امن جد و جہد کر رہے ہیں اور نیشنل ایکشن پلان کی آڑ لے کر ان کو انتقامی کارروائی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔
کسانوں اور فوج کے درمیان اوکاڑہ اور پنجاب کے 22 دیہات میں زمین کی ملکیت کا تنازع کئی دہایئوں سے چل رہا ہے۔کسانوں کا کہنا ہے کہ ان کو اپنے آباؤ اجداد کی زمین سے زبردستی بے دخل کر کے نقد کنٹریکٹ پر ملازم رکھنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
گذشتہ سالوں میں بھی درجنوں کسانوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں اور کئی افراد کو بغیر وارنٹ یا وضاحت گرفتار کیا جا چکا ہےانسانی حقوق کے لیے سرگرم ادارے مطالبہ کر رہے ہیں کہ حکام کسانوں سے با مقصد مذاکرات کے ذریعے فوج اور انجمن مزارعین سے وابستہ کسانوں کے درمیان طویل عرصے سے جاری اس تکرار کو حل کروائیں ۔
انسانی حقوق کی وکیل عاصمہ جہانگیر نے حکومت اور مقامی ذرائع ابلاغ کی جانب سے اس مسئلے پر مسلسل خاموشی پر تشویش کا اظہار کیا ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنان کا تاثر ہے کہ انسداد دہشت گردی کے نئے قوانین کی آڑ میں کسانوں کے اوپر دباؤ کا سلسلہ بڑھ رہا ہے اور کسی نگرانی اور احتساب کے نظام کے بغیر بنیادی انسانی حقوق کو پامال کیا جا رہا ہے۔
عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ حکومت کو واضع کرنا ہو گا کہ یہ سکیورٹی سٹیٹ نہیں ہے، یہ انسانوں کے لیے بنائی گئی ریاست ہے۔ جب سے نیشنل ایکشن پلان آیا ہے، کیا سب ہی دہشت گرد ہو گئے ہیں، یہ کسان بھی؟
گذشتہ سالوں میں ان قوانین کے تحت درجنوں کسانوں کے خلاف مقدمات درج کیے گئے ہیں اور کئی افراد کو بغیر وارنٹ یا وضاحت گرفتار کیا جا چکا ہے۔اس حوالے سے کئی بار انتظامیہ سے رابطے کی کوشش کے باوجود بی بی سی کو کوئی جواب نہیں مل سکا ـ