Please Read: Behisi
بے حِسّی
ٹھیک ہے شہر میں
قتل و غارت گری کی نئی لہر ہے
پر نئی بات کیا؟
یہ تو معمُول ہے
ٹھیک ہے کہ کئی بے گناہ
آگ اور خُون کے کھیل میں زندگی ہار کر
جینے والوں کے بھی حوصلے لے گئے
اور پسماندگاں دیکھتے رہ گئے
یہ بھی معمُول ہے
شہر اب پھر سے مصرُوف و مشغُول ہے
ٹھیک ہے کہ سِتم کالی آندھی کی مانند چھایا رہا
کتنی صُبحوں پہ ظُلمت کا سایہ رہا
کتنے دن تک ہَوا نوحہ خوانی کی خواہش میں گُھٹتی رہی
اور دھرتی کے سینے سے کتنے دنوں ہُوک اُٹھتی رہی
کتنے دن سے یہاں عافیت کا چمن خاک ہے، دھُول ہے
ٹھیک ہے کہ پسِ پُشت رکھے ہوئے خون آلُود ہاتھ
میرا رَہبر ہی تھا جو محبت کا پرچار کرتا رہا
دل ہی دل میں کہیں مُسکراتا رہا
اور نقاب اپنے چہرے پر اوڑھے ہوئے
مرنے والوں کا ماتم بھی کرتا رہایہ نفاقِ طرحدارِ اہلِ سِتم تو روایت میں صدیوں سے منقُول ہے
اور معمُول ہے
پر مجھے کیا پڑی
ہاں مجھے کیا پڑی
کہ میں سوچُوں یہاں کون ظالم ہے اور کون مظلُوم ہے
کون قاتل ہے اور کون مقتول ہے
جس پہ گولی چلی وہ مِرا سر نہ تھا
آگ جس پر لگی وہ مِرا گھر نہ تھا
پھر مجھے کیا پڑی
ہاں مجھے کیا پڑی کہ میں سوچُوں جو بستی میں اُفتاد ہے کس کی اِیجاد ہے
میرا دل اپنی دُنیا میں مشغُول ہے
میری دُنیا میں سب حسبِ معمُول ہے
محمد احمد