
[h=1]تیر کی طرح سیدھا عمران[/h]
باوجود اس کے کہ، دھرنا نگر میں بابا قادری جیسی بلند پایہ روحانی شخصیت موجود ہے۔ عمران خان باہر کے بابوں سے بھی تعویز، دھاگے اور وظائف کے لئے بھاگ دوڑ کرتے رہتے ہیں، گو کہ لندن تعویز بھی ان کے پاس موجود ہے،مگر بھولے بھالے جاوید میانداد نے بھی انہیں کان میں یہ بتانا ضروری سمجھا کہ بابا جی نے کہا کہ وہ آیت تین بار پڑھ لینا جاوید میانداد نے یہ بات بہت راز داری کے ساتھ ایک سے زیادہ بار یاد دلائی، مگر کم بخت مائیک نے یہ بات پورے پاکستان کو سنا دی۔ جاوید میانداد جب یہ بات عمران خان کو بتا رہے تھے، تو عمران خان ایک خوبصورت خاتون کے ساتھ گفتگو میں مصروف تھے، مجھے یقین ہے کہ عمران خان کو بعد میں پتہ چلا ہو گا کہ جاوید میانداد نے انہیں کیا کہا تھا، بہرحال افراتفری اور بھاگ دوڑ میں ایسے واقعات ہوتے رہتے ہیں، مگر جاوید میانداد کو یہ بات کون سمجھائے کہ کراچی کے سب سے بڑے بابا جی کا تعویز عمران خان کی جیب میں موجود تھا اور عمران خان اس تعویز کا کرشمہ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے یہ تعویز نہ ہوتا تو انہیں دوسرے کرشمے نظر آ رہے ہوتے اور ویسے بھی جب کسی اصلی بابا کا تعاون اور تعویز شامل حال ہو تو پھر چھوٹے موٹے بابا کب یاد رہتے ہیں؟عمران خان جو کمان کی طرح ٹیڑھے جملے استعمال کرنے میں خاصے بدنام ہو چکے ہیں۔ کراچی کے جلسے میں تیر کی طرح سیدھے نظر آئے
تیر سے کسی نے پوچھا:تم کمان سے سیدھے کیسے نکلتے ہو، کمان نے جواب دیا تھا جس روز کسی کمان میں آﺅ گے تو پتہ چل جائے گا، کمان ہوتی کیا ہے؟ گو کہ کراچی کے حوالے سے یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ آخر کیا ضرورت پڑ گئی تھی، کراچی میں جلسہ کرنے کی؟ مگر شاہ محمود قریشی نے کراچی میں جلسے کے لئے بہت بھاگ دوڑ کی۔ انہوں نے الطاف حسین کو یقین دہانی کرائی کہ مبینہ طور پر مستقبل کے وزیراعظم کا آپ سے وعدہ ہے کہ کراچی کے جلسے میں عمران خان آپ کو تیر کی طرح سیدھے نظر آئیں گے۔ الطاف حسین ذہین آدمی ہیں انہوں نے کمال مہربانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اعلان کیا کہ عمران خان کراچی میں ہمارے مہمان ہوں گے اور پھر انہوں نے نہ صرف یہ کہ میزبانی کا حق ادا کیا، بلکہ پوری پوری سرپرستی بھی فرمائی۔ شاہ محمود قریشی نے اگر الطاف حسین سے نائن زیرو پر ایک کپ چائے کے اہتمام کی خواہش کا اظہار کیا ہوتا اور عمران خان نے نائن زیرو پر ایک کپ چائے پی لی ہوتی تو یقین کیجئے رش کا یہ عالم ہوتا کہ تحریک انصاف والوں کو ایئر پورٹ کے باہر ہی سٹیج بنانا پڑتا۔ پہلا آدمی سٹیج کے قریب ہوتا تو آخری آدمی بابائے قوم ؒ کے مزار تک ہوتا، مگر شائد عمران خان ابھی اس کے لئے تیار نہیں تھے، آنے والے دو چار ہفتوںمیں ممکن ہے وہ نمک والی چائے پینے کے لئے نائن زیرو حاضری دیں اگر رحمن ملک نے کوئی اپنا چکر نہ چلا دیا تو؟
بہرحال کراچی میں جلسے کے سلسلے میں عمران خان پر یہ حقیقت بھی کھل گئی ہے کہ نواز شریف اور الطاف بھائی میں کیا فرق ہے؟عمران خان کو اب اسلام آباد کے ڈی چوک اور کراچی کے فرق کی سمجھ آ گئی ہو گی، انہیں سمجھ آ گئی ہو گی کہ اسلام آباد کے ڈی چوک، پارلیمنٹ ہاﺅس اور پی ٹی وی پر قبضہ کرنا کتنا آسان اور کراچی میں بابائے قوم کے مزار تک جانے میں کن کن مراحل اور کن کن انتظامی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور پھر محض زبانی و عدوں کی پاسداری بھی کتنی لازمی اور ضروری ہوتی ہے۔ کراچی اسلام آباد نہیں ہے کہ ریاستی اداروں کے ساتھ تحریری وعدے کر کے بھی من مانی کی جائے۔ کراچی، کراچی ہے، جہاں صرف اور صرف ویسا کرنا پڑتا ہے جو پیا من بھائے
بہرحال کراچی کا جلسہ بہت بڑا تھا۔ بابا جی کے تعویز کے اثرات نمایاں طور پر نظر آ رہے تھے، مگر عمران خان بہت اُداس، پریشان اور سہمے سہمے سے نظر آئے، وہ اتنے سہمے ہوئے تھے کہ بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناح ؒ کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لئے بھی نہ گئے، کم از کم مَیں نے کسی نیوز چینل پر نہ دیکھا اور نہ سنا کہ عمران خان بابائے قوم کے مزار پر فاتحہ خوانی کے لئے گئے۔ عمران خان گزشتہ کئی روز سے کراچی والو مَیں تمہیں آزاد کرانے کے لئے آ رہا ہوں، کا اعلان کر رہے تھے۔ کراچی والوں کو بھی امید تھی کہ سلطان محمود غزنوی اگر تشریف لا رہے ہیں تو پھر سومنات کا مندر ٹوٹے ہی ٹوٹے، کراچی کے لوگوں کو آزادی ملے ہی ملے، مگر انہیں کیا پتہ تھا کہ ان کا سلطان محمود غزنوی اپنی تلوار اسلام آباد کے ڈی چوک اور زبان سومنات کے مندر کی سیڑھیوں میں رکھ آئے ہیں :lol: یوں کراچی کے لوگوں کو جو امید تھی کہ سلطان اُن کی آزادی کے لئے17حملے نہ سہی چار پانچ حملے تو ضرور کرے گا، مگر شو می قسمت کہ کراچی کے لوگوں کی یہ خواہش پوری نہ ہو سکی اور کئی لوگ جلسہ گاہ سے نکلتے ہوئے ایک دوسرے سے یہی کہتے ہوئے پائے گئے کہکھایا پیا کچھ نہیں، گلاس توڑا بارہ آنے
لوگوں کو امیدیں کب ٹوٹتی ہیں، لوگوں کی امیدیں تب ٹوٹتی ہیں، جب ان کا لیڈر، ان کے ساتھ وعدہ خلافی کرے، ان کی امیدوں پر پانی پھیرتے ہوئے اپنے مفادات کو اہمیت دینا شروع کر دے۔ کیا عمران خان نے اب اپنی روایت شکن سیاست کو روایتی سیاست کے تابع نہیں کر دیا؟ ان کے پاس اس بات کا کیا جواب ہے کہ ان کی پارٹی کی بزرگ رہنما زہرا شاہد حسن کو اِسی کراچی میں دن دیہاڑے قتل کر دیا گیا۔ کیا عمران خان نے ان کے اہل خانہ کے ساتھ ملاقات کی، کیا انہوں نے مرحومہ کے لواحقین میں سے کسی کو سٹیج پر اپنے ساتھ کھڑا کیا؟ کیا انہوں نے اپنی تقریر میں اس مرحومہ کی پارٹی خدمات اور شہادت کا ذکرکیا؟عمران خان نے مرحومہ زہرا شاہد حسن کے قتل کے بعد کہا تھا کہ مرحومہ کے قاتل الطاف حسین ہیں وہ الطاف حسین کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرائیں گے۔ عمران خان نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ مرحومہ کی پارٹی خدمات اور شخصیات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے ان کی یاد گار بھی بنائیں گے۔ کیا عمران خان یہ سب باتیں اور اعلان بھول گئے ہیں۔ کراچی کے لوگوں کو امید تھی کہ عمران خان کراچی کے حالات کے بارے میں بات کریں گے، کراچی پر قابض مختلف مافیاز کو للکاریں گے، مگر انہوں نے صرف لیاری گینگ کی بات کی، کیا کراچی میں صرف لیاری ہی کے لوگ مجرموں کے سرپرست ہیں؟
عمران خان نے جلسے کی حد تک کامیابی ضرور حاصل کی ہے، مگر کراچی کے لوگوں کے دِلوں میں موجود اپنی محبت کھو دی ہے، ان کے جلسے نے کراچی کے لوگوں کو بہت مایوس کیا ہے، میرے کئی دوستوں نے مجھے فون کر کے کہا کہ ہمارا خیال تھا کہ عمران دلیر آدمی ہے، پاکستان کو بدلنا چاہتا ہے، کراچی شہر کی رونقیں بحال کرنا چاہتا ہے، کراچی کو امن کا گہوارہ بنانا چاہتا ہے، کراچی کے لوگوں کو بدامنی، غنڈہ گردی، بھتہ خوری سے نجات دلانا چاہتا ہے، وہ کراچی میں ایک نئی سیاست لانے کی کوشش کر رہاہے تو پھر اس کے ہاتھ مضبوط کرنے کی ضرورت ہے، مگر یہ تو پرانی سیاست کی اجازت کے بغیر کوئی بات کرنے کی جرات بھی کھو چکا ہے۔ مَیں نے انہیں سمجھایا کہ جہانگیر ترین، شاہ محمود قریشی، شیخ رشید، خورشید محمود قصوری کے ساتھ وہ یہی تبدیلی لا سکتا ہے، جو کراچی کے جلسے میں تقریر کرتے ہوئے آپ سب لوگوں نے محسوس کی ہے۔ کیا یہ تبدیلی کم ہے کہ وہ خود تبدیل ہو چکا ہے، کمان کی طرح ٹیڑھا تھا اب تیر کی طرح سیدھا ہو گیا ہے۔