چنگیز خان بستر علالت پر آخری ایام گننے میں مصروف تھا۔ درد کی شدت سے اُس کی بند آنکھوں سے جاری پانی سیل رواں معلوم ہوتا تھا۔ اُس کے بستر کے اطراف اُس کے بیٹے جوجی خان تولی خان اور پوتے قبلائی خان اور ہلاکو خان سخت اضطراب کی کیفیت سے دوچار دکھائی دیتے تھے کہ ہلاکو خان کے باپ نے چنگیز خان سے پوچھا کہ خاقان ِاعظم ابا حضور یہ جو چہار سو کھوپڑیوں کے مینار دکھائی پڑتے ہیں، یہ آپ کی اور آپ کی اِس اولاد کی کوششوں کا ثمر ہے لیکن ہم متفکر ہیں کہ کل جب ہم میں سے کوئی بھی زندہ نہ رہے گا تو اِس ظلم و بربریت کے نئے سنگ میل کیونکر عبور کیے جاسکیں گے؟ چنگیز خان نے بمشکل آنکھیں کھولیں اور لرزتے لبوں سے وہ تاریخی جملہ کہہ ڈالا جس سے آج ایک دنیا واقفیت رکھتی ہے اور وہ تاریخی اور لازوال جملہ تھا ’’ ہم نہ ہوں ہمارے بعد، الطاف الطاف ‘‘