asad.kiyani
Senator (1k+ posts)
https://twitter.com/x/status/1287460978037329920
حکومت نے قومی یکساں نصاب کے حوالے سے ایک کمیٹی بنائی جس میں ڈاکٹر مریم چغتائی ڈین لمز سکول آف ایجوکیشن بھی شامل ہیں۔ کچھ روز قبل عادت سے مجبور ہوکر ڈاکٹر ہود بائی نے اس کمیٹی کی تجاویز کو پڑھے بغیر ڈان میں کالم داغا کہ یہ پاکستان کے تعلیمی نظام کے ساتھ ضیاء الحق سے بھی بڑی زیادتی ہورہی ہے معیار کو مزید پست تر اور اسلامائزیشن کرنے کی سازش ہورہی ہے۔ میں صوبوں سے کہتا ہوں کہ وہ اسے مزاحمت کریں۔ وہ کالم ڈاکٹر ہود بائی کہ کسی فین بوائے نے ٹوئٹر پر شیئر کیا تو ڈاکٹر چغتائی نہ اس پر کہا کہ یہ بے بنیاد باتیں ہیں ایسا کچھ نہیں ملک بھر سے چار سو ماہرین جن مختلف تعلیمی بورڈز کے نمائندے مدارس کے نمائندے پرائیویٹ سکولز کے نمائندے وغیرہ وغیرہ شامل تھے۔ جنہوں نے 8 مہینے تک اس معاملے کو دیکھا اور پھر اسلام آباد میں ایک چار روزہ کانفرنس ہوئی جس میں سب نے متفقہ طور پر اس پالیسی کو منظور کیا۔
خیر آج اس حولے سے تھنک فیسٹ نے ایک ویب نار کروایا جس میں ڈاکٹر ہود بائی اور ڈاکٹر مریم دونوں موجود تھیں۔ آج ڈاکٹر ہود بائی کو بے پر کی چھوڑتے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ انسان کے لئے کس قدر ضروری ہے کہ وہ ان معاملات میں ٹانگ نہ اڑائے جن کے بارے میں اسے معلومات نہ ہوں۔
ڈاکٹر مریم نے انتہائی فصاحت کے ساتھ بیان کیا کہ اس پالیسی سے کیا مراد ہے۔ یکساں نصاب سے کیا مراد ہے۔ پہلی سے پانچویں تک کیا کیا لرننگ آؤٹ کمز پر فوکس ہے۔ اس کے برعکس ہود بائی بار بار ایک ہی بات دہرائے جارہے تھے کہ اس سے تقسیم ہوگی نفرت بڑھے گی لوگوں کے گلے کٹیں گے بم پھٹیں گے۔ ان بے تکی باتوں پر ایک بار ڈاکٹر مریم طنزاً مسکرائیں بھی۔ ڈاکٹر ہود بائی کو اسلامیات کے نصاب پر خاصہ اعتراض تھا انکا کہنا تھا کہ بچوں کو رٹو طوطا بنایا جائے گا قرآن کی سورتیں حفظ کرائی جائیں گی یہ لازمی قرار دیا ہے کہ 20 احادیث پانچویں تک کا بچہ حفظ کرے۔ گیارہ بارہ سال کا بچہ یہ کیسے کرے گا۔ ضیاء الحق نے بھی ایسی بھیانک اسلامائزیشن نہ کی تھی۔ ڈاکٹر مریم نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ آپ مجھے پہلے یہ بتائیں کہ وہ پالیسی جو ابھی تک پبلش ہی نہیں ہوئی وہ آپ تک کیسے آگئی اور چلیں ہے بھی تو زرا مجھے صفحہ نمبر بتائیں جہاں یہ لکھا ہوا ہے کہ سورتیں حفظ کرنا ہوں گی یہ میرے پاس پڑا کے ڈاکیومنٹ زرا میں بھی تو چیک کروں ایسا کچھ نہیں ہے۔ اور جہاں تک احادیث کا معاملہ ہے تو ڈاکٹر مریم کا کہنا تھا کہ یہ مکمل طور پر سکول کی صوابدید ہے کہ وہ کونسی احادیث یاد کروائیں اور ویسے بھی اس عمر کا ہی بچہ ہوتا ہے جب ہم اسے نماز سکھاتے ہیں اور چاروں قل وغیرہ یاد کرواتے ہیں۔ چغلی کرنا بری بات ہے یہ بھی تو ایک حدیث ہے اب اگر حدیث کے ذریعے سے کسی کو اچھی بات سکھائی جارہی ہے تو آپکو اس سے کیا مسلۂ ہے۔
ڈاکٹر ہود بائی کا کہنا تھا کہ یہ سب دھوکہ و فراڈ ہے آنکھوں میں دھول جھونکی جارہی ہے مزید مسائل ہوں گے۔ تعلیم کا بیڑہ غرق ہوگا او لیولز اے لیولز کو بین کیا جائے گا۔
ڈاکٹر مریم نے جواباً کہا کہ یہ یکساں نصاب اس سمت میں پہلا قدم ہے اور مثبت قدم ہے۔ کسی چیز کو بین نہیں کیا جارہا یہ سب افواہیں ہیں۔ اسلامیات کے نصاب کے حوالے سے انکا کہنا تھا کہ اس میں تمام مکاتب فکر کے جذبات کا خیال رکھا گیا ہے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ وضو کرنا سکھانا ہے۔ تو کتاب میں لکھا گیا ہے کہ بچے گھر سے وضو کا طریقہ سیکھ کر آئیں۔ اسی طرح انہوں نے کچی سے لیکر پانچویں تک اسلامیات کے نصاب کے بارے میں مختلف چیزیں بتائیں مثلاً جانوروں کا خیال رکھنا بڑوں کا احترام رشتہ داروں سے صلہ رحمی پانی کی حفاظت سچائی و ایماندری کی اہمیت وغیرہ۔
لیکن ڈاکٹر ہود بائی گفتگو شروع ہونے کے 55 ویں منٹ میں بھی وہیں تھے جہاں پہلے میں تھے یہ ہوگا وہ ہوگا فلاں ہوجائے گا۔
بے پر کی اڑاتے ہودبھائی کو دیکھ کر ڈاکٹر چغتائی پر ایک وقت آیا کہ کھل کر بول اٹھیں کہ 'اگر آپکو پاکستانی تعلیمی نصاب میں قرآن حدیث شامل کرنے پر اعتراض ہے تو بنائیں نہ اس منشور پر سیاسی پارٹی، دیکھتے ہیں آپکو کتنے ووٹ ملتے ہیں' - جمہوریت کے چمپئین مگر یکساں نصابِ تعلیم پر معترض ڈاکٹر پرویز ہودبھائی پاکستانی جمہور ہی کی خواہشات پر اپنا اقلیتی موقف تھوپنے پر بضد تھے، مگر ڈاکٹر مریم چغتائی کے دلائل پر لا جواب ہو گئے۔
مختصر یہ کہ مزا آیا کسی نے پہلی بار ڈاکٹر ہود بائی کو گالیوں کے بجائے دلائل سے چاروں شانے چت کیا۔
خیر آج اس حولے سے تھنک فیسٹ نے ایک ویب نار کروایا جس میں ڈاکٹر ہود بائی اور ڈاکٹر مریم دونوں موجود تھیں۔ آج ڈاکٹر ہود بائی کو بے پر کی چھوڑتے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ انسان کے لئے کس قدر ضروری ہے کہ وہ ان معاملات میں ٹانگ نہ اڑائے جن کے بارے میں اسے معلومات نہ ہوں۔
ڈاکٹر مریم نے انتہائی فصاحت کے ساتھ بیان کیا کہ اس پالیسی سے کیا مراد ہے۔ یکساں نصاب سے کیا مراد ہے۔ پہلی سے پانچویں تک کیا کیا لرننگ آؤٹ کمز پر فوکس ہے۔ اس کے برعکس ہود بائی بار بار ایک ہی بات دہرائے جارہے تھے کہ اس سے تقسیم ہوگی نفرت بڑھے گی لوگوں کے گلے کٹیں گے بم پھٹیں گے۔ ان بے تکی باتوں پر ایک بار ڈاکٹر مریم طنزاً مسکرائیں بھی۔ ڈاکٹر ہود بائی کو اسلامیات کے نصاب پر خاصہ اعتراض تھا انکا کہنا تھا کہ بچوں کو رٹو طوطا بنایا جائے گا قرآن کی سورتیں حفظ کرائی جائیں گی یہ لازمی قرار دیا ہے کہ 20 احادیث پانچویں تک کا بچہ حفظ کرے۔ گیارہ بارہ سال کا بچہ یہ کیسے کرے گا۔ ضیاء الحق نے بھی ایسی بھیانک اسلامائزیشن نہ کی تھی۔ ڈاکٹر مریم نے ڈاکٹر صاحب سے پوچھا کہ آپ مجھے پہلے یہ بتائیں کہ وہ پالیسی جو ابھی تک پبلش ہی نہیں ہوئی وہ آپ تک کیسے آگئی اور چلیں ہے بھی تو زرا مجھے صفحہ نمبر بتائیں جہاں یہ لکھا ہوا ہے کہ سورتیں حفظ کرنا ہوں گی یہ میرے پاس پڑا کے ڈاکیومنٹ زرا میں بھی تو چیک کروں ایسا کچھ نہیں ہے۔ اور جہاں تک احادیث کا معاملہ ہے تو ڈاکٹر مریم کا کہنا تھا کہ یہ مکمل طور پر سکول کی صوابدید ہے کہ وہ کونسی احادیث یاد کروائیں اور ویسے بھی اس عمر کا ہی بچہ ہوتا ہے جب ہم اسے نماز سکھاتے ہیں اور چاروں قل وغیرہ یاد کرواتے ہیں۔ چغلی کرنا بری بات ہے یہ بھی تو ایک حدیث ہے اب اگر حدیث کے ذریعے سے کسی کو اچھی بات سکھائی جارہی ہے تو آپکو اس سے کیا مسلۂ ہے۔
ڈاکٹر ہود بائی کا کہنا تھا کہ یہ سب دھوکہ و فراڈ ہے آنکھوں میں دھول جھونکی جارہی ہے مزید مسائل ہوں گے۔ تعلیم کا بیڑہ غرق ہوگا او لیولز اے لیولز کو بین کیا جائے گا۔
ڈاکٹر مریم نے جواباً کہا کہ یہ یکساں نصاب اس سمت میں پہلا قدم ہے اور مثبت قدم ہے۔ کسی چیز کو بین نہیں کیا جارہا یہ سب افواہیں ہیں۔ اسلامیات کے نصاب کے حوالے سے انکا کہنا تھا کہ اس میں تمام مکاتب فکر کے جذبات کا خیال رکھا گیا ہے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ وضو کرنا سکھانا ہے۔ تو کتاب میں لکھا گیا ہے کہ بچے گھر سے وضو کا طریقہ سیکھ کر آئیں۔ اسی طرح انہوں نے کچی سے لیکر پانچویں تک اسلامیات کے نصاب کے بارے میں مختلف چیزیں بتائیں مثلاً جانوروں کا خیال رکھنا بڑوں کا احترام رشتہ داروں سے صلہ رحمی پانی کی حفاظت سچائی و ایماندری کی اہمیت وغیرہ۔
لیکن ڈاکٹر ہود بائی گفتگو شروع ہونے کے 55 ویں منٹ میں بھی وہیں تھے جہاں پہلے میں تھے یہ ہوگا وہ ہوگا فلاں ہوجائے گا۔
بے پر کی اڑاتے ہودبھائی کو دیکھ کر ڈاکٹر چغتائی پر ایک وقت آیا کہ کھل کر بول اٹھیں کہ 'اگر آپکو پاکستانی تعلیمی نصاب میں قرآن حدیث شامل کرنے پر اعتراض ہے تو بنائیں نہ اس منشور پر سیاسی پارٹی، دیکھتے ہیں آپکو کتنے ووٹ ملتے ہیں' - جمہوریت کے چمپئین مگر یکساں نصابِ تعلیم پر معترض ڈاکٹر پرویز ہودبھائی پاکستانی جمہور ہی کی خواہشات پر اپنا اقلیتی موقف تھوپنے پر بضد تھے، مگر ڈاکٹر مریم چغتائی کے دلائل پر لا جواب ہو گئے۔
مختصر یہ کہ مزا آیا کسی نے پہلی بار ڈاکٹر ہود بائی کو گالیوں کے بجائے دلائل سے چاروں شانے چت کیا۔
- Featured Thumbs
- https://i.imgur.com/mN8uEyB.jpg
Last edited by a moderator: