Shehbaz Speed by Mujeeb Ur Rehman Shami

PappuChikna

Chief Minister (5k+ posts)
Both shami leone and jeedi choudhry often use this style.
shareefs bayshaq yeh hein aur bayshakk woh hein lekin aap ko yeh baat manni paray gee kay donoo bhai mujh ko lambay lifafay daytay hein iss liyay woh farishtay aur pakistan kay nijaat dahinda hein..

Shami Leone's latest namoona of saleh zafri

سیاست کے تقاضے جو کچھ بھی ہوں۔ وزیر اعلیٰ پنجاب سے کوئی اختلاف کرے یا اتفاق۔ ان کی ترجیحات پر انگلی اٹھائے یا نہ اٹھائے۔ ان کی کسی بات پر آمناً و صدقاً کہے یا نہ کہے۔ ان کے ماضی کا اعتراف کرے یا نہ کرے۔ ان کے مستقبل پر یقین رکھے یا نہ رکھے۔ اس بات کا بڑے سے بڑا مخالف بھی انکار نہیں کر سکتا کہ وہ برق رفتار ہیں۔ تیزی سے آگے بڑھنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، جھپٹ سکتے ہیں اور پلٹ بھی، بلکہ پلٹ کر جھپٹ سکتے ہیں کہ لہو گرم رکھنے کا ہے اک بہانہ۔ وہ کم کھاتے، کم سوتے اور ایک زمانے میں تو بولتے بھی قدرے کم تھے، کبھی کبھی گرجتے تھے۔ اب ہر تقریر میں گرج پڑتے ہیں، اور اپنے مخالفوں کے خوب لتّے لیتے ہیں۔ بعض کے خلاف تو عدالت کا دروازہ بھی کھٹکھٹا چکے ہیں۔

مدعا علیہان کا دعویٰ ہے کہ انہوں نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دے دیا ہے، یعنی وزیر اعلیٰ کو نوٹس بھجوا کر اسی پر اکتفا نہیں کیا، باقاعدہ مقدمہ بھی دائر کر دیا ہے۔ اس سے قطع نظر کہ اس مقدمہ بازی سے کوئی نتیجہ برآمد ہوتا ہے یا نہیں، پنجاب میں تیز رفتاری کا ریکارڈ قائم ہو چکا ہے۔ بہت سے منصوبے اس طرح مکمل کئے گئے ہیں (اور کیے جا رہے ہیں) کہ دیکھنے والوں کو یقین آتا ہے نہ سننے والوں کو۔ وہ آنکھیں کھول کر دیکھتے ہیں تو آنکھیں پھٹی رہ جاتی ہیں۔ 2013ء کے انتخابات سے پہلے لاہور شہر میں میٹرو بس کا جس طرح آغاز کیا گیا، وہ اپنی مثال آپ تھا۔ تجاوزات ہٹائی گئیں، متاثرین کو تسلی بخش معاوضے ادا کیے گئے، پُل بنے، فلائی اوور بنے اور گجومتّہ سے شاہدرہ تک کئی کلومیٹر کا راستہ صاف ہوتا گیا۔ میٹرو بس کے مخالفین ''پہلے سکول ''پہلے ہسپتال کے نعرے لگاتے رہے اور میٹرو بس لاکھوں افراد کو اِدھر سے اُدھر اور اُدھر سے اِدھر پہنچانے میں لگ پڑی۔ ایک بین الاقوامی بزنس کمپنی کے ریذیڈنٹ ڈائریکٹر جاوید غنی نے اپنے ڈرائیور سے پوچھا کہ تم ووٹ کس کو دو گے؟ اُس نے کہا، مسلم لیگ(ن) کو... پھر پوچھا کہ اُس کا سبب کیا ہے، تو وہ فوراً بولا، میٹرو بس۔ کہا گیا ہسپتالوں کے حالات تو ناگفتہ بہ ہیں۔ ترت جواب ملا، حضور ہسپتال میں تو زندگی میں ایک، دو بار ہی جانا ہو گا، لیکن گھر سے دفتر تو روز آنا اور جانا ہوتا ہے۔ پہلے ڈھیروں پیسے برباد کر کے دھکے کھاتا، پسینے میں ڈوبتا، دفتر پہنچتا تھا، اب کہیں کم وقت میں ''صاحب لوگوں کی طرح صاف ستھرا ایئرکنڈیشنڈ بس میں سے برآمد ہوتا ہوں اور سیٹی بجاتے ہوئے ڈیوٹی پر آ جاتا ہوں۔ سننے والے یہ سن کر بھونچکے رہ گئے اور کہنے لگے ''ایئر کنڈیشنڈ کمروں میں بیٹھ کر تجزیے کرنے والے عوام سے براہِ راست رابطہ کریں تو ان کے خیالات کی ریڑھی الٹ جائے گی، یعنی اس کی ریڑھ لگ جائے گی۔

انتخابات سے پہلے تو صرف لاہور میں میٹرو چلی تھی، اب یہ راولپنڈی سے اسلام آباد اور وہاں سے ملتان پہنچ چکی ہے، اور ویگنوں اور بسوں پر دھکے کھانے والوں سے داد اور دُعائیں وصول کر رہی ہے۔ لاہور کی اورنج لائن ٹرین البتہ کھٹائی میں پڑ گئی ہے۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا منتظر ہے۔ لاہور کے شہری گرد کی لپیٹ میں ہیں، ادھڑی ہوئی سڑکیں آسمان کی طرف مُنہ کرکے سفر کرنے والوں کی خیر مانگ رہی ہیں۔ جانے کب معاملہ نبٹے گا اور کب لاہور کو گرد آلود ہوائوں اور ان کی لائی ہوئی بیماریوں سے نجات ملے گی... شہباز شریف اپنی ادائوں پر غور کرنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ ان کی سپیڈ جوں کی توں ہے۔ تعلیم کے شعبے میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت کئی سکولوں کی حالت بدلی گئی ہے۔ استادوں کی سینکڑوں ہزاروں بھرتیاں میرٹ پر ہوئی ہیں۔ پرائیویٹ سکولوں میں زیرِ تعلیم لاکھوں بچوں کی فیس (راجہ قمرالاسلام جیسے ہونہار اور دیانت دار رکن اسمبلی کے زیر قیادت) پنجاب ایجوکیشن فائونڈیشن کے ذریعے ادا کی جا رہی ہے (جنوبی پنجاب میں ان کی تعداد چودہ لاکھ سے اوپر ہے) اعلیٰ تعلیم کے لئے وظائف کی بہتات ہے۔

کم

وسیلہ نوجوانوں کے تعلیمی اخراجات اُٹھانے کے لئے ڈاکٹر امجد ثاقب کے زیرِ اہتمام اربوں کا پنجاب ایجوکیشن انڈومنٹ فنڈ قائم ہے۔ اس سب کے باوجود حالات مثالی نہیں ہیں، معیاری تعلیم ہر بچے کو نہیں مل پا رہی۔ بہت کچھ کرنا باقی ہے لیکن قدم بہرحال تیزی سے اُٹھ رہے ہیں۔ ہسپتالوں کی طرف توجہ دینے کے اعلانات بھی کئے جا رہے ہیں۔ زبانوں پر اب صحت کا تذکرہ ہونے لگا ہے، لیکن فوری اور نتیجہ خیز اقدامات کی کمی یہاں بھی شدت سے محسوس کی جا رہی ہے۔ بحریہ ٹائون کے چیئرمین ملک ریاض حسین بار بار یہ پیشکش کر چکے ہیں کہ اُنہیں لاہور کا کوئی بڑا ہسپتال دے دیا جائے، وہ ایک مثالی علاج گاہ بنا کر واپس کر دیں گے، لیکن اسے ابھی تک قبول نہیں کیا گیا۔ اگر تعلیم کے میدان میں نجی شعبے کا تعاون حاصل کیا جا سکتا ہے تو صحت کے معاملے میں اس طرف ہاتھ کیوں نہیں بڑھایا جا رہا؟ اس سوال کا جواب وزیر اعلیٰ (یا خادم اعلیٰ) کو بہرحال دینا ہو گا۔

بات کہاں سے کہاں پہنچ گئی۔ چند روز پہلے ساہیوال کے قریب لگنے والے کول پاور پروجیکٹ پر جانے کا اتفاق ہوا، تو حیرت کدہ کھل گیا۔ 22 ماہ ہوئے یہاں اس منصوبے کا سنگ بنیاد رکھا گیا تھا۔ بہت کم لوگوں کو یقین تھا کہ یہ آئندہ تین سال میں مکمل ہو جائے گا۔ کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کو ماحول خراب کرنے کا سبب بھی بتایا جا رہا تھا۔ ٹرانسمیشن لائن موجود نہ تھی یہاں تک کوئلہ لانے والی ریلوے لائن پر سوالات پہ سوالات اُٹھ رہے تھے کہ ساڑھے بارہ ہزار ٹن کوئلہ کراچی کی بندرگاہ سے روزانہ یہاں تک کیسے لایا جا سکے گا۔ ریلوے کی اہلیت و صلاحیت پر ہزاروں نکتے موجود تھے۔ نامی گرامی صنعت کار ان سے گھبرا کر قدم واپس لے جا چکے تھے لیکن 22 ماہ کی مدت میں وہ سب کچھ کر لیا گیا، جو کئی سال میں بھی ہوتا نظر نہیں آتا تھا۔ ریلوے لائن بچھائی جا چکی، بوگیاں بنائی جا چکیں، انجنوں کا انتظام کیا جا چکا۔

دسمبر 2017ء کے بجائے یہ پلانٹ جون تک مکمل کرنے کا پختہ اعلان کیا جا چکا۔ یہاں سے 8 سینٹ فی یونٹ کے حساب سے 1320 میگاواٹ بجلی ملنا شروع ہو جائے گی۔ خواجہ سعد رفیق کی چھاتی بھی پھیل چکی تھی اور شہباز شریف کے لفظوں میں بھی ایک نئی گہرائی پیدا ہو چکی تھی۔ یہ منصوبہ چینی بھائیوں کا ہے، ان کی سرمایہ کاری ہے۔ وہ بجلی پیدا کرکے نیشنل گرڈ کو فراہم کریں گے۔ ان کا کہنا تھا کہ آج تک کوئلے سے بجلی پیدا کرنے کا اتنا بڑا منصوبہ پوری دُنیا (بشمول چین) میں اتنی کم مدت میں مکمل نہیں کیا جا سکا۔

ماحولیاتی آلودگی کے حوالے سے استفسار پر بتایا گیا کہ 8 فلٹر لگائے گئے ہیں، ان کی بدولت یہاں کی چمنیوں سے اُٹھنے والا دھواں دودھیا ہو گا۔ جی ٹی روڈ پر چلنے والی ٹریفک سے کہیں کم آلودگی پیدا کرے گا۔ جدید ترین ٹیکنالوجی نے یہ جن بوتل میں بند کر دیا ہے۔ لاہور میں چین کے قونصل جنرل ہمارے ہمراہ تھے، چین کے انجینئر اور کارکن اپنے پاکستانی بھائیوں کے شانہ بشانہ دن رات ایک کئے ہوئے تھے اور یہ بات ان سب کی زبان پر تھی کہ چین میں پنجاب حکومت کی رفتار کو ''شہباز سپیڈ قرار دیا جاتا اور اس پر رشک کیا جاتا ہے
؎

عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا مَیں

(یہ کالم روزنامہ ''دنیا اور روزنامہ ''پاکستان میں بیک وقت شائع ہوتا ہے)

http://dunya.com.pk/index.php/author/mujeeb-ul-rehman-shami/2017-02-05/18454/52136028#tab1

 
Last edited by a moderator:

TONIC

Chief Minister (5k+ posts)
Re: Shehbaaz Speed by Shami Leone

What is the story between Shami & Leone ?
 

Kavalier

Chief Minister (5k+ posts)
Shehbaz Speed.... Shami' Article defending Shareef

x18454_52136028.jpg.pagespeed.ic.VM3RK-G5UN.webp

Source:-
http://www.dailyurducolumns.com/datColumn.aspx?ColumnID=56214
 
Last edited by a moderator:

khalilqureshi

Senator (1k+ posts)
Re: Shehbaz Speed.... Shami' Article defending Shareef

I had respect for you but since taking oath of NS you have changed your normal journalistic ethical stance and have taking sides of NS, brothers and sons. I should not say but it looks you are trying to compete with Saleh Zafir. Trust me you will never be able to reach that low and you will also be left with nothing but shame. What ever you have earned in many decades you are going to loose everything now.
 

ahaseeb

Minister (2k+ posts)
Re: Shehbaaz Speed by Shami Leone

This article is pretty fair. Realities on ground are different and people usually votes on optics.
 

Talwar Gujjar

Chief Minister (5k+ posts)
PTI k dau char dharnia tau banti hein is column p, ek Mujeeb Shami, doosri Shahbaz Speed, teesri Coal Plant k xilaf, aur chothi apni aadat poori karnay k liey. Sharam tum ko magar nahein aati.
 

Citizen X

(50k+ posts) بابائے فورم
PTI k dau char dharnia tau banti hein is column p, ek Mujeeb Shami, doosri Shahbaz Speed, teesri Coal Plant k xilaf, aur chothi apni aadat poori karnay k liey. Sharam tum ko magar nahein aati.
"Huzoor yeh hain woh zaraiye" aap ke liye yehi kaafi hai, is liye sharam aur haya ki baatien aap ko zeb nahi deti. ;)
 

desan

President (40k+ posts)
Granted that NS & SS are corrupt to the core and put ruthless dictators to shame with their autocratic rule but you have to give credit that their taste in food and media prostitutes are un-parallaled, Shami...
 

ifteeahmed

Chief Minister (5k+ posts)
ایک دفعہ دوستوں کے ساتھ لاہور کی فوڈ سٹریٹ کھانا کھانے گئے تو واپسی میں فوڈ سٹریٹ سے ملحق بازارحسن کا چکر لگانے کا خیال آیا۔ یہ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی رات تھی اور ویک اینڈ کی وجہ سے رات کے 11 بجے بھی کافی چہل پہل تھی۔ ہم گاڑی میں بیٹھے ہلکی رفتار سے اس علاقے کی گلیوں کے چکر لگا رھے تھے کہ ایک گلی کی نکر سے ایک آدمی گاڑی کے سامنے آگیا۔

ہم نے گاڑی روکی، ونڈو کا شیشہ نیچے کیا تو وہ ہمارے پاس آگیا اور گاڑی کے اندر بییٹھے چاروں لوگوں کا بغو
جائزہ لینے کے بعد بولا:۔


صاحب جی، کوئی مال چاہیئے؟


میں نے جواب دیا: کس قسم کا مال؟


بولا، ہر قسم کا، ہر عمر کا، ہر رنگ کا۔


میں نے پوچھا کہ کیا تمہارے پاس تصویر وغیرہ ھے؟


بولا، صاحب تصویر کو چھوڑیں، آپ کو میں وہاں لے چلتا ہوں۔ آپ خود انہیں اپنے سامنے، اپنی آنکھوں سے دیکھ سکتے ہیں۔ تصویریں تو دھوکہ دیتی ہیں۔ کئی بوڑھی عورتوں نے اپنی جوانی کی تصویر دکھا کر گاہکوں کو لوٹا ھے۔


میں نے کہا کہ ہم ایسے نہیں جائیں گے، پہلے ہمیں ان کے بارے میں کچھ تفصیل بتاؤ، اگر ہمیں تمہاری تفصیل پسند آگئی تو ہم چل کر دیکھ بھی لیں گے۔


وہ بھی ایک پروفیشن؛ دلال تھا، بولا:۔


جناب، جس کی بات کررہا ہوں، وہ خاندانی ھے۔ اس کی ماں، نانی اور پرنانی نے انہی گلیوں میں زندگی گزاری اور آپ جیسے شوقین مزاج لیکن صاحب ذوق لوگوں کو خوش کیا۔ جسم ایسا کہ جیسے کسی مجسمہ ساز نے آرڈر پر تراشا ہو، لمبی گھنی زلفیں جن کی چھاؤں میں ہاتھی بھی سو جائے، چاندی جیسی رنگت، ہرنی جیسی آنکھیں، چلے تو لگے جیسے ناگن بل کھا کر چاند کی چودھویں رات کو اپنے ناگ سے ملنے جارہی ہو، رقص کرے تو سب چرند پرند بھی مبحوس ہو کر اس کا رقص جنوں دیکھنے لگ جائیں، بولے تو لگے جیسے ماہر سازندہ کوئی جھنکار بجا رہا ہو، نازک ایسی کہ کلائی پکڑیں تو وہیں نشان پڑ جائے۔ ۔ ۔ ۔

الغرض، صاحب جی، ایسا مال صرف خوش نصیبوں کے حصے میں ہی آتا ھے۔ میں ہر کسی کو اس کے بارے میں نہیں بتاتا، آپ مجھے ذوق والے لگتے ہیں، اسی لئے سوچا کہ آپ کی خدمت میں یہ تحفہ پیش کیا جائے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔


وہ تحفہ کیا حقیقت میں بھی ویسا ہی تھا جیسا اس نے بتایا، اس کا تو پتہ نہیں لیکن وہ دلال تھا بہت پروفیشنل اور اپنے کام کا ایکسپرٹ۔


آج مجھے اس دلال کی یاد بزرگ صحافی مجیب الرحمن شامی کا کالم پڑھ کر آگئی۔ شامی صاحب فرماتے ہیں کہ شہبازشریف کا نام اب چین میں ' شہباز سپیڈ' کے نام سےبطور ضرب المثل مشہور ہوچکا ھے۔ ان کے خٰیال میں لوگوں نے ہسپتال میں تو زندگی میں ایک آدھ دفعہ ہی جانا ہوتا ھے لیکن دفتر، بازار وغیرہ میں ہر روز جانا ہوتا ھے۔ اس لئے میٹرو اور اورنج ٹرین کی اہمیت سکول ہسپتالوں سے بھی زیادہ ھے۔


شامی صاحب نے جس طرح شہباز شریف کی تعریف کی، مجھے لگا کہ فن دلالی صرف بازار حسن کے کنجروں کی ہی میراث نہیں بلکہ اسے کوئی بھی ماسٹر کرسکتا ھے۔ شامی صاحب، آپ صحافت کی دنیا کے ایک پروفیشنل اور ماہر ترین کنجر ہیں۔

اللہ کرے زور زبان زیادہ!!! بقلم خود باباکوڈا

 

TahiraUmmemomina

MPA (400+ posts)
دوسرے لفظوں میں اسے بندر والی برق رفتاری کہتے ہیں
ایک جنگل میں بندر کو بادشاہ بنا دیا گیا۔ جنگل میں آگ لگ گئی ۔ چند جانور بادشاہ کے پاس دوڑے دوڑے آئے کہ بادشاہ حضور جنگل یں آگ لگ گئی ہے اور جانور مر رہے ہیں آپ نے جنگل میں آگ سے بچنے کا کوئی نظام نہیں بنایا۔ یہ سننا تھا کہ بندر نے پریشانی میں ایک چھلانگ لگائی اور دوسرے درخت پر چڑھ گیا۔ اتنے میں کچھ اور جانوروں کے مرنے کی اطلاع آئی ۔ بندر نے پھر پریشانی میں دو چار چھلانگیں لگائیں ۔ کسے نے پھر آ کے دہائی دی کہ حضور جانور مر رہے ہیں اور آپ کچھ نہیں کر رہے ۔ بندر کو غصہ آ گیا ۔غصے میں بولا کہ کب سے دوڑ دھوپ کر رہا ہوں یہ سب مل کر اس ملک کو چیخوف کا وارڈ نمبر 6 بنا رہے ہیں جب اس نظام کا پہلا گھونسہ ان مختاروں یا ان کی اولادوں میں سے کسی کے منہ پر پڑا پھر انہیں سمجھ آئے گی کہ یہ کس نظام پر تکیہ کئے ہوئے تھے
 

rajablogid

Citizen
hamari hakumat hai he corrupt or hamara na Ahal PM corruption pr he to utra hai, ab pata nai hamara mulk kab thek ho ga, rozgaar ho ga
 

Back
Top