Absolutely spot on analysis....
http://www.saach.tv/urdu/9742/
فو ج اور سویلین حکو میتں
http://www.saach.tv/urdu/9742/
فو ج اور سویلین حکو میتں
سید طلعت حسین
پاکستان کے نظام کو صحیح طور پر چلانے کے لئے فوج کو سویلین حکمرانوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی منتخب نمائندگان کوکو عسکری قیادت سے۔یہ کہنا یہ سمجھنا کہ انہیں ان تعلقات کو دوستانہ اور بہتر انداز سے استوار کرنے کے لئے خودسے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں یا وہ اس مسئلے کا حصہ نہیں ہیں جس نے ایک طویل عرصے سے ملک کو مختلف بحرانوں ،بشمول موجودہ’دھرنے کے‘کا شکار بنائے رکھا غلط بیانی ہوگی۔
فوج نے اس ملک کی سیاست کو براہ راست اور بالواسط طورپر کسی بھی سویلین حکومت سے زیادہ مدت کے لئے چلایا ہے۔اس نے سیاسی جماعتیں بنائی اور بگاڑئی ہیں۔آئین سازی اور قانون سازی کو اپنے ہاتھوں سے بنایا یا تبدیل کیا یا توڑا اور مڑورا ہے۔فوج کے سیاسی میدان میں چھوڑے ہوئے اثرات ایک وسیع میدان میں پھیلے ہوئے ہیں۔ان سے روگرادنی کرنا بغض بھی ہے
اور حقائق سے روگرادنی بھی۔فوج کی طرف سے سویلین حکمرانوں کے ساتھ رابطے کی کل کو سیدھا کرنے کے لئے سب سے پہلا قدم یہ اقرار ہے کہ آج ملک میں سیاسی خا میوں اور حکمرانوں کی ناکامیوں کی افسوسناک داستان کے کئی ابواب ان ادوار کی پیداوار ہیں جن میں بوٹ ووٹ پر حاوی تھااور جب سیاست میں نت نئے تجربات عام حقائق کے طور پر قبول کروائے جاتے تھے۔
اپنے ماضی کو قبول کئے بغیر حال کو صحیح طور پر جانا نہیں جاسکتا۔مستقبل میں اصلاح کا تو تصور بھی ممکن نہیں۔دوسرا قدم ماضی اور موجودہ واقعات کو سنجیدگی ،کھلے دماغ اور تمام تر توجہ سے تجزیاتی پیرائے میں دیکھنا ہے۔ماضی میں جب بھی فوج نے براہ راست سیاسی معاملات کو سنبھالنے کی کوشش کی تو اسے یا تو اس بوسیدہ نظام کا سہارہ لینا پڑا جس کی ناکامیوں کو بنیاد بنا کر سیاست میں مداخلت کی راہ ہموار کی گئی اور یا پھر نئے مسائل پیدا کئے گئے۔جن کو ختم کر نے میں مستقبل میں مزید خوفناک اور مہنگے تجربات کا سہارہ لینا پڑا۔
ایک سمینار میں میں نے اعلی درجے کے فوجی افسران کے سامنے اس نکتے کی وضاحت 26تصاویر
پر مبنی ایک لیکچر کے ذریعے کی۔یہ 26تصاویر ان صاحبان کی ہیں جو فوج کی نظر میں ملک کے لئے خطرے کے علاوہ اس ادارے کے بدترین مخالف سمجھے جاتے ہیں۔ان میں سیاستدان بھی تھے ،صحافی بھی تھے اور طالبان،سفارتکار،محقق بھی۔میں نے یہ تصاویر دکھاتے ہوئے حاضرین محفل سے یہ درخواست کہ وہ تمام پروفیشنل ایمانداری سے بتائیں کہ ان سب کے بنانے میں کیا کسی غیر ملکی قوت کا ہاتھ ہے یا وہ فوج اور اس سے منسلک اداروں کی پیدوار ہیں
۔سوال کے جواب میں کمرے میں چھائی ہوئی خاموشی نے کسی بیان کی گنجائش نہیں چھوڑی ۔اگر باربار ایک ہی قسم کی غلطی کی جائے تو اس کے نتائج محض اس وجہ سے مختلف نہیں نکل سکتے کہ اس کو دہرانے والے اس زعم میں مبتلا ہیں کہ ان کے پاس موجود دانش مندی بے نظیر ہے۔
یہی حال بالواسط طور پر سیاست پر اثرانداز ہونے کاہے۔چاہے اس کا عکس فیصلہ سازی میں ہر حال میں اپنی بات و مرضی منوانا ہو یا سویلین حکومتوں کی طرف سے کئے گئے ہر قدم کو بدگمانی کی نظر سے دیکھ کر قومی مفادات کے خلاف قرار د یناہو۔ایک تیسری شکل،جوآج کل زیر بحث ہے،پس پردہ ڈوری ہلانے کی عادت ہے۔ان تینوں صورتوں میں حالات بہتر ہونے کے بجائے ابتر ہوتے ہیں۔مسئلے حل نہیں ہوتے بلکہ مزید گھمبیر صورت اختیار کرلیتے ہیں۔موجودہ واقعات نے فوج اور انٹیلی جنس کے اداروں کے لئے تباہ کن اثرات مرتب کئے ہیں۔بین الاقوامی اخبارات پڑھ لیں آپ خود ہی جان لیں گے کہ عمران وقادری دھرنوں نے ان اداروں کے بارے میں کیسے شکوک وشہبات کو دوبارہ سے بحث کا حصہ بنادیا ہے۔اندرونی طور پر ہر دوسرا فرد تھرڈ ایمپا ئر کے اشارے سے ایک ہی سمت کی طرف دیکھتا ہے۔
بدترین نقاد اور چاپلوس ترین خوشامدی سب ایک ہی بات کررہے ہیں۔وہ تمام وضاحتیں اور تردیدیں جو ابھی تک سامنے آئی ہیں یہ تاثر زائل نہیں کر پائیں کہ دھرنوں کا معاملہ محض’دوفریقین‘ کے مابین ایک سیا سی چپقلش ہے جس کا کسی تیسرے یا چوتھے ادارے سے کوئی تعلق نہیں۔اب اس قسم کے ماحول میں سول اور ملٹری تعلقات کیسے مثبت انداز میں چلایا جاسکتا ہے۔اتنی بدگمانی پھیلنے کے بعد یکدم محبتوں اور اعتماد کی فضا کیسے پیدا ہوگی؟ اور اگر نہیں ہوگی تو اس کا نقصان کس کو ہوگا؟ ظاہرہے اس ملک کو جس کے چاروں اطراف میں بدترین مسائل کا انبا ر لگا ہوا ہے۔اس امرسے قطع نظر کہ بالواسط ڈور ہلانے کے عمل کے پیچھے کیا نیت کارفرماہوتی ہے اور اس سے کس خوبی یا بہتری کی امید وابسطہ ہوتی ہے۔
اس کے بعد حالات ابتر اور بدترین ہوتے ہیں۔موجودہ واقعات کے اثرات انتہائی منفی اور دورس ہوںگے۔اگر اس تمام قصے کو یہا ں پر ختم نہ کیا گیا تو پھر دہائیوں تک سول ملٹری معاملات بگاڑ کا شکار رہیں گے۔
ایک اور قدم جس پر فوج کی قیادت غور کرسکتی ہے وہ ریٹائرڈ افسران کے کردار سے متعلق ہے۔دنیا میں بہت کم ممالک ہوں گے جہاں پر اہم اداروں میں اہم ترین عہدوں پر فائز افراد ریٹائرمنٹ کے بعد ایسے کام کریں جس سے ان اداروں کی ناک بری طرح کٹے۔پاکستان فوج کو ریٹائرڈ افسران کی حرکتوں نے جو نقصان پہنچایا ہے اس کا حساب لگانا بھی مشکل ہے۔کوئی نہ کوئی ضابطہ تو ایسا ہونا چاہیے کہ ان صاحبان کو ایسی منصوبہ بندی سے باز رکھا جاسکے جسمیں ان کے ذاتی مفادات کا تعاقب قومی فساد کا باعث بن جاتا ہے۔ایسوں کے لئے فوج بطور ادارہ کوئی نہ کوئی بڑی سزا کو بندوبست بھی کرسکتاہے۔جن کو اپنے ادارے کی عزت کا احساس نہیں ہے
ان کو کسی قسم کی رعایت نہیں ملنی چاہیے۔یہ فیصلہ فوج نے خود کرنا ہے کہ وہ افراد کون ہیں اور وہ کون سے عمل ہیں جن پر پردہ ڈالنے کے بجائے ان کا کھلا احتساب کرنے کی ضرورت ہے۔بہترین ادارے حقائق سے منہ پھیرنے سے نہیں ان کا دلیری سے سامنا کرنے سے بنتے ہیں۔
آخر میں آج کل ہونے والی بحث سے متعلق کچھ سیکھنا ہوں گا جس پر سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔موجودہ حالات اگر مزید بگڑتے ہیں اور دھرنے والے مرنے مارنے پر تیار ہوجاتے ہیں تو فوج کو کردار کیا ہونا چاہیے۔اس سلسلے میں ’فریقین‘،’عبوری طاقت‘،’ملک کا محافظ‘،’ضامن‘،’رابطہ کار‘،’سہولت کار‘،وغیرہ کی اصلاحات دراصل بے معنی ہیں۔فوج ایک ہی پیرائے میں کام کرتی ہے اور اسے اسی پیرائے میں کام کرناہے اس پیرائے کے الفاط کچھ یوں ہیں۔
آرٹیکل 244
”میں ۔۔۔۔۔۔۔صدق دل سے حلف اٹھاتا ہوں کہ میں خلوص نیت سے پاکستان کا حامی اور وفادار رہوں گا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی حمایت کروں گا جو عوام کی خواہشات کا مظہر ہے اور یہ کہ میں اپنے آپ کو کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں مشغول نہیں کروں گا اور یہ کہ میں مقتضیات قانون کے مطابق اور اس کے تحت پاکستان کی بری فوج ( یا بحری یا فضائی فوج ) میں پاکستان کی خدمت ایمانداری اور وفاداری کے ساتھ انجام دوں گا ۔ “
( اللہ تعالی میری مدد اور رہنمائی فرمائے ۔۔آمین )
اگر اس کے تحت کام نہیں ہوگا تو معاملہ کبھی صحیح نہیں ہوپائے گا۔
پاکستان کے نظام کو صحیح طور پر چلانے کے لئے فوج کو سویلین حکمرانوں کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کی اتنی ہی ضرورت ہے جتنی منتخب نمائندگان کوکو عسکری قیادت سے۔یہ کہنا یہ سمجھنا کہ انہیں ان تعلقات کو دوستانہ اور بہتر انداز سے استوار کرنے کے لئے خودسے کچھ کرنے کی ضرورت نہیں یا وہ اس مسئلے کا حصہ نہیں ہیں جس نے ایک طویل عرصے سے ملک کو مختلف بحرانوں ،بشمول موجودہ’دھرنے کے‘کا شکار بنائے رکھا غلط بیانی ہوگی۔
فوج نے اس ملک کی سیاست کو براہ راست اور بالواسط طورپر کسی بھی سویلین حکومت سے زیادہ مدت کے لئے چلایا ہے۔اس نے سیاسی جماعتیں بنائی اور بگاڑئی ہیں۔آئین سازی اور قانون سازی کو اپنے ہاتھوں سے بنایا یا تبدیل کیا یا توڑا اور مڑورا ہے۔فوج کے سیاسی میدان میں چھوڑے ہوئے اثرات ایک وسیع میدان میں پھیلے ہوئے ہیں۔ان سے روگرادنی کرنا بغض بھی ہے
اور حقائق سے روگرادنی بھی۔فوج کی طرف سے سویلین حکمرانوں کے ساتھ رابطے کی کل کو سیدھا کرنے کے لئے سب سے پہلا قدم یہ اقرار ہے کہ آج ملک میں سیاسی خا میوں اور حکمرانوں کی ناکامیوں کی افسوسناک داستان کے کئی ابواب ان ادوار کی پیداوار ہیں جن میں بوٹ ووٹ پر حاوی تھااور جب سیاست میں نت نئے تجربات عام حقائق کے طور پر قبول کروائے جاتے تھے۔
اپنے ماضی کو قبول کئے بغیر حال کو صحیح طور پر جانا نہیں جاسکتا۔مستقبل میں اصلاح کا تو تصور بھی ممکن نہیں۔دوسرا قدم ماضی اور موجودہ واقعات کو سنجیدگی ،کھلے دماغ اور تمام تر توجہ سے تجزیاتی پیرائے میں دیکھنا ہے۔ماضی میں جب بھی فوج نے براہ راست سیاسی معاملات کو سنبھالنے کی کوشش کی تو اسے یا تو اس بوسیدہ نظام کا سہارہ لینا پڑا جس کی ناکامیوں کو بنیاد بنا کر سیاست میں مداخلت کی راہ ہموار کی گئی اور یا پھر نئے مسائل پیدا کئے گئے۔جن کو ختم کر نے میں مستقبل میں مزید خوفناک اور مہنگے تجربات کا سہارہ لینا پڑا۔
ایک سمینار میں میں نے اعلی درجے کے فوجی افسران کے سامنے اس نکتے کی وضاحت 26تصاویر
پر مبنی ایک لیکچر کے ذریعے کی۔یہ 26تصاویر ان صاحبان کی ہیں جو فوج کی نظر میں ملک کے لئے خطرے کے علاوہ اس ادارے کے بدترین مخالف سمجھے جاتے ہیں۔ان میں سیاستدان بھی تھے ،صحافی بھی تھے اور طالبان،سفارتکار،محقق بھی۔میں نے یہ تصاویر دکھاتے ہوئے حاضرین محفل سے یہ درخواست کہ وہ تمام پروفیشنل ایمانداری سے بتائیں کہ ان سب کے بنانے میں کیا کسی غیر ملکی قوت کا ہاتھ ہے یا وہ فوج اور اس سے منسلک اداروں کی پیدوار ہیں
۔سوال کے جواب میں کمرے میں چھائی ہوئی خاموشی نے کسی بیان کی گنجائش نہیں چھوڑی ۔اگر باربار ایک ہی قسم کی غلطی کی جائے تو اس کے نتائج محض اس وجہ سے مختلف نہیں نکل سکتے کہ اس کو دہرانے والے اس زعم میں مبتلا ہیں کہ ان کے پاس موجود دانش مندی بے نظیر ہے۔
یہی حال بالواسط طور پر سیاست پر اثرانداز ہونے کاہے۔چاہے اس کا عکس فیصلہ سازی میں ہر حال میں اپنی بات و مرضی منوانا ہو یا سویلین حکومتوں کی طرف سے کئے گئے ہر قدم کو بدگمانی کی نظر سے دیکھ کر قومی مفادات کے خلاف قرار د یناہو۔ایک تیسری شکل،جوآج کل زیر بحث ہے،پس پردہ ڈوری ہلانے کی عادت ہے۔ان تینوں صورتوں میں حالات بہتر ہونے کے بجائے ابتر ہوتے ہیں۔مسئلے حل نہیں ہوتے بلکہ مزید گھمبیر صورت اختیار کرلیتے ہیں۔موجودہ واقعات نے فوج اور انٹیلی جنس کے اداروں کے لئے تباہ کن اثرات مرتب کئے ہیں۔بین الاقوامی اخبارات پڑھ لیں آپ خود ہی جان لیں گے کہ عمران وقادری دھرنوں نے ان اداروں کے بارے میں کیسے شکوک وشہبات کو دوبارہ سے بحث کا حصہ بنادیا ہے۔اندرونی طور پر ہر دوسرا فرد تھرڈ ایمپا ئر کے اشارے سے ایک ہی سمت کی طرف دیکھتا ہے۔
بدترین نقاد اور چاپلوس ترین خوشامدی سب ایک ہی بات کررہے ہیں۔وہ تمام وضاحتیں اور تردیدیں جو ابھی تک سامنے آئی ہیں یہ تاثر زائل نہیں کر پائیں کہ دھرنوں کا معاملہ محض’دوفریقین‘ کے مابین ایک سیا سی چپقلش ہے جس کا کسی تیسرے یا چوتھے ادارے سے کوئی تعلق نہیں۔اب اس قسم کے ماحول میں سول اور ملٹری تعلقات کیسے مثبت انداز میں چلایا جاسکتا ہے۔اتنی بدگمانی پھیلنے کے بعد یکدم محبتوں اور اعتماد کی فضا کیسے پیدا ہوگی؟ اور اگر نہیں ہوگی تو اس کا نقصان کس کو ہوگا؟ ظاہرہے اس ملک کو جس کے چاروں اطراف میں بدترین مسائل کا انبا ر لگا ہوا ہے۔اس امرسے قطع نظر کہ بالواسط ڈور ہلانے کے عمل کے پیچھے کیا نیت کارفرماہوتی ہے اور اس سے کس خوبی یا بہتری کی امید وابسطہ ہوتی ہے۔
اس کے بعد حالات ابتر اور بدترین ہوتے ہیں۔موجودہ واقعات کے اثرات انتہائی منفی اور دورس ہوںگے۔اگر اس تمام قصے کو یہا ں پر ختم نہ کیا گیا تو پھر دہائیوں تک سول ملٹری معاملات بگاڑ کا شکار رہیں گے۔
ایک اور قدم جس پر فوج کی قیادت غور کرسکتی ہے وہ ریٹائرڈ افسران کے کردار سے متعلق ہے۔دنیا میں بہت کم ممالک ہوں گے جہاں پر اہم اداروں میں اہم ترین عہدوں پر فائز افراد ریٹائرمنٹ کے بعد ایسے کام کریں جس سے ان اداروں کی ناک بری طرح کٹے۔پاکستان فوج کو ریٹائرڈ افسران کی حرکتوں نے جو نقصان پہنچایا ہے اس کا حساب لگانا بھی مشکل ہے۔کوئی نہ کوئی ضابطہ تو ایسا ہونا چاہیے کہ ان صاحبان کو ایسی منصوبہ بندی سے باز رکھا جاسکے جسمیں ان کے ذاتی مفادات کا تعاقب قومی فساد کا باعث بن جاتا ہے۔ایسوں کے لئے فوج بطور ادارہ کوئی نہ کوئی بڑی سزا کو بندوبست بھی کرسکتاہے۔جن کو اپنے ادارے کی عزت کا احساس نہیں ہے
ان کو کسی قسم کی رعایت نہیں ملنی چاہیے۔یہ فیصلہ فوج نے خود کرنا ہے کہ وہ افراد کون ہیں اور وہ کون سے عمل ہیں جن پر پردہ ڈالنے کے بجائے ان کا کھلا احتساب کرنے کی ضرورت ہے۔بہترین ادارے حقائق سے منہ پھیرنے سے نہیں ان کا دلیری سے سامنا کرنے سے بنتے ہیں۔
آخر میں آج کل ہونے والی بحث سے متعلق کچھ سیکھنا ہوں گا جس پر سب کی نظریں لگی ہوئی ہیں۔موجودہ حالات اگر مزید بگڑتے ہیں اور دھرنے والے مرنے مارنے پر تیار ہوجاتے ہیں تو فوج کو کردار کیا ہونا چاہیے۔اس سلسلے میں ’فریقین‘،’عبوری طاقت‘،’ملک کا محافظ‘،’ضامن‘،’رابطہ کار‘،’سہولت کار‘،وغیرہ کی اصلاحات دراصل بے معنی ہیں۔فوج ایک ہی پیرائے میں کام کرتی ہے اور اسے اسی پیرائے میں کام کرناہے اس پیرائے کے الفاط کچھ یوں ہیں۔
آرٹیکل 244
”میں ۔۔۔۔۔۔۔صدق دل سے حلف اٹھاتا ہوں کہ میں خلوص نیت سے پاکستان کا حامی اور وفادار رہوں گا اور اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی حمایت کروں گا جو عوام کی خواہشات کا مظہر ہے اور یہ کہ میں اپنے آپ کو کسی بھی قسم کی سیاسی سرگرمیوں میں مشغول نہیں کروں گا اور یہ کہ میں مقتضیات قانون کے مطابق اور اس کے تحت پاکستان کی بری فوج ( یا بحری یا فضائی فوج ) میں پاکستان کی خدمت ایمانداری اور وفاداری کے ساتھ انجام دوں گا ۔ “
( اللہ تعالی میری مدد اور رہنمائی فرمائے ۔۔آمین )
اگر اس کے تحت کام نہیں ہوگا تو معاملہ کبھی صحیح نہیں ہوپائے گا۔