Arslan
Moderator
قدرت جب بھی خزانہ دیتی ہے چھپڑ پھاڑ کر دیتی ہے۔البتہ خزانے کی شکل کچھ ہٹ کے ہو سکتی ہے۔ مثلاً پاکستان کوآفات ومصائب کے خزانے سے بھرپور چھپڑ پھاڑ حصہ ملا ہے۔ جس روزالبتہ بم دھماکوں کا ناغہ ہو زلزلہ آ جاتا ہے۔ بارشیں ہوں تو سیلاب آتے ہیں، اتنے زیادہ کہ چین اور بھارت میں بھی نہیں آتے۔ حالانکہ ان کے ہاں بارشیں ہمارے ہاں سے زیادہ ہوتی ہیں۔ سیلاب آف سیزن ہو تو ڈینگی سے کانگو تک نہ جانے کون کون سے وائرس اودھم مچاتے ہیں۔ آجکل ڈینگی کی نظرِ عنایت سوات پر ہے اور صوبائی حکومت اس پر قابو پانے کی کوشش میں لگی ہوئی ہے۔
اطلاع ہے کہ اس علاقے کے آس پاس ایک اور آپریشن ہونے والا ہے،شاید دیر میں۔ کراچی میں ٹارگٹڈآپریشن کی ملی بھگت کے تحت ٹارگٹ کلر اندرون سندھ تشریف لے جا چکے ہیں لیکن چونکہ وہ اندرون سندھ تشریف لا چکے ہیں اس لئے وہاں جرائم بڑھ گئے ہیں۔ یہاں پہلے ہی جرائم کا ریلا پانچ لاکھ کیوسک سے بس کچھ ہی کم ہوگا، اب شاید سات لاکھ کیوسک ہو جائے۔ لیکن اندرون سندھ کا علاقہ چونکہ اندرون سندھ ہے، کراچی نہیں اس لئے وہاں سے خبریں اس شکل میں نہیں آتیں،جیسی کراچی سے آتی ہیں۔ خدا اندرون سندھ پر رحم کرے۔ وہاں پہلے ہی وڈیروں کے ٹارگٹ کلر کیا کم تھے جو اب کراچی سے بھی کمک آ گئی۔
زلزلے نے بلوچستان میں جو تباہی مچائی، ایک بار پھر یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ وہ ساری کی ساری زلزلے کی نہیں ، کافی کچھ ریاست کی غفلت بلکہ ستم رانی کی ہے۔زلزلہ کچے گھر زیادہ گراتا ہے اور سوال یہ ہے کہ بلوچستان میں کچے گھر زیادہ کیوں ہیں؟ اس لئے کہ پاکستانی ریاست نے وہاں کے سرداروں سے ملی بھگت کر کے غریب بلوچوں کو اٹھنے ہی نہیں دیا۔انہیں محروم سے محروم تر بنا دیا اورآج کل محروم ترین بنانے کا مرحلہ چل رہا ہے۔ اورریاست سے مراد صرف بیورو کریسی نہیں، حکومتیں بھی ہیں۔ بلوچستان سے جو معدنیات نکلتی ہیں، ان پر دستور کے بالکل منافی، وفاق قبضہ کر لیتا ہے۔سینڈک میں اربوں کھربوں کا تانبا تھا۔
وفاق نے سارا چین کو فی سبیل اللہ دے دیا اور اپنا کمشن ضرور کھرا کیا لیکن بلوچوں کو ایک دھیلہ بھی نہیں ملا۔ وہی سب کچھ اب ریکوڈک کے ذخائر میں بھی ہونے والا ہے۔ گوادر کی بندر گاہ بھی اس طرح دے دی گئی کہ نہ صوبائی حکومت کو پتہ ہے کہ فیصلہ کس نے کیا اور نہ ہی سودے میں غریب بلوچوں کو کچھ ملنے کی ذرا بھی گنجائش ہے۔
پاکستان پر جتنے بھی قدرتی عذاب آتے ہیں۔ ان کی تباہ کاری زیادہ صرف اس لئے ہوتی ہے کہ پاکستان کے اصحابِ خورد بردو لوٹ مار نے عوام کے بچاؤ کیلئے کچھ نہیں کیا۔ جن علاقوں میں زلزلے یا سیلاب آتے ہیں، وہاں عوام اتنے غریب ہیں کہ پکے گھر نہیں بنوا سکتے اور کچے گھر جھٹکا برداشت کر سکتے ہیں نہ تھپیڑا۔ زلزلہ آیا تو گر گئے، پانی آیا تو بہہ گئے۔ کسی نے غربت کم کر نے کے لئے کچھ کیا نہ ہی سیلاب کو متبادل راستے دیئے۔ ہر بار ایک ہی کہانی ہوتی ہے۔ بارشوں سے طغیانی ، سیلاب فلاں فلاں علاقوں میں داخل ہو گیا۔
چین اور یورپ میں سیلاب آتے ہیں تو اگلے دن پانی اتر جاتا ہے۔ اتنے بڑے بڑے سیلاب اور مرنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر۔ یہاں پانی اترتا ہی نہیں۔ مکان تباہ، فصلیں برباد، پھر کھڑے پانی سے بیماریاں جھرمٹ بن کر اڑتی ہیں۔ کئی کئی ماہ نہیں، کئی کئی سال سیلاب زدگان خیمہ بستیاں لگائے بیٹھے رہتے ہیں اور حکومتوں کے یہ اعلانات سنا کرتے ہیں کہ ’’سیلاب زدگان کو تنہا نہیں چھوڑیں گے‘‘۔
لیکن سچائی تو یہ ہے کہ کیا سیلاب زدگان اور کیا سیلاب نازدگان،ساری قوم دو تہائی صدی سے تنہا ہے۔ والیان ریاست کا پاکستان اور ہے اور اہالیان ریاست کا اور۔دکھی،زخمی ، بیمار، مایوس اور بلاؤں کے نرغے میں گھرا۔۔۔ اکیلا پاکستان۔۔۔
______________________________
عمران خان نے کہا ہے کہ انتہا پسندوں سے مزید نو سال بھی لڑ لیں، حالات بہتر نہیں ہوں گے۔
جنگ لڑتے 9سال ہو گئے۔ ہرآنے والے دن ابتری بڑھتی گئی۔ عمران کا کہنا بالکل ٹھیک ہے کہ مزید نو سال جنگ کا نتیجہ بربادی میں اضافے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ جنرل حمید گل نے کہا ہے کہ فاٹا میں 80، 90ہزار فوج بیٹھی ہوئی ہے۔امریکن نژاد اینکر پرسن اور دانشور حضرات یہ چاہتے ہیں کہ اتنی ہی اورفوج بھیج دی جائے۔ کیوں؟ مقصد صاف ظاہر ہے اور نواز شریف رنگ دار امریکی اینکر پرسنوں اور دانشوروں کے اس غول بیابانی کا مقصد اچھی طرح سمجھتے ہیں اسی لئے آپریشن کی آپشن میں روک بنے ہوئے ہیں۔
اور مزید آپریشن کا مطلب کیا ہے۔ پہلے ہی اتنے دھڑا دھڑ آپریشن ہو رہے ہیں کہ باقی دنیا میں مثال نہیں ملے گی۔ فضائیہ کا استعمال بھی کر کے دیکھ لیا حالانکہ شاید یہ آخری آپریشن ہوتا ہے۔ لیکن یہ آخری آپشن ہمارے ہاں نو دس سال سے جاری ہے۔بھارت، اسرائیل، فلپائن دنیا میں بہت سی جگہ بغاوت کے حالات ہیں،لیکن کبھی کسی نے فضائیہ کا استعمال نہیں کیا۔ گویا ہم نے آخری آپشن کا تیر بھی چلا دیا لیکن اس ساری انتھک’’ورزش‘‘ کے بعد بھی نتیجہ الٹے سے بڑھ کر الٹا نکل رہا ہے۔ اگر یہی دانشوری یا دانشمندی ہے تو مقتدرہ اردو زبان کو ان الفاظ کے معنے ہی بدل دینے چاہئیں۔
______________________________
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں اب بھی مزدور بچوں کی تعداد16 کروڑ 80 لاکھ ہے۔
مطلب یہ کہ تعداد کم ہو رہی ہے۔ ’’اب بھی‘‘ کے الفاظ کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ کم ہونے کے بعد بھی اتنی ہے۔
لیکن پاکستان میں تو ان کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ کوئی رپورٹ سامنے نہیں ہے لیکن مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ ان 16کروڑ میں سے ایک کروڑ پاکستان ہی میں ہوں گے ۔ ہوٹلوں اور ریسٹورنٹوں پر جائیں تو وہاں بچے کام کرتے ملیں گے۔ ورکشاپوں پر بچے ہی مزدوری کرتے ہیں۔
مزدوری بھی کرتے ہیں اور مالک کی مار بھی کھاتے ہیں۔فٹ پاتھوں پر یہی بوٹ پالش کرتے ہیں۔ ٹھیلے اور ریڑھی لگانے والوں کو دیکھیں، ان میں بھی زیادہ بچے ہونگے اور ٹریفک سگنلز پر ہاتھ میں کپڑا لئے کاروں کے شیشے بنا فرمائش کے صاف کرنے والے بچوں کو کیا کہیں گے۔ مزدور یا فقیر؟اور وہ بے شمار بچے جنہیں اغوا کر لیا جاتا ہے، پھر ہاتھ پاؤں کاٹ اورتوڑکر معذور فقیر بنا کر بھیک مانگنے کیلئے اسلامی جمہوریہ پاکستان نامی فلاحی ریاست کے شہروں اور قصبوں میں چھوڑ دیا جاتا ہے، انہیں کیا مانا جائے؟ مزدور یا پیشہ ور گداگر۔
ابھی کل ہی سیالکوٹ سے ایسے بچوں کی’’نقد آور‘‘ کھیپ پکڑی گئی ہے۔بھٹہ مزدوروں کے مزدور بچے اس فہرست سے باہر ہیں، اس لئے کہ وہ مزدور کہاں، وہ تو غلام ٹھہرے۔
پھر گھروں میں کام کرنے والی چھوٹی چھوٹی بچیاں تو بالکل نئی ’’صنعت ‘‘ ہیں جو اس سے پہلے پاکستان میں نہیں تھی۔ ان بچیوں کی تعداد لاکھوں میں ہو گی اور ان کی عمریں؟ کسی کی پانچ تو کسی کی پندرہ سال۔ کچھ ان میں مار دی جاتی ہیں ، کچھ چند سال بعد خود ہی مر جاتی ہیں۔ انہیں کیا لکھا جائے مزدور یا چور؟ اور دیہات میں جو مزدور بچے ہیں ، ان کی تعداد الگ ہے۔
یہ تو شاید ایک کروڑ سے بھی زیادہ ہوں گے۔
پاکستان پہلے ہی غریب ملک تھا، پھر لوٹ مار کی حکمرانی نے اسے اور غریب کردیا اور سونے پہ سہاگے کا کام ’’ہماری جنگ‘‘ نے کیا جو نو دس برسوں سے پاکستان کو ’’پنجر‘‘ بنائی جارہی ہے۔’’ہماری جنگ ‘‘ والوں کے لاکرتو ڈالروں سے ’’اوورفلو‘‘ ہو گئے اور غریب پاکستانی کی جیب میں پڑا روپے کا نوٹ پتلے سے پتلاہوتا جا رہا ہے۔ پاکستانی قوم ’’زندہ درگور‘‘ ہرگز نہیں ہے، یہ تو وہ نیم جان لاشہ ہے جسے جون جولائی کے صحرا کی کھلی ریت پر پھینک دیا گیا ہے۔
اطلاع ہے کہ اس علاقے کے آس پاس ایک اور آپریشن ہونے والا ہے،شاید دیر میں۔ کراچی میں ٹارگٹڈآپریشن کی ملی بھگت کے تحت ٹارگٹ کلر اندرون سندھ تشریف لے جا چکے ہیں لیکن چونکہ وہ اندرون سندھ تشریف لا چکے ہیں اس لئے وہاں جرائم بڑھ گئے ہیں۔ یہاں پہلے ہی جرائم کا ریلا پانچ لاکھ کیوسک سے بس کچھ ہی کم ہوگا، اب شاید سات لاکھ کیوسک ہو جائے۔ لیکن اندرون سندھ کا علاقہ چونکہ اندرون سندھ ہے، کراچی نہیں اس لئے وہاں سے خبریں اس شکل میں نہیں آتیں،جیسی کراچی سے آتی ہیں۔ خدا اندرون سندھ پر رحم کرے۔ وہاں پہلے ہی وڈیروں کے ٹارگٹ کلر کیا کم تھے جو اب کراچی سے بھی کمک آ گئی۔
زلزلے نے بلوچستان میں جو تباہی مچائی، ایک بار پھر یہ کہنا پڑ رہا ہے کہ وہ ساری کی ساری زلزلے کی نہیں ، کافی کچھ ریاست کی غفلت بلکہ ستم رانی کی ہے۔زلزلہ کچے گھر زیادہ گراتا ہے اور سوال یہ ہے کہ بلوچستان میں کچے گھر زیادہ کیوں ہیں؟ اس لئے کہ پاکستانی ریاست نے وہاں کے سرداروں سے ملی بھگت کر کے غریب بلوچوں کو اٹھنے ہی نہیں دیا۔انہیں محروم سے محروم تر بنا دیا اورآج کل محروم ترین بنانے کا مرحلہ چل رہا ہے۔ اورریاست سے مراد صرف بیورو کریسی نہیں، حکومتیں بھی ہیں۔ بلوچستان سے جو معدنیات نکلتی ہیں، ان پر دستور کے بالکل منافی، وفاق قبضہ کر لیتا ہے۔سینڈک میں اربوں کھربوں کا تانبا تھا۔
وفاق نے سارا چین کو فی سبیل اللہ دے دیا اور اپنا کمشن ضرور کھرا کیا لیکن بلوچوں کو ایک دھیلہ بھی نہیں ملا۔ وہی سب کچھ اب ریکوڈک کے ذخائر میں بھی ہونے والا ہے۔ گوادر کی بندر گاہ بھی اس طرح دے دی گئی کہ نہ صوبائی حکومت کو پتہ ہے کہ فیصلہ کس نے کیا اور نہ ہی سودے میں غریب بلوچوں کو کچھ ملنے کی ذرا بھی گنجائش ہے۔
پاکستان پر جتنے بھی قدرتی عذاب آتے ہیں۔ ان کی تباہ کاری زیادہ صرف اس لئے ہوتی ہے کہ پاکستان کے اصحابِ خورد بردو لوٹ مار نے عوام کے بچاؤ کیلئے کچھ نہیں کیا۔ جن علاقوں میں زلزلے یا سیلاب آتے ہیں، وہاں عوام اتنے غریب ہیں کہ پکے گھر نہیں بنوا سکتے اور کچے گھر جھٹکا برداشت کر سکتے ہیں نہ تھپیڑا۔ زلزلہ آیا تو گر گئے، پانی آیا تو بہہ گئے۔ کسی نے غربت کم کر نے کے لئے کچھ کیا نہ ہی سیلاب کو متبادل راستے دیئے۔ ہر بار ایک ہی کہانی ہوتی ہے۔ بارشوں سے طغیانی ، سیلاب فلاں فلاں علاقوں میں داخل ہو گیا۔
چین اور یورپ میں سیلاب آتے ہیں تو اگلے دن پانی اتر جاتا ہے۔ اتنے بڑے بڑے سیلاب اور مرنے والوں کی تعداد نہ ہونے کے برابر۔ یہاں پانی اترتا ہی نہیں۔ مکان تباہ، فصلیں برباد، پھر کھڑے پانی سے بیماریاں جھرمٹ بن کر اڑتی ہیں۔ کئی کئی ماہ نہیں، کئی کئی سال سیلاب زدگان خیمہ بستیاں لگائے بیٹھے رہتے ہیں اور حکومتوں کے یہ اعلانات سنا کرتے ہیں کہ ’’سیلاب زدگان کو تنہا نہیں چھوڑیں گے‘‘۔
لیکن سچائی تو یہ ہے کہ کیا سیلاب زدگان اور کیا سیلاب نازدگان،ساری قوم دو تہائی صدی سے تنہا ہے۔ والیان ریاست کا پاکستان اور ہے اور اہالیان ریاست کا اور۔دکھی،زخمی ، بیمار، مایوس اور بلاؤں کے نرغے میں گھرا۔۔۔ اکیلا پاکستان۔۔۔
______________________________
عمران خان نے کہا ہے کہ انتہا پسندوں سے مزید نو سال بھی لڑ لیں، حالات بہتر نہیں ہوں گے۔
جنگ لڑتے 9سال ہو گئے۔ ہرآنے والے دن ابتری بڑھتی گئی۔ عمران کا کہنا بالکل ٹھیک ہے کہ مزید نو سال جنگ کا نتیجہ بربادی میں اضافے کے سوا کچھ نہیں ہوگا۔ جنرل حمید گل نے کہا ہے کہ فاٹا میں 80، 90ہزار فوج بیٹھی ہوئی ہے۔امریکن نژاد اینکر پرسن اور دانشور حضرات یہ چاہتے ہیں کہ اتنی ہی اورفوج بھیج دی جائے۔ کیوں؟ مقصد صاف ظاہر ہے اور نواز شریف رنگ دار امریکی اینکر پرسنوں اور دانشوروں کے اس غول بیابانی کا مقصد اچھی طرح سمجھتے ہیں اسی لئے آپریشن کی آپشن میں روک بنے ہوئے ہیں۔
اور مزید آپریشن کا مطلب کیا ہے۔ پہلے ہی اتنے دھڑا دھڑ آپریشن ہو رہے ہیں کہ باقی دنیا میں مثال نہیں ملے گی۔ فضائیہ کا استعمال بھی کر کے دیکھ لیا حالانکہ شاید یہ آخری آپریشن ہوتا ہے۔ لیکن یہ آخری آپشن ہمارے ہاں نو دس سال سے جاری ہے۔بھارت، اسرائیل، فلپائن دنیا میں بہت سی جگہ بغاوت کے حالات ہیں،لیکن کبھی کسی نے فضائیہ کا استعمال نہیں کیا۔ گویا ہم نے آخری آپشن کا تیر بھی چلا دیا لیکن اس ساری انتھک’’ورزش‘‘ کے بعد بھی نتیجہ الٹے سے بڑھ کر الٹا نکل رہا ہے۔ اگر یہی دانشوری یا دانشمندی ہے تو مقتدرہ اردو زبان کو ان الفاظ کے معنے ہی بدل دینے چاہئیں۔
______________________________
اقوام متحدہ کی ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ دنیا بھر میں اب بھی مزدور بچوں کی تعداد16 کروڑ 80 لاکھ ہے۔
مطلب یہ کہ تعداد کم ہو رہی ہے۔ ’’اب بھی‘‘ کے الفاظ کا مطلب یہی نکلتا ہے کہ کم ہونے کے بعد بھی اتنی ہے۔
لیکن پاکستان میں تو ان کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔ کوئی رپورٹ سامنے نہیں ہے لیکن مشاہدہ یہ بتاتا ہے کہ ان 16کروڑ میں سے ایک کروڑ پاکستان ہی میں ہوں گے ۔ ہوٹلوں اور ریسٹورنٹوں پر جائیں تو وہاں بچے کام کرتے ملیں گے۔ ورکشاپوں پر بچے ہی مزدوری کرتے ہیں۔
مزدوری بھی کرتے ہیں اور مالک کی مار بھی کھاتے ہیں۔فٹ پاتھوں پر یہی بوٹ پالش کرتے ہیں۔ ٹھیلے اور ریڑھی لگانے والوں کو دیکھیں، ان میں بھی زیادہ بچے ہونگے اور ٹریفک سگنلز پر ہاتھ میں کپڑا لئے کاروں کے شیشے بنا فرمائش کے صاف کرنے والے بچوں کو کیا کہیں گے۔ مزدور یا فقیر؟اور وہ بے شمار بچے جنہیں اغوا کر لیا جاتا ہے، پھر ہاتھ پاؤں کاٹ اورتوڑکر معذور فقیر بنا کر بھیک مانگنے کیلئے اسلامی جمہوریہ پاکستان نامی فلاحی ریاست کے شہروں اور قصبوں میں چھوڑ دیا جاتا ہے، انہیں کیا مانا جائے؟ مزدور یا پیشہ ور گداگر۔
ابھی کل ہی سیالکوٹ سے ایسے بچوں کی’’نقد آور‘‘ کھیپ پکڑی گئی ہے۔بھٹہ مزدوروں کے مزدور بچے اس فہرست سے باہر ہیں، اس لئے کہ وہ مزدور کہاں، وہ تو غلام ٹھہرے۔
پھر گھروں میں کام کرنے والی چھوٹی چھوٹی بچیاں تو بالکل نئی ’’صنعت ‘‘ ہیں جو اس سے پہلے پاکستان میں نہیں تھی۔ ان بچیوں کی تعداد لاکھوں میں ہو گی اور ان کی عمریں؟ کسی کی پانچ تو کسی کی پندرہ سال۔ کچھ ان میں مار دی جاتی ہیں ، کچھ چند سال بعد خود ہی مر جاتی ہیں۔ انہیں کیا لکھا جائے مزدور یا چور؟ اور دیہات میں جو مزدور بچے ہیں ، ان کی تعداد الگ ہے۔
یہ تو شاید ایک کروڑ سے بھی زیادہ ہوں گے۔
پاکستان پہلے ہی غریب ملک تھا، پھر لوٹ مار کی حکمرانی نے اسے اور غریب کردیا اور سونے پہ سہاگے کا کام ’’ہماری جنگ‘‘ نے کیا جو نو دس برسوں سے پاکستان کو ’’پنجر‘‘ بنائی جارہی ہے۔’’ہماری جنگ ‘‘ والوں کے لاکرتو ڈالروں سے ’’اوورفلو‘‘ ہو گئے اور غریب پاکستانی کی جیب میں پڑا روپے کا نوٹ پتلے سے پتلاہوتا جا رہا ہے۔ پاکستانی قوم ’’زندہ درگور‘‘ ہرگز نہیں ہے، یہ تو وہ نیم جان لاشہ ہے جسے جون جولائی کے صحرا کی کھلی ریت پر پھینک دیا گیا ہے۔
Last edited by a moderator: